لکھیئے خوب سے خوب تر لکھیئے
ہمارے ہاں نئی سوچ کو تقویت دینے کی تو بہت بات کی جاتی ہے مگرعملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔
لاہور:
صدر صاحب آج کل بڑے ہی Active نظر آرہے ہیں۔ کل انہوں نے مسلح افواج کی مشترکہ پریڈ کے شرکاء کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جہاں مشہورادبی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
صدر صاحب نے اس محفل میں جو اظہارِ خیال کیا اس پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ شکر ہے کسی کو تو ہم لکھنے والوں کا خیال آیا۔ جنابِ صدر نے فرمایا،
انہوں نے مزید کہا کہ
جب عزت مآب صدر صاحب یہ باتیں کررہے تھے تو وہاں موجود لوگوں نے کچھ نکات پر روشنی ڈالی ۔۔۔۔۔ جیسے جب قلم کار کو ہی اجاگر نہیں کیا جائے گا تو سماجی اقدار کی فروغ دینے والی سوچ کیسے سامنے آئے گی؟ جب شاعر کی شاعری ہی کو کوئی چھاپنے پر تیار نہیں ہوگا تو نوجوانوں کے تربیتی امور کیسے اجا گر ہوں گے؟ کتنے ایسے نوجوان قلم کار ہیں جنہیں حکومتی پزیرائی ملی ہے اب تک؟ ہاں کچھ بڑے نام والے ادیب و شاعر تو ہوں گے اس کارِ خیر میں پیش پیش جنہوں نے پہلے تو ناجانے کتنی مشکلوں سے اپنی سوچ کو پبلیش کروایا، پھر وہ منظر عام پر آئی جس کے بعد وہ شاعر یا ادیب مشہور ہوا اوراس طرح وہ اس تقریب میں مدعو کیا گیا اور جناب کے سامنے پھر اس نے اپنی شاعری سنائی۔ اِس نکات کو سننے کے بعد صدر صاحب نے طیش میں آنے کے بجائے تعریف کی۔
پھر میں نے کہا کہ جناب میرے نزدیک یہ زیادہ اہم ہے کہ ایک جامعہ حکمت عملی سے نئی سوچ کو تقویت دی جائے اس طرح قوی اُمید ہے کہ نئے اور تازہ ذہن سامنے آئیں گے۔ پھر وہ شاعر و ادیب یقینی طور پر اس بات کا اقرار کرسکیں گے کہ ہم نے سماجی اقدار کو فروغ دے دیا۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جب تک پزیرائی ہی نہیں ملے گی تو لامحالہ ذہن بھٹکیں گے، اور پھر وہ یا تو بدعنوانی یا دہشت گردی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوجائیں گے جو یقینی طور پر پورے معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس کے زریعہ نئے آنے والے قلم کاروں کی پزیرائی کی جائے اور اُن کی سوچ کو منظرِ عام پر لایا جائے۔ اس طرح ہم نوجوان نسل کو نہ صرف تباہ ہونے سے بچاسکیں گے بلکہ نئے ادیب و شاعر بھی سامنے لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
درحقیقت یہ تو تھا صدر صاحب سے میرے گلے شکوے کی داستان کا ذکر۔ مجھ سمیت جتنے بھی افراد وہاں موجود تھے سب نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ لیکن بھلا بھڑاس نکالنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف کو حقائق ہوتے ہیں جن کو ہم ہمیشہ نظرانداز کردیتے ہیں۔ تو آئیے اب ہم اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں۔
ہمارے ہاں نئی سوچ کو تقویت دینے کی تو بہت بات کی جاتی ہے مگرعملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ کچھ مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کون سمجھائے جو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ قلم اُٹھانے کا سلیقہ ہی صرف ان لوگوں کو ہے جو کہ بہت مشہور ہوں۔ ان کے نزدیک لکھاری ہونے کے لیے انسان کا پروفیسر، سابق بیوروکریٹ، سیاست دان یا مذہبی اسکالر ہونا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ جب تک کوئی بھی مقبول و معروف نہیں ہوگا تو بھلا اُن کی تحریروں کو پڑھے گا کون؟
کاش ایسے لوگ ان نامعقول خیالات کو ذہن سے نکال کر محض محنت کو اپنا مقصد بنالیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے، جو کسی کو بھی عطا ہوسکتی ہے۔ایک اچھی سوچ کسی کی پابند نہیں، وہ تو کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی ذہن میں جنم لے سکتی ہے۔
Louise Hay امریکہ کی بہت بڑی لکھاری ہیں۔ ایک mathematician بھی ہیں، یہی نہیں وہ Hay House کے نام سے ایک Publication Firm کی چیف اگزیکٹو بھی ہیں اور یہ فرم امریکہ کی کچھ مایاناز کتب خانوں میں گنی جاتی ہے۔ ان کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ 1926 میں بہت ہی غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ غربت اور گھریلو مسائل کو جھیلتے جھیلتے یہ لڑکی اس نہج پر پہنچ گئی کہ 15 سال کی عمر میں اس نے ہائی اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اپنی زندگی کی تلخیاں سہتی سہتی تھک گئی اور اس نے اپنے ابائی شہر سے حجرت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وہ 1950 میں شکاگو شہر آگئی اور معمولی سی نوکری کرنے لگی۔ انہی حالات میں وہ ایک مذہبی چرچ میں اپنی زندگی کے باقی ایام گزارنے لگ گی اور 1970میں وہ Religious Science Practitioner بن گئی.
