عمران نذیرآفریدی اور شعیب ملک…خدا حافظ
پاکستانیوں کی اکثریت کی ہمدردیاں سری لنکا کے ساتھ تھیں لیکن ویسٹ انڈیز کی جیت پر قوم دکھی بھی نہیں ہوئی
دعائیں قبول ہوئیں نہ پیش گوئی درست ثابت ہو سکی۔ ایک کالی آندھی چلی اور اس نے دو فیورٹ ٹیموں کو خس وخاشاک کی طرح اڑا دیا۔
سپر ایٹ کے بعد ہاٹ فیورٹ کا درجہ پانے والی آسٹریلین ٹیم سیمی فائنل میں کرس گیل کے ایک جھٹکے میں فارغ ہو گئی۔کرس گیل نے جس بے رحمی سے آسڑیلینز کی دھنائی کی، ایک نیا محاورہ تشکیل دے دیاہے، پڑھیںاور محظوظ ہوں۔''اگر تنہا آدمی لڑائی میں ایک مدمقابل کو شکست دے تو وہ بہادر کہلاتا ہے، اگر کوئی گیارہ کی تنہا ٹھکائی کرے تو وہ کرس گیل ہوتا ہے۔ ویل ڈن گیل۔
فائنل میں فیورٹ سری لنکا نے گیل کو توقابو کر لیا، سیموئلز کے تابڑ توڑ حملوں کو نہ روک سکی اور ویسٹ انڈیز 8سال بعد کوئی بڑا ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ آخری بار 2004ء میں لارڈزکے مقام پر اس ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی جب کہ ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنے ہوئے اسے 33 سال ہو چکے ہیں۔ 1979ء میں لارڈز کا میدان تھا اور فارمیٹ ون ڈے تھا۔ 2012ء میں میدان کولمبو کا پریما داسا اور فارمیٹ ٹی 20 ہے۔ 18 ستمبر کو سجنے والا یہ میلہ 7 اکتوبر کو ختم ہوا تو شائقین نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ کرس گیل اینڈ کمپنی کا شاندار ڈانس بھی دیکھا۔
شروع میں اپنی پیش گوئی کے پوری نہ ہونے کا ذکر کیا تھا لیکن ایک پیش گوئی ایسی بھی تھی جو پوری ہو گئی۔ ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی نے کہا تھا کہ فائنل میں گیل کے بیٹ نے رنز نہ بھی اگلے تو ان کی ٹیم عالمی کپ جیت جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی یا دعویٰ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ پاکستانیوں کی اکثریت کی ہمدردیاں سری لنکا کے ساتھ تھیں لیکن ویسٹ انڈیز کی جیت پر قوم دکھی بھی نہیں ہوئی۔
ٹورنامنٹ ختم ہوا، ویسٹ انڈیز والے کپ لے کر چلے گئے۔ سری لنکن ٹیم ایک بار پھر آخری معرکے میں ناکام رہی۔ قومی ٹیم پر بات کرنے سے پہلے سری لنکا کی ہار کی وجوہات کا جائزہ کیوں نہ لے لیا جائے۔ میرے خیال میںسری لنکا نے پاکستان کو ہرانے کے لیے جو جال بنا تھا فائنل میں وہ اس جال میں خود ہی پھنس گیا۔ سیمی فائنل اور فائنل کے لیے سری لنکن ٹیم کے لیے مدد گار وکٹیں بنوائی گئی تھیں۔ پاکستان کے خلاف سری لنکن خوش قسمت رہے کہ ٹاس جیت کر پہلے کھیلے۔
پاکستان کے بائولروں نے ان کے بیٹسمینوں کو 19 ویں اوور تک باندھ کے رکھا لیکن 20 ویں اوور میں عمر گل نے 16 رنز دے کر اپنے بیٹسمینوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ سری لنکا جیتا تو 16 رنز ہی کا فرق تھا، دونوں ٹیموں کے اسکور میں... فائنل میں ٹاس ویسٹ انڈیز جیتا، سیموئیلز صرف 56 گیندوں پر 78 رنز کی دھواں دھار اننگز نہ کھیلتے تو سری لنکن ٹاس ہارنے کے باوجود میچ لے جاتے۔ 138 رنز کا ٹارگٹ بظاہرہ زیادہ نہیں تھا مگر اس طرح کی وکٹوں پر دوسری اننگز میں 20 اووروں میں سوا سو سے زیادہ کا ٹارگٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اپنی ٹیم کی طرف آئیں تو اس پر تنقید کرنے والوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پوری ٹیم کو فارغ کر دیں اور نئے لڑکوں پر مشتمل نئی ٹیم بنا لیں۔ سپر ایٹ میں بھارتی ٹیم سے ہارنے پر کھلاڑیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی تھی۔ وہی ٹیم آسٹریلیا سے جیتی تو اس کے سارے گنا دھل گئے۔ اس ٹیم سے یہ امیدیں پھر سے باندھ لی گئیں کہ وہ اس بار کی عالمی چیمپئن ہو گی۔ ٹی وی چینلز نے صبح سے شام اور شام سے رات گئے قومی ٹیم کو فیورٹ بنا کر پیش کیا۔ تجزیہ کار ہوں یا نجومی سب کو اپنی ٹیم فاتح نظر آ رہی تھی۔
