اچھے کے لیے تیار رہیں

عاصمہ جہانگیر ویسے تو انسانی حقوق کی جنگ میں اپنے بیانات کے حوالے سے گرم رہتی ہی ہیں،

shehla_ajaz@yahoo.com

MANSEHRA:
ایک بار پھر سندھ بالخصوص کراچی کی سیاسی صورت حال میں بے شمار سلوٹوں کا رخ صرف ایک جانب کر دینے کا سلسلہ برقرار ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے لیکن اس رخ میں کچھ باتوں کی وضاحت ہو چکی ہے اور بہت کچھ کی ہونا باقی ہے۔ سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن جوابات کس سے طلب کریں۔ عوام الناس بھی حیران ہیں۔

92ء کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ بہرحال آرمی نے جس عزم کا اعادہ کیا تھا جس کے صفحے کامیابی سے مکمل کیے جا رہے ہیں شاید کہ اس طرح بہت سی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے وجود سے غیر ضروری بوجھ سے نجات کا راستہ مل سکے اور شاید کہ اب وقت آ چکا ہے کہ حساب کے مشکل سوال کی مانند ہمیشہ اٹھا کر ایک جانب رکھ دینے سے بات بنتی نظر نہیں آ رہی تھی، لیکن اب حل نظر آ رہا ہے۔

عاصمہ جہانگیر ویسے تو انسانی حقوق کی جنگ میں اپنے بیانات کے حوالے سے گرم رہتی ہی ہیں، کئی بار متنازعہ بھی اسی حوالے سے رہ چکی ہیں لیکن ان کا موجودہ صورت حال کے حوالے سے بیان ایک کڑوا سچ ہے۔

یہ حقیقت بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر اگر کسی الزام یا حقائق کے حوالے سے تفتیش یا کارروائی کا سلسلہ کھلا ہے تو دوسری جماعتوں کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ وقت ان پر بھی آ سکتا ہے، لیکن وقت آنا ضرور چاہیے کہ فرار کے سارے راستے سب کے لیے کھلے نہیں رکھنے چاہیئں۔ کراچی کے طول و ارض میں جو کچھ کھلے عام سڑکوں پر ہو رہا ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ صرف ایک خامی اور محدود علاقہ ہی اس کی زد میں نہیں رہنا چاہیے۔

منظور وسان ایک دلچسپ انسان ہیں، سیاسی حوالے کے علاوہ بھی غالباً انھیں مرحوم پیر پگارا نے متاثر کیا ہے، اسی لیے ان کی پیش گوئیوں پر بہت کچھ کہا سنا بھی گیا لیکن وہ ان کی طرز پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اکثر خواب دیکھتے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا، مثلاً سینیٹ کے چیئرمین کے حوالے سے وہ خاصے پر امید تھے کہ یہ چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کو ملنی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ پانچ مارچ کی شام لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ سینیٹ میں اکثریتی جماعت کون سی ہے۔

انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آنے والے وقت میں کچھ پتے جھڑیں گے، کچھ بکروں کی قربانی ہو گی، کچھ جیل جائیں گے اور کچھ باہر آئیں گے۔ چھوٹی بڑی جماعتوں کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وزیر جیل خانہ جات سندھ منظور وسان صاحب نے جب یہ پیش گوئیاں یا یونہی قلابے ملائے تھے اس وقت ہم بہت سے مسکراتے سیاسی چہروں کی تصاویر اخبار میں دیکھتے رہے جو ایک ساتھ قدم بہ قدم ہاتھ میں جھاڑو سنبھالے کراچی کو صاف ستھرا سر سبز و شاداب بنانے کے عہد کے ساتھ کھڑے تھے۔


محترم رضا ربانی نے جب سے سینیٹ میں چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے بہت سے سیاسی حلقوں میں بظاہر پسندیدگی دیکھی گئی ہے لیکن ربانی صاحب کی سخت اصول پسندی کے باعث انھیں جو درجہ حاصل ہے ظاہر ہے اس کا اندازہ مستقبل میں ہی لگایا جا سکے گا۔ صرف رضا ربانی ہی نہیں بہت سی سیاسی جماعتوں میں ایسے اصول پسند حضرات کی پارٹی میں ایک ایسی جگہ ہوتی ہے۔

