بلوچستان سے لاپتہ افراد 10 روز میں پیش کرنے کا حکم اچھا نہیں لگتا کہ باوردی ایف سی افسر کو پولیس گرفتار کر?
تمام شواہد ایف سی کے خلاف ہیں، اگر لاپتہ افراد آپ کے پاس نہیں تو خفیہ ادارے انہیں ڈھونڈ کردیں
سپریم کورٹ نے انسپکٹر جنرل فرنٹیئرکور بلوچستان کو8لاپتہ افراد کو 10دن میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مختلف شخصیات کے گھروں پر تعینات لیویز اہلکاروں کو فوری واپس بلائے اور ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگیں صاف کر کے لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت کو یقینی بنائے۔
بلوچستان میں امن وامان اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ خان عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سیشن عدالت کی رپورٹ آئی ہے کہ عبدالمالک کو نوشکی سے ایف سی اہلکار لے گئے، اس وقت کے کمانڈنٹ ایف سی نوشکی کیخلاف الزام ہے وہ خود اپنی وضاحت کریں جس پر آئی جی ایف سی نے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایف سی کی تحویل میں کوئی لاپتہ شخص نہیں، توتک میں فراری کیمپ تھا وہاں ایکشن لیکر دو افراد گرفتار کیے جنہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا وہاں چھوٹے بچے کیسے موجود تھے؟ آپ کے لوگ وہاں اکیلے گئے اس لیے کہتے ہیں کہ سویلین انتظامیہ کو ساتھ رکھا کریں،
یہی وجہ ہے کہ الزام ایف سی پر لگتا ہے، آئی جی ایف سی نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لاپتہ افراد ہماری تحویل میں ہیں تو میں ان کو آج ہی لے آتا، میں لاپتہ افراد کے خاندان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی تلاش کے لیے ہرممکن کوشش کرینگے، توتک واقعہ کا مجھے علم ہے وہاں بھی کچھ شرپسند لوگ موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ لوگ آئین کے آرٹیکل 9 کی پاسداری نہیں کر رہے، آپ لوگ توتک میں آپریشن کرنے گئے لیکن ضلعی انتظامیہ بالکل لاعلم رہی حالانکہ آپ کو نوٹیفکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے بغیر آپ کارروائی نہیں کرسکتے، اسکے باوجود کارروائی کی گئی، آئی جی ایف سی نے کہا کہ ہم ان کیسوں کی داخلی اور خارجی تفتیش کرینگے مگر کچھ وجوہات ہیں جنہیں وہ اوپن کورٹ میں نہیں بتاسکتے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شواہد میچ کر رہے ہیں کہ 50ہزار ایف سی کی نفری میں 50لوگ کالی بھیڑیں ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کمانڈنٹس سے کہیں جاکر لاپتہ افراد کو لے آئیں، ہمارے پاس ایف سی کے خلاف شواہد آئے ہیں، آپ اپنے کمانڈنٹ کو پیش کریں، آئی جی ایف سی نے کہا کہ ہم پولیس کیساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، تمام سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں امن وامان قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، کابو اور اسپلنجی میں دو فراری کیمپ ہیں جس پر ہم کام کر رہے ہیں، معذرت خواہ ہوں کہ میں کچھ دفتری وجوہات کے باعث حاضر نہ ہو سکا، میں عدالت کا احترام کرتا ہوں،
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے کمانڈنٹس کو کہیں کہ عبدالمالک کہاں ہیں انہیں بازیاب کریں، ایک ماں کے تین بیٹے لاپتہ ہیں وہ کہتی ہے کہ 17سال والا مجھے دیدو باقی دو رکھ لو، یہ الفاظ سن کر رونا آتا ہے، ہادی شکیل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ڈیرہ بگٹی نو گو ایریا ہے جہاں کوئی نہیں جا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں قانون کی رٹ بحال کی جائے، ہر شخص نواب اکبر خان بگٹی کی عزت کرتا ہے اپنے حقوق کیلئے لڑیں مگر ملک کے خیر خوا ہ بھی رہیں، 2006میں نواب بگٹی کی شہادت کے بعد حالات خراب ہوئے، کل 9لاشیں ملیں اور کل ہی مچھ سے 8افراد کو اغوا کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم جہاز میں جا رہے ہونگے تو ہمیں تحفہ دے دیں گے جہاں کل لوگوں کو مارا گیا وہاں ایف سی کی چیک پوسٹ ہے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ 200لیویز والے ایسے ہیں جو بعض شخصیات کے گھروں میں کام کرتے ہیں، بازئی صاحب اپنی