شاندار فتح اور آبرومندانہ شکست

قدرتی طورپرہمیشہ کی طرح اس میچ میں بھی یہ بات اہم کرداراداکرے گی کہ پاکستان اورآسٹریلیا میں سےکونسی ٹیم ٹاس جیتتی ہے۔

sajid.ali@express.com.pk

فرض کریں آج جمعہ 20 مارچ کا مبارک دن ہے، پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد آسٹریلیا کو ہرا دیا ہے اور وہ سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ فی الحال یہ محض ایک خواب ہے جسے محب وطن پاکستانیوں کی اکثریت دیکھ رہی ہے۔ مگر یہ اپنی جگہ ایک بڑی سچائی بھی ہے کہ یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ پچھلے چار میچوں میں پاکستان نے جس ٹیم ایفرٹ کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو ہرا سکتی ہے۔

ہاں پاکستانی کرکٹرز کو اب رہ رہ کے یہ احساس ہورہا ہوگا کہ اگر وہ کسی طرح سرفراز کو کھلاکر شروع کے دو میں سے کم از کم ایک میچ جیت لیتے اور کوارٹر فائنل سے پہلے ان کی فتوحات کی تعداد پانچ چھ ہوجاتی تو اس بات کا پورا پورا امکان تھا کہ پاکستان آسٹریلیا کے بجائے نسبتاً ذرا ہلکی ٹیم سے کوارٹر فائنل کھیل رہا ہوتا۔

لیکن اب بھی کچھ نہیں گیا کرکٹ کے کھیل کا حسن ہی اس کی غیر یقینی کیفیات ہیں کسی بھی دن کسی بھی میچ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے کسی بھی دن کوئی بڑی سے بڑی خود کو طرم خان سمجھنے والی ٹیم ہارسکتی ہے اور وہ آسٹریلیا ہوسکتی ہے اور کسی بھی دن کوئی بھی ٹیم جسے لوگ کمتر گردان رہے ہوں جیت سکتی ہے اور وہ پاکستان کی ٹیم ہوسکتی ہے ۔ دور کیوں جایے اگر پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کو شکست دے سکتی ہے تو آسٹریلیا کے ساتھ بھی یہ سلوک کرسکتی ہے۔

ویسے بھی ہمارے حساب سے اس کوارٹر فائنل میں بنیادی طور پر مقابلہ دونوں ٹیموں کے فاسٹ بولروں کے درمیان ہوگا اور ہمارے لیگ آرم پیسرز اگر آسٹریلیا کے بولروں سے بہترنہیں تو مقابلے کے ضرور ہیں بلکہ وہاب ریاض نے تو اس ورلڈ کپ میں سب سے تیز بولنگ کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آسٹریلیا کی ٹیم اپنی گئی گزری حالت میں بھی ایک اچھی خاصی ٹف ٹیم ہے اگر نامی گرامی کرکٹرز ٹیم سے نکل جائیں تو بہت جلد کچھ اور با صلاحیت کھلاڑی ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت آسٹریلیا کا زیادہ طاقت ور پہلو اس کے میچ ونر فاسٹ بولرز ہیں مگر اس کی ٹیم میں بولروں کو میچ کرتے ہوئے بیٹسمین بھی ہیں۔ اس طرح وہ ایک متوازن ٹیم بن کر سامنے آتی ہے جس کے کپتان یکساں اعتماد کے ساتھ اپنے بولروں اور بیٹسمینوں دونوں کو ٹارگٹ دے سکتے ہیں۔

تاہم تقریباً یہی باتیں پاکستانی ٹیم کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جس نے خاص طور پر پچھلے چار میچوں میں دوبارہ قدم جمائے ہیں اور اپنی قدروقیمت بحال کی ہے۔ محمد عرفان کے بڑے نازک وقت میں انجرڈ ہوجانے سے پاکستان کے اٹیک کو ضرور دھچکا لگا ہے مگر وہاب ریاض اور سہیل خان کی کمی پوری کرسکتے ہیں۔ اگرچہ بہتر یہ ہوتا کہ وقار یونس اور مصباح الحق اپنی پچھلی وننگ ٹیم کو ہی میدان میں اتارتے مگر آسٹریلیا جیسی جہاں دیدہ ٹیم کے سامنے یونس خان جیسے سینئر بیٹسمین کی واپسی پاکستانی ٹیم کے اعتماد کو تقویت پہنچاسکتی ہے ۔ان کی شمولیت سے پاکستان کی بیٹنگ میں ہی نہیں فیلڈنگ میں بھی امپروومنٹ آسکتی ہے۔

