گورکھ کی سیر
جیپ آہستہ آہستہ پہاڑی راستوں پر چلتی رہی اور ہم زمین سے بلند ہوتے چلے گئے
ISLAMABAD:
انسان کا دل ایک رنگا رنگی دنیا ہے۔ خواہشوں کی آماجگاہ، آرزوؤں کا مسکن، سب کچھ جان لینے کا مرکز اور اس مرکز کی کوئی عمر نہیں ہوتی، یہ ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، تاوقتیکہ اسے خاموش ہو جانے کا خداوندی حکم نہ ہو جائے، کہا تو یہ گیا ہے کہ زندگی کے چار دن ہیں۔
دو آرزو میں کٹ جاتے ہیں اور دو آرزو کے پورے ہونے کے انتظار میں۔ مگر یہ چار دن بھی قیامت کے دن ہیں کہ ہمہ وقت انسان کو سرگرداں رکھتے ہیں۔ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش، چاہے وہ انسان ہو یا قدرت کا کوئی حسین منظر، گوشوں میں دنیا کے قدرت کے برش نے حسیں قلم کاری کی ہے، جہاں چاہا کوئی خوبصورت چشمہ بنا دیا، کہیں دریا کی لکیر کھینچ دی، کہیں سمندر پھیلادیا اور کہیں سربلند پہاڑ نقش کر دیے۔ یہ سب ''المصور'' کے کارنامے ہیں جنھیں دیکھ کر اس کے حکم کے علاوہ دل کے حکم پر بھی سر جھکانے کو جی چاہتا ہے۔
آرزوئیں ختم نہیں ہوتیں عمر ختم ہو جاتی ہے، اور مجھ جیسے ایک کمترین انسان کو اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے کہ اس نے میری آنکھوں کو وہ سب کچھ دیکھنے کا موقع دیا جس کی دل نے آرزو کی۔ گزشتہ سے پیوستہ دل بہت اداس بھی ہوتا تھا کہ تین صوبوں کے دلکش اور حسین مقامات ان ناچیز آنکھوں نے دیکھے تھے اور صرف سنتے تھے کہ سندھ میں بھی ایک ایسا مقام ہے جو موسم کے اعتبار سے مری اور قلات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
16 مارچ 2015 کو قدرت نے ہم ناتواں محمد عارف آرائیں، شبیر، سمیع جمالی اور راقم کو یہ موقع عطا کیا کہ ہم حیدر آباد سے گورکھ کے لیے روانہ ہوئے براستہ سیہون، دادو، جوہی، واہی پاندھی جب پہنچے تو عبدالرزاق جمالی 4-Wheel جیپ کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔
عبدالرزاق جمالی گورکھ پہاڑ کے دامن میں کچھ فاصلے پر سیہووخان جمالی گوٹھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ برساتی دریائی ندی ''نئے گاج'' بھی اس گاؤں کے قرب و جوار سے گزرتی ہے اور بارش کے بعد جب ''نئے گاج'' کا پانی پورے زور و شور سے بہتا ہے تو ایک فٹ گہرے پانی میں بھی آپ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ پرویز مشرف کے دور میں دوسرے علاقوں کی طرح یہاں ''تکی بند'' بنایا گیا جہاں سابقہ برسات کا پانی موجود ہے اور آنے والی برسات سے جب واٹر لیول بڑھ جاتا ہے تو پانی بنائے گئے راستے سے گزر کر آگے زمینوں کو سیراب کرنے بڑھ جاتا ہے۔ ہم جیپ میں روانہ ہوئے، دس پندرہ منٹ میدان میں سفر کے بعد جیپ نے پہاڑی راستے کا رخ کیا جو ایک طرح سے Gateway to Gorakh کہا جانا چاہیے۔