حکومت کو بولیں وزیراعظم صاحب آرہے ہیں، ان کو بتائیں کہ 35فیصد لیویز اہلکار گھروں کی نوکریاں کرتے ہیں، سیکرٹری داخلہ صاحب آپ ڈیرہ بگٹی میں آئین نافذ کریں ورنہ ہم کرینگے اور سپریم کورٹ کا نمائندہ ڈیرہ بگٹی میں بٹھا دینگے، بازئی صاحب پانچ دنوں میں آپ نے کیا دیا سوائے لاشوں کے، ہم ایک ہی چیز کو جانتے ہیں وہ ہے آئین، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگیں صاف کی جائیں اور لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل یقینی بنائیں، ڈی سی ڈیرہ بگٹی ایک ہفتے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں جس کے بعد میڈیا اور وکلا علاقے کا دورہ کریں، ڈیرہ بگٹی میں لوگوں کی آمد ورفت نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ ہم آپ کو سراہتے ہیں مگر ان معاملات کو حل بھی ہم نے کرنا ہے، سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ لیویز درست طریقے سے کام نہیں کر رہی جس سے مسائل بڑھے، صوبے میں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بعدازاں کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت اسلام آباد میں ہوگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس افتخار نے ریمارکس دیے کہ اگر لاپتہ افراد ایف سی کے پاس نہیں تو خفیہ ادارے انہیں ڈھونڈ کردیں، ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کوئی پولیس والا کسی وردی والے ایف سی افسر کو گرفتار کرے، تمام شواہد ایف سی کیخلاف ہیں۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ ہمارے ملک کے اداروں کے پیچھے پڑے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ادارے بدنام ہوں، اگر آپ کی فورس میں موجود چند غلط عناصر ظاہر ہوں تو اس کی عزت بڑھے گی،
آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ملک کی سلامتی کو بہت سے خدشات لاحق ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتی کیونکہ وہ لوگوں کو جوابدہ ہے، چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ ان کے پاس چوائس ہے کہ لاپتہ افراد کو لے آئیں یا وہ کمانڈنٹس کو سزا دے سکتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کو 30لاپتہ افراد بازیاب کرا کے پیش کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر فورس میں چند بدمعاش عناصر ہیں تو انہیں بے نقاب ہونا چاہیے۔
بلوچستان میں امن وامان اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ خان عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سیشن عدالت کی رپورٹ آئی ہے کہ عبدالمالک کو نوشکی سے ایف سی اہلکار لے گئے، اس وقت کے کمانڈنٹ ایف سی نوشکی کیخلاف الزام ہے وہ خود اپنی وضاحت کریں جس پر آئی جی ایف سی نے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایف سی کی تحویل میں کوئی لاپتہ شخص نہیں، توتک میں فراری کیمپ تھا وہاں ایکشن لیکر دو افراد گرفتار کیے جنہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا وہاں چھوٹے بچے کیسے موجود تھے؟ آپ کے لوگ وہاں اکیلے گئے اس لیے کہتے ہیں کہ سویلین انتظامیہ کو ساتھ رکھا کریں،
یہی وجہ ہے کہ الزام ایف سی پر لگتا ہے، آئی جی ایف سی نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لاپتہ افراد ہماری تحویل میں ہیں تو میں ان کو آج ہی لے آتا، میں لاپتہ افراد کے خاندان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی تلاش کے لیے ہرممکن کوشش کرینگے، توتک واقعہ کا مجھے علم ہے وہاں بھی کچھ شرپسند لوگ موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ لوگ آئین کے آرٹیکل 9 کی پاسداری نہیں کر رہے، آپ لوگ توتک میں آپریشن کرنے گئے لیکن ضلعی انتظامیہ بالکل لاعلم رہی حالانکہ آپ کو نوٹیفکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے بغیر آپ کارروائی نہیں کرسکتے، اسکے باوجود کارروائی کی گئی، آئی جی ایف سی نے کہا کہ ہم ان کیسوں کی داخلی اور خارجی تفتیش کرینگے مگر کچھ وجوہات ہیں جنہیں وہ اوپن کورٹ میں نہیں بتاسکتے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شواہد میچ کر رہے ہیں کہ 50ہزار ایف