ناپسندیدہ سرکار اور پسندیدہ سرکاری نوکری
کوئی نہیں چاہتا کہ کسی بھی ’‘سرکاری‘‘ چیز سے ’’سروکار‘‘ رکھے… لیکن سب چاہتے ہیں کہ اسے سرکاری جاب ملے
KARACHI:
پاکستان ایک زبردست ملک ہے جہاں کوئی سرکاری اسکول میں نہیں پڑھنا چاہتا، کوئی نہیں چاہتا کہ کسی سرکاری ذریعے سے سفر کرے۔
کوئی نہیں چاہتا کہ کسی سرکاری اسپتال میں علاج کرائے، کوئی نہیں چاہتا کہ اس کا کسی بھی سرکاری محکمے یا دفتر سے پالا پڑے، کوئی نہیں چاہتا کہ کسی بھی ''سرکاری'' چیز سے ''سروکار'' رکھے... لیکن سب چاہتے ہیں کہ اسے سرکاری جاب ملے، یہ اقوال زریں کسی تنظیم ''ڈور آف اویرنس'' کی طرف سے ایس ایم ایس ہوئے ہیں اور اگر خدا لگتی کہیں تو ہمارے تو دل کو چھو گئے ہیں، کیوں کہ ایک اٹل اور ناقابل تردید حقیقت پر مبنی ہیں، بات بے شک رسوائی کی ہے لیکن سچ ہے۔
بلکہ اگر ہم اس پوری بات کو مختصر کرتے ہوئے ایک جملے میں سمیٹنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ''سرکاری عہدے'' کے سوا اور کوئی بھی سرکاری چیز پسندیدہ نہیں ہے، اونچی اونچی کرسیوں سے لے کر چپراسی کے اسٹول تک جس کے بھی قریب جایئے ،وش وش کرتے ہوئے لوٹیں گے۔ کسی نے بچھو سے پوچھا، بھئی تم تو سب ایک جیسے ہو، تم میں سردار کون ہے۔ اس پر بچھو بولا ،جس کی ''دم'' پر ہاتھ رکھو گے وہی سردار ہو گا۔ ٹھیک یہی اصول ''سرکار'' کا بھی ہے کہ جس سے پالا پڑ گیا وہی سرکار ہے، چاہے وہ کسی بھی دفتر میں بیٹھا ہو، کسی بلند و بالا کرسی پر ہو یا اسٹول پر براجمان ہو، کیونکہ جو ''لنکا'' پہنچ جاتا ہے وہ فوراً باون گز کا ہو جاتا ہے۔
ہم نے ایسے ایسوں کو بھی دیکھا ہے جو ایک دن پہلے تک آدمی ہوتے ہیں لیکن سرکاری جاب ملتے ہی باون گزے ہو جاتے ہیں، ویسے تو ہم نے ایسے بہت سارے لوگ دیکھے اور بھگتے ہیں لیکن تازہ ترین واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص ہمارے بہت بڑے فین تھے، روزانہ آ کر اس ملک کے سسٹم کی ایسی کی تیسی کرتے تھے۔ کئی دن ملاقات نہ ہوئی لیکن جب ملے تو ہمارے تو طوطے اڑ گئے کیوں کہ وہ قطعی ایک اجنبی کی طرح پیش آئے بلکہ استفہامیہ انداز سے پتہ چلتا تھا کہ ہمیں پہچاننے میں دقت محسوس کر رہے ہیں چنانچہ اپنا تعارف کرایا حالانکہ درمیان میں صرف دو مہینے گزرے تھے۔ تعارف ہونے پر بولے، ہاں کچھ یاد تو آ رہا ہے۔
