سیاسی جماعتوں کے مفادات اور عوام

پاکستان میں عام آدمی کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی سیاست کی ہے

پاکستان میں عام آدمی کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی سیاست کی ہے اور اس رویے کو قومی مفاہمت کے لبادے میں لپیٹ کر اپنے تمام اقدامات کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

نئی دہلی کے ریاستی انتخابات جو پچھلے ماہ ہی منعقد ہوئے۔ عام آدمی پارٹی کی معرکۃ الارا کامیابی نے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کے عوام کے لیے سوچنے کا سامان مہیا کیا ہے۔ 70 میں سے 67 سیٹیں جیت کر عام آدمی پارٹی نے ریاستی اسمبلی میں کلین سوئپ مکمل کرلیا۔ جب کہ وفاقی حکومت پر براجمان بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 3 سیٹیں ملیں جب کہ بھارت کی خالق جماعت کانگریس کو ایک بھی سیٹ نصیب نہ ہوئی۔

اپنے پچھلے دور حکومت میں عام آدمی پارٹی نے جس طرح اپنا اقتدار چھوڑا اور کانگریس اور بی جے پی کے گٹھ جوڑ کو جس طرح بے نقاب کیا دہلی کے عوام نے اس کو بہت سراہا، یہی دونوں جماعتیں ایک طویل عرصے تک ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر قابض رہی ہیں اور کرپشن کے خلاف بل لانے پر عام آدمی پارٹی کی جس طرح انھوں نے مخالفت کی وہ پورے ہندوستان نے دیکھا۔

لیکن ایک عام آدمی نے بیلٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ ان دونوں مرکزی جماعتوں کے خلاف سنادیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کچھ یہی صورت حال یہاں پر بھی موجود ہے تمام سیاسی جماعتوں میں اپنے مفادات کی نگہبانی کے لیے ایک ہونے کی روایت برسوں سے موجود ہے، متحدہ اور پیپلزپارٹی میں دوستی اور پھر جدائی اور پھر سے ایک ہونے کی کہانی اب بہت پرانی ہے۔

دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا یقینا سوٹ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عوام ان دونوں جماعتوں میں ہونے والی الزام تراشی کو بالکل Serious نہیں لیتے۔ سندھ اورکراچی بالخصوص اس وقت جس طرز حکمرانی کا سامنا کررہا ہے اس کے لیے زیادہ لمبی بحث کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو اس پر بھی پیپلزپارٹی اور دیگر کالعدم تنظیموں کے وقت پڑنے پر ایک ہونے اور اپنے پارٹی مفادات کا تحفظ کرنے کا الزام کئی برسوں سے موجود ہے۔

تحریک انصاف کو لے لیجیے عمران خان صاحب کی بے لاگ سیاست کے باوجود ان کی پارٹی میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جوکہ اپنے مفادات کے لیے پارٹی میں گروپ بندی میں مصروف عمل ہیں اور پھر پیپلزپارٹی میں جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں اور پارٹی بدلنے والے روایتی سیاست دانوں کی پارٹی میں شمولیت نے اس کے عزم کو بھی متزلزل کردیا ہے۔


کچھ یہی حال دیگر سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کا بھی ہے جو یقینا ملکی مفاد پر اپنے پارٹی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے لیے ہارس ٹریڈنگ ارکان کی بولیاں اور جوڑ توڑ صاف واضح کردیتی ہیں کہ ان تمام پارٹیوں کا مطمع نظر صرف سیٹیں حاصل کرنا ہیں اور ظاہری طور پر کسی کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اور محض ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اور اپنی بارگیننگ پوزیشن (Bargaining Position) کو مضبوط کرنے کے لیے تمام اصولوں اور ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کے نام پر مذاکرات کیے جاتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا یہ طرز عمل کئی برس سے ہماری سیاست کا مطمع نظر رہا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی اس کمزوری کو پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں خوب استعمال کیا۔ اس وقت بھی چند کو چھوڑکر تقریباً ساری سیاسی جماعتیں قومی مفاد کے نام پر اس آمرانہ حکومت کے ہر طرز عمل پر مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آئیں اور جب ہوا کا رخ تبدیل ہونا شروع ہوا تو پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑکر اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے دوبارہ صف بندی شروع کی۔ سیاسی جماعتوں کے اس مکروہ چہرے نے ملک کے عوام کی اکثریت کو سیاست اور جمہوریت دونوں سے متنفرکردیا۔

اپنی مرضی کی قانون سازی اور اپنے استحقاق کو محفوظ کرنے کے لیے سارے پارلیمنٹیرین ایک ہوجاتے ہیں لیکن عوامی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کی جاتی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم، عہدوں کی بندربانٹ، انتخابات سے پہلے گروہ بندی ان تمام چیزوں میں میرٹ کو نظر انداز کرکے اپنی من پسند تقرریاں اور ذاتی مفادات کو مقدم جاننا اب ایک کلچر بن گیا ہے جو ایک عفریت کی طرح ہماری سیاست کو چاٹ رہا ہے اس تمام صورت حال میں ہماری سیاست ایک کارٹیل (Cartel) بن کر رہ گئی ہے جو صرف اپنے مفادکو تحفظ دینے کے لیے تمام اصولوں اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ سازی میں مصروف ہے۔

شاید پاکستان میں عام آدمی ابھی تک اتنا بیدار نہیں ہوا جتنا بھارت میں اور خاص طور پر نئی دہلی کا ۔ جس نے برسوں پرانی سیاسی پارٹیوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے عبرت کا نشان بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل سے بے خبر سینیٹ کے انتخابات میں جوڑ توڑ میں مصروف رہیں۔ ملک میں جاری دہشت گردی، فرقہ واریت، امن وامان کی ابتر صورت حال، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، کرپشن اور اقربا پروری وغیرہ سب کچھ نظروں سے اوجھل ہے۔

اگرچہ میڈیا ان تمام باتوں پر نظریں جماکر سیاسی جماعتوں اور حکومتی اکابرین کی توجہ دلاسکتا ہے لیکن اس صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی کافی حد تک غیر موثر ہے اور بلاوجہ کی غیر ضروری بحث وتمہید عوامی مسائل کی طرف توجہ دلانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ارکان کی خریدوفروخت کی خبریں یقینا ہماری جمہوریت کے چہرے پر بدنام داغ ہے اور سینیٹ اور قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنا ایک سرمایہ کاری کی طرح ہے اور یقینا ان ایوانوں میں پہنچنے والوں کی پہلی ترجیح اپنی رقم کی واپسی ہوتی ہے۔

ان کو عوامی فلاح و ترقی سے کیا واسطہ۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاسوں میں حاضری ارکان کی غیر دلچسپی اس بات کی عکاس ہے، ملک میں جاری موقع پرستی کی اس سیاست کی یقینا حوصلہ شکنی ہوگی، اس صورت حال میں میڈیا، سول سوسائٹی، کالم نویس اور اخبارات سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے اہم اکابرین کو اپنی اپنی حکومتوں میں گورننس کے مسائل حل کرنے کے لیے قائل کیاجاسکے اور ان پر دباؤ بڑھایاجاسکے، مفاد پرستی کی اس سیاست نے ملک میں جاری بے چینی میں اضافہ کیا ہے اور ایک عام آدمی کو جمہوریت کے نام سے متنفر کیا ہے۔

کاش کہ ہمارے سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور حکمران اس پر توجہ دیں ورنہ آنے والے دنوں میں تقدیر اپنا راستہ خود بنائے گی کیوں کہ یہ مصنوعی صورت حال ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔
Load Next Story