بارے کتوں کا کچھ بیاں ہوجائے

فوری طبی امداد میسر نہ آنے کی وجہ سے تقریباً 20 فیصد افراد مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں

S_afarooqi@yahoo.com

ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز ہولناک اضافہ ہورہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے متاثرہ ہر سال 55 ہزار افراد ریبیز جیسے خطرناک مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے 25 سو افراد کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ فوری طبی امداد میسر نہ آنے کی وجہ سے تقریباً 20 فیصد افراد مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور 500 مریض فوری علاج نہ ہونے کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کتے کے علاوہ بلی، گدھے، لومڑی اور بندر کے کاٹنے اور پنجے مارنے کے تین ہفتوں بعد ریبیز کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جن میں گردن کا درد، سر کا درد، رگوں کا اکڑنا اور روشنی اور پانی سے ڈرنا سمیت دیگر علامات شامل ہیں۔ ایسے مریض ہائیڈرو فوبیا یعنی پانی کے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ ''کتا کتے کا بیری ہوتا ہے'' مگر ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ انسان انسان کا دشمن ہوگیا ہے۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:

ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں

صحافت کی رو سے خبر یہ نہیں کہ کتے نے آدمی کو کاٹ لیا بلکہ یہ کہ آدمی نے کتے کو کاٹ کھایا۔ مگر وطنِ عزیز میں عموماً اور شہر کراچی میں خصوصاً نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ انسان انسان کو کاٹ رہا ہے۔

ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ کتے اور انسان کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے کیونکہ انسان جفا اور کتا وفا کا پتلا ہے۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ کتا ہر حال میں اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے جب کہ انسان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یقین نہ آئے تو کتا پال کر دیکھ لیجیے۔ تاریکی میں سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے مگر ممکن ہی نہیں ہے کہ مشکل کی گھڑی میں کتا اپنے مالک کو چھوڑ دے۔ وہ ہمیشہ اپنے مالک کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہی نظر آئے گا۔

گستاخی معاف ہم انسان کشوں سے تو اہلِ برطانیہ ہی اچھے جہاں انسانوں کی طرح کتوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جارہا ہے۔ ایک خبر کے مطابق برطانیہ میں جانوروں کی ایک فلاحی تنظیم نے مٹاپے کا شکار ہوجانے والے ایک کتے کو اسمارٹ بنانے کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ایلفی نامی اس موٹے کتے کا وزن تقریباً 80 کلوگرام ہے جسے کم سے کم کرنے کے لیے ہر طرح کا جتن کیا جارہا ہے تاکہ اس کی زندگی کو لاحق خطرات کو ٹالا جاسکے۔ شنید ہے کہ اِس کی خوراک کا خاص خیال رکھا جارہا ہے اور اسے باقاعدگی سے ورزش بھی کرائی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں اس کا وزن 25 کلوگرام کے لگ بھگ گھٹ چکا ہے۔

ایک جانب اہلِ مغرب ہیں جو اپنے کتوں کا بھی اس قدر خیال رکھتے ہیں اور دوسری جانب ہم اہلِ مشرق ہیں کہ جو کتوں کی ناقابلِ تردید بے مثل وفا شعاری کے باوجود انھیں اتنی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہم نے ''سگ باش برادرِ خورد مباش'' جیسی کہاوتیں گھڑ رکھی ہیں جو ان بے چاروں کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ کاش انسانی حقوق کے کمیشن جیسا کتوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی کوئی ادارہ ہوتا جو اقوام متحدہ میں ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا اور ''دنیا بھر کے کتو ایک ہوجائو'' کا نعرہ لگا کر تمام کتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتا۔


مغربی معاشرے میں جو مقام انسانوں کو بھی حاصل نہیں وہ کتوں کو حاصل ہے۔ اس لحاظ سے اہلِ مغرب کو اگر سگ پرست بھی کہہ دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ وہاں جس طرح لوگ خود پابندی کے ساتھ صبح و شام پارکوں میں سیر کے لیے جاتے ہیں، اسی طرح اپنے کتوں کو بھی باقاعدگی سے اپنے ساتھ سیر پر لے جاتے ہیں، بلکہ پارکوں میں آپ کو انسانوں سے زیادہ کتے نظر آئیں گے۔ گوروں کی بہ نسبت گوری میموں کو کتوں سے بہت زیادہ پیار ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر انھیں اپنی گودوں میں اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں۔ کتوں کی ایک خاص قسم وہ ہے جنھیں Lap dog کہا جاتا ہے۔