جیپ آہستہ آہستہ پہاڑی راستوں پر چلتی رہی اور ہم زمین سے بلند ہوتے چلے گئے۔ ماحول میں شاید اتنی گرمی نہیں تھی مگر شدت احساس نے گرمی میں اضافہ کر دیا تھا۔ پہاڑی راستہ پیچ و خم سے گزرتا رہا اور ہم بھی اس کے مطابق ہچکولے کھاتے رہے۔ ایک مقام پر وافر مقدار میں پانی نظر آیا وہاں جیپ رک گئی اسے اور خود کو ٹھنڈا کیا۔ کچھ بسکٹس سے دل بہلایا۔ یہ اونچا مقام تھا اور ہر طرف نشیب تھے۔ اسے ''چشمے جھنگڑ'' کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ہم دوبارہ روانہ ہوئے تو راستے کے ایک طرف مسلسل پانی کا پائپ نظر آرہا تھا ہم نے اپنی دانست میں یہ سمجھا کہ پانی اوپر سے نیچے آ رہا ہے۔
ڈرائیور نے بتایا کہ نہیں یہ پانی اس جگہ سے جہاں سے ہم روانہ ہوئے اوپر بھیجا جا رہا ہے الیکٹرک موٹرز کے ذریعے اور راستے میں کئی جگہ آپ کو تالاب ملیں گے، ایک تالاب سے دوسرے تالاب تک الیکٹرک موٹر کے ذریعے پانی اوپر پہنچایا جا رہا ہے اور جہاں سے آغاز ہوا ہے غالباً ''جھنگڑ چشمہ'' اس جگہ کا نام ہے اس جگہ زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے۔ جہاں شاید زیرزمین ''کاریز'' ہے جیسی کبھی کوئٹہ میں ہوا کرتی تھیں، جب انسان نے واٹر سپلائی قائم کر لی تو قدرت نے کاریز بند کر دیں۔
یہ قدرت کا Automatic نظام ہے۔ آٹومیٹک یوں کہ جب آپ خود وہ کام کرنے لگتے ہیں جو پہلے قدرت کے کچھ اور کارندے کر رہے تھے تو آپ قدرت کے نظام میں شمولیت کر لیتے ہیں اور وہاں کسی چیز کو ضایع کرنے کا تصور نہیں ہے۔ جون میں بھی صفر ڈگری درجہ حرارت رکھنے والا گورکھ سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند ہے۔ گورکھ بلوچی زبان کے لفظ ''گرکھ'' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب بھیڑیا ہے جو یہاں بکریوں کو کھا جایا کرتے تھے۔
اب جوں جوں ہم بلندی کی طرف جا رہے تھے ہوائیں سرد ہوتی جا رہی تھیں۔ میں نے پاکستان کے اکثر پہاڑی علاقوں کا سفر کیا ہے کہ یہی میرا واحد شوق رہا ہے مگر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنا دشوار گزار یہ سفر ہے اتنا مشکل سفر کوئی نہیں۔ سردی بڑھتی گئی اور ان تنگ، مختصر، بلند موڑوں سے آخر ہم ایک کھلی جگہ اچانک نکل آئے جہاں ایک خوبصورت عمارت جسے ہوٹل کہنا ہی بہتر ہے سامنے نظر آئی۔ پورے راستے ہم اپنے آپ کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھتے آئے تھے اور اس طرح ہی عاجز محسوس کر رہے تھے جس طرح بندہ خدا کیسامنے ہوتا ہے۔
سرد موسم سب نے گرم کپڑے پہن لیے۔ گرم گرم چائے نے ذرا سکون دیا۔ شام کا سورج گورکھ میں غروب ہو رہا تھا، کہرا پھیل رہا تھا۔ پہاڑوں کی شام بہت اداس ہو تی ہے۔ گورکھ میں بھی آہستہ آہستہ اداسی چھا رہی تھی۔ ریسٹ ہاؤسز بن رہے ہیں، تعمیرات ہو رہی ہیں۔ یہاں 2008ء میں شدید برف باری ہوئی تھی۔ اب بھی ہلکی برف باری جنوری میں ہوتی ہے اور کبھی کبھار اس کے علاوہ بھی۔صبح خوبصورت تھی۔
