مصر میں 14 دہشت گردوں کو سزائے موت
مرسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ وقت جنگ اور دہشت گردی کا نہیں تعمیر و ترقی کا ہے
پچھلے ہفتے مصر کی ایک عدالت نے مصر کی ایک انتہا پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے 14 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی اور چار کو عمر قید۔
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مصر کے سرحدی علاقے سینائی میں تین پولیس اہلکاروں، ایک فوجی افسر اور ایک سویلین کو ہلاک کیا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ مرسی حکومت نے انتہا پسندوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 14 انتہا پسندوں کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا اسی پالیسی کا نتیجہ بتائی جا رہی ہے۔ کورٹ میں ان قاتلوں کو لوہے کے پنجروں میں بند کر کے لایا گیا تھا۔ لیبیا میں 30 ہزار شہریوں کی طرف سے انتہا پسندوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملے اور یہاں سے دہشت گردوں کو بھگانے کے بعد مصر میں 14 مصریوں کو سزائے موت اور 4 انتہا پسندوں کو عمر قید کی سزا سنانے کے علاوہ مصری عدالت کا اس دہشت گرد گینگ پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے 2004ء میں جنوبی سینائی میں سیاحوں پر بم حملوں کے ذریعے 34 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
سینائی کے علاقے میں مصری حکومت نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے سیکڑوں فوجی، ہیلی کاپٹر، ٹینک وغیرہ بھیجے ہیں۔ سینائی میں دہشت گردوں کے خلاف یہ آپریشن مصر اور اسرائیل مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ مرسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ وقت جنگ اور دہشت گردی کا نہیں تعمیر و ترقی کا ہے۔ میں اخبارات میں اس خبر کی اشاعت کے بعد دو تین دن تک انگریزی کے اخباروں میں بڑے غور سے ایسی خبروں کو تلاش کرتا رہا جن میں ان 14 دہشت گردوں کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف کوئی احتجاج، کوئی جلوس، کوئی پرتشدد مظاہرے یا اس کے خلاف کوئی بیان آیا ہو لیکن ایسی کوئی خبر میری نظروں سے نہیں گزری۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصری عوام دہشت گردوں کو سنائی جانے والی ان سنگین سزائوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیبیا میں دہشت گردوں کے مرکز پر 30 ہزار شہریوں کے حملے کے بعد مصر میں 14 انتہا پسندوں کو سنائی جانے والی سزائے موت سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام اور حکومتیں انتہا پسندی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب یکسوئی سے اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
مرحوم جمال عبدالناصر کے دور سے بھی پہلے سے مصر کی اخوان المسلمین ایک انتہا پسند جماعت کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے عوام کی بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ خاندانی حکمرانوں سے نجات کی کامیاب جدوجہد کے بعد ان ملکوں میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنے کے لیے ان ملکوں میں ایسی عوام دوست، روشن خیال طاقتیں موجود نہیں ہیں جو ان عوامی انقلابات کو ذہنی بیداری، ترقی و تعمیر کی طرف لے جائیں۔ اس کے برخلاف ان نو آزاد ملکوں میں اخوان جیسی طاقتیں ہی ہر جگہ نظر آتی ہیں جو اپنی سرشت میں مشرق وسطیٰ کی خاندانی حکمرانیوں سے کہیں زیادہ فاشسٹ اور ماضی پرست ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ انتہا پسند کی حیثیت سے عشروں سے مصروف اخوان المسلمون کی حکومت بھی ان سے اس قدر خائف ہے کہ ان کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ محمد مرسی اس وقت مصر کی حکومت کے سربراہ ہیں۔ جب سے انھوں نے اقتدار سنبھالا ہے، ابھی تک انھوں نے مصر میں اسلامی نظام نافذ کرنے یا مصر کو ایک مذہبی ریاست بنانے کی بات نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی جماعت اب ایک مذہبی جماعت نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے اس قسم کے تجربات کے نقصانات کا اندازہ کر لیا ہے۔ اگر ہمارا قیاس صحیح ہے تو یہ رجحان اس حوالے سے مثبت کہلا سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نئی قیادتیں دنیا کے تقاضوں کو سمجھ رہی ہیں۔
یہ رجحان اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن جو جماعتیں اپنی پیدایش کے روزِ اوّل سے جس قسم کے نظریات کی علمبردار رہی ہیں، کیا وہ آسانی کے ساتھ اپنے نظریات سے دست بردار ہو سکتی ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جس کے جواب سے مشرق وسطیٰ کی کامیاب عوامی تحریکوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر اس قسم کے نظریات کی حامل جماعتیں عوام کو کچھ نہ دے سکیں اور محض اپنے نظریاتی پرچم تھامے بے مقصد نعرے بازی میں الجھی رہیں تو شاید اس خطے کے عوام کو عوامی تحریکوں کا دوسر ارائونڈ شروع کرنا پڑے۔