اسے یاد آ رہا تھا اور ہم حیران ہو رہے تھے۔ یہ پتہ تو بعد میں چلا کہ اسے ایک سرکاری جاب مل گئی ہے، اس لیے پرانی یادداشت کی ساری فائل ''ڈیلیٹ'' کر چکے ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، ہم نے ایسے ایسوں کو بھی دیکھا ہے کہ سرکاری جاب ملنے پر ان کے حافظے سے اپنے بہن بھائی بلکہ ماں باپ تک ''ڈیلیٹ'' ہو جاتے ہیں اور ملنے پر
ایسا لگتا ہے کہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سے ہو مگر غیر نہیں لگتے ہو
ایک بہت پرانے وقتوں کا قصہ ہے، کسی کتاب میں پڑھا کہ ایک مرتبہ کسی کا ''عقل'' کے ساتھ ملنا ہوا۔ پوچھا، تم کون ہو تو وہ بولی میں عقل ہوں... کہاں رہتی ہو؟... آدمی کے سر میں... کچھ دنوں بعد اسی شخص کی ملاقات ''غصے'' سے ہو گئی۔ پوچھا، بھئی تمہارا پتہ کیا ہے؟ کہاں رہتے ہو؟ غصہ بولا ،آدمی کے سر میں... اسے حیرت ہوئی۔ بول، مگر وہاں تو عقل رہتی ہے۔ غصے نے کہا، ہاں وہ بھی رہتی ہے لیکن جب میں آ جاتا ہوں تو وہ دم دبا کر بھاگ جاتی ہے... اور ٹھیک یہی بات عقل نے ایک اور شخص سے کہی تھی۔ جب اس نے اپنا پتہ انسانی کھوپڑی کا دیا اور کہا گیا کہ وہاں تو غصہ رہتا ہے تب عقل نے بھی کہا کہ ہاں رہتا ہے لیکن میری موجودگی میں مجال ہے جو اندر جھانک بھی سکے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ سرکاریات کا بھی ہے اور یہی معاملہ ان کا ''دیانت اور شرافت'' دونوں بہنوں سے رہتا ہے۔ سرکاری دفتر محکمے ،عہدے یا کرسی میں کمال یہ ہے کہ یہ دونوں بہنیں وہاں نہیں ٹک سکتیں چنانچہ ''ڈور آف اویئرنس'' والوں نے یہ ٹھیک ہی کہا ہے کہ سرکاری نوکریاں تو پسند کی جاتی ہیں لیکن سرکاری اداروں سے لوگ دور بھاگتے ہیں کیوں کہ سرکاریوں کو پتہ ہوتا ہے کہ سرکاری لوگ کیا ہوتے ہیں۔ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کا مطالعہ و مشاہدہ اس معاملے میں بہت زیادہ وسیع ہے چنانچہ اس نے ''سرکاری'' کے مقابل تمام غیر سرکاری چیزوں کو ''ترکاری'' کا نام دے رکھا ہے اور اس سلسلے میں ایک قول زریں بھی ارشاد کر رکھا ہے کہ جو سرکاری ہوتے ہیں وہ ترکاری نہیں ہوتے اور جو ''ترکاری'' ہوتے ہیں وہ ''سرکاری'' نہیں ہوتے۔
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ ان سے راہ سخن وا کرے کوئی
سرکاری محکموں کی اس اچھی شہرت اور چال چلن ہی نے تو ان میں کشش بھر رکھی ہے، وہ جو کسی نے کہا ہے کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ کام کچھ نہ کرو اور مفت کی سمیٹتے رہو۔ تنخواہ کا دودھ بھی اور بے تنخواہ بالائی بھی...
