کیا کھویا کیا پایا
زندہ قومیں اپنی تاریخ کا مختلف مواقع پر جائزہ لیتی رہتی ہیں، تا کہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا انداز ہو سکے،
آج قرارداد لاہور کو منظور ہوئے 75 برس بیت گئے۔ یہ وہی قرارداد تھی، جس کی منظوری کے 7 سال اور پانچ ماہ بعد پاکستان وجود میں آیا۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ کا مختلف مواقع پر جائزہ لیتی رہتی ہیں، تا کہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا انداز ہو سکے، جو ان سے کہیں دانستہ اور کہیں نادانستہ سرزد ہوئیں۔ مگر پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ مگر پھر بھی اس قرارداد کی منظوری کی پلاٹینم جوبلی کے موقع پر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس قرارداد کے نتیجے میں قائم ہونے والا ملک کس حد تک اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہے؟ اور کہاں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا؟ آیا اس قرارداد میں کچھ اسقام تھے؟ یا اس پر عمل درآمد صحیح نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بانی پاکستان کے علاوہ دیگر مسلم رہنماؤں اور اکابرین کا موقف کیا تھا اور وہ کس حد تک غلط یا درست ثابت ہوا؟
آج قرارداد پاکستان کی پلاٹینم جوبلی کے موقع پر پاکستان کی تاریخ کے 68 برسوں کا جائزہ لیں تو بہت سے تلخ و شیریں حقائق اور چشم کشا انکشافات سامنے آتے ہیں۔ تقسیم ہند کے سوال پر مسلمان علما، دانشور اور سیاسی زعما فکری طور پر تقسیم ہو گئے تھے۔ جید علمائے دین اور سیاسی و سماجی مفکرین اور مدبرین کی ایک نمایاں تعداد مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالف تھی، خاص طور پر جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی سمیت دیگر کئی مذہبی و سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں تقسیم ہند کی مخالف تھیں۔ وہ انگریز کے جانے کے بعد متحدہ ہندوستان میں اسلامی تشخص کی بقا کے لیے اجتماعی جدوجہد کی حامی تھیں۔ جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی مذہب کی بنیاد پر قومیت کے تشخص کو خطرناک تصور کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ اس طرح مذہب پیچھے رہ جائے گا اور مذہبیت (Religiosity) معاشرے پر حاوی آ جائے گی، جس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
کئی جید علما اور سیاسی مدبرین نئے ملک کے حوالے سے مختلف نوعیت کے خدشات کا اظہار بھی کر رہے تھے، خاص طور پر مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اس خطے سے استعماریت کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا، بلکہ استعماری قوتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گی، جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس خطے کو استعمال کرتی رہیں گی۔ انھیں یہ بھی خدشہ تھا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں صرف مسلمان تقسیم ہوں گے، جو ان کی سیاسی و سماجی قوت کو کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔ انھیں یہ بھی خدشہ تھا، جو سو فیصد درست ثابت ہوا کہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے جانے والے مسلمان پاکستانی معاشرے میں Adjust نہیں ہو پائیں گے۔
ان تمام نقطہ ہائے نظر کے باوجود مسلمانان ہند کی اجتماعی دانش نے ایک علیحدہ ملک کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے جید علما اور مذہبی اکابرین کے بجائے جدید تعلیم یافتہ اور عصری طرز حیات رکھنے والے وکیل محمد علی جناح کو اپنا رہبر بنایا۔ قائداعظم ایک لبرل، سیکولر اور آزاد خیال شخصیت کے مالک تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششوں پر میڈم سروجنی نائیڈو نے انھیں Ambassador of Hindu-Muslim Unity کا خطاب دیا تھا۔ وہ آزادیِ صحافت کے بھی حامی تھے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بمبئی کرانیکل پر مہاراشٹر حکومت کی جانب سے پابندی لگائی گئی تو انھوں نے اس کا مقدمہ لڑا۔ اور جب بات نہ بن سکی تو اس کے بورڈ آف مینجمنٹ سے مستعفی ہو گئے۔ اسی طرح وہ کم سنی کی شادی کے مخالف تھے اور اس کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی۔ انھوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ بنیاد پرست مسلمان اس عمل پر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ لہٰذا ایک ایسے شخص سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ اپنے ہاتھوں قائم کی جانے والی نئی ریاست کی بنیاد تھیوکریسی پر استوار کرے گا مگر افسوس کہ ان کی رحلت کے بعد ان کی سوچ کو طاق نسیاں کر دیا گیا۔