سیمی فائنل ہارنے کی دیر تھی کہ ٹیم میں پھر کیڑے نظر آنے لگے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس ٹیم سے عالمی چیمپئن بننے کی امید کہ سیمی فائنل مرحلے تک جس کا کوئی بیٹسمین ٹاپ فائیو میں تھا اور نہ بائولردرست نہیں ہو سکتی تھی۔ میرے خیال میں اس ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچ جانا ہی کارنامہ تھا۔ قسمت تھوڑا ساتھ دیتی تو شاید سیمی فائنل بھی جیت جاتی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قومی کرکٹ ٹیم کا تعلق اس ملک سے ہے جہاں باہر سے آ کر کوئی ٹیم کھیلنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود اب تک ہونے والے چار ورلڈ کپ ٹی 20 مقابلوں میں ہماری ٹیم ہر بار سیمی فائنل میں پہنچی ہے۔ دو بار فائنل کھیلنے اور ایک بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزازالگ ہے۔ آئی پی ایل جیسے مہنگے ترین ٹورنامنٹ کے باوجود بھارتی ٹیم مسلسل تیسری بار سیمی فائنل کھیلنے میں ناکام رہی۔ اس کا ٹورنامنٹ میں واحد کارنامہ پاکستان سے میچ جیتنا تھا۔ محمد حفیظ نے بھی اسی ایک میچ میں خراب کپتانی کی ورنہ وہ بہترین فیصلے کرتے رہے۔ ٹیم سلیکشن میں ان سے غلطیاں ضرور ہوئیں، لیکن میدان میں وہ ٹیم کو خوب لڑاتے رہے۔
کپتان کو مستقبل میں بہتر فیصلے کرنے کے لیے ایک مشورہ ضرور دینا چاہوں گا۔ یاری دوستی اور ذاتی پسند ناپسند کو ایک طرف رکھ کر ہی بڑا کپتان بنا جا سکتا ہے۔ سخت فیصلے کرنے والا ہی کامیاب کپتان بنتا ہے۔ میں جانتا ہوں عمران نذیر کپتان کی اولین پسند ہے لیکن اب بہت ہو گیا ہے۔ ایک آدھ اننگز میں برق رفتار ففٹی کر کے کوئی کھلاڑی ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا سکتا۔ حفیظ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے لیکن شاید انھوں نے سنا ضرور ہو گا کہ پاکستان میں شفیق پاپا سے بڑا فرسٹ کلاس کرکٹر پیدا نہیں ہوا۔ انگلینڈ کے باب ولس نے دو بائونسر مارے اور پاپا جی کا ٹیسٹ کیرئیر شروع ہوتے ہی ختم کر دیا تھا۔ عمران نذیر میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹمپرامنٹ نہیں ہے۔
بہتر ہے انھیں اب باہر کا راستہ دکھا دیا جائے۔ شاہد آفریدی اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ بعض میچوں میں ان کی بائولنگ بہتر تھی لیکن بیٹنگ میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ لالے نے ماضی میں کئی اہم میچوں میں ٹیم کو فتح دلائی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر لیں تو بہتر ہے۔ بدترین کارکردگی کے باوجود وہ کھیلنا چاہیں تو کپتان ان کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ شعیب ملک بھی اب ٹیم پر مہربانی کر دیں۔ انھیں کافی چانسز مل چکے ہیں۔ قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنا ضروری نہیں ہے۔ وہ دنیا میں جہاں چاہیں جا کر کھیل سکتے ہیں اور پیسہ بھی بنا سکتے ہیں۔ عبدالرزاق تنقید کی زد میں آنے والے سینئر کرکٹروں کی اس فہرست میں آخری نمبر پر۔ حالیہ ورلڈ کپ میں ان کی پرفارمنس کو دیکھا جائے تو انھیں جب بھی موقع ملا انھوں نے پرفارم کر کے دکھایا۔ میرے خیال میں انھیں ٹیم کا مستقل حصہ ہونا چاہیے تھا۔