ہوا بھی تازگی سے بھرپور۔ ناشتہ کر کے ''بے نظیر ویو پوائنٹ'' پر گئے جو وہاں کا بلند ترین مقام اور سندھ بلوچستان کی سرحد گورکھ ہے یہاں پہاڑ کے کنارے پر ریلنگ لگائی گئی ہیں، جن کے پار صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار کے سیاہ پہاڑ اور گہری وادی نظر آ رہی تھی۔ یہ بہت خطرناک مقام ہے، جانے والے یہاں خصوصاً بچوں کو نہ لے کر جائیں یا پھر ان کو ساتھ رکھیں۔ یہ بہت سحر انگیز جگہ ہے، ہر اعتبار سے ''پریوں کا ڈیرہ'' سا لگتا ہے۔
بہت ہی اچھا موسم ہے۔ دل واپسی پر تیار نہیں ہوتا مگر واپسی قدرت کا قانون ہے۔ ان ہی راستوں پر چل کر جہاں ہر طرف کہکشاں ہی کہکشاں تھی ہم واپس اترے اور یہاں گاؤں سیہووخان جمالی میں وہاں کے معززین رئیس عمر خان جمالی، رئیس اکبر خان جمالی، رئیس میر حسن جمالی اور رئیس اصغر خان جمالی، عبدالرزاق جمالی گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کشادہ چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے منتظر تھے، وہ دوپہر اس اوطاق، بیٹھک یا مہمان سرائے جو آپ چاہے کہہ لیں میں گزری۔
یہ میری زندگی کی یادگار دوپہروں میں سے ایک ہے ہر چند کہ آنکھیں سفر کے بعد نیند سے بوجھل تھیں مگر لوگوں کے اخلاص نے سونے نہ دیا اور ان کے کہنے پر بھی میں نے سونے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک پر امن، پر سکون جگہ ہے، جرائم سے پاک مگر ظلم یہاں بھی ہے، بجلی والوں نے یہاں قیامت ڈھا رکھی ہے، کٹے ہوئے کنکشن کے لاکھوں کے بل موصول ہوتے ہیں۔ ٹیوب ویلوں پر کوئی سبسڈی نہیں ہے۔
یہاں گندم، جوار، گوار، ٹماٹر، ہری مرچ، سورج مکھی کی بہترین کاشت ہوتی ہے مگر ٹیوب ویلوں کو بجلی فراہم کرنے اور مہنگا کرنے کا کردار بخوبی انجام پا رہا ہے جب کہ اس کے کارندے دوسرے علاقوں میں رشوت لے کر کم بل دے رہے اور لوگ بدعنوانی میں پورے شریک ہیں۔ اس طرح حکام وصولی کر رہے ہیں (ذاتی وصولی زیادہ ہے)۔ یہاں کی ہر چیز میں ذائقہ ہے، گندم میٹھی ہے، ٹماٹر کمال کے ہیں بڑے سرخ، مرچیں بے تحاشا۔ سورج مکھی کا ایک پھول دو ہاتھوں میں آتا ہے۔
یہ اجناس اضافی ہیں مگر یہیں خراب ہو کر لاکھوں کے نقصان کا سبب بنتی ہیں کیونکہ کھیت سے سڑک تک 5 کلومیٹر کا راستہ باقی ہے جو حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے نہیں بن رہا۔ یہاں کے لوگ موبائل کمپنیوں کے ٹاورز کے لیے مفت جگہ دینے کو تیار ہیں مگر ایک کے علاوہ کوئی موبائل وہاں کام نہیں کرتا۔ نیٹ ورک ہی نہیں ہے۔ یہاں انسانوں کا ڈاکٹر جو حقیقتاً ڈاکٹر ہے روزانہ ڈیوٹی انجام دیتا ہے، اسے جانوروں کے اسپتال میں کمرہ دیا گیا ہے۔
علیحدہ سے کوئی انسانوں کے اسپتال کی عمارت نہیں ہے۔ تکی بند پر کھڑا میٹھی بوندنیوں کے ٹھنڈے پیڑ کے سائے میں سوچ رہا ہوں قدرت نے تو انسان کو سب کچھ دیا ہے۔ اچھی زمین، اچھا موسم، رزق مگر انسان کے اپنے اندر کا انا کا بت کب ٹوٹے گا اس میں سے مہر و وفا کے چشمے کب جاری ہوں گے، جو گوٹھ سیہووخان جمالی جیسے علاقوں کو مثالی علاقہ بنائیں گے۔ میں نے وہیں دعا مانگی۔ کاش ایسا ہو جائے (آمین)
