حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
فلسفہ کے بنیادی سوالوں نے ان عقلیت پسندوں کو ایک کسوٹی عطا کر دی جس پر وہ قرآن و سنت کے احکامات کو پرکھنے لگے۔
خاندانِ بنو عباس کا سورج بام عروج پر تھا۔ یہی زمانہ تھا جب مسلمانوں نے دنیا بھر کے علوم کو عربی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ یہ ایک بہت محنت طلب اور صبر آزما کام تھا، لیکن لگن کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی کتاب میسر آتی مسلمان اسے حاصل کرنے جا پہنچتے۔ لوگوں کو اس جنون کا علم ہوا تو انھوں نے کتب کو سونے کے بھاؤ ان کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کر دیا اور یہ بلاتامل خرید لیتے۔ سرکاری سرپرستی کا یہ عالم تھا کہ مامون الرشید کے زمانے میں ایک مترجم کی ماہانہ تنخواہ تیس ہزار دینار (یعنی سونے کے سکے) تھی۔
ترجمے کی اس تحریک کا آغاز عباسی خلیفہ المنصور (754-775ء) کے زمانے میں ہوا۔ پہلی دو کتب جن کا ترجمہ کیا گیا وہ سنسکرت میں تھیں جنھیں ہندوستان سے منگوایا گیا تھا۔ ایک فلکیات پر کتاب تھی اور دوسری برہم گپت کی سوریا سدھانتا تھی۔ اس کا ترجمہ ابراہیم الفرازی نے زیج السند ہند الکبیر کے نا م سے کیا۔ بیت الحکمت قائم کیا گیا جو نہ صرف ایک یونیورسٹی تھی بلکہ دار ترجمہ، لائبریری اور لیبارٹری کی وسعت بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔ یہیں قرآن، حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ یہ تمام جدید علوم پڑھائے جاتے تھے۔ یونانی فلسفہ تھوڑا بہت سریانی زبان میں ترجمہ ہو چکا تھا، اسے عربی میں منتقل کیا گیا اور پھر اصل یونانی ماخذ کو بھی ترجمہ کر کے دنیا کو اس قدیم علم سے آشنا کیا گیا۔ یونانی فلسفے نے اس دور کے مسلمانوں میں عقلیت پسندی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ ایسی علمی بحثوں کا آغاز ہوا جو آج تک ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔
فلسفہ کے بنیادی سوالوں نے ان عقلیت پسندوں کو ایک کسوٹی عطا کر دی جس پر وہ قرآن و سنت کے احکامات کو پرکھنے لگے۔ جو عقل کی اس کسوٹی پر پورا اترتا اسے تسلیم کرتے اور باقی کو متروک سمجھ کر رد کر دیتے۔ عباسی خلفاء ان عقلیت پسندوں جنھیں معتزلہ کہتے تھے، ان کے زیراثر تھے۔ اس زمانے میں جس فتنے نے سر اٹھایا وہ خلق قرآن تھا۔ قرآن کو اللہ کی ایک مخلوق ثابت کرنے میں عقلیت پسندوں کی ایک گہری سازش چھپی ہوئی تھی کہ اس طرح وہ اس کی حیثیت ثانوی کر دیں گے اور جس طرح ہر تخلیق میں روز بروز تبدیلی ہوتی رہتی ہے اسی طرح اس میں بھی ایک راستہ نکل آئے گا۔ ایسے میں اس وقت کے دو جلیل القدر فرزندوں نے ثابت قدم رہ کر اپنی قربانی سے اس فتنے کا راستہ روکا۔ ایک امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے شیخ نعیم بن حمادؒ۔ امام احمد بن حنبلؒ کا تذکرہ تو مسلسل چلا آیا ہے کہ ان کے نام سے ایک مسلک کی بنیاد ہے، لیکن شیخ نعیم بن حمادؒ کا تذکرہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ کے زمانے میں احنف بن قیسؓ نے جب خراسان فتح کیا تو اس معرکے میں عرب کے قبیلے الخراعی نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔ خراسان یزدگرد کی آخری پناہ گاہ تھی۔ وہ اس کے شہر مرو شاہجان میں چھپا بیٹھا تھا۔ خراسان فتح ہوا تو الخراعی قبیلے کو یہاں آباد ہونے کے لیے کہا گیا جن کی موجودگی سے آج پورے افغانستان، ترکستان اور بقیہ خراسان میں اسلام کی مشعل روشن ہوئی۔ اسی قبیلے کے ایک گھر میں دوسری صدی ہجری میں نعیم بن حماد پیدا ہوئے۔ علم کی طلب انھیں بغداد لے آئی جہاں امام عبداللہ بن مبارک ان کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ آپ نے امام ابو حنیفہ کے تلامذہ سے براہ راست علم حاصل کیا، لیکن حدیث کے بارے میں ان کے بہت بڑے کام کی ایک وجہ بنی۔
آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرما رہے تھے ''تم وہی ہو نہ جو ہماری احادیث کو نظرانداز کر دیتے ہو۔'' نعیم بن حماد نے گھبرا کر کہا یارسول اللہؐ! آپ مجھے مختلف ابواب میں احادیث عطا کر دیجیے تا کہ میں آپؐ کے ارشادات سے ہر بات اخذ کر لیا کروں۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعیم بن حماد کو سینے سے لگایا اور اس کی برکت دیکھئے کہ احادیث کا مجموعہ یعنی المسند تصنیف کرنیوالے پہلے شخص تاریخ میں نعیم بن حمادؒ ہی ہوئے۔ باقی تمام مسندات ان کے بعد تصنیف ہوئیں۔ احادیث کو رجال کی کسوٹی پر پرکھنے اور احادیث کی درجہ بندی کا کام ان کے بعد شروع ہوا جس عمل کے امام دراصل امام بخاری تھے۔ اسی لیے نعیم بن حمادؒ کی مسند میں معلق، مرسل، منقطع، صحیح، حسن، مدلس، مرسل، موضوع، متروک اور منکر سب طرح کی احادیث جمع ہیں۔
بغداد میں معتزلہ کا عروج ہوا تو نعیم بن حماد مصر چلے گئے۔ مامون الرشید کے بعد معتصم خلیفہ بنا تو علماء کو خلق قرآن کا قائل کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اسی فتنے کے ڈر سے علماء کی اکثریت خاموش ہو گئی لیکن امام احمد بن حنبلؒ اور شیخ نعیم بن حماد کی استقامت بلا کی تھی۔ نعیم بن حماد کو مصر سے امام شافعی کے مشہور شاگرد یوسف بن یحییٰ ال بویطی کے ساتھ بیڑیوں میں جکڑ کر بغداد لایا گیا۔ خلق قرآن کے حق میں بیان نہ دینے پر نعیم بن حمادؒ کو سامرا کے قید خانے میں قید کر دیا گیا جہاں وہ سات سال قید رہے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے وصیت کی کہ مجھے بیڑیوں سمیت دفن کیا جائے کہ میں اپنے مخالفین کی اللہ کے حضور اسی حالت میں مخاصمت کرنا چاہتا ہوں۔ جیل حکام نے انھیں اسی طرح بیڑیوں کے ساتھ گڑھے میں ڈال دیا۔ نہ کفن دیا گیا اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
نعیم بن حماد کو امام العلامات کہا جاتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو ایک جگہ جمع کیا ہے جو آخری زمانے یعنی قیامت سے پہلے کے زمانے کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمائیں۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حذیفہ بن یمانؓ ایسے صحابی تھے جنہوں نے دور فتن کے بارے میں رسول اللہؐ سے سب سے زیادہ علم حاصل کیا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں ''لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا۔ اس خوف سے کہ کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے (بخاری و مسلم) یہی کیفیت محدثین میں نعیم بن حمادؒ کی ہے۔ آپ نے وہ تمام روایات ایک کتاب میں جمع کر دی ہیں جو آخرالزمان یا دور فتن کے بارے میں ہے۔ اس حدیثوں کے مجموعے کو ''کتاب الفتن'' کا نام دیا گیا۔
حیرت کی بات ہے کہ تمام احادیث کی کتب کے تراجم ہوئے لیکن کتاب الفتن صرف عربی میں شایع ہوتی رہی اور اب تو عربی میں بھی ناپید ہو گئی۔ آخری دفعہ مصر سے پچاس سال قبل شایع ہوئی۔ العلم ٹرسٹ نے آج سے دو سال قبل اس کے ترجمے کے کام کا آغاز کیا۔ احادیث کے ترجمے میں احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے ماہر علماء کی جانچ پرکھ سے گزارا گیا اور اب نعیم بن حمادؒ کی کتاب الفتن ترجمے کے ساتھ چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی ہے جسے علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے بڑی محنت سے طبع کیا ہے اور اس کی تمام آمدنی کو العلم ٹرسٹ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ آج کے دور فتن میں احادیث کی اس کتاب کی جس قدر ضرورت تھی وہ علماء اور اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔
کتاب کو طباعت کے مرحلے سے گزارنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ اسماء الرجال کے ماہر اساتذہ اس کی احادیث کو رجال کی کسوٹی پر پرکھ کر ترتیب دیں اور دوسرا کتاب الفتن میں درج حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی حدیث کہ آخری دور میں یہ فتنے ایسے لمبے ہو جائیں جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دور فتن میں فتنوں کو پہنچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ کتاب الفتن کو اردو میں ترجمہ کر کے شایع کرنے کا العلم ٹرسٹ کا یہی مقصد اور مدعا ہے۔ بقول اقبال
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
ترجمے کی اس تحریک کا آغاز عباسی خلیفہ المنصور (754-775ء) کے زمانے میں ہوا۔ پہلی دو کتب جن کا ترجمہ کیا گیا وہ سنسکرت میں تھیں جنھیں ہندوستان سے منگوایا گیا تھا۔ ایک فلکیات پر کتاب تھی اور دوسری برہم گپت کی سوریا سدھانتا تھی۔ اس کا ترجمہ ابراہیم الفرازی نے زیج السند ہند الکبیر کے نا م سے کیا۔ بیت الحکمت قائم کیا گیا جو نہ صرف ایک یونیورسٹی تھی بلکہ دار ترجمہ، لائبریری اور لیبارٹری کی وسعت بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔ یہیں قرآن، حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ یہ تمام جدید علوم پڑھائے جاتے تھے۔ یونانی فلسفہ تھوڑا بہت سریانی زبان میں ترجمہ ہو چکا تھا، اسے عربی میں منتقل کیا گیا اور پھر اصل یونانی ماخذ کو بھی ترجمہ کر کے دنیا کو اس قدیم علم سے آشنا کیا گیا۔ یونانی فلسفے نے اس دور کے مسلمانوں میں عقلیت پسندی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ ایسی علمی بحثوں کا آغاز ہوا جو آج تک ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔
فلسفہ کے بنیادی سوالوں نے ان عقلیت پسندوں کو ایک کسوٹی عطا کر دی جس پر وہ قرآن و سنت کے احکامات کو پرکھنے لگے۔ جو عقل کی اس کسوٹی پر پورا اترتا اسے تسلیم کرتے اور باقی کو متروک سمجھ کر رد کر دیتے۔ عباسی خلفاء ان عقلیت پسندوں جنھیں معتزلہ کہتے تھے، ان کے زیراثر تھے۔ اس زمانے میں جس فتنے نے سر اٹھایا وہ خلق قرآن تھا۔ قرآن کو اللہ کی ایک مخلوق ثابت کرنے میں عقلیت پسندوں کی ایک گہری سازش چھپی ہوئی تھی کہ اس طرح وہ اس کی حیثیت ثانوی کر دیں گے اور جس طرح ہر تخلیق میں روز بروز تبدیلی ہوتی رہتی ہے اسی طرح اس میں بھی ایک راستہ نکل آئے گا۔ ایسے میں اس وقت کے دو جلیل القدر فرزندوں نے ثابت قدم رہ کر اپنی قربانی سے اس فتنے کا راستہ روکا۔ ایک امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے شیخ نعیم بن حمادؒ۔ امام احمد بن حنبلؒ کا تذکرہ تو مسلسل چلا آیا ہے کہ ان کے نام سے ایک مسلک کی بنیاد ہے، لیکن شیخ نعیم بن حمادؒ کا تذکرہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ کے زمانے میں احنف بن قیسؓ نے جب خراسان فتح کیا تو اس معرکے میں عرب کے قبیلے الخراعی نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔ خراسان یزدگرد کی آخری پناہ گاہ تھی۔ وہ اس کے شہر مرو شاہجان میں چھپا بیٹھا تھا۔ خراسان فتح ہوا تو الخراعی قبیلے کو یہاں آباد ہونے کے لیے کہا گیا جن کی موجودگی سے آج پورے افغانستان، ترکستان اور بقیہ خراسان میں اسلام کی مشعل روشن ہوئی۔ اسی قبیلے کے ایک گھر میں دوسری صدی ہجری میں نعیم بن حماد پیدا ہوئے۔ علم کی طلب انھیں بغداد لے آئی جہاں امام عبداللہ بن مبارک ان کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ آپ نے امام ابو حنیفہ کے تلامذہ سے براہ راست علم حاصل کیا، لیکن حدیث کے بارے میں ان کے بہت بڑے کام کی ایک وجہ بنی۔
آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرما رہے تھے ''تم وہی ہو نہ جو ہماری احادیث کو نظرانداز کر دیتے ہو۔'' نعیم بن حماد نے گھبرا کر کہا یارسول اللہؐ! آپ مجھے مختلف ابواب میں احادیث عطا کر دیجیے تا کہ میں آپؐ کے ارشادات سے ہر بات اخذ کر لیا کروں۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعیم بن حماد کو سینے سے لگایا اور اس کی برکت دیکھئے کہ احادیث کا مجموعہ یعنی المسند تصنیف کرنیوالے پہلے شخص تاریخ میں نعیم بن حمادؒ ہی ہوئے۔ باقی تمام مسندات ان کے بعد تصنیف ہوئیں۔ احادیث کو رجال کی کسوٹی پر پرکھنے اور احادیث کی درجہ بندی کا کام ان کے بعد شروع ہوا جس عمل کے امام دراصل امام بخاری تھے۔ اسی لیے نعیم بن حمادؒ کی مسند میں معلق، مرسل، منقطع، صحیح، حسن، مدلس، مرسل، موضوع، متروک اور منکر سب طرح کی احادیث جمع ہیں۔