میم اپنے شوہر کی جدائی برداشت کرسکتی ہے لیکن اپنی گود کے کتے سے جدا ہونا اسے ہرگز گوارا نہیں ہوتا۔ اسے وہ ہر وقت اپنی جان سے چمٹائے رکھتی ہے۔ یہ سچ مچ یک جان دو قالب والا معاملہ ہوتا ہے۔ انگریزی کے مشہور شاعر الیگزینڈر پوپ کی طویل نظم Rape of the lock میں Lap dog کا تذکرہ آپ کو نہایت تفصیل سے ملے گا۔ کتوں کے بارے میں انگریزی کی مشہور کہاوت Barking dogs seldom bite آپ نے بھی پڑھی یا سنی ہوگی۔

اس کا سلیس ترجمہ یہ ہے کہ بھونکنے والے کتے کبھی کاٹتے نہیں۔ ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ بات حرف بہ حرف درست ہے۔ یہ ہم اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بِنا پر کہہ رہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے ہمیں بخشا نہیں اور کسی کتے نے ہمیں کبھی کاٹا نہیں۔ حتیٰ کہ بائولے کتے نے بھی نہیں۔ اس لیے ہم کتوں سے بالکل نہیں گھبراتے۔ البتہ انسان کہلانے والوں کے بارے میں صرف یہی عرض کرسکتے ہیں کہ:

ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں

کراچی کے مشہور علاقے لیاقت آباد میں جو لالو کھیت کہلاتا ہے، سالہا سال پہلے ایک بزرگ رہا کرتے تھے جن کا تعلق ساہیوال سے تھا۔ انتہائی پاک باز، عبادت گزار اور دکھیاروں سے محبت اور شفقت فرمانے والے۔ موصوف اکثر کہا کرتے تھے کہ ''ہم کوئی پیر فقیر نہیں بلکہ سگانِ خداوند ہیں۔ ہمارا کام اپنے مالک کے قدموں میں لوٹنا اور بھونکنا ہے۔ آگے اس کی مرضی۔'' کتوں کی وفاداری کا عالم یہ ہے کہ وہ بھوک اور پیاس کے باوجود اپنے مالک کے در کو کسی صورت نہیں چھوڑتے۔

حب الٰہی میں مست و است ہمارے درویشوں کا خاصہ بھی یہی ہے کہ وہ روکھی سوکھی کھا کر بھی ہر دم اپنے رب کا شکر بجالاتے ہیں اور حرفِ شکایت اپنے ہونٹوں پر کسی حال میں بھی نہیں آنے دیتے۔ بندگی اور کسرِ نفسی کتوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ کتوں کے حوالے سے ہی یہ کہاوت بھی مقبولِ عام ہے کہ ''کتے کی دم کو بارہ برس نلکی میں رکھیں تو پھر بھی ٹیڑھی ہی نکلے گی۔'' ہم اس کہاوت کا مفہوم منفی انداز میں اخذ کرتے ہیں جب کہ اس کہاوت سے کتوں کی مستقل مزاجی ظاہر ہوتی ہے۔

کتے کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ بھوکے پیٹ تو رہ سکتا ہے لیکن بھونکے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا۔ گویا بھونکنا اس کا بنیادی حق ہے جس پر وہ کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے وہ مکمل اظہارِ رائے کا قائل ہے۔ کتے کی یہ صفت اسے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ آمریتوں کے دور میں ہم نے اظہارِ رائے کے معاملے میں بڑے بڑوں کو حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ روایت ہے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں خوش خوراکی کے لالچ میں پاکستان کا رخ کرنے والا ایک ہندوستانی کتا محض اس بِنا پر واپس چلا گیا کہ وہ بھونکے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ کتوں کو آپ نے اکثر و بیشتر آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

یہ ان کی فطرت میں شامل ہے۔ مگر اس کی بنیاد لسانی کبھی نہیں ہوتی۔ لسانی بنیادوں پر فتنہ و فساد برپا کرنا صرف اسی جنس کے حصّے میں آیا ہے جو بہ زعم خود اشرف المخلوقات کہلانے کی دعوے دار ہے۔ ہم کتوں کے احسان مند ہیں کہ ان کی بدولت ہمیں ''دیسی کتیا ولایتی بھوں بھوں'' والی خوبصورت کہاوت میسر آئی ہے جو احساسِ کمتری کے مارے ہوئے ہمارے اس طبقے پر صادق آتی ہے جو اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر محض اپنا رعب جھاڑنے کے لیے اپنے ہم زبانوں سے بھی انگریزی میں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
Load Next Story