انسان کا دل ایک رنگا رنگی دنیا ہے۔ خواہشوں کی آماجگاہ، آرزوؤں کا مسکن، سب کچھ جان لینے کا مرکز اور اس مرکز کی کوئی عمر نہیں ہوتی، یہ ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، تاوقتیکہ اسے خاموش ہو جانے کا خداوندی حکم نہ ہو جائے، کہا تو یہ گیا ہے کہ زندگی کے چار دن ہیں۔
دو آرزو میں کٹ جاتے ہیں اور دو آرزو کے پورے ہونے کے انتظار میں۔ مگر یہ چار دن بھی قیامت کے دن ہیں کہ ہمہ وقت انسان کو سرگرداں رکھتے ہیں۔ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش، چاہے وہ انسان ہو یا قدرت کا کوئی حسین منظر، گوشوں میں دنیا کے قدرت کے برش نے حسیں قلم کاری کی ہے، جہاں چاہا کوئی خوبصورت چشمہ بنا دیا، کہیں دریا کی لکیر کھینچ دی، کہیں سمندر پھیلادیا اور کہیں سربلند پہاڑ نقش کر دیے۔ یہ سب ''المصور'' کے کارنامے ہیں جنھیں دیکھ کر اس کے حکم کے علاوہ دل کے حکم پر بھی سر جھکانے کو جی چاہتا ہے۔
آرزوئیں ختم نہیں ہوتیں عمر ختم ہو جاتی ہے، اور مجھ جیسے ایک کمترین انسان کو اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے کہ اس نے میری آنکھوں کو وہ سب کچھ دیکھنے کا موقع دیا جس کی دل نے آرزو کی۔ گزشتہ سے پیوستہ دل بہت اداس بھی ہوتا تھا کہ تین صوبوں کے دلکش اور حسین مقامات ان ناچیز آنکھوں نے دیکھے تھے اور صرف سنتے تھے کہ سندھ میں بھی ایک ایسا مقام ہے جو موسم کے اعتبار سے مری اور قلات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
16 مارچ 2015 کو قدرت نے ہم ناتواں محمد عارف آرائیں، شبیر، سمیع جمالی اور راقم کو یہ موقع عطا کیا کہ ہم حیدر آباد سے گورکھ کے لیے روانہ ہوئے براستہ سیہون، دادو، جوہی، واہی پاندھی جب پہنچے تو عبدالرزاق جمالی 4-Wheel جیپ کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔
عبدالرزاق جمالی گورکھ پہاڑ کے دامن میں کچھ فاصلے پر سیہووخان جمالی گوٹھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ برساتی دریائی ندی ''نئے گاج'' بھی اس گاؤں کے قرب و جوار سے گزرتی ہے اور بارش کے بعد جب ''نئے گاج'' کا پانی پورے زور و شور سے بہتا ہے تو ایک فٹ گہرے پانی میں بھی آپ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ پرویز مشرف کے دور میں دوسرے علاقوں کی طرح یہاں ''تکی بند'' بنایا گیا جہاں سابقہ برسات کا پانی موجود ہے اور آنے والی برسات سے جب واٹر لیول بڑھ جاتا ہے تو پانی بنائے گئے راستے سے گزر کر آگے زمینوں کو سیراب کرنے بڑھ جاتا ہے۔ ہم جیپ میں روانہ ہوئے، دس پندرہ منٹ میدان میں سفر کے بعد جیپ نے پہاڑی راستے کا رخ کیا جو ایک طرح سے Gateway to Gorakh کہا جانا چاہیے۔