بغداد میں معتزلہ کا عروج ہوا تو نعیم بن حماد مصر چلے گئے۔ مامون الرشید کے بعد معتصم خلیفہ بنا تو علماء کو خلق قرآن کا قائل کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اسی فتنے کے ڈر سے علماء کی اکثریت خاموش ہو گئی لیکن امام احمد بن حنبلؒ اور شیخ نعیم بن حماد کی استقامت بلا کی تھی۔ نعیم بن حماد کو مصر سے امام شافعی کے مشہور شاگرد یوسف بن یحییٰ ال بویطی کے ساتھ بیڑیوں میں جکڑ کر بغداد لایا گیا۔ خلق قرآن کے حق میں بیان نہ دینے پر نعیم بن حمادؒ کو سامرا کے قید خانے میں قید کر دیا گیا جہاں وہ سات سال قید رہے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے وصیت کی کہ مجھے بیڑیوں سمیت دفن کیا جائے کہ میں اپنے مخالفین کی اللہ کے حضور اسی حالت میں مخاصمت کرنا چاہتا ہوں۔ جیل حکام نے انھیں اسی طرح بیڑیوں کے ساتھ گڑھے میں ڈال دیا۔ نہ کفن دیا گیا اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
نعیم بن حماد کو امام العلامات کہا جاتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو ایک جگہ جمع کیا ہے جو آخری زمانے یعنی قیامت سے پہلے کے زمانے کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمائیں۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حذیفہ بن یمانؓ ایسے صحابی تھے جنہوں نے دور فتن کے بارے میں رسول اللہؐ سے سب سے زیادہ علم حاصل کیا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں ''لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا۔ اس خوف سے کہ کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے (بخاری و مسلم) یہی کیفیت محدثین میں نعیم بن حمادؒ کی ہے۔ آپ نے وہ تمام روایات ایک کتاب میں جمع کر دی ہیں جو آخرالزمان یا دور فتن کے بارے میں ہے۔ اس حدیثوں کے مجموعے کو ''کتاب الفتن'' کا نام دیا گیا۔
حیرت کی بات ہے کہ تمام احادیث کی کتب کے تراجم ہوئے لیکن کتاب الفتن صرف عربی میں شایع ہوتی رہی اور اب تو عربی میں بھی ناپید ہو گئی۔ آخری دفعہ مصر سے پچاس سال قبل شایع ہوئی۔ العلم ٹرسٹ نے آج سے دو سال قبل اس کے ترجمے کے کام کا آغاز کیا۔ احادیث کے ترجمے میں احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے ماہر علماء کی جانچ پرکھ سے گزارا گیا اور اب نعیم بن حمادؒ کی کتاب الفتن ترجمے کے ساتھ چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی ہے جسے علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے بڑی محنت سے طبع کیا ہے اور اس کی تمام آمدنی کو العلم ٹرسٹ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ آج کے دور فتن میں احادیث کی اس کتاب کی جس قدر ضرورت تھی وہ علماء اور اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔
کتاب کو طباعت کے مرحلے سے گزارنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ اسماء الرجال کے ماہر اساتذہ اس کی احادیث کو رجال کی کسوٹی پر پرکھ کر ترتیب دیں اور دوسرا کتاب الفتن میں درج حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی حدیث کہ آخری دور میں یہ فتنے ایسے لمبے ہو جائیں جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دور فتن میں فتنوں کو پہنچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ کتاب الفتن کو اردو میں ترجمہ کر کے شایع کرنے کا العلم ٹرسٹ کا یہی مقصد اور مدعا ہے۔ بقول اقبال
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے