فاٹا یونیورسٹی غازی گلاب اور ناراضی کی لہر
حکومتِ پاکستان پہلے ہی یہاں کے طلباء و طالبات کے لیے ہرسال تقریباً 98لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف جاری کرتی ہے
MANCHESTER:
لیجیے، وفاقِ پاکستان کے زیرِانتظام وسیع پہاڑی علاقے ''فاٹا'' کے چالیس لاکھ باسیوں کو مبارک ہو کہ انھیں پہلی یونیورسٹی کا شاندار اور قابلِ فخر تحفہ ملنے والا ہے۔ جس دن فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء و طالبات فاٹا کی مجوزہ یونیورسٹی میں پہلا قدم رکھیں گے، سب غازی گلاب جمال، المعروف جی جی جمال، کو دعائیں دیں گے۔
فاٹا یونیورسٹی انشاء اللہ ثابت کرے گی کہ سنگلاخ پہاڑوں اور پُراسرار گہرے درّوں کی یہ سرزمین پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح کم نہیں۔ رکن قومی اسمبلی جناب گلاب جمال نے پشاور میں ''فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' کی پُر ہجوم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ فاٹا کے سبھی ارکانِ پارلیمنٹ متفقہ طور اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ فاٹا کی پہلی یونیورسٹی عنقریب درّہ آدم خیل کے آس پاس بنے گی۔
اب یہ وفاقی حکومت کا کام ہے کہ فاٹا اور پاکستان، دونوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے فاٹا یونیورسٹی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کس ذمے داری اور جانفشانی سے اپنے بنیادی فرائض ادا کرتی ہے۔ فاٹا میں گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مسلسل جن پریشان کن حالات نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں،فاٹا یونیورسٹی ان کے خاتمے میں نہ صرف مرکزی کردار ادا کرے گی بلکہ یہاں سے پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب مستقبل بھی برآمد ہوگا۔ یوں قائداعظم علیہ رحمہ کا ایک خواب بھی پورا ہوگا کہ انھوں نے فاٹا کے ہر قبائلی کو پاکستان کا محافظ قرار دیا تھا۔
فاٹا سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ہے: خیبر ، کُرم، مہمند، اورکزئی، باجوڑ، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان۔ تقریباً سارا علاقہ ہی افغانستان سے متصل ہے، اسی لیے تو افغان دہشت گردوں کو اس علاقے میں سر چھپانے کے لیے آسانیاں رہی ہیں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد (مثلاً ملا فضل اللہ) یہی مسام دار سرحد پار کرکے متصل افغان صوبوں میں چلے جانے میں کامیاب رہے۔ فاٹا 27220مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ لمبائی میں یہ چھ سو کلومیٹر اور چوڑائی میں ایک سو تیس کلومیٹر ہے۔ آبادی چالیس پینتالیس لاکھ۔ فاٹا یونیورسٹی کی شمع روشن ہوگی تو مقامی لوگوں کے لیے اپنے دامن میں بہت سا روزگار بھی لائے گی۔
حکومتِ پاکستان پہلے ہی یہاں کے طلباء و طالبات کے لیے ہرسال تقریباً 98لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف جاری کرتی ہے تاکہ وہ ملک بھر کے پروفیشنل کالجز اور جامعات میں داخلہ لے سکیں۔ فاٹا یونیورسٹی کا سہرا جناب غازی گلاب جمال کے سر بندھے گا کہ اپنے عوام کے لیے اس میدان میں ان کی کاوشیں مسلسل بھی ہیں اور انتھک بھی۔ ڈاکٹر سید غازی گلاب جمال کی عمر اکسٹھ سال ہے لیکن وہ جوانوں سے زیادہ جوان نظر آتے ہیں۔
فاٹا کے مشہور سیاستدان ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی۔ میڈیکل ایجوکیشن پشاور کے خیبر میڈیکل کالج اور برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن بھی رہے ہیں اور وفاقی وزیر بھی۔ آزاد سیاسی حیثیت میں اب بھی ہماری قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ فاٹا سے منتخب ہوئے۔ اپنی قبائلی کلاہ کے کارن کچھ زیادہ ہی دلکش اور قدآور نظر آتے ہیں۔ اورکزئی قبائلی ایجنسی سے آپ کا تعلق ہے لیکن پیدا راولپنڈی میں ہوئے تھے۔ فاٹا سے تقریباً ایک درجن کے قریب افراد رکنِ قومی اسمبلی ہیں لیکن سرداری اور بیداری کی زمام جی جی جمال کے ہاتھ میں ہے۔