23 مارچ 1940ء کو جب لاہور کے مقام پر شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی، اس زمانے میں بنگالی نوجوان اپنے وطن کی آزادی کے لیے خاصے متحرک اور فعال تھے، انھی نوجوانوں میں نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ پرجوش نوجوان شیخ مجیب الرحمان بھی تھا، جو کلکتہ میں زیر تعلیم تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے وطن کی آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کا خواب سجا ہوا تھا۔ اس نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی تعلیم کو خیرباد کہا اور مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد کی کامیابی کے لیے سرگرم ہو گیا۔ وہ میلوں اپنی سائیکل پر سفر کرتا اور نئے ملک کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ان صوبوں کے عوام اور رہنما خواب خرگوش میں محو تھے، جن پر آج پاکستان قائم ہے۔ جب کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سیاستدان یونینسٹ پارٹی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس نوجوان شیخ مجیب الرحمان کو کیا معلوم تھا کہ جس پاکستان کا خواب اس نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا ہے، وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا، بلکہ خود اس پر غداری کا مقدمہ قائم ہو گا اور اسے مجبوراً اس ملک سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی، جس کے قیام میں اس کی انتھک کاوشوں کا دخل رہا ہے۔
لاہور کے مقام پر 23 مارچ کو پیش کی جانے والی قرارداد کا مقصد مسلم اکثریتی ریاستوں کا کنفیڈریشن قائم کرنا تھا۔ لیکن 1946ء میں کچھ انگریزوں کے حالات، کچھ بدلتے عالمی، آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے قرارداد کے مسودے میں States سے s کاٹ کر State کر دیا۔ اس پر کچھ آوازیں ضرور اٹھیں، لیکن اکثریت اس امید پر خاموش رہی کہ معروضی حالات میں کنفیڈریشن کی جگہ فیڈریشن بھی ایک قابل قبول حل ہو سکتی ہے۔ مگر جب ملک وجود میں آیا تو فیڈریشن کا تصور بھی بہت پیچھے رہ گیا اور ملک کو وحدانی ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ جس میں چوہدری محمد علی سمیت بعض سینئر بیوروکریٹس کا کلیدی کردار تھا۔
برطانوی حکومت کے منظور نظر چوہدری محمد علی پر بابائے قوم نے آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہوئے ان کی خدمات قیام پاکستان سے کافی پہلے ہی حاصل کر لی تھیں۔ انھیں انڈین سول سروس کے مسلمان افسران کو پاکستان کے لیے Opt کرنے پر آمادہ کرنے کی ذمے داری بھی سونپی گئی تھی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ملک جس فکری انتشار اور ترقی معکوس کا شکار ہے، اس کی بنیاد چوہدری محمد علی نے رکھی تھی۔انھیں سمجھنے کے لیے چند کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ معروف دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی سوانح ''گرد راہ''، مسرت حسین زبیری کی سوانح A voyage into History، چوہدری خلیق الزماں کی A Pathway to Pakistan کے علاوہ بے شمار کتب پاکستان کے ابتدائی ایام میں چوہدری محمد علی کے کردار جاننے کے لیے کافی ہیں۔