قدرتی طور پر ہمیشہ کی طرح اس میچ میں بھی یہ بات اہم کردار ادا کرے گی کہ پاکستان اور آسٹریلیا میں سے کونسی ٹیم ٹاس جیتتی ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب کسی بھی کپتان کی دانشمندی کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر کپتان مصباح الحق ٹاس جیتتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے ضرور سوچیںگے کہ بیٹنگ کریں یا فیلڈنگ امید ہے وکٹ کا رویہ انھیں کسی صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مدد دے گا۔ویسے جب کپتان کوئی بیٹسمین ہوتا ہے تو وہ قدرتی طور پر خود بلی اپنے سر لینے سے ڈرتا ہے اور عام طور پر پہلے بیٹنگ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

پہلے بیٹنگ کرنے کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ فائدہ یہ ہے کہ آپ کے بیٹسمین کسی دباؤ میں آئے بغیر کھل کر بیٹنگ کرسکتے ہیں۔ اپنے سامنے یہ ٹارگٹ سیٹ کرسکتے ہیں کہ فتح کو ممکن اور شکست کو آبرومندانہ بنانے اور اپنے بولروں کو اچھا ٹارگٹ دینے کے لیے کم از کم تین سو رنز بنائیں۔ مگر پہلے بیٹنگ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ بیٹسمین عام طور پر ہوا میں تیر چلارہے ہوتے ہیں۔ کبھی اسکور کی رفتار بڑھانے کے جنون میں چوکے چھکے لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور آؤٹ ہوجاتے اورکبھی وکٹیں بچانے کی احتیاط میں میڈن اوورز کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں صحیح منصوبہ بندی یہ ہوگی کہ ایک اینڈ پر احتیاط سے اور دوسرے اینڈ سے جارحانہ بیٹنگ کی جائے۔ تاکہ رن بھی بنتے رہیں اور وکٹیں بھی کم گریں۔


ہماری رائے میں یہ فیصلہ بھی کہ پہلے بیٹنگ کرنی ہے یا فیلڈنگ، ٹاس ہار کر آسٹریلیا کے کپتان کے اوپر چھوڑدیاجائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا کیوں کہ اس میں امکان یہ ہوگا کہ آسٹریلیا کی ٹیم زیادہ ٹارگٹ دینے کے چکر میں خوب دھواں دھار بلکہ اندھا دھند بیٹنگ کرے گی اور اس چکر میں اس کے کھلاڑیوں جلدی آؤٹ ہوسکتے ہیں۔

بعد کی بیٹنگ اکثر اوقات بلاوجہ کی ذلت سے بھی بچاتی ہے مثلاً پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے آپ جو کچھ اسکور کریں اسے آسٹریلوی بیٹسمین تیس چالیس اووروں میں ہی پورا کرلیں اور بلاوجہ کی شکست بھی ہوگی اور سبکی بھی۔

ویسے بھی ''اولڈ اسکول آف تھوٹ'' سے وابستہ لوگوں کا کہناہے کہ بعد کی بیٹنگ کرتے ہوئے جیتنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور آپ حساب کتاب سے رن بناسکتے ہیں اور جیتنے کی امید آخر تک قائم رہتی ہے۔ یہ سب کچھ لکھ لینے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم یہ سب کچھ اور یہ سارے مشورے کس کے لیے لکھ رہے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم کھلاڑی کوارٹر فائنل کھیلنے میدان میں اترنے سے پہلے یہ مضمون پڑھیںگے اور اس کی روشنی میں اپنی حکمت عملی طے کریںگے تو یہ ہماری خام خیالی ہے اس وقت ہمارے قومی کرکٹرز آسٹریلوی ٹیم کی پرفارمنس اسٹڈی کررہے ہوںگے۔ ہمارے بولرز آسٹریلیا کی بیٹنگ اور ہمارے بیٹسمین آسٹریلیا کی پچھلے میچوں کی بولنگ کے ریکارڈنگ دیکھ رہے ہوںگے تاکہ اپنے دشمنوں کے طاقت ور اور کمزور پہلوؤں کا پتہ چلاسکیں۔ ظاہر ہے اتنے BUSY شیڈول میں انھیں ہمارا مضمون پڑھنے کا موقع کہاں ملے گا۔

