مسیحا دربدر کیوں…
پی ایم ڈی سی کو اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی
پاکستان سے ہر سال سینکڑوں طلبہ چین، کیوبا اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں ڈاکٹر بننے جاتے اور واپس آتے ہیں، لیکن جانے والوں کے لیے کوئی مناسب رہنمائی ہے نہ آنے والوں کے لیے کوئی موثر انتظام کہ وہ واپس آ کر باعزت طریقے سے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
سب سے پہلے اسٹڈی گائیڈ ایجنٹ مختلف حیلوں بہانوں سے کم خرچ کے سبز باغ دکھا کر پیسے بٹورتے ہیں اور بہت سی خفیہ مدات کا طالب علم کو اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ یونیورسٹی پہنچ چکا ہوتا ہے اور جوابی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ پانچ سال بعد وطن واپس آ کر ایک سال ہسپتال میں کام (انٹرن شپ) کرنا پڑتا ہے۔
جس کے بعد یونیورسٹی ڈگری جاری کرتی ہے۔ ڈگری ملنے کے بعد پی ایم ڈی سی (Pakistan Medical & Dental Council) کے امتحان کے لیے اجازت نامے(eligibility) کا حصول بذاتِ خود ایک مکمل ''خواری پیکج'' ہے۔ تمام ڈاکٹر کاغذات کا دفتر اٹھائے ان کی تصدیق کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذات جمع کرواتے وقت ان پر اعتراض لگا دیا جاتا ہے یا مزید کاغذات تصدیق کے لیے تھما دیئے جاتے ہیں، جو ادارے نے خود ہی ایشو کیے ہوتے ہیں۔
پھر دور دراز سے آئے ڈاکٹرز اسلام آباد کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں اور ہوٹلوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے تین مراحل میں امتحانات لیے جاتے ہیں، جنہیں پہلی کوشش میں پاس کرنے کے لیے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، اس مشق کے باعث ایم بی بی ایس کا مکمل دورانیہ پانچ کے بجائے تقریباً آٹھ سال بن جاتا ہے اور اس کے بعد بھی ایک سال بلامعاوضہ ہسپتال میں کام (ہاؤس جاب) کرنا پڑتا ہے۔
یہ تو اْن تیس فیصد خوش نصیبوں کا حال ہے جو پہلی ہی کوشش میں پاس ہو جاتے ہیں بقیہ ستر فیصد میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو امتحان پاس ہی نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ امتحان کا وہ معیار ہے کہ جس کے لیے ایک ڈاکٹر کو بیک وقت تمام علوم کا ماہر ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ہونہار ڈاکٹر محنت کے باوجود امتحان میں رہ جاتے ہیں اور مجبوراً انہیں یہ مقدس پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے یا خاندانی پیشے سے منسلک ہونا پڑتا ہے یا وہ دوسرے ممالک کا رخ کر جاتے ہیں۔
یوں ہر سال ہمارے ملک کا نہ صرف ایک بڑا ٹیلنٹ بلکہ طلبہ کی محنت، وقت اور والدین کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتاہے۔ اس کے ساتھ معاشرہ ایسے قیمتی لوگوں سے محروم ہو جاتا ہے جو آگے چل کر لاکھوں لوگوں کے مسیحا بن سکتے تھے۔
بظاہر یہ امتحان بیرونِ ملک سے آنے والے ڈاکٹروں کی تعلیمی قابلیت جانچنے کا طریقہ ہے اور اس کی اہمیت سے کسی کو انکار بھی نہیں، مگر درحقیقت پی ایم ڈی سی نے اسے کاروبار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور اس کی آڑ میں کچھ دوسرے ہی مقاصد پورے کیے جارہے ہیں۔ امتحان میں ایک خاص تناسب سے زیادہ ڈاکٹروں کو پاس نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے بعد یہ لوگ نوکریوں کا تقاضا کریں گے، جو حکومت کے پاس نہیں ہیں، لہٰذا اس امتحان کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ڈاکٹروں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور انہیں جائز حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
امریکہ، یو کے اور دیگر ممالک میں بھی ایسے امتحان ہوتے ہیں مگر وہاں یہ امتحان ان کے اپنے طلبہ سے بھی لیا جاتا ہے مگر پاکستان میں یہ قانون صرف دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لیے محدود ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے مختلف طریقوں سے ڈاکٹروں کا استحصال جاری ہے۔