وہ لطیفہ تو آپ نے بھی سنا ہی ہو گا کہ کسی بزرگ نے ایک نوجوان سے پوچھا، بیٹا زندگی کے لیے کیا پروگرام ہے؟ کیا کرنے اور کیا بننے کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا، بس ایک سرکاری جاب مل جائے تو پھر کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بزرگ اگلے وقتوں کے تھے چنانچہ مزید بولے... نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ کچھ ہنر وغیرہ... نوجوان بولا... سرکاری نوکری سے بڑا بھی کوئی ہنر ہے کیا؟ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری نوکری سے بڑا ہنر واقعی کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ہنر میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم دریا کی ''لہریں'' تو گننا پڑتی ہیں، لیکن سرکاری نوکری میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یوں کہئے کہ اس میں کچھ بھی نہ کرنے کی ہی تو تنخواہ ملتی ہے۔
''کرنے'' کی بد پرہیزی سرکاری ملازمت میں کی ہی نہیں جاتی اور جب کچھ بھی نہ کرنے کا نام سرکاری نوکری اور سرکاری محکمہ ہو تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو کسی سرکاری محکمے میں کچھ ''ہونے'' کی توقع لے کر جائے، یہی وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم کا ہو یا صحت کا، تعمیرات کا ہو یا تخریبات کا لوگ اس کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتے، ویسے بھی یہ ملک ''اپنی مدد آپ'' کے اصولوں پر چلتا ہے، تعلیم صحت یا کوئی بھی اور کام ہو تو خود ہی کھلے بازار میں جا کر حاصل کر لو کیوں کہ ان محکموں کے کار پرداز اور اہل کار بھی ''اپنی مدد آپ'' میں مصروف ہوتے ہیں۔
وزیر الگ سے اپنی مدد آپ کر رہے ہوتے ہیں، افسر الگ اور ماتحت اہل کار الگ ''اپنی مدد آپ'' میں مصروف رہتے ہیں۔ انتہائی فخر اور مونچھوں کو تاؤ دینے کی بات سرکار اور سرکار کے محکموں کے لیے یہ ہے کہ تعلیم، صحت اور دوسری تمام ضروریات کو تو عرصہ ہوا ہے پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کیا جا چکا ہے اور اب ایک آخری کام جو حکومت کے کرنے کا تھا بلکہ جس کے لیے حکومت کا وجود ہوتا ہے، وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کا تھا لیکن اب وہ بھی ''اپنی مدد آپ'' کے دائرے میں آ گیا ہے، کوئی خود اپنی حفاظت کر سکے تو کرے نہ کر سکے تو مرے۔
پاکستان ایک زبردست ملک ہے جہاں کوئی سرکاری اسکول میں نہیں پڑھنا چاہتا، کوئی نہیں چاہتا کہ کسی سرکاری ذریعے سے سفر کرے۔
کوئی نہیں چاہتا کہ کسی سرکاری اسپتال میں علاج کرائے، کوئی نہیں چاہتا کہ اس کا کسی بھی سرکاری محکمے یا دفتر سے پالا پڑے، کوئی نہیں چاہتا کہ کسی بھی ''سرکاری'' چیز سے ''سروکار'' رکھے... لیکن سب چاہتے ہیں کہ اسے سرکاری جاب ملے، یہ اقوال زریں کسی تنظیم ''ڈور آف اویرنس'' کی طرف سے ایس ایم ایس ہوئے ہیں اور اگر خدا لگتی کہیں تو ہمارے تو دل کو چھو گئے ہیں، کیوں کہ ایک اٹل اور ناقابل تردید حقیقت پر مبنی ہیں، بات بے شک رسوائی کی ہے لیکن سچ ہے۔
