بل ڈی بلازئیو کی عیدی
عید مبارک ہو، آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گےکہ عید میں تو ابھی وقت ہے پھر ہم ابھی سے آپ کو عید کی مبارکباد کیوں دے رہے ہیں؟
عید مبارک ہو، آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ عید میں تو ابھی وقت ہے پھر ہم ابھی سے آپ کو عید کی مبارکباد کیوں دے رہے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ عید کی یہ مبارکباد ہماری طرف سے نہیں بلکہ نیویارک کے میئر بل ڈی بلازئیو کی طرف سے ہے، جو عید سے چار ماہ پہلے ہی عید کی خوشی میں نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئے۔
کچھ دن پہلے نیویارک کے میئر نے وہاں کے اسکولوں میں عید کے دن کو آفیشل چھٹیوں میں شامل کرلیا ہے، ایک دن عید کی اور ایک بقرعید کی چھٹی نیویارک کے تمام اسکولوں میں کی جائے گی۔ بلازئیو کے مطابق نیویارک میں کیوں کہ کم از کم دس فیصد طلبا مسلمان ہیں، ایسے میں اگر وہ عید کی چھٹی کریں تو انھیں یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج اسکول میں کام کا حرج ہوگا یا پھر حاضریلازمی ہوگی۔ ''نیویارک میں بچے کام کا حرج نہ ہوکہ ڈر سے صبح عید کی نماز پڑھتے ہیں اور پھر کپڑے بدل کر اسکول چلے جاتے ہیں لیکن اب انھیں ایسا نہیں کرنا ہوگا'' میئر کا بیان۔
میئر نے نہ صرف یہ چھٹی اناؤنس کی بلکہ نیویارک کی سڑکوں پر درجنوں مسلمان طلبا کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بھی کھنچوائیں اور ہاتھ میں پوسٹر بھی تھا جس پر لکھا تھا ''آئی لو عید'' اب چھوٹے سے نوٹس پر میئر کو اردو عربی سکھانا تو مشکل تھا اسی لیے ہم ان کے ''LOVE'' کو مبارکباد سمجھ لیتے ہیں اور ان کی چھٹی کی ''عیدی'' قبول کرتے ہیں۔
یہ خبر آتے ہی نیویارک کے تمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، امریکا کے کئی بڑے شہروں میں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے لیکن پورے امریکا میں صرف چھ ایسے شہر اور ہیں جہاں عید کی چھٹی دی جاتی ہے اسی لیے یہ خبر بڑی تھی کیوں کہ یہ عام نہیں ہے۔
فیس بک، ٹوئیٹر پورے انٹرنیٹ پر یہ خبر دھوم مچانے لگی۔ میئر ڈی بلازئیو کی ''آئی لو عید'' والی تصویر ہر جگہ شایع کی جارہی تھی، کئی جگہ لوگوں نے اس اعلان پر باقاعدہ جشن منایا، کیک کاٹے گئے، مٹھائیاں بٹیں۔ مسلمانوں کا نام نائن الیون کے بعد جتنا امریکا میں خراب ہوا ہے اس کے بعد کوئی چھوٹی یا بڑی خبر جو مسلمانوں کے حق میں ہو وہ امریکن مسلمان جشن کی طرح مناتے ہیں اور عید کی چھٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
بلازئیو کے حساب سے یہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہے۔ عید کی چھٹی دینا، لیکن یہ خیال سب کا نہیں ہے، پچھلے کئی سال سے مختلف اسٹیٹس کے مسلمان اپنی لوکل حکومتوں سے عید کی چھٹی کی درخواست کررہے ہیں لیکن ہمیشہ یہ درخواست رد کردی جاتی ہے، میری لینڈ کے ایک اسکول میں مسلمانوں نے جب زیادہ دباؤ ڈالا تو اس اسکول نے اپنے یہاں سے ساری مذہبی نوعیت کی چھٹیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ بلازئیو محض اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے مسلمانوں کو عید کی چھٹی دے رہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہیں تو ان کا دل جیتنے کا اس سے آسان طریقہ نہیں تھا۔
پامیلا گیلر نامی امریکن سیاست دان اور رائٹر نے تو باقاعدہ میئر کے خلاف آواز اٹھائی ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی واحد چھٹی نیویارک میں ستمبر گیارہ ہونی چاہیے، اگر ان کو آفیشلی چھٹی دی جائے گی کہ یہ جاکر اپنے مذہبی تہواروں کو منائیں تو ہم ان کے جہاد میں مدد کررہے ہیں اور کچھ نہیں۔ نیویارک کے باہر رہنے والے لوگوں کے حساب سے بھی اب کچھ عرصے میں ہی جیوش اور کرسچن کا ان علاقوں میں جانا ناممکن ہوجائے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی سب سے بڑی مذہبی چھٹیاں کرسمس اور ایسٹر یا تو اسکول کے ویکیشن ٹائم میں آتی ہیں یا پھر ویک اینڈ پر اس لیے ایک عام امریکن کو مذہبی تہوار کے موقع پر چھٹی ویسے ہی سمجھ میں نہیں آتی، اوپر سے گورے اپنے بچوں کو عید کی وجہ سے اسکول نہ بھیجیں تو یہ بات انھیں ہضم نہیں ہورہی ہے۔
