ترقی کے ریمپ پر گامزن بچے
قیام پاکستان کے وقت منزل کی طرف پیش قدمی کے لئے جو جذبے، ہمتیں اور حوصلے تھے آج یہ سب ناپید ہیں۔
میڈیا کے رنگا رنگ دور میں، فیشن شوز اور کیٹ واک سے سب ہی بخوبی واقف ہیں۔ ہرآن نت نئے جلوے بکھیرتی اور مرعوبیت کے رنگا رنگ جال پھیلائے اِس روایت میں ایک اور جدت ''کڈز کیٹ واک'' ہے۔
اخباری اطلاع کے مطابق کراچی کے ایک مقامی شاپنگ مال میں اسکول کے بچوں نے کیٹ واک کرکے حاضرین کو ششدر کردیا۔ واک میں شریک ایک نوعمر طالبہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کی کیٹ واک میں کارکردگی کو نہایت فخریہ انداز میں خراجِ تحسین پیش کی۔
پھر ستم بالائے ستم کہ قوم کے مہذب افراد نے بچوں کے فیشن شو اور کیٹ واک کو شہر و ملک کے نامساعد حالات میں بچوں کی غیر نصابی سرگرمی میں ایک خوش آئند اضافہ بلکہ تفریحی ضرورت قراردیا۔ رقص و آہنگ کی اس جلوہ گری کا اہتمام کرنے والے ان دانشورانِ فیشن نے خواتین کو تو مارکیٹ کی زینت اور کاروبار کا تجارتی نشان بنا ہی دیا تھا۔ اب معصوم بچوں کی معصومیت، بچپن کی سادگی، لڑکپن کا کھلنڈرا پن اور نوجوانی کی نوخیزی سب کچھ داو پر لگادیا۔ سب موسیقی کی دھن اور فیشن میں گم ہیں۔
سوچنے کا مقام ہے کہ اگر یہ سب کچھ ملک کے نامساعد حالات میں اتنا ہی خوش کُن اور خوش آئند ہے تو پھر معاشرے میں اس کے اثرات الٹ کیوں نکل رہے ہیں؟ یہ تفریح، موج مستی، جھومنا، خوش باشی، ان سب کے نتیجے میں تو ماحول میں ہرطرف خوشیاں ہونی چاہئیں، مگر حقیقی دنیا میں نتیجہ آہوں اور سسکیوں کی صورت میں ہی نکل رہا ہے۔ اخبارات اٹھائیں، چینلز گھمائیں، سوشل میڈیا میں وارد ہوجائیں، غم و الم کی تصویریں، نوحے اور ماتم کی داستانیں ہیں تو ان کا عنوان بھی نوجوان اور مائیں ہیں۔ وہ مائیں جو معاشرے کی خوش بختی اور بدبختی کی ذمہ دار ہیں۔ ان کا اصل کام تو اولاد کی ایسی تربیت کرنا اور انہیں ایسا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار کرنا ہے، جو معاشرے کے لئے مثبت نتیجہ خیز ہو اور ملک و قوم کو بھی ترقی کے ریمپ (Ramp) پر گامزن کرسکے۔
معاشرے کے اس ''حال'' کے تناظر میں جب ہم پاکستان کے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہند کے مسلمانوں کے لئے ''لاالہ'' کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی مملکت کے لئے علامہ اقبال کا خواب نظر آتا ہے۔ اس خواب کی رُو سے پاکستان کو ملتِ اسلامیہ کی اُمنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان ہونا تھا، یہاں زندگی، اُس تہذیب و ثقافت، اُس عقیدے و ایمان اور اُس نظام کے مطابق تشکیل پانی تھی، جو بحیثیت مسلمان ہمارا نظام ہے۔ مگر افسوس اقبال کے خواب کی حقیقی تعبیر تاحال ادھوری ہے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت منزل کی طرف پیش قدمی کے لئے جو جذبے، ہمتیں اور حوصلے تھے آج یہ سب ناپید ہیں۔ مادی و معاشی ترقی، جائز وناجائز دولت کے حصول، ذاتی اغراض و مفادات نے ملک و قوم کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جدید تہذیبی دوڑ نے تعمیر ِپاکستان کے معماروں کو اپنے اصل مقاصد اور منزل کے حصول کی جدوجہد سے بہت دور کردیا ۔
اقوام کی بقاء کا راز صرف مقصد سے وابستگی، محبت اور لگن میں ہی پوشیدہ ہے۔ مقصد و منزل کے لئے ''جہدِ مسلسل '' قوم کے افراد، خصوصاََ نوجوانوں کا وطیرہ نہ ہوگا تو وطنِ عزیز کے یہ سپوت، چلتی پھرتی لاشیں بن جائیں گے۔ آج ہمارے معاشرے میں اوپر سے لے کر نچلے طبقوں تک، بول چال، نشست وبرخاست، چلت پھرت، رہن سہن سب زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اقبال کے تصورِ پاکستان کی حقیقی تعبیر کے لئے غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ مقصد و منزل کا درست ادراک کرنا ہوگا کہ یہی کارواں کے لیے بانگِ درا ہے، یہی تحرک کا ذریعہ ہے۔ پھر اسی کی جانب مسلسل رواں دواں ہونا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اخباری اطلاع کے مطابق کراچی کے ایک مقامی شاپنگ مال میں اسکول کے بچوں نے کیٹ واک کرکے حاضرین کو ششدر کردیا۔ واک میں شریک ایک نوعمر طالبہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کی کیٹ واک میں کارکردگی کو نہایت فخریہ انداز میں خراجِ تحسین پیش کی۔