سی کی نفری میں 50لوگ کالی بھیڑیں ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کمانڈنٹس سے کہیں جاکر لاپتہ افراد کو لے آئیں، ہمارے پاس ایف سی کے خلاف شواہد آئے ہیں، آپ اپنے کمانڈنٹ کو پیش کریں، آئی جی ایف سی نے کہا کہ ہم پولیس کیساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، تمام سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں امن وامان قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، کابو اور اسپلنجی میں دو فراری کیمپ ہیں جس پر ہم کام کر رہے ہیں، معذرت خواہ ہوں کہ میں کچھ دفتری وجوہات کے باعث حاضر نہ ہو سکا، میں عدالت کا احترام کرتا ہوں،
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے کمانڈنٹس کو کہیں کہ عبدالمالک کہاں ہیں انہیں بازیاب کریں، ایک ماں کے تین بیٹے لاپتہ ہیں وہ کہتی ہے کہ 17سال والا مجھے دیدو باقی دو رکھ لو، یہ الفاظ سن کر رونا آتا ہے، ہادی شکیل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ڈیرہ بگٹی نو گو ایریا ہے جہاں کوئی نہیں جا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں قانون کی رٹ بحال کی جائے، ہر شخص نواب اکبر خان بگٹی کی عزت کرتا ہے اپنے حقوق کیلئے لڑیں مگر ملک کے خیر خوا ہ بھی رہیں، 2006میں نواب بگٹی کی شہادت کے بعد حالات خراب ہوئے، کل 9لاشیں ملیں اور کل ہی مچھ سے 8افراد کو اغوا کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم جہاز میں جا رہے ہونگے تو ہمیں تحفہ دے دیں گے جہاں کل لوگوں کو مارا گیا وہاں ایف سی کی چیک پوسٹ ہے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ 200لیویز والے ایسے ہیں جو بعض شخصیات کے گھروں میں کام کرتے ہیں، بازئی صاحب اپنی حکومت کو بولیں وزیراعظم صاحب آرہے ہیں، ان کو بتائیں کہ 35فیصد لیویز اہلکار گھروں کی نوکریاں کرتے ہیں، سیکرٹری داخلہ صاحب آپ ڈیرہ بگٹی میں آئین نافذ کریں ورنہ ہم کرینگے اور سپریم کورٹ کا نمائندہ ڈیرہ بگٹی میں بٹھا دینگے، بازئی صاحب پانچ دنوں میں آپ نے کیا دیا سوائے لاشوں کے، ہم ایک ہی چیز کو جانتے ہیں وہ ہے آئین، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگیں صاف کی جائیں اور لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل یقینی بنائیں، ڈی سی ڈیرہ بگٹی ایک ہفتے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں جس کے بعد میڈیا اور وکلا علاقے کا دورہ کریں، ڈیرہ بگٹی میں لوگوں کی آمد ورفت نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ ہم آپ کو سراہتے ہیں مگر ان معاملات کو حل بھی ہم نے کرنا ہے، سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ لیویز درست طریقے سے کام نہیں کر رہی جس سے مسائل بڑھے، صوبے میں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بعدازاں کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت اسلام آباد میں ہوگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس افتخار نے ریمارکس دیے کہ اگر لاپتہ افراد ایف سی کے پاس نہیں تو خفیہ ادارے انہیں ڈھونڈ کردیں، ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کوئی پولیس والا کسی وردی والے ایف سی افسر کو گرفتار کرے، تمام شواہد ایف سی کیخلاف ہیں۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ ہمارے ملک کے اداروں کے پیچھے پڑے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ادارے بدنام ہوں، اگر آپ کی فورس میں موجود چند غلط عناصر ظاہر ہوں تو اس کی عزت بڑھے گی،
آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ملک کی سلامتی کو بہت سے خدشات لاحق ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتی کیونکہ وہ لوگوں کو جوابدہ ہے، چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ ان کے پاس چوائس ہے کہ لاپتہ افراد کو لے آئیں یا وہ کمانڈنٹس کو سزا دے سکتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کو 30لاپتہ افراد بازیاب کرا کے پیش کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر فورس میں چند بدمعاش عناصر ہیں تو انہیں بے نقاب ہونا چاہیے۔