نر یندر مودی کا دورہ سری لنکا اور پاکستان

بھارت کو وسط ایشیا تک رسائی کےلیےپاکستان کی ضرورت ہے،بدلتے ہوئےحالات میں پاکستان کو اس ضرورت کا ایڈ وانٹیج لینا چاہیے۔

اب ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر نئی راہیں تلاش کر رہا ہے، پاکستان کو بھی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ فوٹو : فائل

بحر ہند کے اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل جزیرے سری لنکا کے چین کی طرف جھکاؤ سے تشویش میں مبتلا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ چوتھائی صدی سے بھی زائد عرصے میں سری لنکا کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بن گئے جنھوں نے کولمبو پہنچ کر سری لنکا کے ساتھ دفاعی تعاون پر زور دیتے ہوئے بحر ہند میں مضبوط بنیادوں پر سیکیورٹی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ بندرا نائیکے ایئر پورٹ پر پی ایم مودی کا استقبال ان کے سری لنکن ہم منصب رانیل وکرما سنگھے نے کیا۔

بعد ازاں نریندر مودی نے سری لنکن پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا اور کہا کہ علاقائی سلامتی کے لیے بحرہند میں مضبوط سیکیورٹی فائونڈیشن ضروری ہے کیونکہ ہماری خوشحالی کا مستقبل خطے میں امن کے لیے مضبوط سیکیورٹی پر منحصر ہے، اس کے لیے ہمیں سری لنکا اور مالدیپ سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر بحرہند میں میری ٹائم سیکیورٹی تعاون کو مزید فروغ دینا ہو گا۔ نریندرمودی نے بتایا کہ سری لنکا کے نئے صدر میتھری پالا سری سینا نے سمندری معیشت پر توجہ مزکور کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس کے قیام پر اتفاق کیا ہے جس سے دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک مفادات بھی بروئے کار لائے جا سکیں گے۔

انھوں نے ٹرنکومالی کی بندرگاہ کو پٹرولیم کا علاقائی مرکز بنانے کے لیے بھارت کی طرف سے مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں نے مسلسل اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ چین بھارت کے گرد ایک طویل حصار قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی مثال بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے لے کر سری لنکا اور مالدیپ میں چین کی بھاری سرمایہ کاری اور دیگر سرگرمیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ نیپال میں بھی چینی سرمایہ کاری عروج پر ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سری لنکا بین الاقوامی جہاز رانی کے سب سے مصروف راستے کے عین وسط میں واقع ہے چنانچہ چین بھی اپنے تجارتی راستے کھلا رکھنے کی خاطر سری لنکا پر بھی خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ نریندر مودی نے سری لنکا میں جو بات چیت کی ہے اس میں چین کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ مودی کے خوف کی اصل وجہ کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت شروع ہی سے سری لنکا کو اپنا زیر نگیں تصور کرتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ برس چین کی دو ایٹمی آبدوزوں کولمبو کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دی گئی تو بھارت کی تلملاہٹ ہی نہیں اس کا غیظ و غضب بھی دیدنی تھا۔ اس کے ساتھ ہی مودی نے سری لنکا حکومت پر زور دیا ہے کہ تامل باشندوں کو ان کے جمہوری حقوق تفویض کیے جائیں۔


واضح رہے سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کو بھارت کی بھر پور حمایت بلکہ تزویراتی مدد بھی حاصل تھی جس طرح بھارت پاکستان کے مشرقی بازو کو الگ کرنے کے لیے 'مکتی باہنی' نامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا اور بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب رہا۔ بعض تجزیہ کار سقوط ڈھاکہ کو مسئلہ کشمیر سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کی یہ سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں جب کہ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی بھارت کے لیے بہت خوفناک ڈراوا ہے جس کے جواب میں وہ پاکستان کے خلاف الٹی سیدھی حرکات کا ارتکاب کرنے پر اپنے تئیں مجبور پاتا ہے۔

سری لنکا کے علاوہ چین کی سرگرمیوں کا کچھ سراغ قدرے فاصلہ پر واقع جزیرے ماریشیس سے بھی ملتا ہے جہاں چین کے بحری اڈے کے قیام کی شنید ہے۔ اس طرح بھارت کو تین اطراف سے مکمل طور پر گھیرا جا سکتا ہے۔ بہرحال بحرہند سرد جنگ کے دور میں بھی بڑی اہمیت کا حامل تھااور اس کے خاتمے کے بعد بھی بحرہند کے خطے کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ پاکستان کو بھی بدلتے ہوئے عالمی اور ریجنل حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ بھارت جنوبی ایشیا کی بڑی طاقت بننا چاہا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ سری لنکا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

راجیو گاندھی کے دور میں بھارت سری لنکا میں فوج بھی بھیج چکا ہے۔پاکستان کے بھی سری لنکا کے ساتھ اچھی تعلقات ہیں۔ پاکستان کی بحر ہند میں پوزیشن بھی بڑی اہم ہے۔ پاکستان کو اپنی اس پوزیشن کو سامنے رکھ کر اپنے عالمی اور ریجنل مفادات کے تحفظ کے لیے خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ پاکستان وسط ایشیا اور چین کے لیے بحر ہند تک پہنچنے کا گیٹ وے ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اپنی اس پوزیشن کا معاشی پوائنٹ آف ویو سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔بھارت کو وسط ایشیا تک رسائی کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے، بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو اس ضرورت کا ایڈ وانٹیج لینا چاہیے۔

اسی طرح وسط ایشائی ممالک اور جنوبی چین کی مصنوعات کے لیے ہندوستان اور برما تک رسائی پاکستان کے راستے ممکن ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان بھی بھارت اور چین کے پالیسی کو سامنے رکھ کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرسکتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ سرد جنگ ختم ہوچکی ہے اور اس دور میں جو اتحاد بنے ، وہ بھی اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اب ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر نئی راہیں تلاش کر رہا ہے، پاکستان کو بھی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔
Load Next Story