شادی سیزن
ہماری ثقافتی روایات کی روشنی میں شادی خانہ آبادی لڑکی کے والدین کے دل اور جیب دونوں پر بھاری گزرتی ہے
ایک سوال نے مجھے ہمیشہ پریشان کیا کہ آخر یہ شادی سیزن کس بلا کا نام ہے؟
ہم سارا سال یہی سنتے رہتے ہیں کہ آج کل شادی سیزن چل رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان بائیس کروڑ انسانوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ اگر ماضی سے سبق حاصل نہ کرنا ہے، تو دوسرا پسندیدہ مشغلہ شادیاں کرنا ہے۔ہماری شادیاں بھی اتنے ہی لوازمات کی حامل ہوتی ہیں، جتنے ہمارے رمضان کے دستر خوان۔ اگر خاندان میں کہیں شادی ہو رہی ہو، تو رشتہ دار زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اگر کوئی مشہور شخصیت رشتۂ ازدواج میں بندھ رہی ہو، تو میڈیا ڈھنڈورچی کا کردار بخوبی نبھاتا ہے۔
لفظ شادی میں اگر کوئی دل فرشوری کا سامان ہے، تو وہ یہ کہ وہ ''ہوتی'' ہے۔ ویسے بھی اس لفظ کو آدمی سنجیدگی سے صرف اس وقت لیتا ہے، جب اپنی ہو رہی ہو۔ دوسروں کی شادیاں ہمیشہ وقت کا ضیاع اور تھکان کا باعث لگتی ہیں۔دوسری جانب کسی بھی شادی کا بنا لڑائی جھگڑے کے ہوجانا ممکنات میں نہیں۔ جہاں پھوپی خالائیں رنگ میں بھنگ کی آمیزش کی کوشش کرتی ہیں، وہیں تقریب کے قریب آتے ہی کوئی نہ کوئی روٹھ بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد روٹھنے منانے کا غیرمختتم عمل شروع ہوجاتا ہے۔
پوری تقریب میں اگر کوئی خوش ہوتا ہے، وقتی طور پر ہی سہی، تو وہ ہے رشتۂ ازدواج میں بندھنے والا جوڑا۔ دونوں طرف کے والدین گھبراہٹ کا شکار۔ دوست احباب کی توجہ کا محور صرف اور صرف کھانے کی میز۔کارڈ پر کچھ بھی درج ہو، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ رات گئے ہی شروع ہوتا ہے۔ بھلا وقت کی پابند قوم ہوتی، تو آج اس دوراہے پر کھڑی ہوتی؟کھانے کے دوران دولہا دلہن کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے، جو جمہوریت میں جمہور کے ساتھ، یعنی کوئی نہیں پوچھتا۔
تحفتاً لفافہ تھمانے کی رسم بھی خوب ہوتی ہے۔ صاحب تقریب آخری وقت تک اس تجسس میں مبتلا رہتا ہے کہ بند لفافے سے قارون کا کون سا خزانہ نکلے گا، اور اس کے نقصان کا کچھ ازالہ ہوگا۔ جب کہ ہر دینے والے کا مقصد حیات یہ ہوتا ہے کہ جتنا دیا ہے، اس سے دگنے پیسوں کا کھانا ٹھوس لیا جائے اور تگنے کا ضایع کردیا جائے۔کھانے کی میز پر سب سے کڑی نگاہ پھوپا خالو کی ہوتی ہے، جو وقتاً فوقتاً نمک مرچ کی کمی زیادتی پر اپنی ماہرانہ رائے سے نوازتے رہتے ہیں۔ دسترخوان پر رزق ضایع ہونا باعث شرمندگی ہو نہ ہو، رائتے یا کولڈ ڈرنک کا کم پڑ جانا میزبان کے لیے باعث ندامت ضرور ہوتا ہے۔
کہاوت زبان زد عام ہے کہ پہلی مرتبہ کھانا ایسے نکالو کہ دوسری دفعہ نہیں ملے گا، دوسری مرتبہ ایسے نکالو کہ پہلی دفعہ نہیں ملا تھا۔اس پورے کھیل کے دوران وڈیو والے کا فقط ایک کام ہوتا ہے۔ کس نے کتنی بوتلیں اٹھائیں، کون مرغے کی ٹانگ مروڑ رہا ہے، کس نے کتنے قلچے چٹ کر دیے، اس پوری واردات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لے، تاکہ سند رہے۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ کل کو اگر کوئی رشتہ دار ٹھیک سے کھانا نہ ملنے کی شکایت کرے، تو وڈیو کے ذریعے اس کی مکاری کا پردہ فاش کیا جاسکے۔
شادیوں میں رسومات کی اتنی ہی افادیت ہے، جتنی نئی آئینی ترامیم کے بعد ملک میں صدر کی رہ گئی ہے۔ پھر بھی مجال ہے کوئی بھولی بسری رسم یا شگون خاندان کی بڑی بوڑھیوں کے ذہن سے نکل جائے۔آج کل مہندی کی تقریبات میں ڈانس فلور کا رواج بھی چل پڑا ہے، جس میں خاندان کے سبھی منچلوں کو طوفان غل غباڑے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ بے ہودہ بھارتی گانوں کی تھاپ پر بدنما رقص کے وہ دور چلتے ہیں کہ ہماری پشتو فلموں کی اداکاراؤں کی روحیں کانپ جائیں۔ دوسری جانب سیلفیز کا جن بھی بوتل سے باہر آجاتا ہے۔ جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ:
اِس قدر سیلفیاں لینے کا
تجھ کو ہوتا نہ اختیار اے کاش!
