اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے
اب نیوزی لینڈ کو اپنے ملک کے ’’چھوٹے‘‘ میدانوں سے نکل کر 26 مارچ کو ملبورن کے کشادہ میدان میں بازی جمانی ہے۔
وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا اور دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا سا خوف بھی کہ جنوبی افریقہ ایک بالادست پوزیشن سے مقابلہ گنوائے گا اور یوں پہلی بار عالمی کپ کے فائنل تک پہنچنے کا موقع ضائع کرے گا۔
لیکن اس کا اندازہ نہیں تھا کہ جنوبی افریقہ اپنی سب سے بڑی طاقت کی وجہ سے مات کھائے گا۔ میچ کے اعصاب شکن مراحل میں کیچ اور رن آؤٹ کے مواقع ضائع کرنے سے جنوبی افریقہ کے اخراج پر مہر ثبت ہوگئی اور یوں ''اس وقت مجھے بھٹکا دینا، جب سامنے منزل آ جائے'' والی بات ان پر مزید صادق آنے لگی ہے۔
ناک-آؤٹ مرحلے کا پہلا سنگ میل عبور کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے بعد اندازہ تھا کہ جنوبی افریقہ ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو نکیل ڈالے گا اور آکلینڈ میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے ایک بڑے مجموعے نے اس بات کو کافی حد تک یقینی بھی بنا لیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی اننگز کے دوران ہونے والی بارش نے جنوبی افریقہ سے وہ پوزیشن چھین لی، جو پورے 50 اوورز کھیل کر وہ حاصل کرسکتا تھا۔ بہرحال، 43 اوورز تک محدود ہونے والے مقابلے میں بھی اس نے 281 رنز ضرور بنائے اور یوں نیوزی لینڈ کو اتنے ہی اوورز میں 298 رنز کا مشکل ہدف دیا۔
گیند بازی کرتے ہوئے ابتداء میں برینڈن میک کولم کے کاری وار سہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ مقابلے کو اپنی سمت جھکایا۔ 149 رنز تک پہنچتے پہنچتے نیوزی لینڈ کے چار بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے اور یہاں جنوبی افریقہ کو ضرورت تھی آخری ضرب لگانے کی، جس میں وہ ناکام رہا اور گرانٹ ایلیٹ اور کوری اینڈرسن کی 103 رنز کی شراکت داری ان سے فوقیت چھین لی۔
یہ مقابلہ واقعی عالمی کپ کا سیمی فائنل کہلانے کا حقدار تھا۔ آکلینڈ خوش نصیب میدان ہے کہ اس نے عالمی کپ کے تین سنسنی خیز ترین مقابلوں کی میزبانی کی۔ پہلے آسٹریلیا - نیوزی لینڈ، پھر پاک -جنوبی افریقہ اور اب یہ سنسنی خیز سیمی فائنل کہ جہاں آخری اوور میں نیوزی لینڈ کو 12 رنز کی ضرورت تھی اور پانچویں گیند پر گرانٹ ایلیٹ نے ڈیل اسٹین کو چھکا لگا کر میزبان کو فائنل تک پہنچا دیا جو اتوار کو ملبورن میں کھیلا جائے گا۔
پاکستان کے عالمی کپ سے باہر ہونے کے بعد ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو کر سیمی فائنل دیکھنے کا بھی مزا ہی اپنا تھا، خاص طور پر جب اس میں ایسی معرکہ آرائی بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کرکٹ جیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیتا کوئی بھی ہو، فائنل نیوزی لینڈ کھیلے گا اور جنوبی افریقہ کی تاریخ کے مایوس کن ابواب میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے کیونکہ انہیں شکست کی کڑوی گولی ایک مرتبہ پھر نگلنی ہے۔
جتنی مایوسی 1992ء میں ہوئی تھی جب بارش نے جنوبی افریقہ سے فائنل کی نشست چھینی تھی، اور جب 1999ء میں آخری فاتحانہ رن لینے میں ناکامی ہوئی تھی، شاید اس بار اس سے بھی زیادہ دل ٹوٹے ہوں۔ اے بی ڈی ولیئرز، مورنے مورکل اور دیگر کھلاڑیوں کی آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسو اور چہرے پر لکھی داستان سب کچھ بیان کررہی تھی۔ انہیں اندازہ تھا کہ 1999ء کے بعد پہلی بار عالمی کپ فائنل کھیلنے کا بہترین موقع پہلی بار ملا تھا۔ جب مقابلے میں پانچ اوور رہ گئے تھے تو جنوبی افریقہ نے کوری اینڈرسن کی وکٹ بھی حاصل کرلی تھی، اس وقت نیوزی لینڈ کو مزید 46 رنز کی ضرورت تھی۔ تب بھی جنوبی افریقہ جیت سکتا تھا، بس 'دوچار ہاتھ جب لب بام رہ گیا'!
