متعصب جج کا مسلم خاتون کو حکم ’’میری عدالت میں حجاب نہ پہنو‘‘
ہر فرد کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کو اختیار کر لے
ISLAMABAD:
پینتالیس سالہ رانیا العلول کو بُری خبر ملی، تو اس نے مارے غم کے ماتھا پیٹ لیا۔ معلوم ہوا کہ اس کی کار پولیس نے ضبط کرلی۔ کار کو رانیا کا بیٹا چلا رہا تھا جو پیسوں کی کمی کے باعث اپنا ڈرائیونگ لائسنس تجدید نہ کراسکا۔
لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے ہی کینیڈین پولیس نے کار ضبط کرلی۔ اسی واقعے سے رانیا کی ایسی کرب ناک داستان کا آغاز ہوا جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
رانیا العلول کویت سے ہجرت کرکے بارہ سال قبل اہل خانہ کے ساتھ مونٹریال، کینیڈا پہنچی۔ 2007ء میں وہ کینیڈین شہری بن گئی۔ اس دوران بوجوہ شوہر کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ رہے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ شوہر آوارہ اور نکٹھو تھا، اس نے تینوں بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا۔
یوں بچوں کو پال پوس کر بڑا کرنے کی کٹھن ذمے داری رانیا کے نازک کاندھوں پر آپڑی۔گھریلو اخراجات پورے کرنے کی خاطر رانیا کام کرنے لگی۔ کبھی کسی دکان میں سیلزمینی کرتی، کبھی کلرک بن جاتی۔ تینوں بچے زیر تعلیم ہیں لہٰذا ملازمت نہیں کرسکتے۔ رانیا چاہتی ہے کہ پہلے وہ اپنی تعلیم مکمل کریں تاکہ خود اعتمادی سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
کام کی تلاش اور آنے جانے میں کار رانیا کا بہت بڑا سہارا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 23 فروری 2015ء کو کینیڈین پولیس نے کار ضبط کرلی تو اسے بڑا صدمہ پہنچا۔ کار کے بغیر تو وہ بالکل بے آسرا ہوگئی۔ اس کا گھر بھی بس سٹاپ اور ریلوے اسٹیشن سے خاصا دور تھا۔ یوں اب اسے سفر کی مشکلات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔
دراصل پچھلے چند ماہ سے ''کڑکی'' چل رہی تھی۔ کبھی کام ملتا، کبھی نہیںٖ! اگر کینیڈین حکومت سے امدادی رقم نہ ملتی، تو رانیا کا گھرانا فاقوں میں مبتلا ہوسکتا تھا۔ رقم کم ہونے کے باعث بڑا بیٹا اپنے لائسنس کی تجدید نہیں کراسکا۔ اس کی بدقسمتی کہ ایسے عالم میں قانون کے آہنی ہاتھوں نے اسے دبوچ لیا۔رانیا نے معلومات لیں، تو پتا چلا کہ اگر وہ کیوبک ریاست کی عدالت سے رجوع کرے، تو اسے ایک دن میں کار مل سکتی ہے۔
دوسری صورت میں کار ایک ماہ بعد ملنی تھی۔ایسے کیسوں میں فرد وکیل کی خدمات حاصل کرتا ہے تاکہ وہ جج کو قائل کرسکے لیکن بچاری رانیا تو پیسے پیسے کی محتاج تھی، وہ وکیل کی فیس کہاں سے لاتی؟چناں چہ وہ تنہا ہی جج ایلینا مارینگو (Eliana Marengo ) کی عدالت میں جاپہنچی۔
جب رانیا نے ایک خاتون کو بطور جج دیکھا تو سکون کا سانس لیا، اسے امید تھی کہ عورت ہونے کے ناتے وہ دوسری مجبور و بے آسرا عورت کی تکلیف سمجھ سکے گی۔ رانیا کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کا تو ایک متعصب اور متکبر جج سے سامنا ہوچکا۔
مسلمان عورت ہونے کے ناتے رانیا نے شرم و حیا کی نشانی، حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے کینیڈا کے آزاد ماحول میں پہنچ کر بھی اسے ترک نہ کیا بلکہ وہ گھر میں بھی باحجاب رہتی۔اُدھرجج ایلینا مذہب مخالف عورت تھی۔ خصوصاً وہ مسلمانوں سے بہت چڑتی جو سبھی مذہب پرستوں میں زیادہ شدت سے اپنے دین کو اپناتے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ جج نے ایک تنہا مسلم عورت کو دیکھا تو سیکولرازم کا سہارا لے کر اس پر حملہ آور ہوگئی۔اس نے رانیا سے پوچھا ''تم نے سر پر کیا پہن رکھا ہے؟''
