زائد جہیز کی روک تھام کے لئےقوانین کب متحرک ہوں گے
رشتوں کی مضبوطی اعلیٰ جہیز سے نہیں بلکہ اخلاق، اچھی تعلیم و تربیت، سلیقہ مندی اور ذہنی ہم آہنگی سے ہوتی ہے۔
جہیز کے معنی تیار کرنے کے ہیں۔ جہیز دینے کی رسم ہر علاقے میں ہی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
ابتداً امیر خاندانوں کی طرف سے اپنی بیٹیوں کی شادی کے وقت انہیں قیمتی سامان دیا جاتا تھا، کہ ان کی بیٹی گھر جیسی اچھی باسہولت زندگی گزار سکے۔ تاریخ مختلف راجاؤں کی طرف سے جہیز دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ 1661ء کی بات ہے جب ممبئی میں شاہ زادی کیتھرین کی کنگ چارلس سے شادی ہوئی، تو شاہ زادی کو بادشاہ کی طرف سے قیمتی ساز وسامان دے کر رخصت کیا گیا تھا۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
شادی دو افراد کے درمیان پیار کا بندھن اور دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے۔ صرف جہیز کے لالچ نے اس مقدس بندھن کے معنی آج کے دور میں بدل کر رکھ دیے ہیں۔ جہیز کے لالچ کی وجہ سے شادی کاروبار کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امیر والدین اپنی بیٹیوں کو بیاہتے ہوئے قیمتی سامان، تحائف اور نقدی جہیز میں دیتے ہیں، تاکہ معاشرے میں ان کی امیری کا رعب قائم رہے۔ دوسری طرف کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یا کم جہیز کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ بہت سے پس ماندہ گھرانوں میں اس بنا پر مارپیٹ اور جلائے جانے کے واقعات عام ہیں۔
ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ ''جہیز نہ لانے پر سسرال والوں نے دلہن کو جلا دیا'' یا ''جہیز نہ ملنے یا کم ملنے پر سسرال والوں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔'' لوگوں کے اسی رویے کی وجہ سے جہیز غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑے سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو زیادہ جہیز دیں گے تو سسرال میں اسے عزت ملے گی۔ اس کی قدر ہو گی اور خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے گی۔ غریب لوگ تو مجبوراً قرض لیتے ہیں، جب کہ امیر لوگ اپنی امارت کی دھاک بٹھانے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں۔
جس کے بعد نتیجے میں ان کی ساری زندگی لیے ہوئے قرض کو چکانے میں گزر جاتی ہے۔ آج کے دور میں غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے، ایسے میں بیٹی کا باپ اُ س کی شادی کی ہی فکر میں دُہرا ہوا جاتا ہے۔ بیٹی کی شادی میں تاخیر ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب یا حل بہت مشکل ہے تاہم ناممکن نہیں ہے۔
لڑکے والے یہ جاننے کے باوجود کہ لڑکی والوں کی اتنی حیثیت نہیں، پھر بھی لڑکی والوں سے قیمتی جہیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک تصور جہیز ماں باپ کی حیثیت اور استطاعت کے مطابق دینے کا ہے، لیکن ماں باپ کی طرف سے بیٹی کو جہیز دینا فرض یا واجب ہرگز نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی مذہبی لگتے ہیں، لیکن دوسرے کی مشکل حل کرنے کے لیے کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ شادی کے لیے وہ ساری دین داری فراموش کر دیتے ہیں۔
شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضح احکامات ہونے کے باوجود بھی لوگ قیمتی جہیز کو ہی لڑکیوں کی کام یاب اور خوش گوار زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہیز شادی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، حالاں کہ جہیز کے حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے۔ 2005ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اس وقت کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے بے جا جہیز دینے کو کنٹرول کرنے کے لیے جہیز کی حد بندی کے بل کی منظوری دی تھی۔ جس کے تحت 50ہزار روپے سے زائد کا جہیز دینے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ فیملی کورٹس کے ججوں کو اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک سال کی قید اور جرمانے کا اختیار دیا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جب کہ ہمارے سامنے جہیز نہ ملنے کے باعث بے شمار واقعات موجود ہیں۔
راول پنڈی کی تین بہنوں سمیرا، صائمہ اور آسیہ نے غربت اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خان پور نہر میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں نے انہیں بچا لیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ان کی شادی کی بات پکی ہو چکی تھی، لیکن لڑکے والوں کی جہیز کی مانگ پوری نہ کرنے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہو رہی تھیں۔
ایک سروے کے مطابق بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں والدین کی ایک بہت بڑی تعداد جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے کنواری لڑکیوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت میں تو جہیز نہ لانے کی پاداش میں لڑکیوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں جہیز نہ لانے کی وجہ سے چار ہزار کے لگ بھگ خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ جہیز نہ لانے کے ''جرم'' میں خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔ انہیں خودکُشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ سیکڑوں خواتین چولھا پھٹنے سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ واقعات خاصے پراسرار ہوتے ہیں۔ یہ کیسے حادثے ہوتے ہیں کہ صرف بہو ہی چولھا پھٹنے سے ہلاک ہوتی ہے، کبھی بیٹی نہیں ہوتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 فی صد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے، جب کہ سرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی 90 فیصد خواتین یہ ظلم صرف اس لیے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ والدین بھی اپنی جگہ درست ہیں کہ بیٹی کو جہیز کم دیا تو سسرال والے طعنے دے کر اس کا جینا دوبھر کر دیں گے، حالاں کہ شادی ایک ایسے بندھن کا نام ہے، جس میں دو افراد کو ساری عمر ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے اور جو رشتے مادی اشیا کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں، وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ رشتوں کی مضبوطی اعلیٰ اخلاق، اچھی تعلیم و تربیت، سلیقہ مندی اور ذہنی ہم آہنگی سے ہوتی ہے۔ یہ ساری زندگی کام آتا ہے۔