سیمی فائنل کی وکٹ پر وہ آل رائونڈ پرفارمنس دے سکتے تھے۔ پرفارمنس کی بنیاد پر انھیں ٹیم سے فارغ نہیں کیا جا سکتا البتہ انھوں نے ٹیم سے نکلنے کا راستہ خود ہی ہموار کر لیا ہے۔ کپتان اور ٹیم مینجمنٹ کے خلاف میڈیا سے بات کر کے وہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی سزا موصوف کو ضرور ملنی چاہیے۔ بابوں کی جگہ نوجوان آئیں گے تو وہ وقت کے ساتھ اپنی جگہ بنا لیں گے۔ آیندہ ورلڈ کپ میں دو سال کا عرصہ ہے تب تک بہترین ٹیم تیار ہو سکتی ہے۔ ہماری ٹیم اگر ایک دو میچوں میں برا کھیلی ہے تو اس نے باقی میچوں میں دوسری ٹیموں کو آئوٹ کلاس بھی کیا ہے۔
سعید اجمل جیسے بڑے بائولروں نے پرفارم کیا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف اہم ترین میچ میں نوجوان لیفٹ آرم اسپنر رضا حسن کی شاندار بولنگ کسی کارنامے سے کم نہیں تھی۔ شین واٹسن اس میچ سے پہلے سب کی دھلائی کر رہے تھے۔ رضا حسن نے انھیں باندھ کر ٹیم کی جیت کی بنیاد ڈال دی تھی اسی لیے وہ اس اہم میچ میں بہترین کھلاڑی بھی قرار دیے گئے۔ رضا حسن کو ورلڈ کپ کی دریافت کہا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں صرف ایک ہی رضا حسن ہے؟
میرے خیال میں ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم کا سیمی فائنل کھیل لینا ہی کافی تھا۔ اس میں جو خامیاں تھیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ پی سی بی نے اب بھی سخت فیصلے نہ کیے تو پاکستانی ٹیم عمران خان کے سونامی کی طرح منزل کے قریب پہنچ کر واپس آتی رہے گی۔
سپر ایٹ کے بعد ہاٹ فیورٹ کا درجہ پانے والی آسٹریلین ٹیم سیمی فائنل میں کرس گیل کے ایک جھٹکے میں فارغ ہو گئی۔کرس گیل نے جس بے رحمی سے آسڑیلینز کی دھنائی کی، ایک نیا محاورہ تشکیل دے دیاہے، پڑھیںاور محظوظ ہوں۔''اگر تنہا آدمی لڑائی میں ایک مدمقابل کو شکست دے تو وہ بہادر کہلاتا ہے، اگر کوئی گیارہ کی تنہا ٹھکائی کرے تو وہ کرس گیل ہوتا ہے۔ ویل ڈن گیل۔
فائنل میں فیورٹ سری لنکا نے گیل کو توقابو کر لیا، سیموئلز کے تابڑ توڑ حملوں کو نہ روک سکی اور ویسٹ انڈیز 8سال بعد کوئی بڑا ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ آخری بار 2004ء میں لارڈزکے مقام پر اس ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی جب کہ ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنے ہوئے اسے 33 سال ہو چکے ہیں۔ 1979ء میں لارڈز کا میدان تھا اور فارمیٹ ون ڈے تھا۔ 2012ء میں میدان کولمبو کا پریما داسا اور فارمیٹ ٹی 20 ہے۔ 18 ستمبر کو سجنے والا یہ میلہ 7 اکتوبر کو ختم ہوا تو شائقین نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ کرس گیل اینڈ کمپنی کا شاندار ڈانس بھی دیکھا۔
شروع میں اپنی پیش گوئی کے پوری نہ ہونے کا ذکر کیا تھا لیکن ایک پیش گوئی ایسی بھی تھی جو پوری ہو گئی۔ ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی نے کہا تھا کہ فائنل میں گیل کے بیٹ نے رنز نہ بھی اگلے تو ان کی ٹیم عالمی کپ جیت جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی یا دعویٰ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ پاکستانیوں کی اکثریت کی ہمدردیاں سری لنکا کے ساتھ تھیں لیکن ویسٹ انڈیز کی جیت پر قوم دکھی بھی نہیں ہوئی۔