17فروری2015 کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو کر مبینہ طور پر ایک نوجوان ڈاکٹر نے اسلام آباد میں خود کشی کر لی۔ یہ ڈاکٹر تین مرتبہ پی ایم ڈی سی پارٹ ون کا امتحان دے چکے تھے مگر اس بار انہیں اجازت نامے (eligibility) کا ایشو بنا کر امتحان دینے سے روک دیا گیا۔ اس نا قابلِ تلافی نقصان کے بعد پوری ڈاکٹر کمیونٹی میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور ہزاروں ڈاکٹروں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں جسکی وجہ سے اکثر نوبت احتجاج اور بعض اوقات خودکشیوں تک جا پہنچتی ہے۔
لہذا اس معاملے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا مستقبل برباد ہونے سے بچایا جاسکے۔ پی ایم ڈی سی کو اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ ادارہ اس امتحان کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنائے۔ اجازت نامے (eligibility) کے حصول کے عمل کو آسان کیا جائے۔ عالمی معیار کے مطابق تعلیم کے دوران امتحان کی اجازت دے کر طلبہ کا قیمتی وقت بچایا جائے۔
صرف اسلام آباد کے بجائے تمام صوبوں میں امتحانی مراکز قائم کیے جائیں تا کہ دور دراز سے آنے والوں کو آسانی ہو اور امتحان اسی سطح کا لیا جائے جس کی ایک ایم بی بی ایس گریجوایٹ سے توقع کی جا سکتی ہے۔ بیرون ملک جانے سے پہلے سکروٹنی کا موثر نظام بنایا جائے۔ طلبہ کو مختلف سٹڈی ایجنٹوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے اس پورے شعبے کو حکومتی تحویل میں لے کر ریگولرائز کیا جائے۔
انٹرن شپ کے لیے اْن پر سرکاری ہسپتالوں میں بلاجواز پابندیاں ختم کی جائیں اور ان کو پاکستان کے نظامِ صحت کے مطابق بنانے کے لیے ریفریشر کورسزکرائے جائیں اور امتحانات پاس کر لینے کے بعد ان کے لیے بامعاوضہ ہاؤس جاب کا بندوبست کیا جائے تاکہ یہ تمام لوگ پوری یکسوئی سے قوم کی خدمت کر سکیں اور قوم کے مسیحا دربدر اور بے روزگار نہ پھریں۔
ان تجاویز پہ عمل کر کے ملک کا ایک بڑا ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، ہزاروں گھرانوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور ملک بھر میں مریضوں کو عطائیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کی بجائے قابل ڈاکٹر فراہم ہو سکتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور ان کے مسائل کا حل ہماری قومی ضرورت اور ذمہ داری ہے۔
سب سے پہلے اسٹڈی گائیڈ ایجنٹ مختلف حیلوں بہانوں سے کم خرچ کے سبز باغ دکھا کر پیسے بٹورتے ہیں اور بہت سی خفیہ مدات کا طالب علم کو اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ یونیورسٹی پہنچ چکا ہوتا ہے اور جوابی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ پانچ سال بعد وطن واپس آ کر ایک سال ہسپتال میں کام (انٹرن شپ) کرنا پڑتا ہے۔
جس کے بعد یونیورسٹی ڈگری جاری کرتی ہے۔ ڈگری ملنے کے بعد پی ایم ڈی سی (Pakistan Medical & Dental Council) کے امتحان کے لیے اجازت نامے(eligibility) کا حصول بذاتِ خود ایک مکمل ''خواری پیکج'' ہے۔ تمام ڈاکٹر کاغذات کا دفتر اٹھائے ان کی تصدیق کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذات جمع کرواتے وقت ان پر اعتراض لگا دیا جاتا ہے یا مزید کاغذات تصدیق کے لیے تھما دیئے جاتے ہیں، جو ادارے نے خود ہی ایشو کیے ہوتے ہیں۔
پھر دور دراز سے آئے ڈاکٹرز اسلام آباد کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں اور ہوٹلوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے تین مراحل میں امتحانات لیے جاتے ہیں، جنہیں پہلی کوشش میں پاس کرنے کے لیے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، اس مشق کے باعث ایم بی بی ایس کا مکمل دورانیہ پانچ کے بجائے تقریباً آٹھ سال بن جاتا ہے اور اس کے بعد بھی ایک سال بلامعاوضہ ہسپتال میں کام (ہاؤس جاب) کرنا پڑتا ہے۔
یہ تو اْن تیس فیصد خوش نصیبوں کا حال ہے جو پہلی ہی کوشش میں پاس ہو جاتے ہیں بقیہ ستر فیصد میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو امتحان پاس ہی نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ امتحان کا وہ معیار ہے کہ جس کے لیے ایک ڈاکٹر کو بیک وقت تمام علوم کا ماہر ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ہونہار ڈاکٹر محنت کے باوجود امتحان میں رہ جاتے ہیں اور مجبوراً انہیں یہ مقدس پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے یا خاندانی پیشے سے منسلک ہونا پڑتا ہے یا وہ دوسرے ممالک کا رخ کر جاتے ہیں۔