بلکہ اگر ہم اس پوری بات کو مختصر کرتے ہوئے ایک جملے میں سمیٹنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ''سرکاری عہدے'' کے سوا اور کوئی بھی سرکاری چیز پسندیدہ نہیں ہے، اونچی اونچی کرسیوں سے لے کر چپراسی کے اسٹول تک جس کے بھی قریب جایئے ،وش وش کرتے ہوئے لوٹیں گے۔ کسی نے بچھو سے پوچھا، بھئی تم تو سب ایک جیسے ہو، تم میں سردار کون ہے۔ اس پر بچھو بولا ،جس کی ''دم'' پر ہاتھ رکھو گے وہی سردار ہو گا۔ ٹھیک یہی اصول ''سرکار'' کا بھی ہے کہ جس سے پالا پڑ گیا وہی سرکار ہے، چاہے وہ کسی بھی دفتر میں بیٹھا ہو، کسی بلند و بالا کرسی پر ہو یا اسٹول پر براجمان ہو، کیونکہ جو ''لنکا'' پہنچ جاتا ہے وہ فوراً باون گز کا ہو جاتا ہے۔
ہم نے ایسے ایسوں کو بھی دیکھا ہے جو ایک دن پہلے تک آدمی ہوتے ہیں لیکن سرکاری جاب ملتے ہی باون گزے ہو جاتے ہیں، ویسے تو ہم نے ایسے بہت سارے لوگ دیکھے اور بھگتے ہیں لیکن تازہ ترین واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص ہمارے بہت بڑے فین تھے، روزانہ آ کر اس ملک کے سسٹم کی ایسی کی تیسی کرتے تھے۔ کئی دن ملاقات نہ ہوئی لیکن جب ملے تو ہمارے تو طوطے اڑ گئے کیوں کہ وہ قطعی ایک اجنبی کی طرح پیش آئے بلکہ استفہامیہ انداز سے پتہ چلتا تھا کہ ہمیں پہچاننے میں دقت محسوس کر رہے ہیں چنانچہ اپنا تعارف کرایا حالانکہ درمیان میں صرف دو مہینے گزرے تھے۔ تعارف ہونے پر بولے، ہاں کچھ یاد تو آ رہا ہے۔
اسے یاد آ رہا تھا اور ہم حیران ہو رہے تھے۔ یہ پتہ تو بعد میں چلا کہ اسے ایک سرکاری جاب مل گئی ہے، اس لیے پرانی یادداشت کی ساری فائل ''ڈیلیٹ'' کر چکے ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، ہم نے ایسے ایسوں کو بھی دیکھا ہے کہ سرکاری جاب ملنے پر ان کے حافظے سے اپنے بہن بھائی بلکہ ماں باپ تک ''ڈیلیٹ'' ہو جاتے ہیں اور ملنے پر
ایسا لگتا ہے کہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سے ہو مگر غیر نہیں لگتے ہو
ایک بہت پرانے وقتوں کا قصہ ہے، کسی کتاب میں پڑھا کہ ایک مرتبہ کسی کا ''عقل'' کے ساتھ ملنا ہوا۔ پوچھا، تم کون ہو تو وہ بولی میں عقل ہوں... کہاں رہتی ہو؟... آدمی کے سر میں... کچھ دنوں بعد اسی شخص کی ملاقات ''غصے'' سے ہو گئی۔ پوچھا، بھئی تمہارا پتہ کیا ہے؟ کہاں رہتے ہو؟ غصہ بولا ،آدمی کے سر میں... اسے حیرت ہوئی۔ بول، مگر وہاں تو عقل رہتی ہے۔ غصے نے کہا، ہاں وہ بھی رہتی ہے لیکن جب میں آ جاتا ہوں تو وہ دم دبا کر بھاگ جاتی ہے... اور ٹھیک یہی بات عقل نے ایک اور شخص سے کہی تھی۔ جب اس نے اپنا پتہ انسانی کھوپڑی کا دیا اور کہا گیا کہ وہاں تو غصہ رہتا ہے تب عقل نے بھی کہا کہ ہاں رہتا ہے لیکن میری موجودگی میں مجال ہے جو اندر جھانک بھی سکے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ سرکاریات کا بھی ہے اور یہی معاملہ ان کا ''دیانت اور شرافت'' دونوں بہنوں سے رہتا ہے۔ سرکاری دفتر محکمے ،عہدے یا کرسی میں کمال یہ ہے کہ یہ دونوں بہنیں وہاں نہیں ٹک سکتیں چنانچہ ''ڈور آف اویئرنس'' والوں نے یہ ٹھیک ہی کہا ہے کہ سرکاری نوکریاں تو پسند کی جاتی ہیں لیکن سرکاری اداروں سے لوگ دور بھاگتے ہیں کیوں کہ سرکاریوں کو پتہ ہوتا ہے کہ سرکاری لوگ کیا ہوتے ہیں۔ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کا مطالعہ و مشاہدہ اس معاملے میں بہت زیادہ وسیع ہے چنانچہ اس نے ''سرکاری'' کے مقابل تمام غیر سرکاری چیزوں کو ''ترکاری'' کا نام دے رکھا ہے اور اس سلسلے میں ایک قول زریں بھی ارشاد کر رکھا ہے کہ جو سرکاری ہوتے ہیں وہ ترکاری نہیں ہوتے اور جو ''ترکاری'' ہوتے ہیں وہ ''سرکاری'' نہیں ہوتے۔
