یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے

وطن کا کیا حال ہوگیا ہے، ٹھیک ہے مسائل تھے اور آج بھی ہیں مگر جینے کا حق بھی چھن جائے گا!

DUBAI:
وطن کا کیا حال ہوگیا ہے، ٹھیک ہے مسائل تھے اور آج بھی ہیں مگر جینے کا حق بھی چھن جائے گا! یہ تو کبھی نہ سوچا تھا، غریب عوام اپنی بستیوں میں روکھی سوکھی کھاکر جی رہے تھے، پتا نہ تھا کہ اپنی غریب بستیوں کو نشانہ بنایاجائے گا، آگ و خون میں نہلایا جائے گا۔

کراچی شہر کی مضافاتی بستیاں ہی اجاڑی گئیں، انھی میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی، بم دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، سب کچھ انھی غریب بستیوں میں کیا گیا، علی گڑھ کالونی، اورنگی ٹاؤن، بنارس کالونی، پٹھان کالونی، شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، نیو کراچی، لیاری، رنچھوڑ لائن، لائنز ایریا، کیماڑی، عیسیٰ نگری، محمود آباد یہ وہ علاقے ہیں جہاں غریب دہاڑی دار مزدور، رکشہ ٹیکسی چلانے والے، ریڑھی لگانے والے اپنے ایلے میلے محلوں میں رہتے ہیں، کراچی کے گزرے تیس سال کا احوال دیکھ لو آگ و خون لاشیں، جنازے دوڑتی ایمبولینس، بم دھماکے، فضا میں اڑتے انسانی اعضا، چیخ و پکار آہ و بکا، آنسو، آہیں سب کچھ یہیں ملے گا اور افسوس صد افسوس کہ بربادی میں، بقول جالب:

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

اور ''کیا لاہور کی بات بتائیں شہر کراچی والو'' لاہور میں بھی یوحنا آباد کی غریب بستی ہی کو پھر نشانہ بنایاگیا، دو عبادت گاہیں (گرجاگھر) خودکش بمباروں کے دھماکوں سے لرز گئیں، دھماکوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دی، 18 افراد مارے گئے اور تقریباً100 زخمی ہوئے اس سے پہلے بھی توہین رسالتؐ کا کہہ کر عیسائی بستی پر حملہ ہوا تھا ، حالیہ واقعہ یوحنا آباد کی ذمے داری طالبان نے قبول کرلی ہے، ابھی تو پتوکی کا سانحہ لوگ نہیں بھولے تھے جہاں نوجوان میاں بیوی کو اینٹوں کے دہکتے بھٹے میں زندہ ڈال کر بھسم کردیاگیا تھا۔ پشاور میں اسکول کے معصوم بچوں پر ''سورماؤں'' کا حملہ۔ یہ کیا جواں مردی ہے، جنگ میں جو مقابل ہیں انھیں نشانہ بناؤ ان سے لڑو، ان کا مقابلہ کرو، معصوم نہتے طلبا سے تمہارا کیا مقابلہ!

کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے اس قبیلے میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں آنسو، آہیں نہ ہوں، جو اپنے پیاروں کی قبروں پر نہ جاتے ہوں، یہ ہزارہ والے بھی غریب محنت کش لوگ ہیں، اس لمحے مجھے ریاض شاہد کے بھائی فیاض شیخ یاد آگئے ہیں، مرحوم فلمساز بھی تھے، انھوں نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا، یہ جنرل ضیا کا دور حکومت تھا، فیاض شیخ کی بھی جالب صاحب سے بڑی دوستی تھی، انھوں نے جالب صاحب سے پوچھے بغیر اپنی نئی فلم ''زخمی'' کا اشتہار اخبارات میں شایع کردیا اور جلی حروف میں لکھا ''حبیب جالب پہلی بار شاعر کا کردار ادا کریں گے'' جالب صاحب نے سنا تو وہ فیاض شیخ سے ملے اور خفا ہوتے ہوئے کہا ''میں کوئی اداکار ہوں؟ تم اعلان کو واپس لو'' خیر پھر شاعر کا کردار ادا کار طارق عزیز نے ادا کیا اور جالب صاحب کا لکھا ہوا گیت جسے گلوکار مہدی حسن نے گایاتھا۔ موسیقار اے حمید تھے۔ یہ گیت طارق عزیز پر فلمایاگیا، گیت سنیے:

اس دور کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
شکوے ترے اے دیدۂ ترکیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مرکیوں نہیں جاتے
دھرتی پہ جو ہیں بوجھ اتر کیوں نہیں جاتے

گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے

ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں، دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے


کراچی میں انڈر پاسز بن رہے ہیں، لمبے لمبے پل بن رہے ہیں۔ 8 لاکھ افراد والی مسجد بن رہی ہے، جدید ترین اور مہنگی ترین آبادیاں بن رہی ہیں، سندھ اسمبلی کی نئی عمارت بھی بن گئی، جہاں کے مکین اپنی اپنی راجدھانیوں کے نام کی نمبر پلیٹ لگائے، خوف و دہشت کی علامت گاڑیوں میں بیٹھ کر آتے ہیں، انھیں کسی ایکسائز کی نمبر پلیٹ کی ضرورت نہیں ''بس نام ہی کافی ہے''۔

لاہور میں بھی جدید سڑکوں، راستوں کی تعمیرات جاری ہیں، اسلام آباد، راولپنڈی میں بھی سیمنٹ، لوہا، پتھر پر بڑا زور ہے، یہ سب کس کے لیے ہورہا ہے، غریب کو توختم کیا جارہا ہے، بستیوں کو اجاڑا جارہا ہے، کیا حکمران اس طرح غربت ختم کررہے ہیں؟

تمام فورسز وزیراعظم، صدر، مرکزی صوبائی وزراء، مشیران کرام، اعلیٰ سرکاری افسران کی حفاظت پر مامور ہیں اور عام آدمی کو حالات کے سپرد کردیاگیا ہے، یہ حکمران جب شہر میں آتے اور جاتے ہیں تو ان کی ''آنیاں اور جانیاں'' دیکھنے والی ہوتی ہیں، گھنٹوں پہلے سڑکیں بند اور سنسان کردی جاتی ہیں، کسی مریض کو اسپتال پہنچنا ہے وہ جئے یا مرے ان حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں ''شاہی قافلہ'' جب گزرتا ہے اور کالی شاہ کاروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا ہے، جدید ترین اسلحہ سے لیس گارڈز کی گاڑیاں، یقین نہیں آتا اور اپنا سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ کیا ان حکمرانوں کو عوام نے اس لیے ووٹ دیے تھے؟

یہ مناظر کب بدلیںگے، ہماری آرزوؤں، تمناؤں کے قاتل کب بدلیںگے؟ کچھ پتا نہیں، عوام فقط تقریریں سنتے آرہے ہیں اور تقریریں ہی سنائی جارہی ہیں۔

یہ تقریری مقابلہ کب ختم ہوگا؟ عوام تو حیران و ششدر دیکھ رہے ہیں، کیا ہو رہا ہے؟ شرجیل انعام میمن نے جھاڑو پھیرنا شروع کردیا ہے، کہتے ہیں صفائی کرکے جھاڑو چھوڑوںگا، ایک سال تک شرجیل صاحب کراچی میں جھاڑو پھیریںگے۔ لیجیے جہاں اتنے بہت سارے سال گزرگئے ایک سال اور سہی، دیکھتے ہیں سال بعد کیا منظر ہوگا۔ صاف ستھرا گندگی سے پاک کراچی یا محض لفاظی!

کلکے اخبار میں خبر ہے ''کراچی کے علاقے ناظم آباد میں چار ڈاکو لوٹ مار میں مصروف تھے کہ لوگوں نے ان پر ہلہ بول دیا، دو ڈاکوؤں کو لوگوں نے مار مار کر ختم کردیا اور بقیہ دو شدید زخمی حالت میں پولیس لے گئی۔ کبھی کبھی شعر کہہ لیتا ہوں:

یہ کس منزل پہ ہم آئے ہوئے ہیں
کہ مہر و ماہ گہنائے ہوئے ہیں

آگے آگے مزید ہونے کے بارے میں لوگ باتیں کررہے ہیں۔ کس کو کہوں! کون سننے والا ہے، لیجیے امید فاضلی صاحب کا شعر آگیا، حاضر ہے:

میں کس سے بات کروں کون سننے والا ہے
یہاں تو جھوٹی اناؤں نے قد نکالا ہے

چلیے یہیں بات ختم کرتا ہوں پھر کسی دکھ پر اظہار تک اجازت، جب کالم شروع کیا تھا تو عنوان جالب کا یہ مصرع تھا:

کہاں ہے عشق تو شکوہ نہ کر زمانے کا

کالم لکھ چکا تو عنوان بدل دیا کیوں کہ بات دوسری جانب بڑھ گئی۔


Load Next Story