سنگاپور کے عظیم رہنما کا انتقال

آنجہانی لی کوان نےسنگاپورکو کرپشن فری اور رنگ ونسل سےبالاترخوبصورت اورخوب سیرت ملک بنانےکے لیےغیرمعمولی کردارادا کیا۔

عالمی سطح پر سربراہان مملکت و حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس عظیم رہنما کو زبردست خوج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

لاہور:
سنگاپور کے بانی ، معمار قوم اور عالمی شہرت یافتہ اقتصادی لیجنڈ سابق وزیراعظم لی کوان یو پیر کو انتقال کرگئے۔ان کی عمر 90 سال تھی، وہ مشرق قریب و بعید سمیت تعمیر ملک وقوم کا ایک ایسا ورثہ چھوڑ گئے کہ دنیا مدتوں ان کی بیش بہا خدمات، سیاسی و سماجی اصلاحات اور اچھی طرز حکمرانی کے گن گاتی رہے گی۔آنجہانی لی کو ان کی موت سے ایک عہد کا خاتمہ اور حکومت و سماجی تشکیل و تعمیر کا ایک شاندار باب بند ہوا، عالمی سطح پر سربراہان مملکت و حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس عظیم رہنما کو زبردست خوج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہہ لی کوان ایک عظیم مدبر تھے۔ انھوں نے 1965ء میں حصول آزادی کے بعد اپنے ملک کی ترقی اور تعمیر نو کا بے مثال عملی ایجنڈا تیار کیا۔ 2005 ء میں ٹائم میگزین نے ان پر ایک خصوصی ایڈیشن شایع کیا جس میں لی کوان نے چین کے عروج، امریکی کردار، سنگاپور کے مستقبل اور عقیدہ پر سیر حاصل بحث کی۔ اپنے تیس سالہ سیاسی ، معاشی اور ریاستی و حکومتی امور کی نگہبانی اور عالمی صورتحال کو انھوں نے 700 صفحات کی یادگارکتاب میں سمو دیا ہے۔ وہ پاکستان اور بھارت کی اقتصادی ترقی، خطے میں غربت اور سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے لاتعلق نہیں رہے۔پاکستان کی اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے جنرل ضیاء، بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، اور نواز شریف نے ان سے کئی ملاقاتیں کیں، پاکستان کی معاونت اور پاکستان کی قومی تعمیر میں عملی شمولیت اور رہنمائی کے لیے وہ کئی بار پاکستان آئے۔


پاکستانی قوم کی محنت و مشقت اور استعداد وصلاحیتوں کے معترف تھے، کئی شعبوں میں لی کوان نے بنیادی اصلاحات کی نشاندہی کی۔ ان کے اقوال زریں کو سنگاپور کے عوام اپنا عظیم ورثہ قرار دیتے ہیں۔ ایک بار انھوں نے کہا کہ ''اگر بستر مرگ سے لوگ مجھے قبر میں اتار رہے ہوں اور اسی دوران مجھے خیال آجائے کہ کوئی غلطی ہو رہی ہے تو میں جھٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوجاؤں گا۔'' آنجہانی لی کوان نے سنگاپور کو کرپشن فری اور رنگ ونسل سے بالاتر خوبصورت اور خوب سیرت ملک بنانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ ان کا عملی ورثہ تیسری دنیا کے کرپٹ ، بے سمت اور خود پسند طرز حکمرانی کو بدلنے کا ایک روشن سبق ہے۔


Load Next Story