وہ اپنے کاموں میں مگن ہی تھی کہ اس کے اُس وقت مشکلات مزید بڑھ گئیں کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ اسے Cervical Cancer کا مرض لگ گیا۔ ان تمام مشکلات کے بعد Louise Hay نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنی زندگی کے تلخ و شیریں حالات زندگی کو قلم کے زریعہ لوگوں تک پہنچائے گی۔ جس کا آغاز اُس نے کتابچہ سے کی اور پھر ایک کتاب You Can Heal Your Life لکھی جو کہ 1984 میں چھپی اور وہ کتاب آج تک اتنی مشہور ہے کہ New York Times miscellaneous paperback best-sellers list فروری 2008 کے مطابق دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کتاب کا تیس زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور ترجمہ تو اپنی جگہ لیکن اس کتاب پر فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔
اب میں سوال کرتا ہوں پبلشرز حضرات سے کہ کیا اس کتاب لکھنے کا فائدہ صرف Louise Hay کو ہوا یا اُن کو بھی کچھ ملا؟ یقیناً فائدہ دونوں کو ہوا بلکہ پوری قوم کو ہوا صرف ایک اچھی کتاب نے نہ صرف لوگوں کو زندگی کے حقائق سے آشنا کرایا بلکہ ملک کو زرمبادلہ بھی دیا ۔
موجودہ وقت میں جس طرح ہم نئے لکھنے والوں کو ایکسپریس گروپ سراہ رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بس میں دیگرمیڈیا گروپس و پبلیکیشن ہاوسز سے بھی اپیل کروں گا کہ یقین صرف خدا پر رکھیں، نئے لکھنے والوں کو موقع دیں تاکہ ہمارے ملک میں بھی وہ دن آئے کہ دنیا بھر میں ہماری مثال دی جائے۔ نئے لکھنے والوں کی ضرورت اور اہمیت پر اور بھی بات ہوسکتی ہے، لیکن اگر آپ پڑھنا چاہیں تو!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
صدر صاحب آج کل بڑے ہی Active نظر آرہے ہیں۔ کل انہوں نے مسلح افواج کی مشترکہ پریڈ کے شرکاء کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جہاں مشہورادبی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
صدر صاحب نے اس محفل میں جو اظہارِ خیال کیا اس پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ شکر ہے کسی کو تو ہم لکھنے والوں کا خیال آیا۔ جنابِ صدر نے فرمایا،
''شاعر اور ادیب قلم کے زریعے سماجی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں''۔
انہوں نے مزید کہا کہ
''شعرا شاعری کے زریعے بدعنوانی کے خاتمے اور نوجوانوں کی تربیت سے متعلق امور کو اجاگر کریں''۔
جب عزت مآب صدر صاحب یہ باتیں کررہے تھے تو وہاں موجود لوگوں نے کچھ نکات پر روشنی ڈالی ۔۔۔۔۔ جیسے جب قلم کار کو ہی اجاگر نہیں کیا جائے گا تو سماجی اقدار کی فروغ دینے والی سوچ کیسے سامنے آئے گی؟ جب شاعر کی شاعری ہی کو کوئی چھاپنے پر تیار نہیں ہوگا تو نوجوانوں کے تربیتی امور کیسے اجا گر ہوں گے؟ کتنے ایسے نوجوان قلم کار ہیں جنہیں حکومتی پزیرائی ملی ہے اب تک؟ ہاں کچھ بڑے نام والے ادیب و شاعر تو ہوں گے اس کارِ خیر میں پیش پیش جنہوں نے پہلے تو ناجانے کتنی مشکلوں سے اپنی سوچ کو پبلیش کروایا، پھر وہ منظر عام پر آئی جس کے بعد وہ شاعر یا ادیب مشہور ہوا اوراس طرح وہ اس تقریب میں مدعو کیا گیا اور جناب کے سامنے پھر اس نے اپنی شاعری سنائی۔ اِس نکات کو سننے کے بعد صدر صاحب نے طیش میں آنے کے بجائے تعریف کی۔
پھر میں نے کہا کہ جناب میرے نزدیک یہ زیادہ اہم ہے کہ ایک جامعہ حکمت عملی سے نئی سوچ کو تقویت دی جائے اس طرح قوی اُمید ہے کہ نئے اور تازہ ذہن سامنے آئیں گے۔ پھر وہ شاعر و ادیب یقینی طور پر اس بات کا اقرار کرسکیں گے کہ ہم نے سماجی اقدار کو فروغ دے دیا۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جب تک پزیرائی ہی نہیں ملے گی تو لامحالہ ذہن بھٹکیں گے، اور پھر وہ یا تو بدعنوانی یا دہشت گردی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوجائیں گے جو یقینی طور پر پورے معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس کے زریعہ نئے آنے والے قلم کاروں کی پزیرائی کی جائے اور اُن کی سوچ کو منظرِ عام پر لایا جائے۔ اس طرح ہم نوجوان نسل کو نہ صرف تباہ ہونے سے بچاسکیں گے بلکہ نئے ادیب و شاعر بھی سامنے لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