ہاں قارئین پر کوئی پابندی نہیں ہے وہ بڑے شوق سے ہمارے قیمتی مشورے پڑھ سکتے ہیں لیکن اس میں بھی مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے کہ قارئین کی اکثریت لکھنے والوں سے زیادہ (کرکٹ کی حد تک) قابل ہوگئی ہے اور اس کے پاس عام طور پر کرکٹ رائٹرز سے زیادہ نالج اور معلومات ہوتی ہیں۔

تاہم یہ بات محض رائٹرز پر ہی صادق نہیں آتی اپنے زمانے کے بہت سے ناکام اور ایوریج کرکٹر آج کے بڑے نامی گرامی کرکٹ ایکسپرٹ ہیں۔ بہرکیف اس بات کا سہرا ہمارے کرکٹرز کے سر ہے کہ وہ اس کھیل میں دلچسپی لینے والے افراد کو بے پناہ تفریح کے انگنت لمحات فراہم کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہماری قوم آج کل جن کربناک حالات سے دو چار ہے اس کے پیش نظر کرکٹ ٹیم کا دم بڑا غنیمت ہے جو اپنے ہم وطنوں کو تفریح کے انگنت لمحات فراہم کرتی ہے۔

ہماری زندگیوں میں کھیل کود کی جو اہمیت ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے ہم ایک ایسے اسکالر پروفیسر برائن سٹن اسمتھ کا تذکرہ کرنا چاہیںگے جنھوں نے اپنی زندگی ''پلے اسٹڈی'' کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ نیوزی لینڈ کے رہنے والے تھے مگر انھوں نے حصول تعلیم، ریسرچ اور ملازمت کے سلسلے میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ امریکا میں گزارا۔

کھیل کود کی وجۂ تسمیہ دریافت کرنے والے پروفیسر برائن اسمتھ پچھلے ہفتے سراسوٹا فلاڈلفیا میں الزائمر کی بیماری کے باعث انتقال کر گئے، ان کی عمر نوے سال تھی۔ 1950 کے بعد سے انھوں نے ساری زندگی ایک ایسی فیلڈ میں ریسرچ کرتے گزاردی جس کا تعلق فوک کہانیوں، لطیفوں، پہیلیوں، اسٹریٹ گیمز،کھلونوں اور آرگنائزڈ اسپورٹس سے تھا۔ 1991 میں پروفیسر اسمتھ نے ٹورنٹو اسٹار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک کھلاڑی کوئی کارنامہ کرتا ہے ساتھی اسے تسلیم کرتے ہیں اور وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہی زندگی کا سب سے خوبصورت منظر ہے ایک بار پروفیسر اسمتھ سے پوچھا گیا تھا کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع پر جسے لوگ بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں آخر کیوں ساری زندگی وقف کردی؟

انھوں نے جواب دیا تھا کہ ہم کھیل کو اس لیے اسٹڈی کرتے ہیں کہ ہماری زندگی شروع سے آخر تک دکھوں اور غموں سے عبارت ہے اگر کوئی چیز اسے گزارنے کے قابل بناتی ہے وہ کھیل کود ہے۔ اسی کے بدولت ممکن ہوتا ہے کہ ہم صبح کے وقت آرام دہ بستر چھوڑیں اورکھیلنے کودنے کے لیے باہر نکلیں۔ برائن اسمتھ 15 جولائی 1924 کو نیوزی لینڈ میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ویگیٹن کے چیف پوسٹ ماسٹر تھے۔ پھر 1952 میں وہ فلبرائٹ اسکالر شپ پر امریکا چلے گئے جہاں انھوں نے کھیل کود کے سبجیکٹ کو نصاب کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
Load Next Story