پھر ستم بالائے ستم کہ قوم کے مہذب افراد نے بچوں کے فیشن شو اور کیٹ واک کو شہر و ملک کے نامساعد حالات میں بچوں کی غیر نصابی سرگرمی میں ایک خوش آئند اضافہ بلکہ تفریحی ضرورت قراردیا۔ رقص و آہنگ کی اس جلوہ گری کا اہتمام کرنے والے ان دانشورانِ فیشن نے خواتین کو تو مارکیٹ کی زینت اور کاروبار کا تجارتی نشان بنا ہی دیا تھا۔ اب معصوم بچوں کی معصومیت، بچپن کی سادگی، لڑکپن کا کھلنڈرا پن اور نوجوانی کی نوخیزی سب کچھ داو پر لگادیا۔ سب موسیقی کی دھن اور فیشن میں گم ہیں۔
سوچنے کا مقام ہے کہ اگر یہ سب کچھ ملک کے نامساعد حالات میں اتنا ہی خوش کُن اور خوش آئند ہے تو پھر معاشرے میں اس کے اثرات الٹ کیوں نکل رہے ہیں؟ یہ تفریح، موج مستی، جھومنا، خوش باشی، ان سب کے نتیجے میں تو ماحول میں ہرطرف خوشیاں ہونی چاہئیں، مگر حقیقی دنیا میں نتیجہ آہوں اور سسکیوں کی صورت میں ہی نکل رہا ہے۔ اخبارات اٹھائیں، چینلز گھمائیں، سوشل میڈیا میں وارد ہوجائیں، غم و الم کی تصویریں، نوحے اور ماتم کی داستانیں ہیں تو ان کا عنوان بھی نوجوان اور مائیں ہیں۔ وہ مائیں جو معاشرے کی خوش بختی اور بدبختی کی ذمہ دار ہیں۔ ان کا اصل کام تو اولاد کی ایسی تربیت کرنا اور انہیں ایسا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار کرنا ہے، جو معاشرے کے لئے مثبت نتیجہ خیز ہو اور ملک و قوم کو بھی ترقی کے ریمپ (Ramp) پر گامزن کرسکے۔
معاشرے کے اس ''حال'' کے تناظر میں جب ہم پاکستان کے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہند کے مسلمانوں کے لئے ''لاالہ'' کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی مملکت کے لئے علامہ اقبال کا خواب نظر آتا ہے۔ اس خواب کی رُو سے پاکستان کو ملتِ اسلامیہ کی اُمنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان ہونا تھا، یہاں زندگی، اُس تہذیب و ثقافت، اُس عقیدے و ایمان اور اُس نظام کے مطابق تشکیل پانی تھی، جو بحیثیت مسلمان ہمارا نظام ہے۔ مگر افسوس اقبال کے خواب کی حقیقی تعبیر تاحال ادھوری ہے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت منزل کی طرف پیش قدمی کے لئے جو جذبے، ہمتیں اور حوصلے تھے آج یہ سب ناپید ہیں۔ مادی و معاشی ترقی، جائز وناجائز دولت کے حصول، ذاتی اغراض و مفادات نے ملک و قوم کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جدید تہذیبی دوڑ نے تعمیر ِپاکستان کے معماروں کو اپنے اصل مقاصد اور منزل کے حصول کی جدوجہد سے بہت دور کردیا ۔
اقوام کی بقاء کا راز صرف مقصد سے وابستگی، محبت اور لگن میں ہی پوشیدہ ہے۔ مقصد و منزل کے لئے ''جہدِ مسلسل '' قوم کے افراد، خصوصاََ نوجوانوں کا وطیرہ نہ ہوگا تو وطنِ عزیز کے یہ سپوت، چلتی پھرتی لاشیں بن جائیں گے۔ آج ہمارے معاشرے میں اوپر سے لے کر نچلے طبقوں تک، بول چال، نشست وبرخاست، چلت پھرت، رہن سہن سب زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اقبال کے تصورِ پاکستان کی حقیقی تعبیر کے لئے غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ مقصد و منزل کا درست ادراک کرنا ہوگا کہ یہی کارواں کے لیے بانگِ درا ہے، یہی تحرک کا ذریعہ ہے۔ پھر اسی کی جانب مسلسل رواں دواں ہونا ہوگا۔
ملے گا منزلِ مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ ُحر کے لئے جہاں میں فراغ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