اس نے بتایا ''یہ چادر ہے، میں اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق اس سے سر ڈھکتی ہوں۔''
ایلینا کہنے لگی ''تم یہیں میرا انتظار کرو ،میں ابھی آتی ہوں۔''
یہ کہہ کر جج اپنے چیمبر میں چلی گئی۔ وہ پھر آدھ گھنٹے بعد آئی۔ اس دوران رانیا بے چینی سے انتظار کرتی رہی۔ وہ کار لے کر گھر پہنچنا چاہتی تھی جہاں بچے اس کے منتظر تھے۔ ان کی ساری کائنات ماں کے گرد ہی گھومتی تھی۔ مگر متعصب جج نے رانیا کے واسطے نئی مصیبت کھڑی کردی۔
جج کہنے لگی ''میں اپنی عدالت کو کو سیکولر دیکھنا چاہتی ہوں۔ تم نے مناسب لباس نہیں پہن رکھا۔ اگر تم حجاب اتار دو، تب ہی میں تمہارا مقدمہ سنوں گی ورنہ نہیں۔''
یہ بات سن کر قدرتاً رانیا عجیب مخمصے میں پڑگئی۔ ایک طرف اس کا ایمان تھا جس پر وہ جی جان سے عمل کرتی تھی۔دوسری طرف کار جو روزی روٹی کا وسیلہ بن چکی تھی۔ ایک سمت دین تھا، تو دوسری سمت دنیا! رانیا نے اپنے دین، اصولوں اور حق کو ترجیح دی اور حجاب اتارنے سے انکار کردیا۔
یہ سن کر جج ایلینا مارینگو طیش میں آگئی۔ اس نے رانیا کا مقدمہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ یوں اسے صرف ججاب پہننے کے ''جرم'' میں بے نیل و مرام واپس گھر آنا پڑا۔جج کے بے رحمانہ سلوک سے رانیا کو قدرتاً بہت صدمہ پہنچا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بس اور ریل میں بھی روتی رہی۔ وہ بتاتی ہے:''جب میں نے پہلے دن کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھا، تو حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ مجھے آج تک اس کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن جج ایلینا کے طرز عمل نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں ایک ایسے اجنبی دیس کی باسی ہوں جہاں کوئی میرا دوست و مددگار نہیں۔''
شاید یہ واقعہ وقت کی گرد تلے دب جاتا لیکن کینیڈا میں ہر مقدمے کی آڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ اسی ریکارڈنگ کو سن کر چند کینیڈین صحافیوں نے واقعے کی خبر بنا دی۔ چونکہ کینیڈا میں پہلے ہی سیکولرازم اور مذہب کے مابین مجادلہ چل رہا تھا لہٰذا یہ واقعہ راتوں رات مشہور ہوگیا۔اس واقعہ کو یوں بھی شہرت ملی کہ کینیڈین عدالتی نظام اور مذہبی آزادی آمنے سامنے آگئے۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا کینیڈین عدالتیں اقلیتیوں کی مذہبی آزادی برقرار رکھیں گی یا نہیں؟
یہ خوش آئند بات ہے کہ کینیڈین اشرافیہ و عوام کی اکثریت نے جج ایلینا کے طرز عمل اور فیصلے کو غلط قرار دیا۔ گو جج کو بھی اپنے معاشرے میں خاصی حمایت رہی۔ مثلاً بعض کینیڈینوں کا وہی پرانا استدلال رہا کہ مسلمان ان پہ اپنی روایات و نظریات تھوپنا چاہتے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج کا احترام کرنا چاہیے۔
دیگر کی خواہش تھی کہ ملک میں ہر قیمت پر مذہب اور حکومت (و قانون) کو علیحدہ رکھا جائے۔حتیٰ کہ ریاست کیوبک ہائی کورٹ کے ترجمان نے بیان دیا: ''ہر جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی عدالت میں اپنی مرضی سے طرز عمل اختیار کرے۔''