جیوش ہالیڈے ''یوم کپور'' اور ''روش ہاشانا'' نیویارک سمیت تمام ایسے اسکول ڈسٹرکٹس میں ہوتی ہیں جہاں یہودی زیادہ تعداد میں ہیں لیکن ان کا ذکر کرتا کوئی نظر نہیں آتا، عید کی چھٹی کے خلاف بات کرتے ہیں۔
ہندو ہم سے ایسے ناراض ہیں جیسے وہ نہیں ہم جیتے تھے، 2015 کا ورلڈ کپ انڈیا ورسز پاکستان۔ انھیں لگتا ہے کہ میئر نے غلط کیا۔ غلط صرف یہ نہیں کہ عید کی چھٹی دے دی بلکہ غلط اس لیے کہ دیوالی کے بجائے عید کی چھٹی دے دی، ہندو کمیونٹی نیویارک میں بہت مضبوط ہے اس لیے انھیں یقین تھا کہ ان کی کئی بار کی درخواست یعنی دیوالی کی چھٹی کو میئر ضرور مانیں گے لیکن میئر نے عید کی چھٹی کا اعلان کردیا جس سے ہندو کمیونٹی ہم سے اور خفا ہوگئی۔
کئی گوروں کو یہ بھی غصہ ہے کہ دو دن عید کی چھٹی ڈکلیئر کرنے سے بچوں کی سمر ویکیشن کم ہوجائیںگی۔ امریکا کے اسکولوں میں سال کے کتنے دن کلاسیں ہونی چاہئیں یہ پہلے سے مقرر ہوا ہے، اب ایسے میں کوئی نئی چھٹی آجاتی ہے تو اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے سمر ویکیشن کو کم کرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ چاہے بارش ہو یا برف امریکا کے اسکول کھلتے ضرور ہیں چاہے دو گھنٹے دیر سے ہی کیوں نہیں کھلیں۔
کئی جگہ لکھا جارہا ہے کہ ہم کس کس دن چھٹی کریں تاکہ اقلیتوں کو خوش رکھ سکیں جوکہ صاف صاف مسلمانوں کو عید پر دی گئی چھٹی پر طنز ہے، کئی مسلمان پریشان ہیں، نیویارک میں کہ اس فیصلے سے کوئی الٹا اثر نہ پڑجائے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ لوگ بہت جلدی بھول جاتے ہیں، آج عید کی چھٹی پر شور مچارہے ہیں کل کچھ اور آجائے گا تو اسے بھول جائیں گے، رہ جائے گی تو بس عید کی وہ چھٹی جو ہم خوشی خوشی اپنے بچوں کے ساتھ نیویارک میں منائیںگے۔ میئر ڈی بلازئیو آپ کو بھی عید بہت مبارک ہو۔
کچھ دن پہلے نیویارک کے میئر نے وہاں کے اسکولوں میں عید کے دن کو آفیشل چھٹیوں میں شامل کرلیا ہے، ایک دن عید کی اور ایک بقرعید کی چھٹی نیویارک کے تمام اسکولوں میں کی جائے گی۔ بلازئیو کے مطابق نیویارک میں کیوں کہ کم از کم دس فیصد طلبا مسلمان ہیں، ایسے میں اگر وہ عید کی چھٹی کریں تو انھیں یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج اسکول میں کام کا حرج ہوگا یا پھر حاضریلازمی ہوگی۔ ''نیویارک میں بچے کام کا حرج نہ ہوکہ ڈر سے صبح عید کی نماز پڑھتے ہیں اور پھر کپڑے بدل کر اسکول چلے جاتے ہیں لیکن اب انھیں ایسا نہیں کرنا ہوگا'' میئر کا بیان۔
میئر نے نہ صرف یہ چھٹی اناؤنس کی بلکہ نیویارک کی سڑکوں پر درجنوں مسلمان طلبا کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بھی کھنچوائیں اور ہاتھ میں پوسٹر بھی تھا جس پر لکھا تھا ''آئی لو عید'' اب چھوٹے سے نوٹس پر میئر کو اردو عربی سکھانا تو مشکل تھا اسی لیے ہم ان کے ''LOVE'' کو مبارکباد سمجھ لیتے ہیں اور ان کی چھٹی کی ''عیدی'' قبول کرتے ہیں۔
یہ خبر آتے ہی نیویارک کے تمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، امریکا کے کئی بڑے شہروں میں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے لیکن پورے امریکا میں صرف چھ ایسے شہر اور ہیں جہاں عید کی چھٹی دی جاتی ہے اسی لیے یہ خبر بڑی تھی کیوں کہ یہ عام نہیں ہے۔
