اولین ترجیح صرف تعلیم
استاد دماغ ہے تو شاگرد دل، کبھی دل، دماغ بن جاتا ہے تو کبھی دماغ دل بن کر ایک ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
BHARA KAHU:
وہ ہستیاں جنھیں عرف عام میں اساتذہ کہا جاتا ہے معاشرے کے اصل معمار اور نوجوانوں کے حقیقی کردار ساز تصور کیے جاتے ہیں یہ اپنی قابل رشک، تعلیمات کی بدولت اپنے قلمبندوں میں عقابی روح پھونکنے اور اسے بیدار کرنے کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ استاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے اس مقدس پیشے کی بدولت رسالت سے خصوصی نسبت حاصل ہے جس پر اساتذہ اپنی قسمت اور اﷲ کی عنایت پر جس قدر ناز و شکر کریں کم ہے۔ جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''مجھے تو معلم ہی بناکر بھیجا گیا ہے'' استاد کے عزت و احترام، انعام و اکرام کے بارے میں معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں لایا، دوسرا وہ جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، تیسرا وہ جس نے تجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا'' یہ شرف اور ظرف بھی والدین کے علاوہ صرف اور صرف استاد کو حاصل ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو خود سے زیادہ خوب تر بہ شکل گل تر دیکھ کر حسد کرنے کے بجائے جذبہ رشک میں محو رقص ہوجاتا ہے۔
استاد دماغ ہے تو شاگرد دل، کبھی دل، دماغ بن جاتا ہے تو کبھی دماغ دل بن کر ایک ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ استاد اور شاگرد میں حسن و عشق کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو دیکھی اور محسوس تو کی جاسکتی ہے لیکن بیان نہیں، کیوں کہ یہ کیفیت ایک جان دو قالب کی سی ہوتی ہے۔عزت و وقارکوئی مادی حق نہیں جو طلب کرنے سے مل جائے، آپ لاکھ طلب کریں دوسرے لاکھ وعدے و ارادے کریں لیکن آپ لے سکتے ہیں اور نہ کوئی دلواسکتا ہے، یہ حق طلبی نہیں کسبی اور عشقی ہے، درد دل سے اور خون جگر کرنے سے، فرض کے ساتھ محبت، محنت اور دیانت سے یہ حق ملتا ہے، مفت نہیں جب تک پیشہ سے عشق کی کیفیت جنون کی حد تک لگاؤ نہ ہو عزت و وقار حاصل نہیں ہوتا۔
استاد قلندر ہو تو اب بھی ہزار جانثار سکندر اس کی عزت کرنے کے لیے تیار ملیںگے۔لیکن افسوس صد افسوس آج اکثر اساتذہ کا مطمع نظر درہم و دینار بنتا جارہا ہے اس انداز فکر کے سامنے عزت و وقار کا رونا عبث ہے، اب یہ حقیقت نہاں نہیں روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ استاد کے دل میں شاگرد کے لیے درد نہیں ذاتی مفاد، مال و زر کا فساد ہے، لہٰذا یہی خطرناک مرض، فرض کی موت بنتا جارہاہے۔ فرض مقدم اور حق موخر ہے جو مقدم ہو وہی معدوم ہوتا چلا جائے تو یہ ظلم کی تمہید ہے۔
درس و تدریس کے پیشے کا تعلق پیسہ سے کم قلندری اور درویشی سے زیادہ ہے۔ لیکن اب دریا الٹے رخ بہنے لگا ہے جوں جوں استاد کی فرضی، منصبی سے بے حسی اور لا تعلقی بڑھتی جارہی ہے توں توں معاشرتی تعمیر و ترقی شکست و ریخت سے دوچار اور طلبا فساد و بگاڑ کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور ہماری معاشرتی اقدار بتدریج روبہ زوال ہیں، درس گاہیں مفت کا کھانے والے اور کئی سال کا نہ پڑھانے کا تجربہ رکھنے والے نام نہاد اساتذہ کی تفریح گاہیں ہیں، ایسے نام نہاد اساتذہ معمار قوم نہیں مسمار قوم ہیں، ایسے استاد بذات خود فساد ہیں، جن کی نظر میں رقم ہے شرم نہیں گویا باپ نہیں پاپ ہیں جان کا عذاب ہیں، نفرت میں ڈوبے یہ تحقیری جملے اس فکری و قلبی انداز کے غمازی ہیں جو عوام کے دل و دماغ سے نکل کر اب زبان زد عام ہوگئے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے درخشاں گوہر نایاب و آفتاب (اساتذہ) بھی ہیں جن کے نور سے مہتاب (شاگرد) منور ہیں جو دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں تاہم یہ بات اور ہے کہ ان کی تعداد قلیل گویا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ایک جانب موجودہ دور میں ہمارے طریقہ تعلیم پر نظر ڈالیے تو احساس ہوتا ہے کہ والدین اور حکومت اپنے ہونہاروں کی تربیت کے لیے ہزاروں، لاکھوں روپے صرف کررہی ہے لیکن ہمارے نتائج افسوسناک حد سے بھی تجاوزکرچکے ہیں۔ ہماری مجموعی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی ناخواندہ ہے۔ اچھی تعلیم ان کی پہنچ سے باہر ہے جب کہ سرکاری اسکول اپنا تعلیمی معیار کھوچکے ہیں جعلی اسکولوں اور اسکولوں میں بوگس بھرتیوں کی خبریں زبان زد عام اور میڈیا کی شہ سرخی بن چکے ہیں، دوسری جانب اساتذہ طلبا سے شکی ہیں کہ یہ طبقہ بھی اپنے فرائض اور احترام و آداب کی ذمے داریوں سے کوتاہی کررہاہے۔
تیسری جانب ہمارے اذہان تبدیل کرنے کے لیے ہمارے نظام تعلیم کو لارڈ میکالے جیسے ملحدانہ نظریات پر تشکیل دینے کے لیے مسلسل جو بیرونی دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ اس نے رہی سہی کسر بھی برابر کردی ہے، ہماری رگوں میں گردش کناں یہ زہر قاتل ہمارے نوجوان طلبا کو مذہب، روایات، ثقافت و تہذیب اور اقدار سے بے گانہ کرکے انھیں ذہنی طور پر مفلوج کررہا ہے۔شومئی قسمت اس زہر قاتل سے مغربی غلام کے طفیل جان چھڑکتا نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ پہلے تعلیم کا مقصد غور و فکر کو کام میں لے کر انسان کو حقائق سے روشناس کرنا اور نیکی و بدی میں تمیز کرنا تھا اور اب یہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور مادیت کے حصول کا موثر ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ہر حساس آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ قوم جس نے علم کی مشعل کو تھام کر اس کی روشنی سے تمام دنیا کو بقعۂ نور بنا دیا، آج پستی و زوال کا شکار ہے، عالمی سطح پر ہمارا کوئی پرسان نہیں۔ آج ہم عالمی سطح پر کلی طور پر اپنی اہمیت و وقعت قطعی کھوچکے ہیں، آج مسلمانوں کو دینی و دنیاوی دونوں تقاضوں کے پیش نظر ایسا نظام تعلیم ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے جو مسلم نشاۃ ثانیہ کی بنیادیں فراہم کرسکے، بصورت دیگر ہمارا مستقبل مذہبی و اخلاقی تہذیبی، ثقافتی و روایتی تمام اقدار اور ہر سطح پر ایک سوالیہ نشان ثابت ہوگا۔
کلکتہ کے ایک مجلے میں حکیم الامت کا پیغام تھا جس کا اقتباس درج ذیل ہے!''برصغیر کے قدیم باسیوں کو خدا تعالیٰ کی جستجو تھی اور کوشش سے انھوں نے اس حقیقت کو تلاش کرلیا تھا، جستجوئے حق کے اس سرمائے کی مدد سے اب یہاں کے باشندوں کا انسان کی شخصیت کی بقا اور ارتقا کی صورتوں پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، ایسی شخصیت جو زندگی کی تحلیلی و ترکیبی قوتوں کی مظہر ہو لیکن ہمارا کیا موجود نظام تعلیم شخصیت کی نشو ونما کرنے اور روحانی اقدار کو بیدار رکھنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے؟
میرا جواب نفی میں ہے!جناب صاحب بصیرت کے قول میں آج بھی ہمارے لیے نہ صرف دعوت فکر بلکہ رہنمائی بھی ہے، ہمارا موجودہ نظام تعلیم آدمیت کے مسائل زندگی اور مقاصد حیات کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے، ہم سطحی باتوں کو سامنے رکھتے ہیں اور زندگی کے اعمال میں تدبر سے کتراتے ہیں، ہمارا نظام تعلیم ایسی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے جو ایک طرف تو ہمیں مادی اعتبار سے مضبوط و مستحکم بنائے اور دوسری طرف ہمیں روحانی غذا بھی بہم پہنچائے۔!