یہ چوہدری محمد علی تھے، جنہوں نے دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست کو قائداعظم کی تقریر کو سنسر کروایا۔ انھوں نے ہی ان تمام جماعتوں کو پاکستان مدعو کیا جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کرانے میں بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔ قائد کی رحلت کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد تیار کرنے پر اکسایا۔ پھر اس کا ابتدائی مسودہ ایک ڈپٹی سیکریٹری کے ذریعے ملتان روانہ کیا گیا، جہاں ایک سیاسی و مذہبی رہنما قید تھے۔ ان سے اس قرارداد کی نوک پلک درست کرا کے اسے دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے میں پس پردہ کلیدی کردار ادا کیا۔ مغربی پاکستان کی سیاسی قوتوں اور منصوبہ سازوں کو ون یونٹ کے قیام پر آمادہ کیا، تا کہ بنگالیوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کیا جا سکے۔ ترقیوں اور پوسٹنگ میں بنگالیوں کے علاوہ ہجرت کر کے آنے والے بیوروکریٹس کے ساتھ امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی اور اقربا پروری کو پروان چڑھایا۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان کے لیے میلوں سائیکل پر سفر کر کے رائے عامہ ہموار کرنے والا شیخ مجیب الرحمان غدار ٹھہرا۔ سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے والے سائیں جی ایم سید کو ریاست پاکستان نے تاحیات قابل قبول نہیں سمجھا۔ نئے ملک کے عشق میں صدیوں پر محیط اپنی تاریخ کے نقوش چھوڑ کر آنے والوں کی اولاد غدار قرار پائیں۔ جب کہ یونینسٹ پارٹی میں اقتدار کے مزے لوٹنے اور صبح شام انگریز حکام کو سلامی دینے والے محب وطن قرار پائے۔ لہٰذا ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بن جائے، سیاست بندوقوں کے سائے تلے آ جائے اور عوام کی حیثیت غلاموں جیسی ہو جائے، ان کا حق انتخاب مجروح کر دیا جائے، تو سقوط ڈھاکا جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اس سانحہ سے کچھ سیکھنے کے بجائے اپنی سابقہ روش پر قائم رہنے کو اپنا تفاخر سمجھتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید سانحات جنم لیتے ہیں۔
ملک غلام محمد سے تادم تحریر ہر حکمران اس ملک کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتا ہے اور عوام کو اپنا غلام۔ قانون کی دھجیاں بکھیرنا اور دہرے معیارات قائم کرنا اپنی طاقت کا اظہار سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے محمد علی جناح کا پاکستان کہیں کھو چکا ہے۔ جب کہ دنیا کے نقشے پر موجود ریاست موقع پرستوں اور شدت پسندوں کی آماجگاہ بن گئی ہے، جو پوری دنیا میں رسوائی اور ذلت کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ مگر اس کے تشخص میں بہتری لانے اور ایک شائستہ اور مہذب ریاست کی شکل دینے کے بجائے حکمران اشرافیہ چھوٹے صوبوں کے استحصال اور ان کے وسائل پر قبضہ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ کیا اس طرح ملک کے وجود کو بچایا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 68 برس میں کیا کھویا اور کیا پایا؟
آج قرارداد پاکستان کی پلاٹینم جوبلی کے موقع پر پاکستان کی تاریخ کے 68 برسوں کا جائزہ لیں تو بہت سے تلخ و شیریں حقائق اور چشم کشا انکشافات سامنے آتے ہیں۔ تقسیم ہند کے سوال پر مسلمان علما، دانشور اور سیاسی زعما فکری طور پر تقسیم ہو گئے تھے۔ جید علمائے دین اور سیاسی و سماجی مفکرین اور مدبرین کی ایک نمایاں تعداد مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالف تھی، خاص طور پر جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی سمیت دیگر کئی مذہبی و سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں تقسیم ہند کی مخالف تھیں۔ وہ انگریز کے جانے کے بعد متحدہ ہندوستان میں اسلامی تشخص کی بقا کے لیے اجتماعی جدوجہد کی حامی تھیں۔ جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی مذہب کی بنیاد پر قومیت کے تشخص کو خطرناک تصور کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ اس طرح مذہب پیچھے رہ جائے گا اور مذہبیت (Religiosity) معاشرے پر حاوی آ جائے گی، جس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