مصر کی عدالت نے جن 14 انتہا پسندوں کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا دی ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے 3 پولیس افسروں، ایک فوجی افسر اور ایک سویلین کو قتل کیا تھا۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ المناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک کی انتہا پسند جماعتوں نے اب تک ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو جن میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچّے، خواتین اور ضعیف لوگ شامل ہیں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں اور خودکش حملوں کے ذریعے اس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا ہے اور اب تک کررہے ہیں کہ قتل کیے جانے والوں کی شناخت بھی ممکن نہیں رہتی۔
ان عام شہریوں کے علاوہ اب تک ہزاروں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی اسی بے دردی سے قتل کیا گیا اور کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ جی ایچ کیو، مہران اور کامرہ ایئر بیس جیسے اہم عسکری مراکز پر کامیاب حملے کیے گئے۔ جیلیں توڑ کر سیکڑوں دہشت گردوں کو آزاد کرایا جا رہا ہے۔ اسکولوں، مسجدوں، امام بارگاہوں، صوفیا کے مقبروں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ہمارے ملک کی مذہبی جماعتوں کی زبان سے مذمت کے دو بول نکلتے ہیں نہ یہ جماعتیں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتی ہوئی ان طاقتوں کے خلاف سڑکوں پر آتی ہیں۔ اس کے برخلاف جب ان طاقتوں کے مرکزوں کے خلاف آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی پر اس قدر شور و غوغا کا مطلب کیا ہے؟
مصر کی اخوانی حکومت کا شمار مذہبی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ آج اس جماعت کا صدر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، مصر کی عدالتیںمجرموں کو سزائے موت دے رہی ہیں۔ ان ملکوں کے عوام 30-30 ہزار کی تعداد میں ان کے اڈوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کے خلاف کوئی ایک آواز بھی نہیں اٹھ رہی ہے۔ کیا ہم اور ہماری محترم اعتدال پسند جماعتیں ان متضاد حقائق پر غور کرنے کی زحمت کریں گی؟
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مصر کے سرحدی علاقے سینائی میں تین پولیس اہلکاروں، ایک فوجی افسر اور ایک سویلین کو ہلاک کیا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ مرسی حکومت نے انتہا پسندوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 14 انتہا پسندوں کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا اسی پالیسی کا نتیجہ بتائی جا رہی ہے۔ کورٹ میں ان قاتلوں کو لوہے کے پنجروں میں بند کر کے لایا گیا تھا۔ لیبیا میں 30 ہزار شہریوں کی طرف سے انتہا پسندوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملے اور یہاں سے دہشت گردوں کو بھگانے کے بعد مصر میں 14 مصریوں کو سزائے موت اور 4 انتہا پسندوں کو عمر قید کی سزا سنانے کے علاوہ مصری عدالت کا اس دہشت گرد گینگ پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے 2004ء میں جنوبی سینائی میں سیاحوں پر بم حملوں کے ذریعے 34 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
سینائی کے علاقے میں مصری حکومت نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے سیکڑوں فوجی، ہیلی کاپٹر، ٹینک وغیرہ بھیجے ہیں۔ سینائی میں دہشت گردوں کے خلاف یہ آپریشن مصر اور اسرائیل مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ مرسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ وقت جنگ اور دہشت گردی کا نہیں تعمیر و ترقی کا ہے۔ میں اخبارات میں اس خبر کی اشاعت کے بعد دو تین دن تک انگریزی کے اخباروں میں بڑے غور سے ایسی خبروں کو تلاش کرتا رہا جن میں ان 14 دہشت گردوں کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف کوئی احتجاج، کوئی جلوس، کوئی پرتشدد مظاہرے یا اس کے خلاف کوئی بیان آیا ہو لیکن ایسی کوئی خبر میری نظروں سے نہیں گزری۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصری عوام دہشت گردوں کو سنائی جانے والی ان سنگین سزائوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیبیا میں دہشت گردوں کے مرکز پر 30 ہزار شہریوں کے حملے کے بعد مصر میں 14 انتہا پسندوں کو سنائی جانے والی سزائے موت سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام اور حکومتیں انتہا پسندی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب یکسوئی سے اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
