سالانہ ساڑھے 3 ارب خرچ کے باوجود کراچی بدستورکچرے کا ڈھیرروشن شیخ
شہرمیں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں کا کاروبارکچرا جمع کرناہے
سالانہ ساڑھے3 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے،گزشتہ20دنوں سے کراچی میں صفائی کی مہم چل رہی ہے،کراچی میں روزانہ 11 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اس میں سے بمشکل 3 ہزار ٹن ہی باقاعدہ روزانہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
ان خیالات کا اظہارسندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر روشن علی شیخ نے اربن ریسورس سینٹر میں منعقدہ فورم میں کیا، انھوں نے مزید بتایا کہ شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے میونسپل ادارے ناکام ہوچکے ہیں، کراچی دنیا کا گندہ ترین شہر کہلانے لگا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچرا کراچی کی دونوں لینڈ فل سائٹ دیہہ جام چاکرو، سرجانی اور گوندھ پاس حب ریور روڈ تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ یہ کچرا لیاری ندی،ملیر ندی اور ابراہیم حیدری میں سمندر کے کنارے یا پھر شہر کے دیگر کھلے مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے،کراچی میں27 فیصد کچرا ری سائیکل ہوتا ہے جس سے وابستہ افراد کروڑوں روپے روزانہ کماتے ہیں لیکن سرکار کو کچھ آمدنی نہیں ہوتی، انھوں نے بتایا کہ اس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی میں13ہزار خاکروب ہیں جس میں سے آدھے گھوسٹ ملازمین ہیں، موٹر قلی کا کام ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین سے معمولی معاوضہ کے عوض لیا جا رہا ہے۔ اس وقت بلدیاتی ادارے شہر سے کچرا اٹھانے پر سالانہ ساڑھے3ارب روپے خرچ کررہے ہیں یعنی ایک کروڑ روپے اس کام پر روزانہ خرچ کیے جاتے ہیںجبکہ شہر میں کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔
شہر کو صاف رکھنے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل
شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے لاہور کی طرز پر کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو نجی شعبے کے تعاون سے ہنگامی بنیادوں پرماحول کی صفائی کیلیے اقدامات بروئے کار لائے گا،اس منصوبے کیلیے کراچی کو 6زونز میں تقسیم کیا جائے گا، اس منصوبے کے تحت ہر گھر سے کچرا اٹھایا جائے گا، گلی و محلے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے جھاڑو اور سڑکوں کو دھویا بھی جائے گا، کچرے کو گھروں سے لینڈ فل سائٹ پر پہنچایا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میںکچرے کو ری سائیکل کیا جائے گا جس کے ذریعے بجلی ،گیس اور فیول پیدا کیا جائے گا اور آمدنی میں اضافہ ہوگا، صنعتی و طبی شعبہ کے کچرے کو الگ سے ٹھکانے لگایا جائے گا، روشن شیخ علی نے کہا کہ سولڈ ویسٹ کی صنعت سے وابستہ کسی فرد کو بھی بے روزگا نہیں کیا جائے گا،وہ ملازم کے ایم سی کے ہی رہیں گے ،ان کی آپریٹنگ اتھارٹی تبدیل ہوتے ہی ان کی اجرت میں25فیصد اضافہ ہوجائے گا اور گھوسٹ ملازمین کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
شہرمیں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں کا کاروبارکچرا جمع کرناہے، شہر بھر میں افغانی بچے اور دیگر افراد صبح سویرے کچرا جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،پہلے وہ مقناطیس سے دھات کو کچرے سے چنتے ہیں،بوتل شیشہ الگ کرلیتے ہیں، کاغذ الگ کرنے کے بعد باقی بچ جانے والے کچرے کو جلایا جاتا ہے جس سے شہر کی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، ابھی موجودہ صورتحال میں کچرا جیسے ہی لینڈ فل سائٹ پر پہنچتا ہے تو لینڈ فل سائٹ پر رہائش پزیر200خاندان اس کچرے کی چھانٹی کے لیے آجاتے ہیں بلکہ ان لوگوں نے باقاعدہ اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں،یہ لوگ کینسر،ہیپاٹائیٹس بی اور سی و دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، لینڈ فل سائیٹ پر ان کو کسی بھی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں۔