کئی جید علما اور سیاسی مدبرین نئے ملک کے حوالے سے مختلف نوعیت کے خدشات کا اظہار بھی کر رہے تھے، خاص طور پر مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اس خطے سے استعماریت کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا، بلکہ استعماری قوتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گی، جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس خطے کو استعمال کرتی رہیں گی۔ انھیں یہ بھی خدشہ تھا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں صرف مسلمان تقسیم ہوں گے، جو ان کی سیاسی و سماجی قوت کو کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔ انھیں یہ بھی خدشہ تھا، جو سو فیصد درست ثابت ہوا کہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے جانے والے مسلمان پاکستانی معاشرے میں Adjust نہیں ہو پائیں گے۔
ان تمام نقطہ ہائے نظر کے باوجود مسلمانان ہند کی اجتماعی دانش نے ایک علیحدہ ملک کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے جید علما اور مذہبی اکابرین کے بجائے جدید تعلیم یافتہ اور عصری طرز حیات رکھنے والے وکیل محمد علی جناح کو اپنا رہبر بنایا۔ قائداعظم ایک لبرل، سیکولر اور آزاد خیال شخصیت کے مالک تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششوں پر میڈم سروجنی نائیڈو نے انھیں Ambassador of Hindu-Muslim Unity کا خطاب دیا تھا۔ وہ آزادیِ صحافت کے بھی حامی تھے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بمبئی کرانیکل پر مہاراشٹر حکومت کی جانب سے پابندی لگائی گئی تو انھوں نے اس کا مقدمہ لڑا۔ اور جب بات نہ بن سکی تو اس کے بورڈ آف مینجمنٹ سے مستعفی ہو گئے۔ اسی طرح وہ کم سنی کی شادی کے مخالف تھے اور اس کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی۔ انھوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ بنیاد پرست مسلمان اس عمل پر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ لہٰذا ایک ایسے شخص سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ اپنے ہاتھوں قائم کی جانے والی نئی ریاست کی بنیاد تھیوکریسی پر استوار کرے گا مگر افسوس کہ ان کی رحلت کے بعد ان کی سوچ کو طاق نسیاں کر دیا گیا۔
23 مارچ 1940ء کو جب لاہور کے مقام پر شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی، اس زمانے میں بنگالی نوجوان اپنے وطن کی آزادی کے لیے خاصے متحرک اور فعال تھے، انھی نوجوانوں میں نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ پرجوش نوجوان شیخ مجیب الرحمان بھی تھا، جو کلکتہ میں زیر تعلیم تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے وطن کی آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کا خواب سجا ہوا تھا۔ اس نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی تعلیم کو خیرباد کہا اور مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد کی کامیابی کے لیے سرگرم ہو گیا۔ وہ میلوں اپنی سائیکل پر سفر کرتا اور نئے ملک کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ان صوبوں کے عوام اور رہنما خواب خرگوش میں محو تھے، جن پر آج پاکستان قائم ہے۔ جب کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سیاستدان یونینسٹ پارٹی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس نوجوان شیخ مجیب الرحمان کو کیا معلوم تھا کہ جس پاکستان کا خواب اس نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا ہے، وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا، بلکہ خود اس پر غداری کا مقدمہ قائم ہو گا اور اسے مجبوراً اس ملک سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی، جس کے قیام میں اس کی انتھک کاوشوں کا دخل رہا ہے۔
لاہور کے مقام پر 23 مارچ کو پیش کی جانے والی قرارداد کا مقصد مسلم اکثریتی ریاستوں کا کنفیڈریشن قائم کرنا تھا۔ لیکن 1946ء میں کچھ انگریزوں کے حالات، کچھ بدلتے عالمی، آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے قرارداد کے مسودے میں States سے s کاٹ کر State کر دیا۔ اس پر کچھ آوازیں ضرور اٹھیں، لیکن اکثریت اس امید پر خاموش رہی کہ معروضی حالات میں کنفیڈریشن کی جگہ فیڈریشن بھی ایک قابل قبول حل ہو سکتی ہے۔ مگر جب ملک وجود میں آیا تو فیڈریشن کا تصور بھی بہت پیچھے رہ گیا اور ملک کو وحدانی ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ جس میں چوہدری محمد علی سمیت بعض سینئر بیوروکریٹس کا کلیدی کردار تھا۔