ابتداً امیر خاندانوں کی طرف سے اپنی بیٹیوں کی شادی کے وقت انہیں قیمتی سامان دیا جاتا تھا، کہ ان کی بیٹی گھر جیسی اچھی باسہولت زندگی گزار سکے۔ تاریخ مختلف راجاؤں کی طرف سے جہیز دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ 1661ء کی بات ہے جب ممبئی میں شاہ زادی کیتھرین کی کنگ چارلس سے شادی ہوئی، تو شاہ زادی کو بادشاہ کی طرف سے قیمتی ساز وسامان دے کر رخصت کیا گیا تھا۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
شادی دو افراد کے درمیان پیار کا بندھن اور دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے۔ صرف جہیز کے لالچ نے اس مقدس بندھن کے معنی آج کے دور میں بدل کر رکھ دیے ہیں۔ جہیز کے لالچ کی وجہ سے شادی کاروبار کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امیر والدین اپنی بیٹیوں کو بیاہتے ہوئے قیمتی سامان، تحائف اور نقدی جہیز میں دیتے ہیں، تاکہ معاشرے میں ان کی امیری کا رعب قائم رہے۔ دوسری طرف کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یا کم جہیز کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ بہت سے پس ماندہ گھرانوں میں اس بنا پر مارپیٹ اور جلائے جانے کے واقعات عام ہیں۔
ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ ''جہیز نہ لانے پر سسرال والوں نے دلہن کو جلا دیا'' یا ''جہیز نہ ملنے یا کم ملنے پر سسرال والوں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔'' لوگوں کے اسی رویے کی وجہ سے جہیز غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑے سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو زیادہ جہیز دیں گے تو سسرال میں اسے عزت ملے گی۔ اس کی قدر ہو گی اور خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے گی۔ غریب لوگ تو مجبوراً قرض لیتے ہیں، جب کہ امیر لوگ اپنی امارت کی دھاک بٹھانے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں۔
جس کے بعد نتیجے میں ان کی ساری زندگی لیے ہوئے قرض کو چکانے میں گزر جاتی ہے۔ آج کے دور میں غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے، ایسے میں بیٹی کا باپ اُ س کی شادی کی ہی فکر میں دُہرا ہوا جاتا ہے۔ بیٹی کی شادی میں تاخیر ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب یا حل بہت مشکل ہے تاہم ناممکن نہیں ہے۔
لڑکے والے یہ جاننے کے باوجود کہ لڑکی والوں کی اتنی حیثیت نہیں، پھر بھی لڑکی والوں سے قیمتی جہیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک تصور جہیز ماں باپ کی حیثیت اور استطاعت کے مطابق دینے کا ہے، لیکن ماں باپ کی طرف سے بیٹی کو جہیز دینا فرض یا واجب ہرگز نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی مذہبی لگتے ہیں، لیکن دوسرے کی مشکل حل کرنے کے لیے کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ شادی کے لیے وہ ساری دین داری فراموش کر دیتے ہیں۔
شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضح احکامات ہونے کے باوجود بھی لوگ قیمتی جہیز کو ہی لڑکیوں کی کام یاب اور خوش گوار زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہیز شادی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، حالاں کہ جہیز کے حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے۔ 2005ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اس وقت کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے بے جا جہیز دینے کو کنٹرول کرنے کے لیے جہیز کی حد بندی کے بل کی منظوری دی تھی۔ جس کے تحت 50ہزار روپے سے زائد کا جہیز دینے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ فیملی کورٹس کے ججوں کو اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک سال کی قید اور جرمانے کا اختیار دیا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جب کہ ہمارے سامنے جہیز نہ ملنے کے باعث بے شمار واقعات موجود ہیں۔
راول پنڈی کی تین بہنوں سمیرا، صائمہ اور آسیہ نے غربت اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خان پور نہر میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں نے انہیں بچا لیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ان کی شادی کی بات پکی ہو چکی تھی، لیکن لڑکے والوں کی جہیز کی مانگ پوری نہ کرنے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہو رہی تھیں۔
ایک سروے کے مطابق بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں والدین کی ایک بہت بڑی تعداد جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے کنواری لڑکیوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت میں تو جہیز نہ لانے کی پاداش میں لڑکیوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں جہیز نہ لانے کی وجہ سے چار ہزار کے لگ بھگ خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ جہیز نہ لانے کے ''جرم'' میں خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔ انہیں خودکُشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ سیکڑوں خواتین چولھا پھٹنے سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ واقعات خاصے پراسرار ہوتے ہیں۔ یہ کیسے حادثے ہوتے ہیں کہ صرف بہو ہی چولھا پھٹنے سے ہلاک ہوتی ہے، کبھی بیٹی نہیں ہوتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 فی صد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے، جب کہ سرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی 90 فیصد خواتین یہ ظلم صرف اس لیے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ والدین بھی اپنی جگہ درست ہیں کہ بیٹی کو جہیز کم دیا تو سسرال والے طعنے دے کر اس کا جینا دوبھر کر دیں گے، حالاں کہ شادی ایک ایسے بندھن کا نام ہے، جس میں دو افراد کو ساری عمر ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے اور جو رشتے مادی اشیا کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں، وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ رشتوں کی مضبوطی اعلیٰ اخلاق، اچھی تعلیم و تربیت، سلیقہ مندی اور ذہنی ہم آہنگی سے ہوتی ہے۔ یہ ساری زندگی کام آتا ہے۔