دہکتی سوئیوں سے مصوّری

جیوآن کینوس پر نقطے لگانے کے بجائے اس میں سوراخ کرکے منظر تخلیق کرتا ہے۔

کورین فن کار کینوس کو جَلاکر منظر اُبھارتا ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
مصور اپنے تخیل کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے عام طور پر برش اور رنگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ برش کے ذریعے وہ کینوس پر رنگ بکھیر کر پردۂ تصور پر موجود منظر کو وجود میں لے آتے ہیں۔

کچھ تخلیق کار اس مقصد کے لیے منفرد اور انوکھے طریقوں سے کام لیتے ہیں۔ کوریا سے تعلق رکھنے والا جیوآن پارک بھی ایک ایسا ہی فن کار ہے۔ وہ کینوس پر رنگ بکھیرنے کے بجائے اس میں ننھے ننھے سوراخ کرکے مختلف مناظر اُبھارتا ہے۔

کینوس پر باریک نقطوں کے ذریعے منظر اُبھارنا فن مصوری کی ایک قسم ہے جسے انگریزی میں pointillism کہا جاتا ہے۔ جیوآن اس طریقے کے برعکس عمل کرتا ہے۔ وہ کینوس پر نقطے لگانے کے بجائے اس میں سوراخ کرکے منظر تخلیق کرتا ہے۔ کینوس یعنی کاغذ میں سوراخ کرنے کے لیے وہ دہکتی سوئیوں سے کام لیتا ہے۔ ایک چھوٹے سے گیس برنر پر کئی باریک دھاتی سلاخیں رکھی ہوتی ہیں۔

وہ باری باری انھیں اٹھاکر ان کی دہکتی ہوئی نوک سے کینوس کو جلاتا رہتا ہے۔ اس عمل میں سب سے زیادہ اہم ہاتھ کی حرکت کو کنٹرول کرنا ہے، کیوں کہ سوراخ کی جسامت کا انحصار ہاتھ کی معمولی حرکت پر ہوتا ہے۔ ہلکی سی جنبش سے سوراخ کی جسامت زیادہ ہوسکتی ہے جس سے پوری تصویر بگڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔




پارک اس منفرد طریقۂ مصوری کی جانب کیسے راغب ہوا؟ اس بارے میں اس کا کہنا ہے،'' گلیور، مثالی دنیا اور ایری وان کے سفر کی دل چسپ داستانیں پڑھنے اور اینی میٹڈ جاپانی فلم ' کیسل اِن دی اسکائی' دیکھنے کے بعد میرے دل میں اس منفرد ترکیب کے ذریعے مصوری کرنے کا خیال آیا۔ مجھے اس فن میں مہارت حاصل کرنے میں کئی سال کا عرصہ لگا۔ مگر میں ٹھان چکا تھا کہ مجھے اس میں نام پیدا کرنا ہے۔ کتنے دن ایسے بھی گزرے جب میں مسلسل پندرہ پندرہ، بیس بیس گھنٹے تک اس کی مشق کرتا رہتا تھا۔''

پارک نے زیادہ تر قدرتی مناظر اور ماضی کی یادوں کو موضوع بنایا ہے۔

اس کے معروف ترین فن پاروں میں سے ایک '' ٹوینٹی تھرڈ'' ہے۔ یہ دراصل ایک تصوراتی سڑک ہے جو مسافر کو خوابوں میں لے جاتی ہے۔ قدرتی مناظر کے علاوہ وہ بچپن کی یادوں کو بھی کینوس پر اُبھارتا ہے۔


Load Next Story