برطانوی حکومت کے منظور نظر چوہدری محمد علی پر بابائے قوم نے آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہوئے ان کی خدمات قیام پاکستان سے کافی پہلے ہی حاصل کر لی تھیں۔ انھیں انڈین سول سروس کے مسلمان افسران کو پاکستان کے لیے Opt کرنے پر آمادہ کرنے کی ذمے داری بھی سونپی گئی تھی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ملک جس فکری انتشار اور ترقی معکوس کا شکار ہے، اس کی بنیاد چوہدری محمد علی نے رکھی تھی۔انھیں سمجھنے کے لیے چند کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ معروف دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی سوانح ''گرد راہ''، مسرت حسین زبیری کی سوانح A voyage into History، چوہدری خلیق الزماں کی A Pathway to Pakistan کے علاوہ بے شمار کتب پاکستان کے ابتدائی ایام میں چوہدری محمد علی کے کردار جاننے کے لیے کافی ہیں۔
یہ چوہدری محمد علی تھے، جنہوں نے دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست کو قائداعظم کی تقریر کو سنسر کروایا۔ انھوں نے ہی ان تمام جماعتوں کو پاکستان مدعو کیا جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کرانے میں بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔ قائد کی رحلت کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد تیار کرنے پر اکسایا۔ پھر اس کا ابتدائی مسودہ ایک ڈپٹی سیکریٹری کے ذریعے ملتان روانہ کیا گیا، جہاں ایک سیاسی و مذہبی رہنما قید تھے۔ ان سے اس قرارداد کی نوک پلک درست کرا کے اسے دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے میں پس پردہ کلیدی کردار ادا کیا۔ مغربی پاکستان کی سیاسی قوتوں اور منصوبہ سازوں کو ون یونٹ کے قیام پر آمادہ کیا، تا کہ بنگالیوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کیا جا سکے۔ ترقیوں اور پوسٹنگ میں بنگالیوں کے علاوہ ہجرت کر کے آنے والے بیوروکریٹس کے ساتھ امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی اور اقربا پروری کو پروان چڑھایا۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان کے لیے میلوں سائیکل پر سفر کر کے رائے عامہ ہموار کرنے والا شیخ مجیب الرحمان غدار ٹھہرا۔ سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے والے سائیں جی ایم سید کو ریاست پاکستان نے تاحیات قابل قبول نہیں سمجھا۔ نئے ملک کے عشق میں صدیوں پر محیط اپنی تاریخ کے نقوش چھوڑ کر آنے والوں کی اولاد غدار قرار پائیں۔ جب کہ یونینسٹ پارٹی میں اقتدار کے مزے لوٹنے اور صبح شام انگریز حکام کو سلامی دینے والے محب وطن قرار پائے۔ لہٰذا ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بن جائے، سیاست بندوقوں کے سائے تلے آ جائے اور عوام کی حیثیت غلاموں جیسی ہو جائے، ان کا حق انتخاب مجروح کر دیا جائے، تو سقوط ڈھاکا جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اس سانحہ سے کچھ سیکھنے کے بجائے اپنی سابقہ روش پر قائم رہنے کو اپنا تفاخر سمجھتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید سانحات جنم لیتے ہیں۔
ملک غلام محمد سے تادم تحریر ہر حکمران اس ملک کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتا ہے اور عوام کو اپنا غلام۔ قانون کی دھجیاں بکھیرنا اور دہرے معیارات قائم کرنا اپنی طاقت کا اظہار سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے محمد علی جناح کا پاکستان کہیں کھو چکا ہے۔ جب کہ دنیا کے نقشے پر موجود ریاست موقع پرستوں اور شدت پسندوں کی آماجگاہ بن گئی ہے، جو پوری دنیا میں رسوائی اور ذلت کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ مگر اس کے تشخص میں بہتری لانے اور ایک شائستہ اور مہذب ریاست کی شکل دینے کے بجائے حکمران اشرافیہ چھوٹے صوبوں کے استحصال اور ان کے وسائل پر قبضہ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ کیا اس طرح ملک کے وجود کو بچایا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 68 برس میں کیا کھویا اور کیا پایا؟