گرانٹ ایلیٹ، جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور جوانی میں نیوزی لینڈ منتقل ہوئے، 36 سال کی عمر میں اپنی زندگی کی یادگار ترین اننگز کھیلی۔ ویسی ہی اننگز جیسی آج سے 23 سال پہلے انضمام الحق نے نیوزی لینڈ ہی کے خلاف کھیلی تھی۔ جس طرح پاکستان نے نیوزی لیڈ کو شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کیا تھا، تقریباً اتنے ہی اعصاب شکن معرکے کے بعد نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کو ہرایا اور اس کی شکستوں کی داستان کو مزید طویل کردیا ہے۔
اب نیوزی لینڈ کو اپنے ملک کے ''چھوٹے'' میدانوں سے نکل کر 26 مارچ کو ملبورن کے کشادہ میدان میں بازی جمانی ہے۔ سیمی فائنل کو فوری طور پر بھلانا ہے، نئے مقابلے کی تیاری کرنی ہے، اس مقابلے کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر انہیں فائنل میں نہ دہرانے کا عزم کرنا ہے۔
دوسری جانب جنوبی افریقہ کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے لیے مزید چار سال ہیں۔ اس میں کتنا پانی پلوں کے نیچے سے گزر جائے گا۔ 2019ء تک بہت کچھ بدل جائے گا اور اب ان کے پاس سوائے دل گرفتگی کے کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لیکن اس کا اندازہ نہیں تھا کہ جنوبی افریقہ اپنی سب سے بڑی طاقت کی وجہ سے مات کھائے گا۔ میچ کے اعصاب شکن مراحل میں کیچ اور رن آؤٹ کے مواقع ضائع کرنے سے جنوبی افریقہ کے اخراج پر مہر ثبت ہوگئی اور یوں ''اس وقت مجھے بھٹکا دینا، جب سامنے منزل آ جائے'' والی بات ان پر مزید صادق آنے لگی ہے۔
ناک-آؤٹ مرحلے کا پہلا سنگ میل عبور کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے بعد اندازہ تھا کہ جنوبی افریقہ ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو نکیل ڈالے گا اور آکلینڈ میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے ایک بڑے مجموعے نے اس بات کو کافی حد تک یقینی بھی بنا لیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی اننگز کے دوران ہونے والی بارش نے جنوبی افریقہ سے وہ پوزیشن چھین لی، جو پورے 50 اوورز کھیل کر وہ حاصل کرسکتا تھا۔ بہرحال، 43 اوورز تک محدود ہونے والے مقابلے میں بھی اس نے 281 رنز ضرور بنائے اور یوں نیوزی لینڈ کو اتنے ہی اوورز میں 298 رنز کا مشکل ہدف دیا۔
گیند بازی کرتے ہوئے ابتداء میں برینڈن میک کولم کے کاری وار سہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ مقابلے کو اپنی سمت جھکایا۔ 149 رنز تک پہنچتے پہنچتے نیوزی لینڈ کے چار بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے اور یہاں جنوبی افریقہ کو ضرورت تھی آخری ضرب لگانے کی، جس میں وہ ناکام رہا اور گرانٹ ایلیٹ اور کوری اینڈرسن کی 103 رنز کی شراکت داری ان سے فوقیت چھین لی۔