جیپ آہستہ آہستہ پہاڑی راستوں پر چلتی رہی اور ہم زمین سے بلند ہوتے چلے گئے۔ ماحول میں شاید اتنی گرمی نہیں تھی مگر شدت احساس نے گرمی میں اضافہ کر دیا تھا۔ پہاڑی راستہ پیچ و خم سے گزرتا رہا اور ہم بھی اس کے مطابق ہچکولے کھاتے رہے۔ ایک مقام پر وافر مقدار میں پانی نظر آیا وہاں جیپ رک گئی اسے اور خود کو ٹھنڈا کیا۔ کچھ بسکٹس سے دل بہلایا۔ یہ اونچا مقام تھا اور ہر طرف نشیب تھے۔ اسے ''چشمے جھنگڑ'' کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ہم دوبارہ روانہ ہوئے تو راستے کے ایک طرف مسلسل پانی کا پائپ نظر آرہا تھا ہم نے اپنی دانست میں یہ سمجھا کہ پانی اوپر سے نیچے آ رہا ہے۔
ڈرائیور نے بتایا کہ نہیں یہ پانی اس جگہ سے جہاں سے ہم روانہ ہوئے اوپر بھیجا جا رہا ہے الیکٹرک موٹرز کے ذریعے اور راستے میں کئی جگہ آپ کو تالاب ملیں گے، ایک تالاب سے دوسرے تالاب تک الیکٹرک موٹر کے ذریعے پانی اوپر پہنچایا جا رہا ہے اور جہاں سے آغاز ہوا ہے غالباً ''جھنگڑ چشمہ'' اس جگہ کا نام ہے اس جگہ زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے۔ جہاں شاید زیرزمین ''کاریز'' ہے جیسی کبھی کوئٹہ میں ہوا کرتی تھیں، جب انسان نے واٹر سپلائی قائم کر لی تو قدرت نے کاریز بند کر دیں۔
یہ قدرت کا Automatic نظام ہے۔ آٹومیٹک یوں کہ جب آپ خود وہ کام کرنے لگتے ہیں جو پہلے قدرت کے کچھ اور کارندے کر رہے تھے تو آپ قدرت کے نظام میں شمولیت کر لیتے ہیں اور وہاں کسی چیز کو ضایع کرنے کا تصور نہیں ہے۔ جون میں بھی صفر ڈگری درجہ حرارت رکھنے والا گورکھ سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند ہے۔ گورکھ بلوچی زبان کے لفظ ''گرکھ'' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب بھیڑیا ہے جو یہاں بکریوں کو کھا جایا کرتے تھے۔
اب جوں جوں ہم بلندی کی طرف جا رہے تھے ہوائیں سرد ہوتی جا رہی تھیں۔ میں نے پاکستان کے اکثر پہاڑی علاقوں کا سفر کیا ہے کہ یہی میرا واحد شوق رہا ہے مگر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنا دشوار گزار یہ سفر ہے اتنا مشکل سفر کوئی نہیں۔ سردی بڑھتی گئی اور ان تنگ، مختصر، بلند موڑوں سے آخر ہم ایک کھلی جگہ اچانک نکل آئے جہاں ایک خوبصورت عمارت جسے ہوٹل کہنا ہی بہتر ہے سامنے نظر آئی۔ پورے راستے ہم اپنے آپ کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھتے آئے تھے اور اس طرح ہی عاجز محسوس کر رہے تھے جس طرح بندہ خدا کیسامنے ہوتا ہے۔
سرد موسم سب نے گرم کپڑے پہن لیے۔ گرم گرم چائے نے ذرا سکون دیا۔ شام کا سورج گورکھ میں غروب ہو رہا تھا، کہرا پھیل رہا تھا۔ پہاڑوں کی شام بہت اداس ہو تی ہے۔ گورکھ میں بھی آہستہ آہستہ اداسی چھا رہی تھی۔ ریسٹ ہاؤسز بن رہے ہیں، تعمیرات ہو رہی ہیں۔ یہاں 2008ء میں شدید برف باری ہوئی تھی۔ اب بھی ہلکی برف باری جنوری میں ہوتی ہے اور کبھی کبھار اس کے علاوہ بھی۔صبح خوبصورت تھی۔