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جج کا طرز عمل اخلاقیات و قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ چونکہ جج ایلینا مارینگو نے ایک مسلم خاتون سے تعصب کا مظاہرہ کیا' اسی واسطے اسے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وزیراعظم ہاؤس سے بیان آیا : ''اگر کسی نے اپنا چہرہ نہیں ڈھک رکھا' تو اس کا مقدمہ سن لینا چاہیے۔''
اسی طرح وزیر اعلی ریاست کیوبک، فلپی کولرڈ نے واقعے کے متعلق کہا: ''اگر سکیورٹی' شناخت یا بات چیت کی خاطر کا کوئی مسئلہ ہے ' تو مذہبی لباس اتروایا جا سکتا ہے۔ رانیا العلول کے معاملے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا لہٰذا میرے خیال میں جج نے غلط فیصلہ کیا۔''
کینیڈین سول لبرٹیز ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو ڈائرکٹر' سوکیناپلے نے واقعے پر بیان دیا: ''ہر حج کو سیکولر ہونے کا حق حاصل ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ لوگوں کے مذہبی عقائد پر حملہ کرے۔ کینیڈا میں ہر کسی کو ازروئے آئین مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جج نے رانیا العلول کے ساتھ برا سلوک کیا۔''
کینیڈا کے بیشتر وکلا نے بھی رانیا کا ساتھ دیا۔ حتی کہ ایک بالکل اجنبی وکیل' جین پائرے نے کیوبک عدالت میں جج ایلینا کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ اسی دوران دو پاکستانیوں نے رانیا کی مالی امداد کے لیے انٹرنیٹ پر مہم کا آغاز کر دیا۔ ان تمام سرگرمیوں سے رانیا کو حوصلہ ملا اور انسانیت میں اس کا اعتماد بحال ہو گیا۔
وہ کہتی ہے:''ذاتی پریشانیوں کے باوجود میں کینیڈا میں خوش ہوں۔ میں اور میرے اہل خانہ ہر کسی کی عزت کرتے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری بھی عزت کی جائے گی۔ میرا حجاب کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ... جبکہ میرے لیے حجاب میری آزادی ہے۔ یہ میری ذات کا حصہ ہے۔''
دو پاکستانیوں کی مسلم دوستی
حجتہ الوداع کے موقع یہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے کوئی گورا ہو یا کالا،یہی وجہ ہے کہ آج بھی مراکش یا موریطانیہ کے مسلمان کسی مصیبت و آفت میں گرفتار ہوں' تو انڈونیشیا تک بستے حساس مسلم سعی کرتے ہیں کہ مصائب میں پھنسے مسلمان بھائیوں کی دامے درمے سخنے مدد کر سکیں۔
رانیا العلول کے معاملے میں بھی یہی صورتحال پیش آئی جو اُمت مسلمہ سے خاص ہے۔حجاب پہننے پر جب ایک جج نے رانیا کو دھتکارا تو یہ دیکھ کر د و کینیڈین نژاد پاکستانی تڑپ اٹھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ کویتی بہن مالی مسائل میں مبتلا ہے' تو انہوں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
دلچسپ بات یہ کہ اس سے پہلے دونوں پاکستانی' نعمان احمد اور ریحان رافع ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ نعمان ٹورنٹو جبکہ ریحان چار ہزار میل دور واقع کینیڈین شہر' وینکوور کا باسی ہے۔
ان دونوں نے ویب سائٹgofundme.com میں رانیا کی خاطر رقم جمع کرنے کے لیے ایک پیج کا آغاز کیا۔ جیسے جیسے خصوصاً مسلمانوں کو رانیا کی تکالیف کا پتا چلا' وہ اس کی مالی ا مداد کرنے لگے۔
انھوں نے صرف سات دن میں مصیبت زدہ بہن کی خاطر 52,042ڈالر جمع کر لیے جو تقریباً 53لاکھ روپے بنتے ہیں۔یہ مثال اس سچائی کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں مخیر خواتین و حضرات کی کمی نہیں۔ جب وہ کسی مسلم بہن یا بھائی کو آفت میں گرفتاردیکھیں تو بڑھ کر اس کی مدد کرتے ہیں۔ اب یہ ڈالر رانیا کے لیے کار خریدنے اور دیگر مالی مسائل حل کرنے میں کام آئیں گے۔دو دردمند نوجوان پاکستانیوں کے جذبہِ اعانت نے حقیقتاً مواخاتِ مدینہ کی شاندار یاد تازہ کر دی۔