غور طلب بات یہ ہے کہ جوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے بھی اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈالتے ہیں۔ ہر ڈھولکی یا رت جگے کے دوران ایک دور ایسا ضرور آتا ہے، جس کا آغاز اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے:
غزل کس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا!
ہماری ثقافتی روایات کی روشنی میں شادی خانہ آبادی لڑکی کے والدین کے دل اور جیب دونوں پر بھاری گزرتی ہے۔ اپنا راج دلارا کتنا ہی بدشکل، بدحال اور تاریک تر مستقبل کا حامل کیوں نہ ہو، ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر میں آئے تو بس چاند جیسی بہو۔
ویسے تو جہیز سنت ہے، لیکن لالچی لڑکے والوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو جہیز کی اشد ضرورت ہے، تو آپ لڑکی کا ہاتھ نہیں، زکوٰۃ مانگیے۔
ویسے میری ناقص رائے میں جس حساب سے ان دنوں شادیاں ہو رہی ہیں، اس سال کے آخر تک ملک میں مردم شماری کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا۔ اور یوں بھی شادیوں کا مسلسل ہوتے رہنا اچھا ہی ہے۔ آخر تقریب کچھ تو بحر ملاقات چاہیے!
ہم سارا سال یہی سنتے رہتے ہیں کہ آج کل شادی سیزن چل رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان بائیس کروڑ انسانوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ اگر ماضی سے سبق حاصل نہ کرنا ہے، تو دوسرا پسندیدہ مشغلہ شادیاں کرنا ہے۔ہماری شادیاں بھی اتنے ہی لوازمات کی حامل ہوتی ہیں، جتنے ہمارے رمضان کے دستر خوان۔ اگر خاندان میں کہیں شادی ہو رہی ہو، تو رشتہ دار زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اگر کوئی مشہور شخصیت رشتۂ ازدواج میں بندھ رہی ہو، تو میڈیا ڈھنڈورچی کا کردار بخوبی نبھاتا ہے۔
لفظ شادی میں اگر کوئی دل فرشوری کا سامان ہے، تو وہ یہ کہ وہ ''ہوتی'' ہے۔ ویسے بھی اس لفظ کو آدمی سنجیدگی سے صرف اس وقت لیتا ہے، جب اپنی ہو رہی ہو۔ دوسروں کی شادیاں ہمیشہ وقت کا ضیاع اور تھکان کا باعث لگتی ہیں۔دوسری جانب کسی بھی شادی کا بنا لڑائی جھگڑے کے ہوجانا ممکنات میں نہیں۔ جہاں پھوپی خالائیں رنگ میں بھنگ کی آمیزش کی کوشش کرتی ہیں، وہیں تقریب کے قریب آتے ہی کوئی نہ کوئی روٹھ بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد روٹھنے منانے کا غیرمختتم عمل شروع ہوجاتا ہے۔
پوری تقریب میں اگر کوئی خوش ہوتا ہے، وقتی طور پر ہی سہی، تو وہ ہے رشتۂ ازدواج میں بندھنے والا جوڑا۔ دونوں طرف کے والدین گھبراہٹ کا شکار۔ دوست احباب کی توجہ کا محور صرف اور صرف کھانے کی میز۔کارڈ پر کچھ بھی درج ہو، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ رات گئے ہی شروع ہوتا ہے۔ بھلا وقت کی پابند قوم ہوتی، تو آج اس دوراہے پر کھڑی ہوتی؟کھانے کے دوران دولہا دلہن کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے، جو جمہوریت میں جمہور کے ساتھ، یعنی کوئی نہیں پوچھتا۔