غازی جمال گلاب صاحب قومی اسمبلی میں فاٹا ارکان کے پارلیمانی لیڈر بھی ہیں۔ اپنے دبنگ لہجے اور قبائلی جاہ و جلال میں انفرادی حیثیت کے حامل۔ اگر کہا جائے کہ وہ اپنی سیاسی اور سماجی زندگی میں جمال و جلال کا نمونہ ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی بلندوبالا چھت والے ہال میں ان کا جلال قابلِ دید تھا۔ حکومت کے خلاف وہ پوری طرح بھڑک اٹھے تھے۔ یہ معاملہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ نون کے گورنر جناب مہتاب خان عباسی سے متعلقہ تھا۔ جمال گلاب صاحب مہتاب عباسی کے بارے میں اس قدرطیش کے عالم میں تھے کہ وہ قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ انھوں نے واک آؤٹ کیا تو ان کے پیچھے پیچھے باقی فاٹا ارکانِ اسمبلی بھی باہر نکل گئے۔
خیبرپختونخوا میں،جہاں عمران خان کی تحریکِ انصاف کا حکومتی پرچم لہرا رہا ہے، گورنر مہتاب عباسی وفاقی حکومت کے نمایندہ اور فاٹا کے ''مالکِ کُل'' ہیں کہ انگریز دَور میں بنائے گئے قوانین نے انھیں یہ اتھارٹی بخش رکھی ہے۔
جمال گلاب صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس روز گورنر کے خلاف سیخ پا تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر صاحب نے اگر فاٹا میں ہمارے ارکانِ اسمبلی کے مشورے کے بغیر اپنی یک طرفہ پالیسیاں بدستور جاری رکھیں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے۔ وہ بین السطور اپنا اور اپنے ساتھیوں کا پیغام وزیراعظم تک پہنچانے کی کوشش کررہے تھے، حالانکہ اس روز وزیر اعظم قومی اسمبلی سے غیر حاضر تھے۔
غازی گلاب جمال اور ان کے پارلیمانی قبائلی احباب سخت الفاظ میں فاٹا ہی کے ایک رکنِ اسمبلی، جو مسلم لیگ نون سے منسلک ہیں، کا نام لے کر احتجاج کررہے تھے کہ یہ صاحب خیبر پختون خوا کے گورنر ہاؤس کے سرکاری معاملات میں دخیل ہوچکے ہیں لیکن مہتاب عباسی خاموش ہیں۔ مگر کیوں؟ غازی گلاب نے اس شخص پر اہم پوسٹ پر ایک آفیسر کی تعیناتی کے حوالے سے الزامات عائد کیے ۔ فاٹا کے ایک رکنِ قومی اسمبلی غالب خان وزیر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس آفیسر کے ایم این اے عزیز بھی انکار نہیں کرتے کہ ان کا بھتیجا ایک اہم پوسٹ پر آفیسر تعینات ہوچکا ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ تعیناتی خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔
فاٹا میں ڈویلپمنٹ کے نام پر جاری کیے جانے والے بعض ٹھیکوں کی وجہ سے بھی ناراضیاں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ بعض ٹھیکے بھی مبینہ طور پر منسوخ کردیے گئے۔ اس سے بھی دلوں میں بال آیا ہے۔ شنید ہے کہ ADP (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام) کے تحت فاٹا کے ارکانِ اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ روپے دیے جانے والے تھے مگر اس میں کھنڈت ڈال دی گئی۔ غازی گلاب اور ان کے ساتھی اس کا ذمے دار گورنر مہتاب عباسی کے ایم این اے دوست کو ٹھہراتے ہیں جب کہ یہ دوست ان بیانات کو بے بنیاد تہمت کے سوا کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
یہ بتانے سے مگر گریز کیا جاتا ہے کہ فاٹا کے بیشتر ارکانِ قومی اسمبلی، جن کی لیڈری غازی سید گلاب جمال کے پاس ہے، گورنر مہتاب سے اتنے ناراض کیوں ہیں؟ یہ ناراضی اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ گلاب جمال کی قیادت میں بروئے کار ان سبھی ارکانِ اسمبلی نے یک مشت ہوکر نہ صرف قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کیے بلکہ انھوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ بھی ڈالا۔
غازی گلاب جمال صاحب کا مگر اصرار اب بھی جاری ہے کہ گورنر خیبر پختون خوا محض اپنے ایک دوست کی خاطر ان کا استحقاق مجروح کررہے ہیں۔ یہ سیاسی اختلافات اور گلے شکوے اپنی جگہ، معاشی مفادات و سرکاری ملازمتوں کا حصول بھی اپنی جگہ حقیقت لیکن مطلوب اور پسندیدہ ترین بات یہ ہے کہ فاٹا یونیورسٹی کو ہر صورت میں اور فی الفور بننا چاہیے۔ یہ استوار ہوگی تو پاکستان مستقل امن کی روح پرور فضاؤں اور ہواؤں سے بھی مستفید ہوگا۔ سید غازی گلاب جمال کے قافلے کو رکنا نہیں چاہیے۔