ہوا بھی تازگی سے بھرپور۔ ناشتہ کر کے ''بے نظیر ویو پوائنٹ'' پر گئے جو وہاں کا بلند ترین مقام اور سندھ بلوچستان کی سرحد گورکھ ہے یہاں پہاڑ کے کنارے پر ریلنگ لگائی گئی ہیں، جن کے پار صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار کے سیاہ پہاڑ اور گہری وادی نظر آ رہی تھی۔ یہ بہت خطرناک مقام ہے، جانے والے یہاں خصوصاً بچوں کو نہ لے کر جائیں یا پھر ان کو ساتھ رکھیں۔ یہ بہت سحر انگیز جگہ ہے، ہر اعتبار سے ''پریوں کا ڈیرہ'' سا لگتا ہے۔
بہت ہی اچھا موسم ہے۔ دل واپسی پر تیار نہیں ہوتا مگر واپسی قدرت کا قانون ہے۔ ان ہی راستوں پر چل کر جہاں ہر طرف کہکشاں ہی کہکشاں تھی ہم واپس اترے اور یہاں گاؤں سیہووخان جمالی میں وہاں کے معززین رئیس عمر خان جمالی، رئیس اکبر خان جمالی، رئیس میر حسن جمالی اور رئیس اصغر خان جمالی، عبدالرزاق جمالی گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کشادہ چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے منتظر تھے، وہ دوپہر اس اوطاق، بیٹھک یا مہمان سرائے جو آپ چاہے کہہ لیں میں گزری۔
یہ میری زندگی کی یادگار دوپہروں میں سے ایک ہے ہر چند کہ آنکھیں سفر کے بعد نیند سے بوجھل تھیں مگر لوگوں کے اخلاص نے سونے نہ دیا اور ان کے کہنے پر بھی میں نے سونے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک پر امن، پر سکون جگہ ہے، جرائم سے پاک مگر ظلم یہاں بھی ہے، بجلی والوں نے یہاں قیامت ڈھا رکھی ہے، کٹے ہوئے کنکشن کے لاکھوں کے بل موصول ہوتے ہیں۔ ٹیوب ویلوں پر کوئی سبسڈی نہیں ہے۔
یہاں گندم، جوار، گوار، ٹماٹر، ہری مرچ، سورج مکھی کی بہترین کاشت ہوتی ہے مگر ٹیوب ویلوں کو بجلی فراہم کرنے اور مہنگا کرنے کا کردار بخوبی انجام پا رہا ہے جب کہ اس کے کارندے دوسرے علاقوں میں رشوت لے کر کم بل دے رہے اور لوگ بدعنوانی میں پورے شریک ہیں۔ اس طرح حکام وصولی کر رہے ہیں (ذاتی وصولی زیادہ ہے)۔ یہاں کی ہر چیز میں ذائقہ ہے، گندم میٹھی ہے، ٹماٹر کمال کے ہیں بڑے سرخ، مرچیں بے تحاشا۔ سورج مکھی کا ایک پھول دو ہاتھوں میں آتا ہے۔
یہ اجناس اضافی ہیں مگر یہیں خراب ہو کر لاکھوں کے نقصان کا سبب بنتی ہیں کیونکہ کھیت سے سڑک تک 5 کلومیٹر کا راستہ باقی ہے جو حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے نہیں بن رہا۔ یہاں کے لوگ موبائل کمپنیوں کے ٹاورز کے لیے مفت جگہ دینے کو تیار ہیں مگر ایک کے علاوہ کوئی موبائل وہاں کام نہیں کرتا۔ نیٹ ورک ہی نہیں ہے۔ یہاں انسانوں کا ڈاکٹر جو حقیقتاً ڈاکٹر ہے روزانہ ڈیوٹی انجام دیتا ہے، اسے جانوروں کے اسپتال میں کمرہ دیا گیا ہے۔
علیحدہ سے کوئی انسانوں کے اسپتال کی عمارت نہیں ہے۔ تکی بند پر کھڑا میٹھی بوندنیوں کے ٹھنڈے پیڑ کے سائے میں سوچ رہا ہوں قدرت نے تو انسان کو سب کچھ دیا ہے۔ اچھی زمین، اچھا موسم، رزق مگر انسان کے اپنے اندر کا انا کا بت کب ٹوٹے گا اس میں سے مہر و وفا کے چشمے کب جاری ہوں گے، جو گوٹھ سیہووخان جمالی جیسے علاقوں کو مثالی علاقہ بنائیں گے۔ میں نے وہیں دعا مانگی۔ کاش ایسا ہو جائے (آمین)