اب موبائل سم اور انٹر نیٹ کے بغیر بھی اپنوں سے رابطہ ممکن

گزشتہ برس ہانگ کانگ میں حکومت کیخلاف مظاہرہ کرنے والے500,000 افراد نےایکدوسرے سےرابطہ رکھنےکیلئےفائرچیٹ کا استعمال کیا

فائر چیٹ بلیوٹوتھ اور وائرلیس کے ذریعے اپنا نیٹ ورک خود بناتا ہے اور اسے باہمی رابطے کی ایپ کہا جاسکتا ہے۔ فائل تصویر

BERLIN:
ایک نئی ایپ نے اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کو حیران کردیا ہے اور 'فائرچیٹ' ایپ کے ذریعے اسمارٹ فون پر میسج بھیجے اور وصول کیے جاسکتے ہیں لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ میسجنگ کے لیے کسی وائی فائی نیٹ ورک اور سیل فون سروس کی ضرورت نہیں رہتی۔

عام طور پر موبائل فون سے ٹیکسٹ اور میسجنگ کے لیے موبائل نیٹ ورک یا کم از کم وائی فائی ہاٹ اسپاٹ راؤٹر کی ضرورت ہوتی ہے اور موبائل فون کا پیغام پہلے قریبی ٹاور تک جاتا ہے اور پھر وہاں سے دوسرے ٹاور تک پہنچتا ہے جب کہ وائی فائی نیٹ ورک کا نظام بھی بہت پیجیدہ ہوتا ہے لیکن فائرچیٹ کے لیے کسی ٹاور کی ضرورت نہیں اور نہ ہی وائی فائی راؤٹر درکار ہوتا ہے، لیکن یہ آخر کس طرح کام کرتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ یہ اپنا نیٹ ورک خود بناتا ہے۔


فائرچیٹ فون کے اندرموجود نیٹ ورکنگ نظام استعمال کرتا ہے، یہ ایک فون سے دوسرے فون تک کام کرتا ہے اور اپنا نیٹ ورک خود بناتا جاتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلا فون آپ سے 100 فٹ کے فاصلے تک ہو، اس طرح یہ کسی اسٹیڈیم، ہجوم یا آفس وغیرہ میں آسانی سے نیٹ ورک بناتا ہے جہاں لوگ قریب موجود ہوتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تمام فونز پر فائرچیٹ ایپ چل رہی ہو،ہمارے فونز میں وائی فائی اور بلیوٹوتھ کی سہولت موجود ہوتی ہے اور یہی وائرلیس نظام فائرچیٹ میں کام آتے ہیں جو اینڈروئڈ اور آئی فون دونوں پر ہی کام کرتے ہیں اور فونز کا ایک جال ترتیب دیتے ہیں۔

گزشتہ برس ہانگ کانگ میں 500,000 مظاہرین نے فائرچیٹ کا استعمال کرکے ایک دوسرے سے رابطہ رکھا کیونکہ حکومت نے سیل فون اور وائی سروس بند کررکھی تھی، اسی طرح یہ سروس ایک گروپ وہاں استعمال کرسکتا ہے جہاں کسی قسم کے سگنل نہیں ہوتے، اسی طرح زلزلے، سیلاب اور دیگر آفات میں بھی فائرچیٹ نیٹ ورکس کے ذریعے امدادی کارروائیوں کو جاری رکھا جاسکتا ہے جہاں مواصلاتی نیٹ ورک تباہ ہوجاتے ہیں۔
Load Next Story