لیجیے، وفاقِ پاکستان کے زیرِانتظام وسیع پہاڑی علاقے ''فاٹا'' کے چالیس لاکھ باسیوں کو مبارک ہو کہ انھیں پہلی یونیورسٹی کا شاندار اور قابلِ فخر تحفہ ملنے والا ہے۔ جس دن فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء و طالبات فاٹا کی مجوزہ یونیورسٹی میں پہلا قدم رکھیں گے، سب غازی گلاب جمال، المعروف جی جی جمال، کو دعائیں دیں گے۔
فاٹا یونیورسٹی انشاء اللہ ثابت کرے گی کہ سنگلاخ پہاڑوں اور پُراسرار گہرے درّوں کی یہ سرزمین پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح کم نہیں۔ رکن قومی اسمبلی جناب گلاب جمال نے پشاور میں ''فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' کی پُر ہجوم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ فاٹا کے سبھی ارکانِ پارلیمنٹ متفقہ طور اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ فاٹا کی پہلی یونیورسٹی عنقریب درّہ آدم خیل کے آس پاس بنے گی۔
اب یہ وفاقی حکومت کا کام ہے کہ فاٹا اور پاکستان، دونوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے فاٹا یونیورسٹی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کس ذمے داری اور جانفشانی سے اپنے بنیادی فرائض ادا کرتی ہے۔ فاٹا میں گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مسلسل جن پریشان کن حالات نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں،فاٹا یونیورسٹی ان کے خاتمے میں نہ صرف مرکزی کردار ادا کرے گی بلکہ یہاں سے پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب مستقبل بھی برآمد ہوگا۔ یوں قائداعظم علیہ رحمہ کا ایک خواب بھی پورا ہوگا کہ انھوں نے فاٹا کے ہر قبائلی کو پاکستان کا محافظ قرار دیا تھا۔
فاٹا سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ہے: خیبر ، کُرم، مہمند، اورکزئی، باجوڑ، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان۔ تقریباً سارا علاقہ ہی افغانستان سے متصل ہے، اسی لیے تو افغان دہشت گردوں کو اس علاقے میں سر چھپانے کے لیے آسانیاں رہی ہیں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد (مثلاً ملا فضل اللہ) یہی مسام دار سرحد پار کرکے متصل افغان صوبوں میں چلے جانے میں کامیاب رہے۔ فاٹا 27220مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ لمبائی میں یہ چھ سو کلومیٹر اور چوڑائی میں ایک سو تیس کلومیٹر ہے۔ آبادی چالیس پینتالیس لاکھ۔ فاٹا یونیورسٹی کی شمع روشن ہوگی تو مقامی لوگوں کے لیے اپنے دامن میں بہت سا روزگار بھی لائے گی۔
حکومتِ پاکستان پہلے ہی یہاں کے طلباء و طالبات کے لیے ہرسال تقریباً 98لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف جاری کرتی ہے تاکہ وہ ملک بھر کے پروفیشنل کالجز اور جامعات میں داخلہ لے سکیں۔ فاٹا یونیورسٹی کا سہرا جناب غازی گلاب جمال کے سر بندھے گا کہ اپنے عوام کے لیے اس میدان میں ان کی کاوشیں مسلسل بھی ہیں اور انتھک بھی۔ ڈاکٹر سید غازی گلاب جمال کی عمر اکسٹھ سال ہے لیکن وہ جوانوں سے زیادہ جوان نظر آتے ہیں۔
فاٹا کے مشہور سیاستدان ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی۔ میڈیکل ایجوکیشن پشاور کے خیبر میڈیکل کالج اور برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن بھی رہے ہیں اور وفاقی وزیر بھی۔ آزاد سیاسی حیثیت میں اب بھی ہماری قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ فاٹا سے منتخب ہوئے۔ اپنی قبائلی کلاہ کے کارن کچھ زیادہ ہی دلکش اور قدآور نظر آتے ہیں۔ اورکزئی قبائلی ایجنسی سے آپ کا تعلق ہے لیکن پیدا راولپنڈی میں ہوئے تھے۔ فاٹا سے تقریباً ایک درجن کے قریب افراد رکنِ قومی اسمبلی ہیں لیکن سرداری اور بیداری کی زمام جی جی جمال کے ہاتھ میں ہے۔
