عوام کی ضرورتیں حکومتوں کی ترجیحات
جمہوری نظام میں عوامی مسائل اور حکومتوں کی ترجیحات میں ہمیشہ ایک بڑا تضاد موجود رہتاہے
جمہوری نظام میں عوامی مسائل اور حکومتوں کی ترجیحات میں ہمیشہ ایک بڑا تضاد موجود رہتاہے۔یہ صورت حال عموماً پسماندہ ملکوں میں پائی جاتی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ فرق موجود ہوتا ہے لیکن ان ملکوں میں چونکہ حکمران عوام اور عوامی نمایندوں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اس لیے حکمرانوں کو عوامی ضرورتوں، عوامی مسائل کا خیال رکھنا پڑتا ہے، پسماندہ ملکوں میں منتخب حکومتیں عوامی دباؤ سے آزاد ہوتی ہیں اور قانون ساز ادارے اشرافیہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور مڈل کلاس چونکہ حکومتوں کی کاسہ لیس ہوتی ہے اس لیے ان ملکوں میں عوامی مسائل اور حکومتوں کی ترجیحات میں بڑا تضاد رہتا ہے۔ اشرافیہ چونکہ اربوں میں کھیلتی ہے اس لیے اس کی ترجیحات میں وہ منصوبے شامل ہوتے ہیں جن سے انھیں ''بڑی بڑی توقعات'' ہوتی ہیں۔
ماضی میں جب موٹروے تعمیر ہو رہا تھا تو اس پر ناقدین نے اسی حوالے سے بڑی تنقید کی تھی کہ ایک غریب ترین ملک میں جہاں عوام کی بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کی محتاج ہو وہاں موٹروے پر بھاری سرمایہ کاری سے حکمرانوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ بے چارے عوام تو موٹر وے استعمال کرنے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ موٹر وے جیسی چیزیں اگرچہ قومی مفاد کا ایک حصہ تو ہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں جہاں دیہی علاقے پکی سڑکوں سے محروم ہوں اور اسپتال اور اسکول ان علاقوں میں موجود نہ ہوں اور اگر موجود ہوں بھی تو عوام کی ضرورتوں سے بہت کم ہوں یا ان کا غلط استعمال ہو رہا ہو تو ایسی صورت حال میں ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل موٹر وے کی تعمیر کیا عوام کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتی ہے؟
ہماری دیہی آبادی کی مجبوریوں کا عالم یہ ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں، کسانوں کو اگر سانپ کاٹ لے تو اس کے علاج کے لیے مریض کو کسی بڑے مقام پر لے جانا پڑتا ہے اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اکثر مریضوں کو بیل گاڑیوں میں لے جانا پڑتا ہے اور اس سست رو ٹرانسپورٹ کی وجہ سے اکثر اوقات مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں اور اگر قسمت سے کسی بڑے اسپتال تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں سانپ کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں ہوتی یہی حال دل کے مریضوں کا ہوتا ہے۔
دیہی علاقوں میں چونکہ دل کے امراض کا علاج نہیں ہوتا لہٰذا انھیں بڑے اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے ایسے مریض عموماً راستوں ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ماضی میں لاہور سے اسلام آباد تک بننے والے موٹروے پر اسی لیے سخت تنقید ہوتی رہی کہ اس سے غریب طبقات کو کوئی فائدہ ہوا نہ دیہی علاقوں کے عوام کی لازمی ضرورتیں پوری ہوئیں۔ اس پس منظر میں جب ہم کراچی سے لاہور تک طویل موٹروے کی تعمیر پر نظر ڈالتے ہیں تو ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہزاروں دیہات جو پکی سڑکوں سے محروم ہیں انھیں موٹروے کوئی فائدہ دے سکتا ہے؟