ٹورنامنٹ ختم ہوا، ویسٹ انڈیز والے کپ لے کر چلے گئے۔ سری لنکن ٹیم ایک بار پھر آخری معرکے میں ناکام رہی۔ قومی ٹیم پر بات کرنے سے پہلے سری لنکا کی ہار کی وجوہات کا جائزہ کیوں نہ لے لیا جائے۔ میرے خیال میںسری لنکا نے پاکستان کو ہرانے کے لیے جو جال بنا تھا فائنل میں وہ اس جال میں خود ہی پھنس گیا۔ سیمی فائنل اور فائنل کے لیے سری لنکن ٹیم کے لیے مدد گار وکٹیں بنوائی گئی تھیں۔ پاکستان کے خلاف سری لنکن خوش قسمت رہے کہ ٹاس جیت کر پہلے کھیلے۔
پاکستان کے بائولروں نے ان کے بیٹسمینوں کو 19 ویں اوور تک باندھ کے رکھا لیکن 20 ویں اوور میں عمر گل نے 16 رنز دے کر اپنے بیٹسمینوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ سری لنکا جیتا تو 16 رنز ہی کا فرق تھا، دونوں ٹیموں کے اسکور میں... فائنل میں ٹاس ویسٹ انڈیز جیتا، سیموئیلز صرف 56 گیندوں پر 78 رنز کی دھواں دھار اننگز نہ کھیلتے تو سری لنکن ٹاس ہارنے کے باوجود میچ لے جاتے۔ 138 رنز کا ٹارگٹ بظاہرہ زیادہ نہیں تھا مگر اس طرح کی وکٹوں پر دوسری اننگز میں 20 اووروں میں سوا سو سے زیادہ کا ٹارگٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اپنی ٹیم کی طرف آئیں تو اس پر تنقید کرنے والوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پوری ٹیم کو فارغ کر دیں اور نئے لڑکوں پر مشتمل نئی ٹیم بنا لیں۔ سپر ایٹ میں بھارتی ٹیم سے ہارنے پر کھلاڑیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی تھی۔ وہی ٹیم آسٹریلیا سے جیتی تو اس کے سارے گنا دھل گئے۔ اس ٹیم سے یہ امیدیں پھر سے باندھ لی گئیں کہ وہ اس بار کی عالمی چیمپئن ہو گی۔ ٹی وی چینلز نے صبح سے شام اور شام سے رات گئے قومی ٹیم کو فیورٹ بنا کر پیش کیا۔ تجزیہ کار ہوں یا نجومی سب کو اپنی ٹیم فاتح نظر آ رہی تھی۔
سیمی فائنل ہارنے کی دیر تھی کہ ٹیم میں پھر کیڑے نظر آنے لگے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس ٹیم سے عالمی چیمپئن بننے کی امید کہ سیمی فائنل مرحلے تک جس کا کوئی بیٹسمین ٹاپ فائیو میں تھا اور نہ بائولردرست نہیں ہو سکتی تھی۔ میرے خیال میں اس ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچ جانا ہی کارنامہ تھا۔ قسمت تھوڑا ساتھ دیتی تو شاید سیمی فائنل بھی جیت جاتی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قومی کرکٹ ٹیم کا تعلق اس ملک سے ہے جہاں باہر سے آ کر کوئی ٹیم کھیلنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود اب تک ہونے والے چار ورلڈ کپ ٹی 20 مقابلوں میں ہماری ٹیم ہر بار سیمی فائنل میں پہنچی ہے۔ دو بار فائنل کھیلنے اور ایک بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزازالگ ہے۔ آئی پی ایل جیسے مہنگے ترین ٹورنامنٹ کے باوجود بھارتی ٹیم مسلسل تیسری بار سیمی فائنل کھیلنے میں ناکام رہی۔ اس کا ٹورنامنٹ میں واحد کارنامہ پاکستان سے میچ جیتنا تھا۔ محمد حفیظ نے بھی اسی ایک میچ میں خراب کپتانی کی ورنہ وہ بہترین فیصلے کرتے رہے۔ ٹیم سلیکشن میں ان سے غلطیاں ضرور ہوئیں، لیکن میدان میں وہ ٹیم کو خوب لڑاتے رہے۔
