خشونت سنگھ کو بچھڑے برس بیت گیا

میں تیزی سے ادیبانہ اہلیت و استعداد کھو رہا ہوں، مجھ میں ایک اور ناول لکھنے کی سکت نہیں ہے ۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

برصغیر کے معروف ادیب خشونت سنگھ کو ہم سے بچھڑے برس بیت گیا۔ وہ گزشتہ برس 20 مارچ 2014 کو 99 برس کی عمر میں اس دارفانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کرگئے، خشونت سنگھ کی زندگی کے حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے 2002 میں اپنی موت کی جو پیش گوئی کی وہ سراسر غلط ثابت ہوئی تھی، انھوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''یہ لازماً میری آخری کتاب ہوگی، میری آخری تحریر جو میں نے اپنی زندگی کی شام میں قلم بند کی ہے۔

میں تیزی سے ادیبانہ اہلیت و استعداد کھو رہا ہوں، مجھ میں ایک اور ناول لکھنے کی سکت نہیں ہے ۔ بہت سے افسانے ادھورے پڑے ہیں اور مجھ میں تکمیل دینے کی توانائی نہیں ہے'' لیکن خشونت سنگھ اس کے بعد بھی 12برس اور جئے، تاہم شدید خواہش کے باوجود صرف ایک اسکور سے اپنی سنچری مکمل نہ کرسکے تھے اور 99 کے اسکور پر اس عالم رنگ وبو سے آؤٹ ہوکر واپس لوٹ گئے۔ ان کے والد ایک معروف ماہر تعمیر تھے۔

انھوں نے ایک بیٹے اور بیٹی کو سوگوار چھوڑا۔ خشونت نے 2 فروری 1915کو موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرگودھا ڈسٹرکٹ کے گاؤں ہڈالی میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے لاہور کے گورنمنٹ کالج کا رخ کیا۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور اترٹیمپل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے واپس لاہور آکر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت نئی دہلی میں بس گئے۔

وہ کچھ عرصہ بھارت کی وزارت خارجہ میں سفارت عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔ خشونت سنگھ کا میڈیا سے تعلق 1940کی دہائی کے آخر میں اس وقت قائم ہوا تھا جب انھوں نے وزارت خارجہ میں ملازمت کی اور پہلے کینیڈا پھر برطانیہ اور آئرلینڈ میں افسر اطلاعات اور پریس اتاشی کے طور پر بھارتی حکومت کی نمایندگی کی۔ اسی دوران انھوں نے ملک کے منصوبہ بندی کمیشن کے جریدے ''یوجنا'' کی ادارت سے اپنے صحافی سفر کا آغاز کیا۔

سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد 1951 میں بحیثیت صحافی آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی جہاں سے ان کے تابناک کیریئر کا آغاز ہوا۔ انھیں 1974میں پدم بھوشن سے نوازا گیا جو کہ بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے تاہم 1984میں گولڈن ٹیمپل میں ہونیوالے فوجی آپریشن ہپنو اسٹار پر احتجاجاً انھوں نے یہ اعزاز بھارتی حکومت کو واپس لوٹا دیا۔ وہ ہندوستان ٹائمز اور نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر بھی رہے۔

بحیثیت مدیر انھوں نے ان جرائد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ہفتہ وار رسالہ Weekly Illustrated جیسے ہی خشونت سنگھ کے نام سے منسوب ہوا اس کی اشاعت 65ہزار سے بڑھ کر 4لا کھ تک جا پہنچی، انھوں نے نو برس اس ادارے میں اپنی مثالی خدمات انجام دیں لیکن ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ہفتہ قبل جب ادارے نے انھیں ایک دن کے نوٹس پر نکالا اور نیا ایڈیٹر بھی رکھ لیا تو صرف ایک ہی ماہ میں اس کی اشاعت تباہی کی حد تک متاثر ہوئی یہاں تک کہ ادارہ دیوالیہ ہوتے ہوتے رہ گیا اور اس کی شہرت میں ماند پڑگئی۔

خشونت سنگھ نے 30 سے زائد ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زائد کتب تحریر کیں۔ وہ برصغیر کے معروف ادیب تھے جنھیں صرف بھارت ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی اپنی ادبی خدمات کے سبب شہرت اور مقام حاصل تھا۔ بحیثیت ادیب ان کی سب سے پہلی پہچان تقسیم ہند کے موضوع پر لکھے گئے مشہور ناول ''ٹرین ٹو پاکستان'' سے ہوئی جسے 1954 میں عالمی شہرت یافتہ گروو پریس ایوارڈ ملا۔


انھوں نے ''ہسٹری آف سکھ'' کے عنوان سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی قلم بند کی، کئی جلدوں میں سکھوں کی تاریخ لکھنا بھی ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ گزشتہ برس ان کی کتاب ''خشونت نامہ: دی لیسنز آف مائی لائف'' شایع ہوئی تھی، وہ عمر کے آخری دور میں بھی لکھنے لکھانے میں مصروف عمل رہے، انھوں نے بھرپور اور شاندار زندگی بسر کی اور میدان صحافت میں کئی تخلیقی کارنامے سرانجام دیے۔ ان کے ہفتہ وار دو کالم کئی دہائیوں تک 40اخبارات کے ایک گروپ میں چھپتے رہے۔