بھارت بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا لیکن وہاں کے حکمرانوں نے جو بڑا کام کیا وہ گاؤں گاؤں تک پکی سڑکیں بنوانا اور گاؤں گاؤں تک بجلی پہنچانا، گاؤں گاؤں میں طبی سہولتیں فراہم کرنا، گاؤں گاؤں میں تعلیمی ادارے قائم کرنا تھا۔ آبادی کے ان بنیادی اور ضروری مسائل کو حل کرنے کے بعد موٹروے جیسے بڑے کاموں کی طرف توجہ دی گئی اس لیے عوام کو کسی موٹروے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر میں ذرا سی بارش ہو جائے تو سارا شہر تالاب کا منظر پیش کرتا ہے، اس بڑے شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں اور شہر کے بیشتر مضافاتی علاقوں کی بستیاں اسٹریٹ لائٹس، سیوریج سسٹم، پکی سڑکوں سے محروم ہیں، یہی حال ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا ہے۔
اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر حکمران طبقہ عوام کے مسائل سے واقف ہوتا ہے اور انھیں حل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے تو پھر اس کی ترجیحات میں عوامی مسائل سر فہرست ہوتے ہیں اس کے بعد وہ ان ضرورتوں کی طرف آتا ہے جو اگرچہ ملکوں کی ترقی کے لیے ناگزیر تو ہوتی ہیں لیکن پہلی ترجیح نہیں ہوتیں، کراچی جیسے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر میں بڑے سرکاری اسپتال صرف تین ہیں جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں مریضوں کا اژدھام ہوتا ہے اور مریضوں کا علاج برائے نام ہوتا ہے، پرائیویٹ اسپتال لوٹ مار کا ذریعے بن جاتے ہیں۔
گردوں، جگر وغیرہ کی بیماریاں ہمارے ملک میں عام ہیں، سندھ کے دیہی علاقوں کے ہزاروں مریض جنھیں ان کے علاقے میں اس مرض کے علاج کی سہولتیں حاصل نہیں وہ کراچی کے واحد اسپتال سول اسپتال آتے ہیں جہاں علاج کی محدود سہولتیں ہیں وہاں اسپتال کے اندر اور اسپتال کے باہر فٹ پاتھوں پر مریض اور ان کے لواحقین ہفتوں بلکہ مہینوں اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے بڑی بڑی خبریں آتی ہیں۔ کیا ہمارا حکمران طبقہ یا ان کے متعلقہ وزرا اس بدترین صورت حال سے واقف نہیں اگر ہیں تو پھر ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے۔
کراچی شہر کے اس ایک ہی مسئلہ کو لے لیں تو ضرورت اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ کراچی کے کم از کم ہر ٹاؤن میں جناح اور سول اسپتال جیسے بڑے اسپتال ہونے چاہئیں۔ لیکن مسئلہ ترجیحات کا ہے، بد قسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں کو ان حوالوں سے مشورے دینے والے طبقات وہ ہیں جو ''ترقیاتی منصوبوں'' میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے لٹیروں کی مشاورت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے حقیقی عوامی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ان مسائل، ان بڑے کاموں کو ترجیح حاصل ہو جاتی ہے جن میں کمائی کے بڑے مواقع حاصل ہوتے ہیں عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں کرپشن کی صورت حال کیسی ہے اس کا اندازہ کراچی پولیس کے لیے خریدی جانے والی ان بکتر بند گاڑیوں کی خریداری سے ہوتا ہے جس کا کیس آج کل اعلیٰ عدالتوں میں چل رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے اداروں میں ایک بکتر بند گاڑی پانچ کروڑ میں دستیاب تھی لیکن اس سستی اور معیاری بکتر بند کو نظر انداز کر کے بیرونی ملک سے وہی گاڑی سترہ کروڑ فی گاڑی کے حساب سے خریدی جا رہی تھی، اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سودا میڈیا میں آ گیا جس کی وجہ سے اس میں کھنڈت پڑگئی۔
