بے شرمی کا کوئی انت نہیں

بے اصولی، جھوٹ، منافقت، ریا کاری، بےشرمی کاکوئی انت ہوتا ہےمگر ہمارےسیاسی کلچرمیں ان ’’او صاف جمیلہ‘‘ کی کوئی حدنہیں۔

ISLAMABAD:
بے اصولی کہہ مکرنی، جھوٹ، منافقت، ریا کاری ڈھٹائی، بے ضمیری، بے شرمی کا کوئی انت ہوتا ہے مگر ہمارے سیاسی کلچر میں ان ''او صاف جمیلہ'' کی کوئی حد نہیں۔ سینیٹ الیکشن اور بعدازاں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے سیاست، جمہوریت اور آئین کے نام پر جو گل کھلائے کیا انھیں جمہوری روایات، اخلاقی اقدار، اور انتخابی قواعد کے عین مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟

شرم تم کو مگر نہیں آتی
سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کا صرف خیبرپختونخوا سے حصہ لینا بھی ایک ایسا ناقابل فہم فیصلہ ہے جسے دہرا معیار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں خرید و فروخت کا معاملہ پورے زور سے اٹھایا اور اعتراف کیا کہ ان کے ارکان کو بھی چار چار کروڑ کی پیشکش ہوئی مگر نام بتانے سے گریز کیا ۔

یہی نہیں فرمایا ایک شخص نے سینیٹ ٹکٹ دینے کے لیے15 کروڑ کی پیشکش کی ہے جب اس شخص کا نام دریافت کیا گیا تو جواب دیا نام چھوڑیں، بھلا انسان ہے بے چارے کی بدنامی ہو گی۔ ایک طرف الیکشن میں خرید و فروخت روکنے کے لیے آئینی ترامیم پر اصرار اور دوسری طرف بولی لگانے والوں اور رشوت کی پیشکش کرنے والوں کو بے نقاب کرنے سے انکار۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

عمران خان نے سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ھینڈ کے ذریعے کرانے کا مطالبہ کیا۔ متحدہ، اے این پی، جماعت اسلامی نے مطالبہ کی حمایت کی مگر حکومتی جماعت لیت و لعل سے کام لیتی رہی حالانکہ موقع محل کی مناسبت سے عمران کا مطالبہ بہترین نتائج کا حامل ہو سکتا تھا۔

چونکہ حکومت خود خرید و فروخت اور تحریص و ترغیب میں ملوث تھی۔ لہٰذا آخری مرحلے تک تذبذب کا شکار رہی۔ حکومتی جماعت کو عمران کی تجویز کی افادیت کا احساس سینیٹ الیکشن کے حوالے سے دورہ بلوچستان کے موقع پر ہوا۔ جب ارکان کی خرید و فروخت کے ناقابل تردید اور ٹھوس شواہد سامنے آئے۔ بکاؤ گھوڑوں نے وزیر اعظم کے طلب کردہ اجلاس میں بھی شرکت نہ کی۔


مبادا بولی لگانے والے بدک نہ جائیں، اس صورتحال کا سامنے کرنے کے بعد حکومت کو شو آف ہینڈ کے ناگوار فیصلے کی بات کر لی 22 ویں ترمیم لانے کا فیصلہ ہوا لیکن آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے نئے طریق انتخاب کی مخالفت میں خم ٹھونک لیا، زرداری صاحب نے فرمایا ''یہ وقت اس کام کے لیے مناسب نہیں'' کوئی ان مہاشے بندہ پرور سے پوچھے قواعد کھیل شروع ہونے سے پہلے تشکیل پاتے ہیں۔ دیوالی گزر جانے کے بعد آتش بازی گھر پھونکنے کے مترادف ہوتی ہے۔ انھوں نے مناسب وقت کی بھی نشاندہی نہیں کی۔

ادھر حضرت مولانا گویا ہوئے۔ ''ہم ایک خاص جماعت کے ایجنڈے کی حمائت نہیں کر سکتے۔ شو آف ہینڈ سے ارکان کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور وفاداری پر حرف آتا ہے'' حالانکہ اس تجویز کے ذریعے سینیٹ ارکان کو مضبوط وفاداری کو یقینی تحفظ فراہم کیا جا سکتا تھا۔ مگر جے یو آئی کے امیر کو اصل اعتراض اس پر تھا کہ یہ تجویز اس پارٹی کی طرف سے آئی جس نے انھیں خیبرپختونخوا میں ٹف ٹائم دیا۔ ورنہ اگر وہ یہ نہ دیکھتے کہ کس نے کہا ہے یہ دیکھتے کہ کیا کہا ہے تو شو آف ہینڈ کا مطالبہ قطعاً غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیرآئینی نہ تھا۔