ان کی اکثر کتب بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔ ان کو زندگی میں بیشمار اہم ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں ''راک فیلر ایوارڈ'' سے لے کر لائف ''لائف ٹائم ایوارڈ'' سب ہی شامل ہیں۔ کنگز کالج لندن نے 2014 جنوری میں ان کو فیلوشپ سے نوازا۔ وہ 1980 سے 1986تک بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے، بحیثیت ادیب و صحافی ہندوپاک کی سیاست میں ان کا اکثر کلیدی کردار رہا، ان کے انتقال پر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ''وہ ایک باصلاحیت مصنف اور پیارے دوست تھے، انھوں نے واقعی ایک تخلیقی زندگی گزاری، مورخ رام چندر نے کہا ''خشونت سنگھ اپنی سکھوں کی تاریخ کے باعث یاد کیے جائینگے اگرچہ ہم انھیں بھول سکتے ہیں لیکن ان کی کتابیں اور سخاوت یاد رکھی جائینگی۔

مصنف امیتاؤ گھوش نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ''عظیم مورخ، ناول نگار، ایڈیٹر، کالم نگار اور ایک شاندار آدمی کی موت بہت افسوس ناک خبر ہے''خشونت سنگھ نے فارسی اور اردو کے مسلم شعرا کے شعری مجموعوں سے بھرپور استفادہ کیا۔ غالب، اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور دیگر اساتذہ کا تذکرہ ان کے ادبی شہ پاروں میں نمایاں ہے، علامہ اقبال کی شاعری کے تو وہ حافظ تھے اور اقبال کی مشہور نظم ''شکوہ جواب شکوہ'' کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا انھیں اعزاز حاصل ہوا جو کسی کارنامے سے کم نہیں۔

بھارت میں گوپی چند نارنگ اور جگن ناتھ آزاد و دیگر شعرا نے بھی بہت کام کیا لیکن خشونت اپنے انگریزی کالموں اور کتب کے ذریعے پیغام اقبال کا پرچار کرتے رہے۔ ان کی نظر میں اقبال رابندرناتھ ٹیگور سے بڑے اور زیادہ عظیم شاعر تھے۔ اگرچہ وہ آزاد خیال اور سیکولر ذہن کے مالک تھے تاہم اسلام اور پیغمبر اسلام کے عقیدت مند تھے۔ انھوں نے گستاخ رسولؐ سلمان رشدی کی کتاب ''شیطانی آیات'' کی بھارت میں اشاعت کو ناکام بنایا اور پابندی کا مطالبہ کیا انھوں نے واضح کیا کہ اگر برطانیہ کے بعد بھارت میں یہ کتاب شایع ہوئی تو اس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی انھوں نے سلمان رشدی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ رشدی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، انھوں نے تمام گستاخ رسول کو مشورہ دیا کہ وہ محمدؐ پر کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب ضرور پڑھیں۔

انھوں نے خود بھی دی ٹیلی گراف میں رحمۃاللعالمینؐ کی شان میں ایک کالم لکھا جو اپنی مثال آپ ہے۔ خشونت سنگھ نے 99 برس جب کہ ان کے والد نے 94 اور والدہ نے 98 سال کی عمر پائی۔ انھوں نے اپنی آخری کتاب میں اپنی طویل العمری اور خوشگوار زندگی گزارنے کے دس اسباب بتائے اور اصول وضع کیے ہیں، روزانہ ورزش، روزانہ مساج، کھانے پینے کے معمولات، کم اور خاموشی سے کھانا، غصے اور جھوٹ سے بچیں، قہقہے لگانے کے بہانے ڈھونڈیں، سخاوت کریں۔

ہاتھ کھلا ہوگا تو عمر بھی زیادہ ہوگی، کوئی مشغلہ ضرور اپنائیں، موسیقی، شوقیہ پڑھنا، فلمیں دیکھنا تاکہ ذہن مصروف عمل رہے اور آخر میں سب سے اہم ہدایت و نصیحت یہ کہ جلد سوئیں اور جلد جاگیں۔ ان کے گھر میں ایک تختی پر لکھا تھا کہ ''مہمان حضرات سے درخواست ہے کہ وہ 10بجے تک رخصت ہوجائیں تاکہ سردار صاحب اپنے سر پر دراز ہوجائیں''۔ ان کے خیال میں انسان کو صحت مند ہونا چاہیے، زندگی گزارنے کے لیے مناسب پیسے ضروری ہیں۔

ایسا جیون ساتھی ضروری ہے جو آپ کے ذہن کو سمجھ سکے بصورت دیگر ہر وقت کے ذہنی تصادم سے بچنے کے لیے آپ فوراً اپنے ساتھی سے دور ہوجائیں، حسد اور رشک دونوں سے بچیں، روزانہ تھوڑا وقت اپنے آپ سے ملاقات کے لیے بھی نکالیے، خشونت سنگھ کے نزدیک مرتے وقت کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے اور موت کا استقبال مسکراہٹ سے کرنا چاہیے۔

سعادت حسن منٹو کی طرح خشونت سنگھ نے بھی اکثر غیر ضروری طور پر ایسے جملے استعمال کیے جن بدولت ان کی وجہ شہرت ایک Dirty Old Man کی ہوگئی، بلاشبہ وہ ایک آزاد انسان تھے، انھیں عمدہ شراب، خوبصورت عورتوں اور بہترین کتب سے عشق تھا لیکن انفرادی طور پر یہ خشونت سنگھ کی ذاتی زندگی تھی جسے جیسے چاہا انھوں نے گزارا وہ رسمی طور پر سکھ لیکن حقیقی طور پر ایک سیکولر عقیدے کے مالک تھے، ہمارے لیے ان کی اصل پہچان برصغیر کے معروف ادیب کی حیثیت سے رہی اور اسی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائینگے۔
Load Next Story