جس میں ساتھ ساتھ خلوص، محبت اور تلخیاں چلتی رہتی ہیں اور یہ تلخیاں اصول پسندی کی برکت تحفے میں ملتی رہتی ہیں، ایسے لوگ سیاست میں گھر والوں کی شراکت کے قائل نہیں ہوتے، یہ اپنے اصولوں اور اپنے موقف پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، انھیں اپنی جگہ سے ہلانا آسان نہیں بلکہ کٹھن ہوتا ہے۔ اس چناؤ میں آصف علی زرداری نے اپنی اعلیٰ سیاسی صلاحیتوں کو استعمال کیا اور جیت کے اس مقام پر یہ تو ثابت ہو ہی گیا کہ میرٹ کی اپنی قدر ہوتی ہے جسے جب چاہے کیش کروا سکتے ہیں اب کوئی اور یا زرداری صاحب کی پسندیدگی کی فہرست میں ربانی صاحب کا نمبر کوئی بھی ہو۔

ہماری سیاست میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اچھی تقریر، اچھی شخصیت، جوش اور ولولہ حکومت کا دباؤ انتخابات میں کامیابی تو دلوا دیتی ہے لیکن ان میں صلاحیتوں کے بل بوتے اعلیٰ درجوں پر پہنچ کر ملک کو چلانا ایک مختلف بات ہے اور ہمارے یہاں یہ دو باتیں دو شاخیں بن جاتی ہیں یعنی انتخابات اور الیکشن میں کچھ لیکن عملی طور پر میدان میں اتر کر کام کرنا کچھ اور۔ گویا قبضہ تو سچا ہوجاتا ہے لیکن وعدے یا دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اعلیٰ عہدے کے افسران اپنے ہی وزراء کی نااہلی اور کم عقلی پر افسوس کرتے اور مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ انتظامی شعبے پر گرفت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس میں عقل، تعلیم اور ذہنی وسعت کے ساتھ اپنے دامن کو صاف رکھنا بہت اہم ہے، لیکن ہمارے یہاں الیکشن میں مہنگے داموں ٹکٹ خرید کر انتخابات میں کھڑے ہونا ایک سیاسی تفریح بن گیا ہے۔

جس کا تعلق عوامی خدمت سے کہیں نہیں بنتا، صرف یہی نہیں بین الاقوامی تعلقات میں بھی حکومتی اداروں کی کارکردگی نہایت تشویشناک رہی ہے، ہم صرف اندرونی طور پر بیانات سن سن کر خوش ہوتے ہیں لیکن بیرونی ذرایع سے جب ان کی اصل شکل سامنے آتی ہے تو کم مائیگی، کم فہمی اور کم عقلی کے ساتھ بے غیرتی کا خیال نہ صرف اندرون ملک پاکستانیوں کو بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کو شدت سے ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نیچا دکھانے کا جوش ہی ہماری بیرونی طور پر ترقی کی حقیقی بنیادوں پر کوئی رپورٹ نہیں ہوتی، اس سلسلے میں ہمارے یہاں اب بھی کتنے خانے خالی ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے کزن ممتاز بھٹو کو سندھ کا وزیراعلیٰ مقرر کیا، سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کا جواز تھا کہ وہ ایک باصلاحیت ٹیلنٹڈ آدمی(Talented Man) ہیں۔ اس طرح کی اصطلاح پاکستان میں رائج ہو گئی، اس کے بعد کزنز، سنز اور پھر یہ سلسلہ اب بھی برقرار ہے، صلاحیتیں اس مٹی کے ذرے ذرے میں ہیں، کون کتنا باصلاحیت ہے اس ملک کی سیاسی صورت حال اٹھا کر پڑھ لیں۔

71ء کے بعد سے اب تک کیا کچھ ہوا سب عیاں ہو جائے گا۔ منافقت، کرپشن، اقربا پروری نہ صرف پاکستانی سیاست بلکہ ہمارے مذہب میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب موقع آ گیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، پی ٹی آئی، اے این پی، ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی، اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اگر ان کا محاسبہ خود سے نہیں ہوتا تو ہمارے جوان حاضر ہیں۔ اس عمل کو چلتے رہنا چاہیے، سنا تو یہی ہے جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔
Load Next Story