یہ مقابلہ واقعی عالمی کپ کا سیمی فائنل کہلانے کا حقدار تھا۔ آکلینڈ خوش نصیب میدان ہے کہ اس نے عالمی کپ کے تین سنسنی خیز ترین مقابلوں کی میزبانی کی۔ پہلے آسٹریلیا - نیوزی لینڈ، پھر پاک -جنوبی افریقہ اور اب یہ سنسنی خیز سیمی فائنل کہ جہاں آخری اوور میں نیوزی لینڈ کو 12 رنز کی ضرورت تھی اور پانچویں گیند پر گرانٹ ایلیٹ نے ڈیل اسٹین کو چھکا لگا کر میزبان کو فائنل تک پہنچا دیا جو اتوار کو ملبورن میں کھیلا جائے گا۔
پاکستان کے عالمی کپ سے باہر ہونے کے بعد ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو کر سیمی فائنل دیکھنے کا بھی مزا ہی اپنا تھا، خاص طور پر جب اس میں ایسی معرکہ آرائی بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کرکٹ جیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیتا کوئی بھی ہو، فائنل نیوزی لینڈ کھیلے گا اور جنوبی افریقہ کی تاریخ کے مایوس کن ابواب میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے کیونکہ انہیں شکست کی کڑوی گولی ایک مرتبہ پھر نگلنی ہے۔
جتنی مایوسی 1992ء میں ہوئی تھی جب بارش نے جنوبی افریقہ سے فائنل کی نشست چھینی تھی، اور جب 1999ء میں آخری فاتحانہ رن لینے میں ناکامی ہوئی تھی، شاید اس بار اس سے بھی زیادہ دل ٹوٹے ہوں۔ اے بی ڈی ولیئرز، مورنے مورکل اور دیگر کھلاڑیوں کی آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسو اور چہرے پر لکھی داستان سب کچھ بیان کررہی تھی۔ انہیں اندازہ تھا کہ 1999ء کے بعد پہلی بار عالمی کپ فائنل کھیلنے کا بہترین موقع پہلی بار ملا تھا۔ جب مقابلے میں پانچ اوور رہ گئے تھے تو جنوبی افریقہ نے کوری اینڈرسن کی وکٹ بھی حاصل کرلی تھی، اس وقت نیوزی لینڈ کو مزید 46 رنز کی ضرورت تھی۔ تب بھی جنوبی افریقہ جیت سکتا تھا، بس 'دوچار ہاتھ جب لب بام رہ گیا'!
گرانٹ ایلیٹ، جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور جوانی میں نیوزی لینڈ منتقل ہوئے، 36 سال کی عمر میں اپنی زندگی کی یادگار ترین اننگز کھیلی۔ ویسی ہی اننگز جیسی آج سے 23 سال پہلے انضمام الحق نے نیوزی لینڈ ہی کے خلاف کھیلی تھی۔ جس طرح پاکستان نے نیوزی لیڈ کو شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کیا تھا، تقریباً اتنے ہی اعصاب شکن معرکے کے بعد نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کو ہرایا اور اس کی شکستوں کی داستان کو مزید طویل کردیا ہے۔
اب نیوزی لینڈ کو اپنے ملک کے ''چھوٹے'' میدانوں سے نکل کر 26 مارچ کو ملبورن کے کشادہ میدان میں بازی جمانی ہے۔ سیمی فائنل کو فوری طور پر بھلانا ہے، نئے مقابلے کی تیاری کرنی ہے، اس مقابلے کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر انہیں فائنل میں نہ دہرانے کا عزم کرنا ہے۔
دوسری جانب جنوبی افریقہ کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے لیے مزید چار سال ہیں۔ اس میں کتنا پانی پلوں کے نیچے سے گزر جائے گا۔ 2019ء تک بہت کچھ بدل جائے گا اور اب ان کے پاس سوائے دل گرفتگی کے کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