یوں ہر سال ہمارے ملک کا نہ صرف ایک بڑا ٹیلنٹ بلکہ طلبہ کی محنت، وقت اور والدین کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتاہے۔ اس کے ساتھ معاشرہ ایسے قیمتی لوگوں سے محروم ہو جاتا ہے جو آگے چل کر لاکھوں لوگوں کے مسیحا بن سکتے تھے۔
بظاہر یہ امتحان بیرونِ ملک سے آنے والے ڈاکٹروں کی تعلیمی قابلیت جانچنے کا طریقہ ہے اور اس کی اہمیت سے کسی کو انکار بھی نہیں، مگر درحقیقت پی ایم ڈی سی نے اسے کاروبار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور اس کی آڑ میں کچھ دوسرے ہی مقاصد پورے کیے جارہے ہیں۔ امتحان میں ایک خاص تناسب سے زیادہ ڈاکٹروں کو پاس نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے بعد یہ لوگ نوکریوں کا تقاضا کریں گے، جو حکومت کے پاس نہیں ہیں، لہٰذا اس امتحان کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ڈاکٹروں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور انہیں جائز حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
امریکہ، یو کے اور دیگر ممالک میں بھی ایسے امتحان ہوتے ہیں مگر وہاں یہ امتحان ان کے اپنے طلبہ سے بھی لیا جاتا ہے مگر پاکستان میں یہ قانون صرف دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لیے محدود ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے مختلف طریقوں سے ڈاکٹروں کا استحصال جاری ہے۔
17فروری2015 کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو کر مبینہ طور پر ایک نوجوان ڈاکٹر نے اسلام آباد میں خود کشی کر لی۔ یہ ڈاکٹر تین مرتبہ پی ایم ڈی سی پارٹ ون کا امتحان دے چکے تھے مگر اس بار انہیں اجازت نامے (eligibility) کا ایشو بنا کر امتحان دینے سے روک دیا گیا۔ اس نا قابلِ تلافی نقصان کے بعد پوری ڈاکٹر کمیونٹی میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور ہزاروں ڈاکٹروں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں جسکی وجہ سے اکثر نوبت احتجاج اور بعض اوقات خودکشیوں تک جا پہنچتی ہے۔
لہذا اس معاملے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا مستقبل برباد ہونے سے بچایا جاسکے۔ پی ایم ڈی سی کو اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ ادارہ اس امتحان کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنائے۔ اجازت نامے (eligibility) کے حصول کے عمل کو آسان کیا جائے۔ عالمی معیار کے مطابق تعلیم کے دوران امتحان کی اجازت دے کر طلبہ کا قیمتی وقت بچایا جائے۔
صرف اسلام آباد کے بجائے تمام صوبوں میں امتحانی مراکز قائم کیے جائیں تا کہ دور دراز سے آنے والوں کو آسانی ہو اور امتحان اسی سطح کا لیا جائے جس کی ایک ایم بی بی ایس گریجوایٹ سے توقع کی جا سکتی ہے۔ بیرون ملک جانے سے پہلے سکروٹنی کا موثر نظام بنایا جائے۔ طلبہ کو مختلف سٹڈی ایجنٹوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے اس پورے شعبے کو حکومتی تحویل میں لے کر ریگولرائز کیا جائے۔
انٹرن شپ کے لیے اْن پر سرکاری ہسپتالوں میں بلاجواز پابندیاں ختم کی جائیں اور ان کو پاکستان کے نظامِ صحت کے مطابق بنانے کے لیے ریفریشر کورسزکرائے جائیں اور امتحانات پاس کر لینے کے بعد ان کے لیے بامعاوضہ ہاؤس جاب کا بندوبست کیا جائے تاکہ یہ تمام لوگ پوری یکسوئی سے قوم کی خدمت کر سکیں اور قوم کے مسیحا دربدر اور بے روزگار نہ پھریں۔
ان تجاویز پہ عمل کر کے ملک کا ایک بڑا ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، ہزاروں گھرانوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور ملک بھر میں مریضوں کو عطائیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کی بجائے قابل ڈاکٹر فراہم ہو سکتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور ان کے مسائل کا حل ہماری قومی ضرورت اور ذمہ داری ہے۔