ایوان بالا کی تاریخ میں کبھی امیدوار امپورٹ نہیں کیے گئے مگر اس مرتبہ حکومت نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے امیدوار درآمد کر کے انھیں اسلام آباد کی نشستوں پر امیدوار نامزد کیا۔ اور اسلام آباد کے مکینوں کو سینیٹ میں نمائندگی کے حق سے محروم کر دیا۔

سینیٹ ایک مستقل آئینی ادارہ ہے جو ایک رکن کی کمی سے بھی نا مکمل ہو جاتا ہے مگر حکومت نے آدھی رات کو صدارتی ٓرڈیننس جاری کرا کے فاٹا کے چار حلقوں میں الیکشن ملتوی کرا دیا۔ اس اقدام سے فاٹا کی نصف آبادی کو سینیٹ میں نمائندگی اور چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی عمل سے دور کر دیا گیا جو دہشتگردی کے خلاف سب سے زیادہ متاثرہ فریق سے کھلی زیادتی تھی۔ مقصد فاٹا میں چار ارکان کی حمائت حاصل کرنا تھا۔ اس لیے فوری غیر آئینی، غیر جمہوری اقدام کا سہارا لیا گیا۔

اور شو آف ہینڈ مفادات کے منافی تھا۔ لہذا وقت ضایع کیا جاتا رہا۔چیئرمین ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں حکومتی امیدواروں جن کا آخری لمحہ تک فیصلہ نہ ہو پایا تھا کی کامیابی کے لیے حکومت آخری حد تک گئی ایک اعلی سطحی وفد ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو روانہ کیا۔ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے قائد متحدہ الطاف حسین کو فون کر کے حمائت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

ن لیگ اور متحدہ میں17 سال بعد یہ پہلا باضابطہ اعلیٰ سطح پر رابطہ تھا۔ گزشتہ15 سال سے ن لیگ کی قیادت ق لیگ کو قاتل لیگ کے نام سے پکارتی رہی۔ آمریت کے پروردہ اور آمر کا ساتھی ہونے کا الزام لگا کر ان سے ہر قسم کے سیاسی تعلق کو ناممکن قرار دیا جاتا رہا۔ مگر سینیٹ میں برتری اور حکومتی امیدوار برائے چیئرمین کی کامیابی کے لیے حکومتی وفد چوہدری ہاؤس بھجوا کر اسی قاتل لیگ کے چرنوں میں جا بیٹھا۔ تاہم سینہ چاکان چمن نے سینہ چاکوں کو گلے لگانے سے انکار کر دیا۔ بے اصولی کی ایسی مثال سیاسی تاریخ میں بمشکل ہی ملے گی۔

رضا ربانی کی بطور چیئرمین سینیٹ نامزدگی آصف زرداری کے بہت کم درست فیصلوں میں سے ایک ہے۔ وہ آئین پر یقین رکھنے والے ماہر قانون و آئین اور تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں۔ میثاق جمہوریت کے خالق ہونے کا اعزاز بھی ان ھی کو حاصل ہے۔21 ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے بھی ناقد رہے۔ باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے آصف علی زرداری یہ عہدہ مسلم لیگ (ن) کے لیے کھلا چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے پنجاب میں اپنے امیدوار ندیم افضل چن کو کامیاب کرانے کی یقین دہانی مانگی،وزیراعظم میاں نواز شریف بھی راضی تھے مگر پنجاب کی اعلیٰ شخصیت نہ مانی۔

جس کے بعد ندیم افضل چن نے حکومت کے گیارہ ووٹ توڑ لیے اور حکومت کو یہاں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار کسی بھی طرف سے حمائت نہ ملنے پر مجبوراً حکومت کو رضا ربانی کے حق میں میدان خالی چھوڑنا پڑا اور ایوان بالا میں بالادستی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔اس سارے منظر میں کہیں اصول، ضمیر اور سچ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی، البتہ ثابت ہو گیا ''سیاست میں بے شرمی کا کوئی انت نہیں''
Load Next Story