یہ سب اسی لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک میں مانیٹرنگ سسٹم سرے سے موجود نہیں حکومتیں ایم این اے، ایم پی اے کو کروڑوں کا جو ترقیاتی فنڈ دیتی ہیں وہ اس لیے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں کہ یہاں کوئی مانیٹرنگ سسٹم سرے سے موجود نہیں، موٹر وے جیسے اربوں، کھربوں کے منصوبے اگر مانیٹرنگ سسٹم سے آزاد ہوں تو ایسے بڑے منصوبوں میں کرپشن کا کیا حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، بات ترجیحات کی بھی ہے، کرپشن سے بچاؤ کی بھی ہے اس کمزوری کی وجہ سے ایسے بڑے منصوبوں کی ماضی میں بھی مخالفت ہوئی، حال میں بھی یہ منصوبے تنقید کی زد میں ہیں۔
ماضی میں جب موٹروے تعمیر ہو رہا تھا تو اس پر ناقدین نے اسی حوالے سے بڑی تنقید کی تھی کہ ایک غریب ترین ملک میں جہاں عوام کی بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کی محتاج ہو وہاں موٹروے پر بھاری سرمایہ کاری سے حکمرانوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ بے چارے عوام تو موٹر وے استعمال کرنے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ موٹر وے جیسی چیزیں اگرچہ قومی مفاد کا ایک حصہ تو ہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں جہاں دیہی علاقے پکی سڑکوں سے محروم ہوں اور اسپتال اور اسکول ان علاقوں میں موجود نہ ہوں اور اگر موجود ہوں بھی تو عوام کی ضرورتوں سے بہت کم ہوں یا ان کا غلط استعمال ہو رہا ہو تو ایسی صورت حال میں ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل موٹر وے کی تعمیر کیا عوام کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتی ہے؟
ہماری دیہی آبادی کی مجبوریوں کا عالم یہ ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں، کسانوں کو اگر سانپ کاٹ لے تو اس کے علاج کے لیے مریض کو کسی بڑے مقام پر لے جانا پڑتا ہے اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اکثر مریضوں کو بیل گاڑیوں میں لے جانا پڑتا ہے اور اس سست رو ٹرانسپورٹ کی وجہ سے اکثر اوقات مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں اور اگر قسمت سے کسی بڑے اسپتال تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں سانپ کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں ہوتی یہی حال دل کے مریضوں کا ہوتا ہے۔
دیہی علاقوں میں چونکہ دل کے امراض کا علاج نہیں ہوتا لہٰذا انھیں بڑے اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے ایسے مریض عموماً راستوں ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ماضی میں لاہور سے اسلام آباد تک بننے والے موٹروے پر اسی لیے سخت تنقید ہوتی رہی کہ اس سے غریب طبقات کو کوئی فائدہ ہوا نہ دیہی علاقوں کے عوام کی لازمی ضرورتیں پوری ہوئیں۔ اس پس منظر میں جب ہم کراچی سے لاہور تک طویل موٹروے کی تعمیر پر نظر ڈالتے ہیں تو ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہزاروں دیہات جو پکی سڑکوں سے محروم ہیں انھیں موٹروے کوئی فائدہ دے سکتا ہے؟
بھارت بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا لیکن وہاں کے حکمرانوں نے جو بڑا کام کیا وہ گاؤں گاؤں تک پکی سڑکیں بنوانا اور گاؤں گاؤں تک بجلی پہنچانا، گاؤں گاؤں میں طبی سہولتیں فراہم کرنا، گاؤں گاؤں میں تعلیمی ادارے قائم کرنا تھا۔ آبادی کے ان بنیادی اور ضروری مسائل کو حل کرنے کے بعد موٹروے جیسے بڑے کاموں کی طرف توجہ دی گئی اس لیے عوام کو کسی موٹروے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر میں ذرا سی بارش ہو جائے تو سارا شہر تالاب کا منظر پیش کرتا ہے، اس بڑے شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں اور شہر کے بیشتر مضافاتی علاقوں کی بستیاں اسٹریٹ لائٹس، سیوریج سسٹم، پکی سڑکوں سے محروم ہیں، یہی حال ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا ہے۔
اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر حکمران طبقہ عوام کے مسائل سے واقف ہوتا ہے اور انھیں حل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے تو پھر اس کی ترجیحات میں عوامی مسائل سر فہرست ہوتے ہیں اس کے بعد وہ ان ضرورتوں کی طرف آتا ہے جو اگرچہ ملکوں کی ترقی کے لیے ناگزیر تو ہوتی ہیں لیکن پہلی ترجیح نہیں ہوتیں، کراچی جیسے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر میں بڑے سرکاری اسپتال صرف تین ہیں جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں مریضوں کا اژدھام ہوتا ہے اور مریضوں کا علاج برائے نام ہوتا ہے، پرائیویٹ اسپتال لوٹ مار کا ذریعے بن جاتے ہیں۔
گردوں، جگر وغیرہ کی بیماریاں ہمارے ملک میں عام ہیں، سندھ کے دیہی علاقوں کے ہزاروں مریض جنھیں ان کے علاقے میں اس مرض کے علاج کی سہولتیں حاصل نہیں وہ کراچی کے واحد اسپتال سول اسپتال آتے ہیں جہاں علاج کی محدود سہولتیں ہیں وہاں اسپتال کے اندر اور اسپتال کے باہر فٹ پاتھوں پر مریض اور ان کے لواحقین ہفتوں بلکہ مہینوں اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے بڑی بڑی خبریں آتی ہیں۔ کیا ہمارا حکمران طبقہ یا ان کے متعلقہ وزرا اس بدترین صورت حال سے واقف نہیں اگر ہیں تو پھر ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے۔
کراچی شہر کے اس ایک ہی مسئلہ کو لے لیں تو ضرورت اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ کراچی کے کم از کم ہر ٹاؤن میں جناح اور سول اسپتال جیسے بڑے اسپتال ہونے چاہئیں۔ لیکن مسئلہ ترجیحات کا ہے، بد قسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں کو ان حوالوں سے مشورے دینے والے طبقات وہ ہیں جو ''ترقیاتی منصوبوں'' میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے لٹیروں کی مشاورت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے حقیقی عوامی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ان مسائل، ان بڑے کاموں کو ترجیح حاصل ہو جاتی ہے جن میں کمائی کے بڑے مواقع حاصل ہوتے ہیں عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں کرپشن کی صورت حال کیسی ہے اس کا اندازہ کراچی پولیس کے لیے خریدی جانے والی ان بکتر بند گاڑیوں کی خریداری سے ہوتا ہے جس کا کیس آج کل اعلیٰ عدالتوں میں چل رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے اداروں میں ایک بکتر بند گاڑی پانچ کروڑ میں دستیاب تھی لیکن اس سستی اور معیاری بکتر بند کو نظر انداز کر کے بیرونی ملک سے وہی گاڑی سترہ کروڑ فی گاڑی کے حساب سے خریدی جا رہی تھی، اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سودا میڈیا میں آ گیا جس کی وجہ سے اس میں کھنڈت پڑگئی۔
یہ سب اسی لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک میں مانیٹرنگ سسٹم سرے سے موجود نہیں حکومتیں ایم این اے، ایم پی اے کو کروڑوں کا جو ترقیاتی فنڈ دیتی ہیں وہ اس لیے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں کہ یہاں کوئی مانیٹرنگ سسٹم سرے سے موجود نہیں، موٹر وے جیسے اربوں، کھربوں کے منصوبے اگر مانیٹرنگ سسٹم سے آزاد ہوں تو ایسے بڑے منصوبوں میں کرپشن کا کیا حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، بات ترجیحات کی بھی ہے، کرپشن سے بچاؤ کی بھی ہے اس کمزوری کی وجہ سے ایسے بڑے منصوبوں کی ماضی میں بھی مخالفت ہوئی، حال میں بھی یہ منصوبے تنقید کی زد میں ہیں۔