بزرگ شہریوں کے مسائل
تاریخ کے مختلف ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو عمر رسیدہ افراد کے لیے عزت و احترام کے جذبات تو ملتے ہیں،
فارسی زبان میں لفظ بزرگ برتر، تجربہ کار، جہاندیدہ، جید اور عمر رسیدہ جیسی صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ''بزرگی از خرد نہ کہ ماہ وسال'' یعنی بزرگی کا تعلق علم و شعور ہے نہ کہ عمر سے۔ تعریف یہی درست ہے۔ مگر عمر رسیدہ لوگوں کے لیے بزرگ کی اصطلاح اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ نہ سہی علم و فضل میں یکتائی، مگر زندگی کے تلخ وشیریں تجربات سے تو ہر شخص گزرتا ہے، جو اس کی فکر و آگہی میں وسعت پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
پھر ہماری خاندانی روایات میں عمر رسیدہ افراد یعنی بزرگوں کو کلیدی مقام حاصل رہا ہے۔ خاندان کے اہم فیصلے ان کی مرضی ومنشا سے کیے جاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جس انداز میں خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے اس کی وجہ سے خاندانوں میں بزرگوں کا کردار بھی محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل اور امن وامان کی دگرگوں صورتحال بھی ان کے ذہنی دبائو میں اضافہ کا باعث ہے، جو عمر کے آخری حصے میں پرسکون زندگی کے بجائے پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ لہٰذا اس اظہاریے میں ہماری گفتگو کا محور عمر رسیدہ شہریوں کے معاملات ومسائل کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ ارباب حل وعقد کے علاوہ سول سوسائٹی سنجیدگی کے ساتھ ان پر اپنی توجہ مبذول کرسکے۔
تاریخ کے مختلف ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو عمر رسیدہ افراد کے لیے عزت و احترام کے جذبات تو ملتے ہیں، مگر انھیں درپیش مسائل کے حل پر خاطر خواہ توجہ دیے جانے کے شواہد نہیں ملتے۔ البتہ جنگ کے دوران اور بعد میں مفتوح اقوام کے عمر رسیدہ افراد کے قتل کی ممانعت کا تصور بہرحال ملتا ہے۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں دنیا میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، وہیں ان کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرنے اور انھیں حل کرنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔ جس کے کئی اسباب ہیں۔ اول، سائنسی تحقیق میں تیز رفتار ترقی جس نے حیاتیات اور نفسیات میں آگہی کے نئے در کھولے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمر کے ہر حصے کی نفسیات اور ضروریات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں۔ جس طرح بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے مخصوص غذا اور نگہداشت (Care) ضروری ہوتی ہے، اسی طرح عمر رسیدہ لوگوں کو ذہنی دبائو اور مختلف امراض سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جو ٹوٹتے بکھرتے خاندانی ڈھانچے میں ممکن نہیں رہی ہے۔ اس لیے ریاست اور سماجی تنظیموں پر یہ ذمے داری آجاتی ہے کہ وہ عمر رسیدہ شہریوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کریں۔ مغرب میں تو اولڈ ہائوسز کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر تیسری دنیا میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
بزرگوں کے مسائل اور وطن عزیز میں ان کی حالت زار پر گفتگو سے پہلے عالمی اور ملکی سطح پر عمررسیدہ افراد کی تعداد کے بارے میں آگہی ضروری ہے۔ عمر رسیدگی کے بارے میں مختلف معاشروں میں عمر کی مختلف حدود متعین ہیں۔ ایشیا میں 60 برس، جب کہ مغرب کے سرد موسم والے ممالک میں 65 برس سے عمر رسیدگی شروع ہوتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر اوسطاً 60 برس سے اوپر عمر کے افراد کو بزرگ شہری (Senior Citizen) تصور کیا جاتا ہے۔
عالمی بینک کے سروے کے مطابق 1950 میں اس کرہ ارض پر 60 برس سے اوپر عمر کے افراد کی تعداد 250 ملین (یعنی 25 کروڑ) کے لگ بھگ تھی، جو 2010 میں 980 ملین (98کروڑ) ہوگئی۔ اندازہ یہ ہے کہ اگلے 20 برسوں کے دوران بزرگ شہریوں کی تعداد میں 146 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ مغرب میں متوقع عمر اور بزرگوں کی تعداد میں اضافے کے کئی اسباب ہیں۔
اول، گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ان کی نگہداشت پر سرکاری اور غیر سرکاری سطح پرخصوصی توجہ کا دیا جانا۔ دوئم، صحت وتندرستی کے بارے میں مختلف ذرایع بالخصوص میڈیا کے ذریعے آگہی۔ سوئم، متوازن غذا کھانے، استعمال کرنے کا شعور اور اس تک رسائی۔ چہارم، سائنسی تحقیق کے باعث زندگی بچانے والی ادویات (Life saving drugs) کا متعارف کرایا جانا، جو طویل العمری میں اضافے، بڑھاپے میں صحتمندی کا سبب بنی ہیں۔ پنجم، شرح تولید میں ہونے والی کمی بھی عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ کا ایک اور سبب ہے۔
ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان میں درج بالا سہولیات کا فقدان ہے۔ ہمارے ملک میں عمر رسیدہ افراد کی اکثریت معاشی دبائو کا شکار ہونے کی وجہ سے عمر کے اس حصے میں بھی محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہوتی ہے، جب قویٰ ساتھ چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف 5 فیصد عمر رسیدہ افراد معاشی آسودگی اور سماجی سکون کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں۔
اس وقت ہمارے یہاں بزرگوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ صحیح تعداد کا تخمینہ اس لیے ممکن نہیں، کیونکہ پاکستان میں گزشتہ 17 برسوں کے دوران مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔ البتہ مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر کی شرح میں معمولی سا اضافہ ضرور ہوا ہے۔
وطن عزیز میں ریاستی سطح پر عمر رسیدہ شہریوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے مربوط تو کجا، عام سا تصور بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سماجی تحفظ (Social Security) کا ملک گیر نظام بھی موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد مختلف نوعیت کے معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ بڑھاپے کی پنشن کا ہے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کے علاوہ نجی شعبہ کے ان ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے، جو EOBI میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ یوں عمر رسیدہ افراد کی کل آبادی کا صرف 20 فیصد حصہ اس سہولت سے مستفیض ہورہا ہے، باقی 80 فیصد بوڑھے افراد اپنی اولاد کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، جن کی اکثریت خود معاشی مسائل کا شکار ہے۔
دوسری طرف سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم دلچسپی اور ادویات کی کرپشن کے باعث عدم دستیابی کی وجہ سے بیشتر عمررسیدہ افراد مناسب طبی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی تفریح کے مراکز کا بھی فقدان ہے، جہاں یہ عمررسیدہ لوگ دنیا مافیہا سے بے نیاز ہوکر زندگی کے کچھ لمحے سکون سے گزار سکیں۔
پھر انھیں روز کسی نہ کسی سبب مختلف نوعیت کی ذہنی اذیتوں اور جسمانی کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ انھیں مختلف خدمات کی انجام دہی میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح مختلف نوعیت کی سہولیات میسر نہیں ہیں، مثلاً بینکوں میں ان کے لیے علیحدہ کائونٹر تو درکنار عملے کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ جب کہ ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور بس ٹرمینلوں پر علیحدہ کھڑکی نہیں ہوتی۔ اسی طرح دنیا کے بیشتر ممالک میں بزرگ شہریوں کے لیے ریل، بس اور ہوائی جہاز میں کرایہ نصف ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بزرگوں کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔
ریاستی انتظامی ڈھانچہ میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے سبب ریٹائرڈ سرکاری ملازمین (جو بزرگ شہریوں کا صرف 10 فیصد ہیں) تک کو اپنی پنشن کے حصول میں مختلف نوعیت کی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
اول، محکمہ خزانہ کے کرپٹ اور بدعنوان اہلکار ان کی پنشن کے کاغذات کی تکمیل میں ان سے ہزاروں روپے رشوت وصول کرتے ہیں، پھر بینکوں کے عملے کا رویہ بھی غیر مناسب ہوتا ہے، جہاں پنشن کے حصول کے لیے ان سینئر شہریوں کو گھنٹوں قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں، جب کئی سینئر شہری گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے باعث انتقال کرگئے یا بے ہوش ہوگئے۔ مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اب تک کوئی مناسب انتظام سامنے نہیں آیا ہے۔
اس وقت یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ بزرگ شہریوں کے مسائل کے حل کی جانب وسیع البنیاد اور مربوط کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ جن میں کئی اقدامات بیک وقت کرنے کی ضرورت ہے۔
اول، سماجی تحفظ کو ملک گیر سطح پر تمام شہریوں کے لیے لازمی قرار دینے کی حکمت عملی تیار کرائی جائے۔ دوئم، انھیں صحت کے حوالے سے سہولیات مہیا کی جائیں، جس میں ماہانہ چیک اپ کے علاوہ ایسی سرگرمیوں کا شروع کیا جانا جو بزرگ شہریوں کے ذہن اور جسم کو ان کی عمر کے لحاظ سے توانا رکھ سکے۔