شتر بے مہار آزادی کا شاخسانہ
اسلامی تعلیمات کی رو سے حیا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ شرم و حیا کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث رسولؐﷺ سے لگایئے' ارشاد نبویﷺ ہے: ''جس میں حیا نہیں' وہ پھر جو چاہے کرتا پھرے۔'' گویا حیا کی عدم موجودگی میں ایک مسلمان پھر حقیقی مسلمان نہیں رہتا' وہ گناہ گاروں کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔
خواتین کو شرم و حیا کی تلقین عیسائیت میں بھی ملتی ہے۔ بائبل کی کتاب' تیمتھس کے نام پولس کا پہلا خط : 9:2 میں درج ہے:'' عورتوں کو چاہیے کہ وہ حیادار لباس پہنیں۔ شرم اور پرہیز کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھیں اور سونے موتیوں کی پوشاک پہنیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال سے اپنے آپ کو سنوارتی رہیں۔''
درج بالا الفاظ میں عیسائی خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ موزوں لباس زیب تن کریں۔ لیکن خاص طور پر پچھلے ایک سو برس میں مذہب مغربی دنیا سے تقریباً غائب ہو چکا۔ اسی واسطے بہت سے مغربی جزا و سزا سے بے پروا ہو کر ہر معاملے میں مادر پدر آزاد ہو چکے ۔ دنیائے مغرب میں نیم برہنہ کپڑے پہننا عام بات بن چکی' اب وہاں ہم جنس بیاہ ہونے لگے ہیں۔
یہ گھناؤنا چلن مذہب و اخلاقیات سے دوری ہی کا نتیجہ ہے۔روک ٹوک سے بے نیاز آزادی کے شوقین مغربی جب مسلم عورتوں کو برقع' نقاب یاحجاب میں دیکھیں' تو ان کا مذاق اڑاتے اور انہیں ''قیدی'' قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ باشعور اور عاقل عیسائی بھی برقع یا چادر کو تقدس و پرہیز گاری کی علامت سمجھتے ہیں۔
محض ایک سو برس قبل خود مغربی معاشروں میں عیسائی عورتیں سر پر چادر پہنتی تھیں۔ جو عورت برہنہ سر دکھائی دیتی' اسے آوارہ و فاحشہ سمجھا جاتا ۔ لیکن بے جا آزادی نسواں نے مغرب میں فحاشی و بے حیائی کا دور دورہ کر دیا۔کئی مغربی اسلام کو اپنی بے مہار آبادی کے لیے سخت خطرہ سمجھتے ہیں۔ مسلم ممالک میں آج بھی اسلام کا بول بالا ہے اور مسلمان بہ حیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مغربی انہی تعلیمات کو پابندیاں سمجھتے اور ان سے خوف کھاتے ہیں۔
وہ پھر سیکولرازم کا سہارا لے کر اسلام پہ حملہ آور ہوگئے۔ اسی روش نے سیکولرازم کو بھی بدنام کر دیا۔سیکولرازم کوئی مذہب دشمن نظریہ نہیں بلکہ ایک طرح سے مذہبی آزادی کا محافظ ہے۔ اس کے مطابق حکومت یا کوئی فرد دوسرے کی مذہبی آزادی پر قدغنیں نہیں لگا سکتا۔ ہر فرد کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کو اختیار کر لے۔ اور یہ تو قرآن پاک میں بھی آیا ہے کہ ہر انسان اپنے قول و فعل کا خود ذمے دار ہے۔
لیکن مذہب دشمن مغربی سیکولرازم کی آڑ لے کر عموماً مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں۔ وجہ یہی کہ تمام مذہب پرستوں میں مسلمان ہی سب سے زیادہ اپنے دین کے قریب ہیں۔ انہیں دل و جان سے اپنی مذہبی روایات و اقدار عزیز ہیں اور وہ ان کی خاطر دنیاوی فوائد بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ رانیا العلول اس امر کی صریح مثال ہے۔ اس نے مادی نقصان اٹھانا قبول کر لیا، حجاب نہیں اتارا۔حجاب اتار کر وہ بآسانی اپنی کار واپس لے سکتی تھی۔عدالت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا مسلمان بھی موجود نہ تھا جو اسے دیکھ لیتا۔