وہ ہستیاں جنھیں عرف عام میں اساتذہ کہا جاتا ہے معاشرے کے اصل معمار اور نوجوانوں کے حقیقی کردار ساز تصور کیے جاتے ہیں یہ اپنی قابل رشک، تعلیمات کی بدولت اپنے قلمبندوں میں عقابی روح پھونکنے اور اسے بیدار کرنے کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ استاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے اس مقدس پیشے کی بدولت رسالت سے خصوصی نسبت حاصل ہے جس پر اساتذہ اپنی قسمت اور اﷲ کی عنایت پر جس قدر ناز و شکر کریں کم ہے۔ جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''مجھے تو معلم ہی بناکر بھیجا گیا ہے'' استاد کے عزت و احترام، انعام و اکرام کے بارے میں معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں لایا، دوسرا وہ جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، تیسرا وہ جس نے تجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا'' یہ شرف اور ظرف بھی والدین کے علاوہ صرف اور صرف استاد کو حاصل ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو خود سے زیادہ خوب تر بہ شکل گل تر دیکھ کر حسد کرنے کے بجائے جذبہ رشک میں محو رقص ہوجاتا ہے۔
استاد دماغ ہے تو شاگرد دل، کبھی دل، دماغ بن جاتا ہے تو کبھی دماغ دل بن کر ایک ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ استاد اور شاگرد میں حسن و عشق کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو دیکھی اور محسوس تو کی جاسکتی ہے لیکن بیان نہیں، کیوں کہ یہ کیفیت ایک جان دو قالب کی سی ہوتی ہے۔عزت و وقارکوئی مادی حق نہیں جو طلب کرنے سے مل جائے، آپ لاکھ طلب کریں دوسرے لاکھ وعدے و ارادے کریں لیکن آپ لے سکتے ہیں اور نہ کوئی دلواسکتا ہے، یہ حق طلبی نہیں کسبی اور عشقی ہے، درد دل سے اور خون جگر کرنے سے، فرض کے ساتھ محبت، محنت اور دیانت سے یہ حق ملتا ہے، مفت نہیں جب تک پیشہ سے عشق کی کیفیت جنون کی حد تک لگاؤ نہ ہو عزت و وقار حاصل نہیں ہوتا۔
استاد قلندر ہو تو اب بھی ہزار جانثار سکندر اس کی عزت کرنے کے لیے تیار ملیںگے۔لیکن افسوس صد افسوس آج اکثر اساتذہ کا مطمع نظر درہم و دینار بنتا جارہا ہے اس انداز فکر کے سامنے عزت و وقار کا رونا عبث ہے، اب یہ حقیقت نہاں نہیں روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ استاد کے دل میں شاگرد کے لیے درد نہیں ذاتی مفاد، مال و زر کا فساد ہے، لہٰذا یہی خطرناک مرض، فرض کی موت بنتا جارہاہے۔ فرض مقدم اور حق موخر ہے جو مقدم ہو وہی معدوم ہوتا چلا جائے تو یہ ظلم کی تمہید ہے۔
درس و تدریس کے پیشے کا تعلق پیسہ سے کم قلندری اور درویشی سے زیادہ ہے۔ لیکن اب دریا الٹے رخ بہنے لگا ہے جوں جوں استاد کی فرضی، منصبی سے بے حسی اور لا تعلقی بڑھتی جارہی ہے توں توں معاشرتی تعمیر و ترقی شکست و ریخت سے دوچار اور طلبا فساد و بگاڑ کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور ہماری معاشرتی اقدار بتدریج روبہ زوال ہیں، درس گاہیں مفت کا کھانے والے اور کئی سال کا نہ پڑھانے کا تجربہ رکھنے والے نام نہاد اساتذہ کی تفریح گاہیں ہیں، ایسے نام نہاد اساتذہ معمار قوم نہیں مسمار قوم ہیں، ایسے استاد بذات خود فساد ہیں، جن کی نظر میں رقم ہے شرم نہیں گویا باپ نہیں پاپ ہیں جان کا عذاب ہیں، نفرت میں ڈوبے یہ تحقیری جملے اس فکری و قلبی انداز کے غمازی ہیں جو عوام کے دل و دماغ سے نکل کر اب زبان زد عام ہوگئے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے درخشاں گوہر نایاب و آفتاب (اساتذہ) بھی ہیں جن کے نور سے مہتاب (شاگرد) منور ہیں جو دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں تاہم یہ بات اور ہے کہ ان کی تعداد قلیل گویا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ایک جانب موجودہ دور میں ہمارے طریقہ تعلیم پر نظر ڈالیے تو احساس ہوتا ہے کہ والدین اور حکومت اپنے ہونہاروں کی تربیت کے لیے ہزاروں، لاکھوں روپے صرف کررہی ہے لیکن ہمارے نتائج افسوسناک حد سے بھی تجاوزکرچکے ہیں۔ ہماری مجموعی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی ناخواندہ ہے۔ اچھی تعلیم ان کی پہنچ سے باہر ہے جب کہ سرکاری اسکول اپنا تعلیمی معیار کھوچکے ہیں جعلی اسکولوں اور اسکولوں میں بوگس بھرتیوں کی خبریں زبان زد عام اور میڈیا کی شہ سرخی بن چکے ہیں، دوسری جانب اساتذہ طلبا سے شکی ہیں کہ یہ طبقہ بھی اپنے فرائض اور احترام و آداب کی ذمے داریوں سے کوتاہی کررہاہے۔
تیسری جانب ہمارے اذہان تبدیل کرنے کے لیے ہمارے نظام تعلیم کو لارڈ میکالے جیسے ملحدانہ نظریات پر تشکیل دینے کے لیے مسلسل جو بیرونی دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ اس نے رہی سہی کسر بھی برابر کردی ہے، ہماری رگوں میں گردش کناں یہ زہر قاتل ہمارے نوجوان طلبا کو مذہب، روایات، ثقافت و تہذیب اور اقدار سے بے گانہ کرکے انھیں ذہنی طور پر مفلوج کررہا ہے۔شومئی قسمت اس زہر قاتل سے مغربی غلام کے طفیل جان چھڑکتا نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ پہلے تعلیم کا مقصد غور و فکر کو کام میں لے کر انسان کو حقائق سے روشناس کرنا اور نیکی و بدی میں تمیز کرنا تھا اور اب یہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور مادیت کے حصول کا موثر ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ہر حساس آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ قوم جس نے علم کی مشعل کو تھام کر اس کی روشنی سے تمام دنیا کو بقعۂ نور بنا دیا، آج پستی و زوال کا شکار ہے، عالمی سطح پر ہمارا کوئی پرسان نہیں۔ آج ہم عالمی سطح پر کلی طور پر اپنی اہمیت و وقعت قطعی کھوچکے ہیں، آج مسلمانوں کو دینی و دنیاوی دونوں تقاضوں کے پیش نظر ایسا نظام تعلیم ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے جو مسلم نشاۃ ثانیہ کی بنیادیں فراہم کرسکے، بصورت دیگر ہمارا مستقبل مذہبی و اخلاقی تہذیبی، ثقافتی و روایتی تمام اقدار اور ہر سطح پر ایک سوالیہ نشان ثابت ہوگا۔
کلکتہ کے ایک مجلے میں حکیم الامت کا پیغام تھا جس کا اقتباس درج ذیل ہے!''برصغیر کے قدیم باسیوں کو خدا تعالیٰ کی جستجو تھی اور کوشش سے انھوں نے اس حقیقت کو تلاش کرلیا تھا، جستجوئے حق کے اس سرمائے کی مدد سے اب یہاں کے باشندوں کا انسان کی شخصیت کی بقا اور ارتقا کی صورتوں پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، ایسی شخصیت جو زندگی کی تحلیلی و ترکیبی قوتوں کی مظہر ہو لیکن ہمارا کیا موجود نظام تعلیم شخصیت کی نشو ونما کرنے اور روحانی اقدار کو بیدار رکھنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے؟
میرا جواب نفی میں ہے!جناب صاحب بصیرت کے قول میں آج بھی ہمارے لیے نہ صرف دعوت فکر بلکہ رہنمائی بھی ہے، ہمارا موجودہ نظام تعلیم آدمیت کے مسائل زندگی اور مقاصد حیات کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے، ہم سطحی باتوں کو سامنے رکھتے ہیں اور زندگی کے اعمال میں تدبر سے کتراتے ہیں، ہمارا نظام تعلیم ایسی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے جو ایک طرف تو ہمیں مادی اعتبار سے مضبوط و مستحکم بنائے اور دوسری طرف ہمیں روحانی غذا بھی بہم پہنچائے۔!