مرحوم جمال عبدالناصر کے دور سے بھی پہلے سے مصر کی اخوان المسلمین ایک انتہا پسند جماعت کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے عوام کی بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ خاندانی حکمرانوں سے نجات کی کامیاب جدوجہد کے بعد ان ملکوں میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنے کے لیے ان ملکوں میں ایسی عوام دوست، روشن خیال طاقتیں موجود نہیں ہیں جو ان عوامی انقلابات کو ذہنی بیداری، ترقی و تعمیر کی طرف لے جائیں۔ اس کے برخلاف ان نو آزاد ملکوں میں اخوان جیسی طاقتیں ہی ہر جگہ نظر آتی ہیں جو اپنی سرشت میں مشرق وسطیٰ کی خاندانی حکمرانیوں سے کہیں زیادہ فاشسٹ اور ماضی پرست ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ انتہا پسند کی حیثیت سے عشروں سے مصروف اخوان المسلمون کی حکومت بھی ان سے اس قدر خائف ہے کہ ان کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ محمد مرسی اس وقت مصر کی حکومت کے سربراہ ہیں۔ جب سے انھوں نے اقتدار سنبھالا ہے، ابھی تک انھوں نے مصر میں اسلامی نظام نافذ کرنے یا مصر کو ایک مذہبی ریاست بنانے کی بات نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی جماعت اب ایک مذہبی جماعت نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے اس قسم کے تجربات کے نقصانات کا اندازہ کر لیا ہے۔ اگر ہمارا قیاس صحیح ہے تو یہ رجحان اس حوالے سے مثبت کہلا سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نئی قیادتیں دنیا کے تقاضوں کو سمجھ رہی ہیں۔
یہ رجحان اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن جو جماعتیں اپنی پیدایش کے روزِ اوّل سے جس قسم کے نظریات کی علمبردار رہی ہیں، کیا وہ آسانی کے ساتھ اپنے نظریات سے دست بردار ہو سکتی ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جس کے جواب سے مشرق وسطیٰ کی کامیاب عوامی تحریکوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر اس قسم کے نظریات کی حامل جماعتیں عوام کو کچھ نہ دے سکیں اور محض اپنے نظریاتی پرچم تھامے بے مقصد نعرے بازی میں الجھی رہیں تو شاید اس خطے کے عوام کو عوامی تحریکوں کا دوسر ارائونڈ شروع کرنا پڑے۔
مصر کی عدالت نے جن 14 انتہا پسندوں کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا دی ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے 3 پولیس افسروں، ایک فوجی افسر اور ایک سویلین کو قتل کیا تھا۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ المناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک کی انتہا پسند جماعتوں نے اب تک ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو جن میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچّے، خواتین اور ضعیف لوگ شامل ہیں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں اور خودکش حملوں کے ذریعے اس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا ہے اور اب تک کررہے ہیں کہ قتل کیے جانے والوں کی شناخت بھی ممکن نہیں رہتی۔
ان عام شہریوں کے علاوہ اب تک ہزاروں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی اسی بے دردی سے قتل کیا گیا اور کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ جی ایچ کیو، مہران اور کامرہ ایئر بیس جیسے اہم عسکری مراکز پر کامیاب حملے کیے گئے۔ جیلیں توڑ کر سیکڑوں دہشت گردوں کو آزاد کرایا جا رہا ہے۔ اسکولوں، مسجدوں، امام بارگاہوں، صوفیا کے مقبروں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ہمارے ملک کی مذہبی جماعتوں کی زبان سے مذمت کے دو بول نکلتے ہیں نہ یہ جماعتیں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتی ہوئی ان طاقتوں کے خلاف سڑکوں پر آتی ہیں۔ اس کے برخلاف جب ان طاقتوں کے مرکزوں کے خلاف آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی پر اس قدر شور و غوغا کا مطلب کیا ہے؟
مصر کی اخوانی حکومت کا شمار مذہبی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ آج اس جماعت کا صدر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، مصر کی عدالتیںمجرموں کو سزائے موت دے رہی ہیں۔ ان ملکوں کے عوام 30-30 ہزار کی تعداد میں ان کے اڈوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کے خلاف کوئی ایک آواز بھی نہیں اٹھ رہی ہے۔ کیا ہم اور ہماری محترم اعتدال پسند جماعتیں ان متضاد حقائق پر غور کرنے کی زحمت کریں گی؟