غازی جمال گلاب صاحب قومی اسمبلی میں فاٹا ارکان کے پارلیمانی لیڈر بھی ہیں۔ اپنے دبنگ لہجے اور قبائلی جاہ و جلال میں انفرادی حیثیت کے حامل۔ اگر کہا جائے کہ وہ اپنی سیاسی اور سماجی زندگی میں جمال و جلال کا نمونہ ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی بلندوبالا چھت والے ہال میں ان کا جلال قابلِ دید تھا۔ حکومت کے خلاف وہ پوری طرح بھڑک اٹھے تھے۔ یہ معاملہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ نون کے گورنر جناب مہتاب خان عباسی سے متعلقہ تھا۔ جمال گلاب صاحب مہتاب عباسی کے بارے میں اس قدرطیش کے عالم میں تھے کہ وہ قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ انھوں نے واک آؤٹ کیا تو ان کے پیچھے پیچھے باقی فاٹا ارکانِ اسمبلی بھی باہر نکل گئے۔
خیبرپختونخوا میں،جہاں عمران خان کی تحریکِ انصاف کا حکومتی پرچم لہرا رہا ہے، گورنر مہتاب عباسی وفاقی حکومت کے نمایندہ اور فاٹا کے ''مالکِ کُل'' ہیں کہ انگریز دَور میں بنائے گئے قوانین نے انھیں یہ اتھارٹی بخش رکھی ہے۔
جمال گلاب صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس روز گورنر کے خلاف سیخ پا تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر صاحب نے اگر فاٹا میں ہمارے ارکانِ اسمبلی کے مشورے کے بغیر اپنی یک طرفہ پالیسیاں بدستور جاری رکھیں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے۔ وہ بین السطور اپنا اور اپنے ساتھیوں کا پیغام وزیراعظم تک پہنچانے کی کوشش کررہے تھے، حالانکہ اس روز وزیر اعظم قومی اسمبلی سے غیر حاضر تھے۔
غازی گلاب جمال اور ان کے پارلیمانی قبائلی احباب سخت الفاظ میں فاٹا ہی کے ایک رکنِ اسمبلی، جو مسلم لیگ نون سے منسلک ہیں، کا نام لے کر احتجاج کررہے تھے کہ یہ صاحب خیبر پختون خوا کے گورنر ہاؤس کے سرکاری معاملات میں دخیل ہوچکے ہیں لیکن مہتاب عباسی خاموش ہیں۔ مگر کیوں؟ غازی گلاب نے اس شخص پر اہم پوسٹ پر ایک آفیسر کی تعیناتی کے حوالے سے الزامات عائد کیے ۔ فاٹا کے ایک رکنِ قومی اسمبلی غالب خان وزیر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس آفیسر کے ایم این اے عزیز بھی انکار نہیں کرتے کہ ان کا بھتیجا ایک اہم پوسٹ پر آفیسر تعینات ہوچکا ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ تعیناتی خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔
فاٹا میں ڈویلپمنٹ کے نام پر جاری کیے جانے والے بعض ٹھیکوں کی وجہ سے بھی ناراضیاں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ بعض ٹھیکے بھی مبینہ طور پر منسوخ کردیے گئے۔ اس سے بھی دلوں میں بال آیا ہے۔ شنید ہے کہ ADP (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام) کے تحت فاٹا کے ارکانِ اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ روپے دیے جانے والے تھے مگر اس میں کھنڈت ڈال دی گئی۔ غازی گلاب اور ان کے ساتھی اس کا ذمے دار گورنر مہتاب عباسی کے ایم این اے دوست کو ٹھہراتے ہیں جب کہ یہ دوست ان بیانات کو بے بنیاد تہمت کے سوا کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
یہ بتانے سے مگر گریز کیا جاتا ہے کہ فاٹا کے بیشتر ارکانِ قومی اسمبلی، جن کی لیڈری غازی سید گلاب جمال کے پاس ہے، گورنر مہتاب سے اتنے ناراض کیوں ہیں؟ یہ ناراضی اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ گلاب جمال کی قیادت میں بروئے کار ان سبھی ارکانِ اسمبلی نے یک مشت ہوکر نہ صرف قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کیے بلکہ انھوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ بھی ڈالا۔
غازی گلاب جمال صاحب کا مگر اصرار اب بھی جاری ہے کہ گورنر خیبر پختون خوا محض اپنے ایک دوست کی خاطر ان کا استحقاق مجروح کررہے ہیں۔ یہ سیاسی اختلافات اور گلے شکوے اپنی جگہ، معاشی مفادات و سرکاری ملازمتوں کا حصول بھی اپنی جگہ حقیقت لیکن مطلوب اور پسندیدہ ترین بات یہ ہے کہ فاٹا یونیورسٹی کو ہر صورت میں اور فی الفور بننا چاہیے۔ یہ استوار ہوگی تو پاکستان مستقل امن کی روح پرور فضاؤں اور ہواؤں سے بھی مستفید ہوگا۔ سید غازی گلاب جمال کے قافلے کو رکنا نہیں چاہیے۔