فیس بک، ٹوئیٹر پورے انٹرنیٹ پر یہ خبر دھوم مچانے لگی۔ میئر ڈی بلازئیو کی ''آئی لو عید'' والی تصویر ہر جگہ شایع کی جارہی تھی، کئی جگہ لوگوں نے اس اعلان پر باقاعدہ جشن منایا، کیک کاٹے گئے، مٹھائیاں بٹیں۔ مسلمانوں کا نام نائن الیون کے بعد جتنا امریکا میں خراب ہوا ہے اس کے بعد کوئی چھوٹی یا بڑی خبر جو مسلمانوں کے حق میں ہو وہ امریکن مسلمان جشن کی طرح مناتے ہیں اور عید کی چھٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
بلازئیو کے حساب سے یہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہے۔ عید کی چھٹی دینا، لیکن یہ خیال سب کا نہیں ہے، پچھلے کئی سال سے مختلف اسٹیٹس کے مسلمان اپنی لوکل حکومتوں سے عید کی چھٹی کی درخواست کررہے ہیں لیکن ہمیشہ یہ درخواست رد کردی جاتی ہے، میری لینڈ کے ایک اسکول میں مسلمانوں نے جب زیادہ دباؤ ڈالا تو اس اسکول نے اپنے یہاں سے ساری مذہبی نوعیت کی چھٹیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ بلازئیو محض اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے مسلمانوں کو عید کی چھٹی دے رہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہیں تو ان کا دل جیتنے کا اس سے آسان طریقہ نہیں تھا۔
پامیلا گیلر نامی امریکن سیاست دان اور رائٹر نے تو باقاعدہ میئر کے خلاف آواز اٹھائی ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی واحد چھٹی نیویارک میں ستمبر گیارہ ہونی چاہیے، اگر ان کو آفیشلی چھٹی دی جائے گی کہ یہ جاکر اپنے مذہبی تہواروں کو منائیں تو ہم ان کے جہاد میں مدد کررہے ہیں اور کچھ نہیں۔ نیویارک کے باہر رہنے والے لوگوں کے حساب سے بھی اب کچھ عرصے میں ہی جیوش اور کرسچن کا ان علاقوں میں جانا ناممکن ہوجائے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی سب سے بڑی مذہبی چھٹیاں کرسمس اور ایسٹر یا تو اسکول کے ویکیشن ٹائم میں آتی ہیں یا پھر ویک اینڈ پر اس لیے ایک عام امریکن کو مذہبی تہوار کے موقع پر چھٹی ویسے ہی سمجھ میں نہیں آتی، اوپر سے گورے اپنے بچوں کو عید کی وجہ سے اسکول نہ بھیجیں تو یہ بات انھیں ہضم نہیں ہورہی ہے۔
جیوش ہالیڈے ''یوم کپور'' اور ''روش ہاشانا'' نیویارک سمیت تمام ایسے اسکول ڈسٹرکٹس میں ہوتی ہیں جہاں یہودی زیادہ تعداد میں ہیں لیکن ان کا ذکر کرتا کوئی نظر نہیں آتا، عید کی چھٹی کے خلاف بات کرتے ہیں۔
ہندو ہم سے ایسے ناراض ہیں جیسے وہ نہیں ہم جیتے تھے، 2015 کا ورلڈ کپ انڈیا ورسز پاکستان۔ انھیں لگتا ہے کہ میئر نے غلط کیا۔ غلط صرف یہ نہیں کہ عید کی چھٹی دے دی بلکہ غلط اس لیے کہ دیوالی کے بجائے عید کی چھٹی دے دی، ہندو کمیونٹی نیویارک میں بہت مضبوط ہے اس لیے انھیں یقین تھا کہ ان کی کئی بار کی درخواست یعنی دیوالی کی چھٹی کو میئر ضرور مانیں گے لیکن میئر نے عید کی چھٹی کا اعلان کردیا جس سے ہندو کمیونٹی ہم سے اور خفا ہوگئی۔
کئی گوروں کو یہ بھی غصہ ہے کہ دو دن عید کی چھٹی ڈکلیئر کرنے سے بچوں کی سمر ویکیشن کم ہوجائیںگی۔ امریکا کے اسکولوں میں سال کے کتنے دن کلاسیں ہونی چاہئیں یہ پہلے سے مقرر ہوا ہے، اب ایسے میں کوئی نئی چھٹی آجاتی ہے تو اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے سمر ویکیشن کو کم کرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ چاہے بارش ہو یا برف امریکا کے اسکول کھلتے ضرور ہیں چاہے دو گھنٹے دیر سے ہی کیوں نہیں کھلیں۔
کئی جگہ لکھا جارہا ہے کہ ہم کس کس دن چھٹی کریں تاکہ اقلیتوں کو خوش رکھ سکیں جوکہ صاف صاف مسلمانوں کو عید پر دی گئی چھٹی پر طنز ہے، کئی مسلمان پریشان ہیں، نیویارک میں کہ اس فیصلے سے کوئی الٹا اثر نہ پڑجائے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ لوگ بہت جلدی بھول جاتے ہیں، آج عید کی چھٹی پر شور مچارہے ہیں کل کچھ اور آجائے گا تو اسے بھول جائیں گے، رہ جائے گی تو بس عید کی وہ چھٹی جو ہم خوشی خوشی اپنے بچوں کے ساتھ نیویارک میں منائیںگے۔ میئر ڈی بلازئیو آپ کو بھی عید بہت مبارک ہو۔