پینتالیس سالہ رانیا العلول کو بُری خبر ملی، تو اس نے مارے غم کے ماتھا پیٹ لیا۔ معلوم ہوا کہ اس کی کار پولیس نے ضبط کرلی۔ کار کو رانیا کا بیٹا چلا رہا تھا جو پیسوں کی کمی کے باعث اپنا ڈرائیونگ لائسنس تجدید نہ کراسکا۔
لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے ہی کینیڈین پولیس نے کار ضبط کرلی۔ اسی واقعے سے رانیا کی ایسی کرب ناک داستان کا آغاز ہوا جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
رانیا العلول کویت سے ہجرت کرکے بارہ سال قبل اہل خانہ کے ساتھ مونٹریال، کینیڈا پہنچی۔ 2007ء میں وہ کینیڈین شہری بن گئی۔ اس دوران بوجوہ شوہر کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ رہے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ شوہر آوارہ اور نکٹھو تھا، اس نے تینوں بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا۔
یوں بچوں کو پال پوس کر بڑا کرنے کی کٹھن ذمے داری رانیا کے نازک کاندھوں پر آپڑی۔گھریلو اخراجات پورے کرنے کی خاطر رانیا کام کرنے لگی۔ کبھی کسی دکان میں سیلزمینی کرتی، کبھی کلرک بن جاتی۔ تینوں بچے زیر تعلیم ہیں لہٰذا ملازمت نہیں کرسکتے۔ رانیا چاہتی ہے کہ پہلے وہ اپنی تعلیم مکمل کریں تاکہ خود اعتمادی سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
کام کی تلاش اور آنے جانے میں کار رانیا کا بہت بڑا سہارا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 23 فروری 2015ء کو کینیڈین پولیس نے کار ضبط کرلی تو اسے بڑا صدمہ پہنچا۔ کار کے بغیر تو وہ بالکل بے آسرا ہوگئی۔ اس کا گھر بھی بس سٹاپ اور ریلوے اسٹیشن سے خاصا دور تھا۔ یوں اب اسے سفر کی مشکلات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔
دراصل پچھلے چند ماہ سے ''کڑکی'' چل رہی تھی۔ کبھی کام ملتا، کبھی نہیںٖ! اگر کینیڈین حکومت سے امدادی رقم نہ ملتی، تو رانیا کا گھرانا فاقوں میں مبتلا ہوسکتا تھا۔ رقم کم ہونے کے باعث بڑا بیٹا اپنے لائسنس کی تجدید نہیں کراسکا۔ اس کی بدقسمتی کہ ایسے عالم میں قانون کے آہنی ہاتھوں نے اسے دبوچ لیا۔رانیا نے معلومات لیں، تو پتا چلا کہ اگر وہ کیوبک ریاست کی عدالت سے رجوع کرے، تو اسے ایک دن میں کار مل سکتی ہے۔
دوسری صورت میں کار ایک ماہ بعد ملنی تھی۔ایسے کیسوں میں فرد وکیل کی خدمات حاصل کرتا ہے تاکہ وہ جج کو قائل کرسکے لیکن بچاری رانیا تو پیسے پیسے کی محتاج تھی، وہ وکیل کی فیس کہاں سے لاتی؟چناں چہ وہ تنہا ہی جج ایلینا مارینگو (Eliana Marengo ) کی عدالت میں جاپہنچی۔
جب رانیا نے ایک خاتون کو بطور جج دیکھا تو سکون کا سانس لیا، اسے امید تھی کہ عورت ہونے کے ناتے وہ دوسری مجبور و بے آسرا عورت کی تکلیف سمجھ سکے گی۔ رانیا کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کا تو ایک متعصب اور متکبر جج سے سامنا ہوچکا۔
مسلمان عورت ہونے کے ناتے رانیا نے شرم و حیا کی نشانی، حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے کینیڈا کے آزاد ماحول میں پہنچ کر بھی اسے ترک نہ کیا بلکہ وہ گھر میں بھی باحجاب رہتی۔اُدھرجج ایلینا مذہب مخالف عورت تھی۔ خصوصاً وہ مسلمانوں سے بہت چڑتی جو سبھی مذہب پرستوں میں زیادہ شدت سے اپنے دین کو اپناتے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ جج نے ایک تنہا مسلم عورت کو دیکھا تو سیکولرازم کا سہارا لے کر اس پر حملہ آور ہوگئی۔اس نے رانیا سے پوچھا ''تم نے سر پر کیا پہن رکھا ہے؟''
اس نے بتایا ''یہ چادر ہے، میں اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق اس سے سر ڈھکتی ہوں۔''
ایلینا کہنے لگی ''تم یہیں میرا انتظار کرو ،میں ابھی آتی ہوں۔''
یہ کہہ کر جج اپنے چیمبر میں چلی گئی۔ وہ پھر آدھ گھنٹے بعد آئی۔ اس دوران رانیا بے چینی سے انتظار کرتی رہی۔ وہ کار لے کر گھر پہنچنا چاہتی تھی جہاں بچے اس کے منتظر تھے۔ ان کی ساری کائنات ماں کے گرد ہی گھومتی تھی۔ مگر متعصب جج نے رانیا کے واسطے نئی مصیبت کھڑی کردی۔
جج کہنے لگی ''میں اپنی عدالت کو کو سیکولر دیکھنا چاہتی ہوں۔ تم نے مناسب لباس نہیں پہن رکھا۔ اگر تم حجاب اتار دو، تب ہی میں تمہارا مقدمہ سنوں گی ورنہ نہیں۔''
یہ بات سن کر قدرتاً رانیا عجیب مخمصے میں پڑگئی۔ ایک طرف اس کا ایمان تھا جس پر وہ جی جان سے عمل کرتی تھی۔دوسری طرف کار جو روزی روٹی کا وسیلہ بن چکی تھی۔ ایک سمت دین تھا، تو دوسری سمت دنیا! رانیا نے اپنے دین، اصولوں اور حق کو ترجیح دی اور حجاب اتارنے سے انکار کردیا۔
یہ سن کر جج ایلینا مارینگو طیش میں آگئی۔ اس نے رانیا کا مقدمہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ یوں اسے صرف ججاب پہننے کے ''جرم'' میں بے نیل و مرام واپس گھر آنا پڑا۔جج کے بے رحمانہ سلوک سے رانیا کو قدرتاً بہت صدمہ پہنچا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بس اور ریل میں بھی روتی رہی۔ وہ بتاتی ہے:''جب میں نے پہلے دن کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھا، تو حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ مجھے آج تک اس کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن جج ایلینا کے طرز عمل نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں ایک ایسے اجنبی دیس کی باسی ہوں جہاں کوئی میرا دوست و مددگار نہیں۔''
شاید یہ واقعہ وقت کی گرد تلے دب جاتا لیکن کینیڈا میں ہر مقدمے کی آڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ اسی ریکارڈنگ کو سن کر چند کینیڈین صحافیوں نے واقعے کی خبر بنا دی۔ چونکہ کینیڈا میں پہلے ہی سیکولرازم اور مذہب کے مابین مجادلہ چل رہا تھا لہٰذا یہ واقعہ راتوں رات مشہور ہوگیا۔اس واقعہ کو یوں بھی شہرت ملی کہ کینیڈین عدالتی نظام اور مذہبی آزادی آمنے سامنے آگئے۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا کینیڈین عدالتیں اقلیتیوں کی مذہبی آزادی برقرار رکھیں گی یا نہیں؟
یہ خوش آئند بات ہے کہ کینیڈین اشرافیہ و عوام کی اکثریت نے جج ایلینا کے طرز عمل اور فیصلے کو غلط قرار دیا۔ گو جج کو بھی اپنے معاشرے میں خاصی حمایت رہی۔ مثلاً بعض کینیڈینوں کا وہی پرانا استدلال رہا کہ مسلمان ان پہ اپنی روایات و نظریات تھوپنا چاہتے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج کا احترام کرنا چاہیے۔
دیگر کی خواہش تھی کہ ملک میں ہر قیمت پر مذہب اور حکومت (و قانون) کو علیحدہ رکھا جائے۔حتیٰ کہ ریاست کیوبک ہائی کورٹ کے ترجمان نے بیان دیا: ''ہر جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی عدالت میں اپنی مرضی سے طرز عمل اختیار کرے۔''
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جج کا طرز عمل اخلاقیات و قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ چونکہ جج ایلینا مارینگو نے ایک مسلم خاتون سے تعصب کا مظاہرہ کیا' اسی واسطے اسے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وزیراعظم ہاؤس سے بیان آیا : ''اگر کسی نے اپنا چہرہ نہیں ڈھک رکھا' تو اس کا مقدمہ سن لینا چاہیے۔''
اسی طرح وزیر اعلی ریاست کیوبک، فلپی کولرڈ نے واقعے کے متعلق کہا: ''اگر سکیورٹی' شناخت یا بات چیت کی خاطر کا کوئی مسئلہ ہے ' تو مذہبی لباس اتروایا جا سکتا ہے۔ رانیا العلول کے معاملے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا لہٰذا میرے خیال میں جج نے غلط فیصلہ کیا۔''
کینیڈین سول لبرٹیز ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو ڈائرکٹر' سوکیناپلے نے واقعے پر بیان دیا: ''ہر حج کو سیکولر ہونے کا حق حاصل ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ لوگوں کے مذہبی عقائد پر حملہ کرے۔ کینیڈا میں ہر کسی کو ازروئے آئین مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جج نے رانیا العلول کے ساتھ برا سلوک کیا۔''
کینیڈا کے بیشتر وکلا نے بھی رانیا کا ساتھ دیا۔ حتی کہ ایک بالکل اجنبی وکیل' جین پائرے نے کیوبک عدالت میں جج ایلینا کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ اسی دوران دو پاکستانیوں نے رانیا کی مالی امداد کے لیے انٹرنیٹ پر مہم کا آغاز کر دیا۔ ان تمام سرگرمیوں سے رانیا کو حوصلہ ملا اور انسانیت میں اس کا اعتماد بحال ہو گیا۔
وہ کہتی ہے:''ذاتی پریشانیوں کے باوجود میں کینیڈا میں خوش ہوں۔ میں اور میرے اہل خانہ ہر کسی کی عزت کرتے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری بھی عزت کی جائے گی۔ میرا حجاب کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ... جبکہ میرے لیے حجاب میری آزادی ہے۔ یہ میری ذات کا حصہ ہے۔''
دو پاکستانیوں کی مسلم دوستی
حجتہ الوداع کے موقع یہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے کوئی گورا ہو یا کالا،یہی وجہ ہے کہ آج بھی مراکش یا موریطانیہ کے مسلمان کسی مصیبت و آفت میں گرفتار ہوں' تو انڈونیشیا تک بستے حساس مسلم سعی کرتے ہیں کہ مصائب میں پھنسے مسلمان بھائیوں کی دامے درمے سخنے مدد کر سکیں۔
رانیا العلول کے معاملے میں بھی یہی صورتحال پیش آئی جو اُمت مسلمہ سے خاص ہے۔حجاب پہننے پر جب ایک جج نے رانیا کو دھتکارا تو یہ دیکھ کر د و کینیڈین نژاد پاکستانی تڑپ اٹھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ کویتی بہن مالی مسائل میں مبتلا ہے' تو انہوں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
دلچسپ بات یہ کہ اس سے پہلے دونوں پاکستانی' نعمان احمد اور ریحان رافع ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ نعمان ٹورنٹو جبکہ ریحان چار ہزار میل دور واقع کینیڈین شہر' وینکوور کا باسی ہے۔
ان دونوں نے ویب سائٹgofundme.com میں رانیا کی خاطر رقم جمع کرنے کے لیے ایک پیج کا آغاز کیا۔ جیسے جیسے خصوصاً مسلمانوں کو رانیا کی تکالیف کا پتا چلا' وہ اس کی مالی ا مداد کرنے لگے۔
انھوں نے صرف سات دن میں مصیبت زدہ بہن کی خاطر 52,042ڈالر جمع کر لیے جو تقریباً 53لاکھ روپے بنتے ہیں۔یہ مثال اس سچائی کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں مخیر خواتین و حضرات کی کمی نہیں۔ جب وہ کسی مسلم بہن یا بھائی کو آفت میں گرفتاردیکھیں تو بڑھ کر اس کی مدد کرتے ہیں۔ اب یہ ڈالر رانیا کے لیے کار خریدنے اور دیگر مالی مسائل حل کرنے میں کام آئیں گے۔دو دردمند نوجوان پاکستانیوں کے جذبہِ اعانت نے حقیقتاً مواخاتِ مدینہ کی شاندار یاد تازہ کر دی۔