سوئم، انھیں پنشن اور دیگر معاملات میں قانونی معاونت تاکہ وہ ذہنی دبائو میں آئے بغیر ان معاملات اور ان کی پیچیدگیوں سے نکل سکیں۔ چہارم، ہر محلے اور ہر گائوں میں بزرگ شہریوں کے لیے تفریحی سرگرمیوں کے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ درج بالا تمام اقدامات ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے تحت ممکن ہیں۔ جس کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پھر ہماری خاندانی روایات میں عمر رسیدہ افراد یعنی بزرگوں کو کلیدی مقام حاصل رہا ہے۔ خاندان کے اہم فیصلے ان کی مرضی ومنشا سے کیے جاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جس انداز میں خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے اس کی وجہ سے خاندانوں میں بزرگوں کا کردار بھی محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل اور امن وامان کی دگرگوں صورتحال بھی ان کے ذہنی دبائو میں اضافہ کا باعث ہے، جو عمر کے آخری حصے میں پرسکون زندگی کے بجائے پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ لہٰذا اس اظہاریے میں ہماری گفتگو کا محور عمر رسیدہ شہریوں کے معاملات ومسائل کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ ارباب حل وعقد کے علاوہ سول سوسائٹی سنجیدگی کے ساتھ ان پر اپنی توجہ مبذول کرسکے۔
تاریخ کے مختلف ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو عمر رسیدہ افراد کے لیے عزت و احترام کے جذبات تو ملتے ہیں، مگر انھیں درپیش مسائل کے حل پر خاطر خواہ توجہ دیے جانے کے شواہد نہیں ملتے۔ البتہ جنگ کے دوران اور بعد میں مفتوح اقوام کے عمر رسیدہ افراد کے قتل کی ممانعت کا تصور بہرحال ملتا ہے۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں دنیا میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، وہیں ان کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرنے اور انھیں حل کرنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔ جس کے کئی اسباب ہیں۔ اول، سائنسی تحقیق میں تیز رفتار ترقی جس نے حیاتیات اور نفسیات میں آگہی کے نئے در کھولے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمر کے ہر حصے کی نفسیات اور ضروریات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں۔ جس طرح بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے مخصوص غذا اور نگہداشت (Care) ضروری ہوتی ہے، اسی طرح عمر رسیدہ لوگوں کو ذہنی دبائو اور مختلف امراض سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جو ٹوٹتے بکھرتے خاندانی ڈھانچے میں ممکن نہیں رہی ہے۔ اس لیے ریاست اور سماجی تنظیموں پر یہ ذمے داری آجاتی ہے کہ وہ عمر رسیدہ شہریوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کریں۔ مغرب میں تو اولڈ ہائوسز کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر تیسری دنیا میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
بزرگوں کے مسائل اور وطن عزیز میں ان کی حالت زار پر گفتگو سے پہلے عالمی اور ملکی سطح پر عمررسیدہ افراد کی تعداد کے بارے میں آگہی ضروری ہے۔ عمر رسیدگی کے بارے میں مختلف معاشروں میں عمر کی مختلف حدود متعین ہیں۔ ایشیا میں 60 برس، جب کہ مغرب کے سرد موسم والے ممالک میں 65 برس سے عمر رسیدگی شروع ہوتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر اوسطاً 60 برس سے اوپر عمر کے افراد کو بزرگ شہری (Senior Citizen) تصور کیا جاتا ہے۔
عالمی بینک کے سروے کے مطابق 1950 میں اس کرہ ارض پر 60 برس سے اوپر عمر کے افراد کی تعداد 250 ملین (یعنی 25 کروڑ) کے لگ بھگ تھی، جو 2010 میں 980 ملین (98کروڑ) ہوگئی۔ اندازہ یہ ہے کہ اگلے 20 برسوں کے دوران بزرگ شہریوں کی تعداد میں 146 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ مغرب میں متوقع عمر اور بزرگوں کی تعداد میں اضافے کے کئی اسباب ہیں۔
اول، گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ان کی نگہداشت پر سرکاری اور غیر سرکاری سطح پرخصوصی توجہ کا دیا جانا۔ دوئم، صحت وتندرستی کے بارے میں مختلف ذرایع بالخصوص میڈیا کے ذریعے آگہی۔ سوئم، متوازن غذا کھانے، استعمال کرنے کا شعور اور اس تک رسائی۔ چہارم، سائنسی تحقیق کے باعث زندگی بچانے والی ادویات (Life saving drugs) کا متعارف کرایا جانا، جو طویل العمری میں اضافے، بڑھاپے میں صحتمندی کا سبب بنی ہیں۔ پنجم، شرح تولید میں ہونے والی کمی بھی عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ کا ایک اور سبب ہے۔
ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان میں درج بالا سہولیات کا فقدان ہے۔ ہمارے ملک میں عمر رسیدہ افراد کی اکثریت معاشی دبائو کا شکار ہونے کی وجہ سے عمر کے اس حصے میں بھی محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہوتی ہے، جب قویٰ ساتھ چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف 5 فیصد عمر رسیدہ افراد معاشی آسودگی اور سماجی سکون کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں۔
اس وقت ہمارے یہاں بزرگوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ صحیح تعداد کا تخمینہ اس لیے ممکن نہیں، کیونکہ پاکستان میں گزشتہ 17 برسوں کے دوران مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔ البتہ مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر کی شرح میں معمولی سا اضافہ ضرور ہوا ہے۔
وطن عزیز میں ریاستی سطح پر عمر رسیدہ شہریوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے مربوط تو کجا، عام سا تصور بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سماجی تحفظ (Social Security) کا ملک گیر نظام بھی موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد مختلف نوعیت کے معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ بڑھاپے کی پنشن کا ہے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کے علاوہ نجی شعبہ کے ان ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے، جو EOBI میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ یوں عمر رسیدہ افراد کی کل آبادی کا صرف 20 فیصد حصہ اس سہولت سے مستفیض ہورہا ہے، باقی 80 فیصد بوڑھے افراد اپنی اولاد کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، جن کی اکثریت خود معاشی مسائل کا شکار ہے۔
دوسری طرف سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم دلچسپی اور ادویات کی کرپشن کے باعث عدم دستیابی کی وجہ سے بیشتر عمررسیدہ افراد مناسب طبی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی تفریح کے مراکز کا بھی فقدان ہے، جہاں یہ عمررسیدہ لوگ دنیا مافیہا سے بے نیاز ہوکر زندگی کے کچھ لمحے سکون سے گزار سکیں۔
پھر انھیں روز کسی نہ کسی سبب مختلف نوعیت کی ذہنی اذیتوں اور جسمانی کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ انھیں مختلف خدمات کی انجام دہی میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح مختلف نوعیت کی سہولیات میسر نہیں ہیں، مثلاً بینکوں میں ان کے لیے علیحدہ کائونٹر تو درکنار عملے کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ جب کہ ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور بس ٹرمینلوں پر علیحدہ کھڑکی نہیں ہوتی۔ اسی طرح دنیا کے بیشتر ممالک میں بزرگ شہریوں کے لیے ریل، بس اور ہوائی جہاز میں کرایہ نصف ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بزرگوں کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔
ریاستی انتظامی ڈھانچہ میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے سبب ریٹائرڈ سرکاری ملازمین (جو بزرگ شہریوں کا صرف 10 فیصد ہیں) تک کو اپنی پنشن کے حصول میں مختلف نوعیت کی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
اول، محکمہ خزانہ کے کرپٹ اور بدعنوان اہلکار ان کی پنشن کے کاغذات کی تکمیل میں ان سے ہزاروں روپے رشوت وصول کرتے ہیں، پھر بینکوں کے عملے کا رویہ بھی غیر مناسب ہوتا ہے، جہاں پنشن کے حصول کے لیے ان سینئر شہریوں کو گھنٹوں قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں، جب کئی سینئر شہری گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے باعث انتقال کرگئے یا بے ہوش ہوگئے۔ مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اب تک کوئی مناسب انتظام سامنے نہیں آیا ہے۔
اس وقت یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ بزرگ شہریوں کے مسائل کے حل کی جانب وسیع البنیاد اور مربوط کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ جن میں کئی اقدامات بیک وقت کرنے کی ضرورت ہے۔
اول، سماجی تحفظ کو ملک گیر سطح پر تمام شہریوں کے لیے لازمی قرار دینے کی حکمت عملی تیار کرائی جائے۔ دوئم، انھیں صحت کے حوالے سے سہولیات مہیا کی جائیں، جس میں ماہانہ چیک اپ کے علاوہ ایسی سرگرمیوں کا شروع کیا جانا جو بزرگ شہریوں کے ذہن اور جسم کو ان کی عمر کے لحاظ سے توانا رکھ سکے۔
سوئم، انھیں پنشن اور دیگر معاملات میں قانونی معاونت تاکہ وہ ذہنی دبائو میں آئے بغیر ان معاملات اور ان کی پیچیدگیوں سے نکل سکیں۔ چہارم، ہر محلے اور ہر گائوں میں بزرگ شہریوں کے لیے تفریحی سرگرمیوں کے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ درج بالا تمام اقدامات ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے تحت ممکن ہیں۔ جس کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