اسپتالوں سے جمع ہونے والا کچرا سی ویو کے اطراف پھینکنے سے کافی شکایتیں آرہی ہیں، شہریوں کے پیرو ں میں سرنج چب جاتی ہے جس سے موزی امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاوہ صنعتی فضلاسمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے، زیر زمین پانی زہریلا ہورہا ہے اور ملیر ندی کے پلاٹ میں پیدا ہونے والی سبزیاں زہریلے پانی کی پیداوار ہوتی ہے جس سے شہری بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہارسندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر روشن علی شیخ نے اربن ریسورس سینٹر میں منعقدہ فورم میں کیا، انھوں نے مزید بتایا کہ شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے میونسپل ادارے ناکام ہوچکے ہیں، کراچی دنیا کا گندہ ترین شہر کہلانے لگا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچرا کراچی کی دونوں لینڈ فل سائٹ دیہہ جام چاکرو، سرجانی اور گوندھ پاس حب ریور روڈ تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ یہ کچرا لیاری ندی،ملیر ندی اور ابراہیم حیدری میں سمندر کے کنارے یا پھر شہر کے دیگر کھلے مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے،کراچی میں27 فیصد کچرا ری سائیکل ہوتا ہے جس سے وابستہ افراد کروڑوں روپے روزانہ کماتے ہیں لیکن سرکار کو کچھ آمدنی نہیں ہوتی، انھوں نے بتایا کہ اس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی میں13ہزار خاکروب ہیں جس میں سے آدھے گھوسٹ ملازمین ہیں، موٹر قلی کا کام ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین سے معمولی معاوضہ کے عوض لیا جا رہا ہے۔ اس وقت بلدیاتی ادارے شہر سے کچرا اٹھانے پر سالانہ ساڑھے3ارب روپے خرچ کررہے ہیں یعنی ایک کروڑ روپے اس کام پر روزانہ خرچ کیے جاتے ہیںجبکہ شہر میں کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔
شہر کو صاف رکھنے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل
شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے لاہور کی طرز پر کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو نجی شعبے کے تعاون سے ہنگامی بنیادوں پرماحول کی صفائی کیلیے اقدامات بروئے کار لائے گا،اس منصوبے کیلیے کراچی کو 6زونز میں تقسیم کیا جائے گا، اس منصوبے کے تحت ہر گھر سے کچرا اٹھایا جائے گا، گلی و محلے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے جھاڑو اور سڑکوں کو دھویا بھی جائے گا، کچرے کو گھروں سے لینڈ فل سائٹ پر پہنچایا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میںکچرے کو ری سائیکل کیا جائے گا جس کے ذریعے بجلی ،گیس اور فیول پیدا کیا جائے گا اور آمدنی میں اضافہ ہوگا، صنعتی و طبی شعبہ کے کچرے کو الگ سے ٹھکانے لگایا جائے گا، روشن شیخ علی نے کہا کہ سولڈ ویسٹ کی صنعت سے وابستہ کسی فرد کو بھی بے روزگا نہیں کیا جائے گا،وہ ملازم کے ایم سی کے ہی رہیں گے ،ان کی آپریٹنگ اتھارٹی تبدیل ہوتے ہی ان کی اجرت میں25فیصد اضافہ ہوجائے گا اور گھوسٹ ملازمین کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
شہرمیں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں کا کاروبارکچرا جمع کرناہے، شہر بھر میں افغانی بچے اور دیگر افراد صبح سویرے کچرا جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،پہلے وہ مقناطیس سے دھات کو کچرے سے چنتے ہیں،بوتل شیشہ الگ کرلیتے ہیں، کاغذ الگ کرنے کے بعد باقی بچ جانے والے کچرے کو جلایا جاتا ہے جس سے شہر کی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، ابھی موجودہ صورتحال میں کچرا جیسے ہی لینڈ فل سائٹ پر پہنچتا ہے تو لینڈ فل سائٹ پر رہائش پزیر200خاندان اس کچرے کی چھانٹی کے لیے آجاتے ہیں بلکہ ان لوگوں نے باقاعدہ اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں،یہ لوگ کینسر،ہیپاٹائیٹس بی اور سی و دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، لینڈ فل سائیٹ پر ان کو کسی بھی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں۔
اسپتالوں سے جمع ہونے والا کچرا سی ویو کے اطراف پھینکنے سے کافی شکایتیں آرہی ہیں، شہریوں کے پیرو ں میں سرنج چب جاتی ہے جس سے موزی امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاوہ صنعتی فضلاسمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے، زیر زمین پانی زہریلا ہورہا ہے اور ملیر ندی کے پلاٹ میں پیدا ہونے والی سبزیاں زہریلے پانی کی پیداوار ہوتی ہے جس سے شہری بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