درحقیقت یہ تو تھا صدر صاحب سے میرے گلے شکوے کی داستان کا ذکر۔ مجھ سمیت جتنے بھی افراد وہاں موجود تھے سب نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ لیکن بھلا بھڑاس نکالنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف کو حقائق ہوتے ہیں جن کو ہم ہمیشہ نظرانداز کردیتے ہیں۔ تو آئیے اب ہم اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں۔
ہمارے ہاں نئی سوچ کو تقویت دینے کی تو بہت بات کی جاتی ہے مگرعملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ کچھ مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کون سمجھائے جو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ قلم اُٹھانے کا سلیقہ ہی صرف ان لوگوں کو ہے جو کہ بہت مشہور ہوں۔ ان کے نزدیک لکھاری ہونے کے لیے انسان کا پروفیسر، سابق بیوروکریٹ، سیاست دان یا مذہبی اسکالر ہونا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ جب تک کوئی بھی مقبول و معروف نہیں ہوگا تو بھلا اُن کی تحریروں کو پڑھے گا کون؟
کاش ایسے لوگ ان نامعقول خیالات کو ذہن سے نکال کر محض محنت کو اپنا مقصد بنالیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے، جو کسی کو بھی عطا ہوسکتی ہے۔ایک اچھی سوچ کسی کی پابند نہیں، وہ تو کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی ذہن میں جنم لے سکتی ہے۔
Louise Hay امریکہ کی بہت بڑی لکھاری ہیں۔ ایک mathematician بھی ہیں، یہی نہیں وہ Hay House کے نام سے ایک Publication Firm کی چیف اگزیکٹو بھی ہیں اور یہ فرم امریکہ کی کچھ مایاناز کتب خانوں میں گنی جاتی ہے۔ ان کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ 1926 میں بہت ہی غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ غربت اور گھریلو مسائل کو جھیلتے جھیلتے یہ لڑکی اس نہج پر پہنچ گئی کہ 15 سال کی عمر میں اس نے ہائی اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اپنی زندگی کی تلخیاں سہتی سہتی تھک گئی اور اس نے اپنے ابائی شہر سے حجرت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وہ 1950 میں شکاگو شہر آگئی اور معمولی سی نوکری کرنے لگی۔ انہی حالات میں وہ ایک مذہبی چرچ میں اپنی زندگی کے باقی ایام گزارنے لگ گی اور 1970میں وہ Religious Science Practitioner بن گئی.
وہ اپنے کاموں میں مگن ہی تھی کہ اس کے اُس وقت مشکلات مزید بڑھ گئیں کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ اسے Cervical Cancer کا مرض لگ گیا۔ ان تمام مشکلات کے بعد Louise Hay نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنی زندگی کے تلخ و شیریں حالات زندگی کو قلم کے زریعہ لوگوں تک پہنچائے گی۔ جس کا آغاز اُس نے کتابچہ سے کی اور پھر ایک کتاب You Can Heal Your Life لکھی جو کہ 1984 میں چھپی اور وہ کتاب آج تک اتنی مشہور ہے کہ New York Times miscellaneous paperback best-sellers list فروری 2008 کے مطابق دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کتاب کا تیس زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور ترجمہ تو اپنی جگہ لیکن اس کتاب پر فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔
اب میں سوال کرتا ہوں پبلشرز حضرات سے کہ کیا اس کتاب لکھنے کا فائدہ صرف Louise Hay کو ہوا یا اُن کو بھی کچھ ملا؟ یقیناً فائدہ دونوں کو ہوا بلکہ پوری قوم کو ہوا صرف ایک اچھی کتاب نے نہ صرف لوگوں کو زندگی کے حقائق سے آشنا کرایا بلکہ ملک کو زرمبادلہ بھی دیا ۔
موجودہ وقت میں جس طرح ہم نئے لکھنے والوں کو ایکسپریس گروپ سراہ رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بس میں دیگرمیڈیا گروپس و پبلیکیشن ہاوسز سے بھی اپیل کروں گا کہ یقین صرف خدا پر رکھیں، نئے لکھنے والوں کو موقع دیں تاکہ ہمارے ملک میں بھی وہ دن آئے کہ دنیا بھر میں ہماری مثال دی جائے۔ نئے لکھنے والوں کی ضرورت اور اہمیت پر اور بھی بات ہوسکتی ہے، لیکن اگر آپ پڑھنا چاہیں تو!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