شتر بے مہار آزادی کا شاخسانہ
اسلامی تعلیمات کی رو سے حیا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ شرم و حیا کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث رسولؐﷺ سے لگایئے' ارشاد نبویﷺ ہے: ''جس میں حیا نہیں' وہ پھر جو چاہے کرتا پھرے۔'' گویا حیا کی عدم موجودگی میں ایک مسلمان پھر حقیقی مسلمان نہیں رہتا' وہ گناہ گاروں کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔
خواتین کو شرم و حیا کی تلقین عیسائیت میں بھی ملتی ہے۔ بائبل کی کتاب' تیمتھس کے نام پولس کا پہلا خط : 9:2 میں درج ہے:'' عورتوں کو چاہیے کہ وہ حیادار لباس پہنیں۔ شرم اور پرہیز کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھیں اور سونے موتیوں کی پوشاک پہنیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال سے اپنے آپ کو سنوارتی رہیں۔''
درج بالا الفاظ میں عیسائی خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ موزوں لباس زیب تن کریں۔ لیکن خاص طور پر پچھلے ایک سو برس میں مذہب مغربی دنیا سے تقریباً غائب ہو چکا۔ اسی واسطے بہت سے مغربی جزا و سزا سے بے پروا ہو کر ہر معاملے میں مادر پدر آزاد ہو چکے ۔ دنیائے مغرب میں نیم برہنہ کپڑے پہننا عام بات بن چکی' اب وہاں ہم جنس بیاہ ہونے لگے ہیں۔
یہ گھناؤنا چلن مذہب و اخلاقیات سے دوری ہی کا نتیجہ ہے۔روک ٹوک سے بے نیاز آزادی کے شوقین مغربی جب مسلم عورتوں کو برقع' نقاب یاحجاب میں دیکھیں' تو ان کا مذاق اڑاتے اور انہیں ''قیدی'' قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ باشعور اور عاقل عیسائی بھی برقع یا چادر کو تقدس و پرہیز گاری کی علامت سمجھتے ہیں۔
محض ایک سو برس قبل خود مغربی معاشروں میں عیسائی عورتیں سر پر چادر پہنتی تھیں۔ جو عورت برہنہ سر دکھائی دیتی' اسے آوارہ و فاحشہ سمجھا جاتا ۔ لیکن بے جا آزادی نسواں نے مغرب میں فحاشی و بے حیائی کا دور دورہ کر دیا۔کئی مغربی اسلام کو اپنی بے مہار آبادی کے لیے سخت خطرہ سمجھتے ہیں۔ مسلم ممالک میں آج بھی اسلام کا بول بالا ہے اور مسلمان بہ حیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مغربی انہی تعلیمات کو پابندیاں سمجھتے اور ان سے خوف کھاتے ہیں۔
وہ پھر سیکولرازم کا سہارا لے کر اسلام پہ حملہ آور ہوگئے۔ اسی روش نے سیکولرازم کو بھی بدنام کر دیا۔سیکولرازم کوئی مذہب دشمن نظریہ نہیں بلکہ ایک طرح سے مذہبی آزادی کا محافظ ہے۔ اس کے مطابق حکومت یا کوئی فرد دوسرے کی مذہبی آزادی پر قدغنیں نہیں لگا سکتا۔ ہر فرد کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کو اختیار کر لے۔ اور یہ تو قرآن پاک میں بھی آیا ہے کہ ہر انسان اپنے قول و فعل کا خود ذمے دار ہے۔
لیکن مذہب دشمن مغربی سیکولرازم کی آڑ لے کر عموماً مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں۔ وجہ یہی کہ تمام مذہب پرستوں میں مسلمان ہی سب سے زیادہ اپنے دین کے قریب ہیں۔ انہیں دل و جان سے اپنی مذہبی روایات و اقدار عزیز ہیں اور وہ ان کی خاطر دنیاوی فوائد بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ رانیا العلول اس امر کی صریح مثال ہے۔ اس نے مادی نقصان اٹھانا قبول کر لیا، حجاب نہیں اتارا۔حجاب اتار کر وہ بآسانی اپنی کار واپس لے سکتی تھی۔عدالت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا مسلمان بھی موجود نہ تھا جو اسے دیکھ لیتا۔