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ ان سے راہ سخن وا کرے کوئی
سرکاری محکموں کی اس اچھی شہرت اور چال چلن ہی نے تو ان میں کشش بھر رکھی ہے، وہ جو کسی نے کہا ہے کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ کام کچھ نہ کرو اور مفت کی سمیٹتے رہو۔ تنخواہ کا دودھ بھی اور بے تنخواہ بالائی بھی...
وہ لطیفہ تو آپ نے بھی سنا ہی ہو گا کہ کسی بزرگ نے ایک نوجوان سے پوچھا، بیٹا زندگی کے لیے کیا پروگرام ہے؟ کیا کرنے اور کیا بننے کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا، بس ایک سرکاری جاب مل جائے تو پھر کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بزرگ اگلے وقتوں کے تھے چنانچہ مزید بولے... نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ کچھ ہنر وغیرہ... نوجوان بولا... سرکاری نوکری سے بڑا بھی کوئی ہنر ہے کیا؟ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری نوکری سے بڑا ہنر واقعی کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ہنر میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم دریا کی ''لہریں'' تو گننا پڑتی ہیں، لیکن سرکاری نوکری میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یوں کہئے کہ اس میں کچھ بھی نہ کرنے کی ہی تو تنخواہ ملتی ہے۔
''کرنے'' کی بد پرہیزی سرکاری ملازمت میں کی ہی نہیں جاتی اور جب کچھ بھی نہ کرنے کا نام سرکاری نوکری اور سرکاری محکمہ ہو تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو کسی سرکاری محکمے میں کچھ ''ہونے'' کی توقع لے کر جائے، یہی وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم کا ہو یا صحت کا، تعمیرات کا ہو یا تخریبات کا لوگ اس کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتے، ویسے بھی یہ ملک ''اپنی مدد آپ'' کے اصولوں پر چلتا ہے، تعلیم صحت یا کوئی بھی اور کام ہو تو خود ہی کھلے بازار میں جا کر حاصل کر لو کیوں کہ ان محکموں کے کار پرداز اور اہل کار بھی ''اپنی مدد آپ'' میں مصروف ہوتے ہیں۔
وزیر الگ سے اپنی مدد آپ کر رہے ہوتے ہیں، افسر الگ اور ماتحت اہل کار الگ ''اپنی مدد آپ'' میں مصروف رہتے ہیں۔ انتہائی فخر اور مونچھوں کو تاؤ دینے کی بات سرکار اور سرکار کے محکموں کے لیے یہ ہے کہ تعلیم، صحت اور دوسری تمام ضروریات کو تو عرصہ ہوا ہے پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کیا جا چکا ہے اور اب ایک آخری کام جو حکومت کے کرنے کا تھا بلکہ جس کے لیے حکومت کا وجود ہوتا ہے، وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کا تھا لیکن اب وہ بھی ''اپنی مدد آپ'' کے دائرے میں آ گیا ہے، کوئی خود اپنی حفاظت کر سکے تو کرے نہ کر سکے تو مرے۔