ہمتِ مرداں ۔۔۔۔۔
ہیژا اور وینژی کے مطابق دس برس کے عرصے میں وہ دس ہزار سے زائد درخت لگاچکے ہیں۔
بچپن میں اندھے اور لنگڑے کی کہانی پڑھی تھی جو گاؤں میں آگ لگ جانے کے بعد ایک دوسرے کی مدد سے جان بچانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
کہانی میں اندھے اور لنگڑے کو جان بچانے کی فکر ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ مگر چین میں ایک نابینا اور ایک معذور کو فکرمعاش نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے پر مجبور کردیا۔ نابینا، جیا ہیژا اوردونوں بازوؤں سے محروم جیا وینژی کی جوڑی پچھلے ایک عشرے سے شجرکاری میں مصروف ہے۔ دونوں دوست اب تک دس ہزار سے زائد پودے لگا چکے ہیں۔دریا کے ساحل کے کنارے کنارے تین ہیکٹر رقبے پر ان کے لگائے گئے بیشتر پودے درخت بن چکے ہیں۔
جیاہیژا اور جیا وینژی بھی ایک گاؤں کے باشندے ہیں۔ ان کا گاؤں دریا سے کچھ دوری پر آباد ہے۔ سیلاب کی وجہ سے جب بھی دریا بپھرتا تو گاؤں میں تباہی آجاتی۔ جیا اور وینژی کو معلوم تھا سیلاب کی تباہ کاریوں کو محدود کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگاکر دریا کے کنارے کو مضبوط کیا جائے۔ وہ گاؤں کے باسیوں کی توجہ اس جانب دلاتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ لوگوں کا کہنا تھا یہ حکومت کا کام ہے۔
بینائی اور بازوؤں سے محروم ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کام نہیں مل سکا تھا۔ لہٰذا گزربسر بھی مشکل سے ہورہی تھی۔ ایک روز دونوں دوست اپنے حالات پر غور کررہے تھے۔ جیا ہیژا نے اپنے دوست سے کہا وہ الگ الگ کوئی کام نہیں کرسکتے، کیوں نہ کوئی ایسا کام تلاش کیا جائے جسے وہ دونوں مل کر کرسکیں۔ خاصے غوروخوض اور چند لوگوں سے مشورے کے بعد انھوں نے بالآخر شجرکاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں ان کی اپنی غرض کے ساتھ ساتھ نیکی کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔ گاؤں نے لوگوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ گزراوقات کے لیے انھیں کچھ نہ کچھ دے دیا کریں گے۔
دونوں دوستوں نے مقامی حکومت سے دریا کے کنارے تین ہیکٹر زمین پر لیز پر حاصل کی۔ ان کے پاس پنیری (چھوٹے پودے) خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ لہٰذا دریا کے دوسرے کنارے پر واقع جنگل سے پودے لانے کا ارادہ کیا۔ اب یہ معمول بن گیا کہ جیا ہیژا اور جیا وینژی گھر سے روانہ ہوتے، اس طرح کہ وینژی کی قمیص کا جھولتا ہوا بازو ہیژا کے ہاتھ میں ہوتا۔
دریا پار کرکے وہ دوسرے کنارے پر پہنچتے۔ ہیژا کے ہاتھ میں دو لاٹھیاں ہوتیں جب کہ وینژی کے ٹنڈ مُنڈ کاندھے سے جھولتی ٹوکری میں چھوٹی سے بالٹی اور پودے لگانے کے دیگر اوزار ہوتے۔ وہ دریا پار سے پودے لے کر آتے اور ایک دوسرے کی مدد سے اپنی زمین میں کاشت کردیتے۔ ہیژا، وینژی کو ہدایت دیتا جاتا اور وہ اس کے مطابق ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے پودے زمین میں لگاتا۔ اس دوران ہیژا اپنی ٹانگوں سے وینژی کی مدد بھی کرتا۔
ہیژا اور وینژی کے مطابق دس برس کے عرصے میں وہ دس ہزار سے زائد درخت لگاچکے ہیں۔ ان کے دعوے کی تصدیق دریا کے کنارے ایستادہ درختوں اور پودوں سے بھی ہوتی ہے۔ اندھے اور معذور دوست کا کہنا ہے اگر حکومت ان کی مدد کرے تو وہ اس منصوبے کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔
کہانی میں اندھے اور لنگڑے کو جان بچانے کی فکر ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ مگر چین میں ایک نابینا اور ایک معذور کو فکرمعاش نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے پر مجبور کردیا۔ نابینا، جیا ہیژا اوردونوں بازوؤں سے محروم جیا وینژی کی جوڑی پچھلے ایک عشرے سے شجرکاری میں مصروف ہے۔ دونوں دوست اب تک دس ہزار سے زائد پودے لگا چکے ہیں۔دریا کے ساحل کے کنارے کنارے تین ہیکٹر رقبے پر ان کے لگائے گئے بیشتر پودے درخت بن چکے ہیں۔
جیاہیژا اور جیا وینژی بھی ایک گاؤں کے باشندے ہیں۔ ان کا گاؤں دریا سے کچھ دوری پر آباد ہے۔ سیلاب کی وجہ سے جب بھی دریا بپھرتا تو گاؤں میں تباہی آجاتی۔ جیا اور وینژی کو معلوم تھا سیلاب کی تباہ کاریوں کو محدود کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگاکر دریا کے کنارے کو مضبوط کیا جائے۔ وہ گاؤں کے باسیوں کی توجہ اس جانب دلاتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ لوگوں کا کہنا تھا یہ حکومت کا کام ہے۔
بینائی اور بازوؤں سے محروم ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کام نہیں مل سکا تھا۔ لہٰذا گزربسر بھی مشکل سے ہورہی تھی۔ ایک روز دونوں دوست اپنے حالات پر غور کررہے تھے۔ جیا ہیژا نے اپنے دوست سے کہا وہ الگ الگ کوئی کام نہیں کرسکتے، کیوں نہ کوئی ایسا کام تلاش کیا جائے جسے وہ دونوں مل کر کرسکیں۔ خاصے غوروخوض اور چند لوگوں سے مشورے کے بعد انھوں نے بالآخر شجرکاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں ان کی اپنی غرض کے ساتھ ساتھ نیکی کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔ گاؤں نے لوگوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ گزراوقات کے لیے انھیں کچھ نہ کچھ دے دیا کریں گے۔
دونوں دوستوں نے مقامی حکومت سے دریا کے کنارے تین ہیکٹر زمین پر لیز پر حاصل کی۔ ان کے پاس پنیری (چھوٹے پودے) خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ لہٰذا دریا کے دوسرے کنارے پر واقع جنگل سے پودے لانے کا ارادہ کیا۔ اب یہ معمول بن گیا کہ جیا ہیژا اور جیا وینژی گھر سے روانہ ہوتے، اس طرح کہ وینژی کی قمیص کا جھولتا ہوا بازو ہیژا کے ہاتھ میں ہوتا۔
دریا پار کرکے وہ دوسرے کنارے پر پہنچتے۔ ہیژا کے ہاتھ میں دو لاٹھیاں ہوتیں جب کہ وینژی کے ٹنڈ مُنڈ کاندھے سے جھولتی ٹوکری میں چھوٹی سے بالٹی اور پودے لگانے کے دیگر اوزار ہوتے۔ وہ دریا پار سے پودے لے کر آتے اور ایک دوسرے کی مدد سے اپنی زمین میں کاشت کردیتے۔ ہیژا، وینژی کو ہدایت دیتا جاتا اور وہ اس کے مطابق ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے پودے زمین میں لگاتا۔ اس دوران ہیژا اپنی ٹانگوں سے وینژی کی مدد بھی کرتا۔
ہیژا اور وینژی کے مطابق دس برس کے عرصے میں وہ دس ہزار سے زائد درخت لگاچکے ہیں۔ ان کے دعوے کی تصدیق دریا کے کنارے ایستادہ درختوں اور پودوں سے بھی ہوتی ہے۔ اندھے اور معذور دوست کا کہنا ہے اگر حکومت ان کی مدد کرے تو وہ اس منصوبے کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