تحفتاً لفافہ تھمانے کی رسم بھی خوب ہوتی ہے۔ صاحب تقریب آخری وقت تک اس تجسس میں مبتلا رہتا ہے کہ بند لفافے سے قارون کا کون سا خزانہ نکلے گا، اور اس کے نقصان کا کچھ ازالہ ہوگا۔ جب کہ ہر دینے والے کا مقصد حیات یہ ہوتا ہے کہ جتنا دیا ہے، اس سے دگنے پیسوں کا کھانا ٹھوس لیا جائے اور تگنے کا ضایع کردیا جائے۔کھانے کی میز پر سب سے کڑی نگاہ پھوپا خالو کی ہوتی ہے، جو وقتاً فوقتاً نمک مرچ کی کمی زیادتی پر اپنی ماہرانہ رائے سے نوازتے رہتے ہیں۔ دسترخوان پر رزق ضایع ہونا باعث شرمندگی ہو نہ ہو، رائتے یا کولڈ ڈرنک کا کم پڑ جانا میزبان کے لیے باعث ندامت ضرور ہوتا ہے۔
کہاوت زبان زد عام ہے کہ پہلی مرتبہ کھانا ایسے نکالو کہ دوسری دفعہ نہیں ملے گا، دوسری مرتبہ ایسے نکالو کہ پہلی دفعہ نہیں ملا تھا۔اس پورے کھیل کے دوران وڈیو والے کا فقط ایک کام ہوتا ہے۔ کس نے کتنی بوتلیں اٹھائیں، کون مرغے کی ٹانگ مروڑ رہا ہے، کس نے کتنے قلچے چٹ کر دیے، اس پوری واردات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لے، تاکہ سند رہے۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ کل کو اگر کوئی رشتہ دار ٹھیک سے کھانا نہ ملنے کی شکایت کرے، تو وڈیو کے ذریعے اس کی مکاری کا پردہ فاش کیا جاسکے۔
شادیوں میں رسومات کی اتنی ہی افادیت ہے، جتنی نئی آئینی ترامیم کے بعد ملک میں صدر کی رہ گئی ہے۔ پھر بھی مجال ہے کوئی بھولی بسری رسم یا شگون خاندان کی بڑی بوڑھیوں کے ذہن سے نکل جائے۔آج کل مہندی کی تقریبات میں ڈانس فلور کا رواج بھی چل پڑا ہے، جس میں خاندان کے سبھی منچلوں کو طوفان غل غباڑے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ بے ہودہ بھارتی گانوں کی تھاپ پر بدنما رقص کے وہ دور چلتے ہیں کہ ہماری پشتو فلموں کی اداکاراؤں کی روحیں کانپ جائیں۔ دوسری جانب سیلفیز کا جن بھی بوتل سے باہر آجاتا ہے۔ جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ:
اِس قدر سیلفیاں لینے کا
تجھ کو ہوتا نہ اختیار اے کاش!
غور طلب بات یہ ہے کہ جوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے بھی اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈالتے ہیں۔ ہر ڈھولکی یا رت جگے کے دوران ایک دور ایسا ضرور آتا ہے، جس کا آغاز اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے:
غزل کس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا!
ہماری ثقافتی روایات کی روشنی میں شادی خانہ آبادی لڑکی کے والدین کے دل اور جیب دونوں پر بھاری گزرتی ہے۔ اپنا راج دلارا کتنا ہی بدشکل، بدحال اور تاریک تر مستقبل کا حامل کیوں نہ ہو، ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر میں آئے تو بس چاند جیسی بہو۔
ویسے تو جہیز سنت ہے، لیکن لالچی لڑکے والوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو جہیز کی اشد ضرورت ہے، تو آپ لڑکی کا ہاتھ نہیں، زکوٰۃ مانگیے۔
ویسے میری ناقص رائے میں جس حساب سے ان دنوں شادیاں ہو رہی ہیں، اس سال کے آخر تک ملک میں مردم شماری کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا۔ اور یوں بھی شادیوں کا مسلسل ہوتے رہنا اچھا ہی ہے۔ آخر تقریب کچھ تو بحر ملاقات چاہیے!