کپتان کو مستقبل میں بہتر فیصلے کرنے کے لیے ایک مشورہ ضرور دینا چاہوں گا۔ یاری دوستی اور ذاتی پسند ناپسند کو ایک طرف رکھ کر ہی بڑا کپتان بنا جا سکتا ہے۔ سخت فیصلے کرنے والا ہی کامیاب کپتان بنتا ہے۔ میں جانتا ہوں عمران نذیر کپتان کی اولین پسند ہے لیکن اب بہت ہو گیا ہے۔ ایک آدھ اننگز میں برق رفتار ففٹی کر کے کوئی کھلاڑی ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا سکتا۔ حفیظ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے لیکن شاید انھوں نے سنا ضرور ہو گا کہ پاکستان میں شفیق پاپا سے بڑا فرسٹ کلاس کرکٹر پیدا نہیں ہوا۔ انگلینڈ کے باب ولس نے دو بائونسر مارے اور پاپا جی کا ٹیسٹ کیرئیر شروع ہوتے ہی ختم کر دیا تھا۔ عمران نذیر میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹمپرامنٹ نہیں ہے۔
بہتر ہے انھیں اب باہر کا راستہ دکھا دیا جائے۔ شاہد آفریدی اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ بعض میچوں میں ان کی بائولنگ بہتر تھی لیکن بیٹنگ میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ لالے نے ماضی میں کئی اہم میچوں میں ٹیم کو فتح دلائی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر لیں تو بہتر ہے۔ بدترین کارکردگی کے باوجود وہ کھیلنا چاہیں تو کپتان ان کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ شعیب ملک بھی اب ٹیم پر مہربانی کر دیں۔ انھیں کافی چانسز مل چکے ہیں۔ قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنا ضروری نہیں ہے۔ وہ دنیا میں جہاں چاہیں جا کر کھیل سکتے ہیں اور پیسہ بھی بنا سکتے ہیں۔ عبدالرزاق تنقید کی زد میں آنے والے سینئر کرکٹروں کی اس فہرست میں آخری نمبر پر۔ حالیہ ورلڈ کپ میں ان کی پرفارمنس کو دیکھا جائے تو انھیں جب بھی موقع ملا انھوں نے پرفارم کر کے دکھایا۔ میرے خیال میں انھیں ٹیم کا مستقل حصہ ہونا چاہیے تھا۔
سیمی فائنل کی وکٹ پر وہ آل رائونڈ پرفارمنس دے سکتے تھے۔ پرفارمنس کی بنیاد پر انھیں ٹیم سے فارغ نہیں کیا جا سکتا البتہ انھوں نے ٹیم سے نکلنے کا راستہ خود ہی ہموار کر لیا ہے۔ کپتان اور ٹیم مینجمنٹ کے خلاف میڈیا سے بات کر کے وہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی سزا موصوف کو ضرور ملنی چاہیے۔ بابوں کی جگہ نوجوان آئیں گے تو وہ وقت کے ساتھ اپنی جگہ بنا لیں گے۔ آیندہ ورلڈ کپ میں دو سال کا عرصہ ہے تب تک بہترین ٹیم تیار ہو سکتی ہے۔ ہماری ٹیم اگر ایک دو میچوں میں برا کھیلی ہے تو اس نے باقی میچوں میں دوسری ٹیموں کو آئوٹ کلاس بھی کیا ہے۔
سعید اجمل جیسے بڑے بائولروں نے پرفارم کیا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف اہم ترین میچ میں نوجوان لیفٹ آرم اسپنر رضا حسن کی شاندار بولنگ کسی کارنامے سے کم نہیں تھی۔ شین واٹسن اس میچ سے پہلے سب کی دھلائی کر رہے تھے۔ رضا حسن نے انھیں باندھ کر ٹیم کی جیت کی بنیاد ڈال دی تھی اسی لیے وہ اس اہم میچ میں بہترین کھلاڑی بھی قرار دیے گئے۔ رضا حسن کو ورلڈ کپ کی دریافت کہا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں صرف ایک ہی رضا حسن ہے؟
میرے خیال میں ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم کا سیمی فائنل کھیل لینا ہی کافی تھا۔ اس میں جو خامیاں تھیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ پی سی بی نے اب بھی سخت فیصلے نہ کیے تو پاکستانی ٹیم عمران خان کے سونامی کی طرح منزل کے قریب پہنچ کر واپس آتی رہے گی۔