ایک پلاٹ کی کہانی

جنگلی جھاڑیوں میں گھرا ہوا ایک صاف میدان تھا۔ جہاں الاٹیز کو ان کے پلاٹ دکھائے گئے۔

17 سال کی عمر میں اس نے میٹرک پاس کیا۔ اگلے برس ایک سرکاری دفتر میں بابو بھرتی ہوگیا۔ یہ 1966 تھا۔ اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی تھا۔ اس کے خاندان میں ذاتی مکان ہونے کی روایت موجود نہیں تھی۔ 1971 میں اس کے دفتر میں ہاؤسنگ سوسائٹی کا اعلان ہوا تو اس نے خاندانی روایت شکنی کرتے ہوئے 50 روپے کی پرچی کٹوا کر ہاؤسنگ سوسائٹی کی ممبرشپ لے لی اور اپنے پکے مکان کے خواب آنکھوں میں سجالیے۔ 1971 میں چھوٹے کلرک کی تنخواہ 160 روپے ہوتی تھی تو اندازہ لگا لیجیے کہ اس نے پچاس روپے کی خطیر رقم تنخواہ سے نکال کر کیسے ممبر شپ فیس ادا کی ہوگی۔ بوڑھے ماں باپ کم تنخواہ پر کتنا ناراض ہوئے ہوں گے، مگر اس نے ماں باپ کی وقتی ناراضگی برداشت کرلی۔

کراچی شہر سے باہر اجاڑ جنگل بیلے میں بہت سے سرکاری محکموں کی رہائشی اسکیمیں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) نے منظور کرلی تھیں۔ برسوں وہ جنگل بیلا جہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات، سنسان ویران پڑا رہا اور وہ اپنے پلاٹ کی قسطیں ادا کرتا رہا۔ اب تو اس کی شادی بھی ہوگئی تھی اور وہ چار بچوں کا باپ بھی بن چکا تھا۔ علاوہ ازیں ایک ادنیٰ سرکاری کوارٹر بھی اسے سرکار کی طرف سے مل گیا تھا۔ جس کی چھت سیمنٹ کی چادروں والی تھی، مینہ برستا تو بارش کا موسم کمرے کے اندر اتر آتا۔

بہرحال جیسے تیسے دن گزرتے گئے، اور 1990 آگیا۔ رہائشی اسکیم کو بنے 20 سال ہوگئے تھے اور وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ پلاٹ دیکھنے جا رہا تھا۔ دو بسیں کرائے پر لی گئی تھیں، جن میں بیٹھ کر پلاٹوں کے الاٹیز گئے تھے۔ بہت سے لوگ اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ جب وہ شہر سے باہر سپرہائی وے چونگی سے مزید چار میل آگے دائیں جانب اندر داخل ہوئے تو سرکاری محکموں کے ناموں والی سوسائٹیوں کے بورڈ نظر آرہے تھے، ان ہی میں اس کی سوسائٹی کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ بسیں ایک جگہ جاکر رک گئیں، موٹرسائیکلیں اور ایک دو موٹر گاڑیاں بھی کہ جن میں اس کے محکمے کے بڑے افسران سوار تھے، سب پہنچ گئے۔

جنگلی جھاڑیوں میں گھرا ہوا ایک صاف میدان تھا۔ جہاں الاٹیز کو ان کے پلاٹ دکھائے گئے۔ ایک جگہ اس کا پلاٹ نمبر بھی لکھا ہوا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو لے کر اس جگہ بیٹھ جائے۔ اس کے بڑوں نے صدیاں پرائی زمین پر بنے کچے کوٹھوں میں گزار دی تھیں۔ پاکستان بنا تو کراچی شہر کی پہلی سرکاری سوسائٹی قائم ہوئی۔ اس کے بڑے بھائی اس سوسائٹی کے پہلے سیکریٹری تھے۔ دنیا بھر کو اس کے بڑے بھائی نے پلاٹ الاٹ کردیے، مگر اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا پلاٹ بھی نہیں لیا۔ شاید اس کے بھائی کے ذہن سے ابھی تک وہ کچا کوٹھا محو نہیں ہوا تھا کہ جہاں وہ پیدا ہوا اور اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ خیر دیکھتے ہی دیکھتے سوسائٹی آباد ہوگئی۔

بڑے خوبصورت پکے گھر بن گئے اور سوسائٹی کا پہلا سیکریٹری جٹ لائن کے بوسیدہ سرکاری کوارٹر میں ماں باپ اور بیوی بچوں کے ساتھ پڑا رہا۔وہ سپرہائی وے پر موجود اپنے محکمے کی رہائشی اسکیم میں اپنے پلاٹ پر کھڑا ہوا تھا۔ اور دل ہی دل میں بڑے بھائی کی سادہ لوحی پر کڑھ رہا تھا کہ سوسائٹیکا سیکریٹری ہوتے ہوئے انھوں نے خود اپنے لیے کوئی پلاٹ نہ لیا۔ وہ خود کو سمجھ دار، عقل مند اور معاملہ فہم سمجھ رہا تھا کہ اس نے 20 سال پہلے درست فیصلہ کیا تھا اور آج وہ اپنی زمین اپنے پلاٹ پر کھڑا ہے۔ جہاں وہ اپنی جمع پونجی اور ہاؤس بلڈنگ والوں سے قرض لے کر اپنا ذاتی مکان بنائے گا۔ جہاں اس کے بوڑھے ماں باپ اور بیوی بچے خوش و خرم زندگی گزاریں گے۔


مگر اس کے سارے خواب چکنا چور ہوکر رہ گئے۔ برسوں سے بے آب و گیاہ جنگل بیلے کی طرف ''بھیڑیے'' بڑھنا شروع ہوگئے تھے۔ وہ بے چارے الاٹیز جو اپنی فائلوں کو جان سے زیادہ عزیز سمجھ کر محفوظ جگہ پر سنبھال کر رکھتے تھے، ان کی فائلیں ''کھلونا'' بن کر رہ گئیں اور کہا گیا کہ تم ان کھلونوں سے بہلتے رہو، کھیلتے رہو، اور ''ہم'' اپنا کھیل کھیلیں گے۔وہ جنگل بیلا اب سونا زمین بن چکا تھا۔ شہر بھر کے غنڈے بدمعاش، دہشت گرد، قاتل، ایمان فروش، اکٹھے ہوچکے تھے۔ کلاشنکوف بردار اسکیم نمبر 33 کراچی کی زمینوں پر قابض نظر آنے لگے تھے۔ سرکار، اسمبلی، سیاست، سب کے سب خاموش، سن۔

آج 2015 ہے اس کی سوسائٹی کو بنے تقریباً 45 سال ہوچکے ہیں، وہ خود بھی 70 کے پیٹے میں آچکا ہے، دادا اور نانا بن چکا ہے مگر وہ پلاٹ آج بھی اس کا نہیں ہے۔

کل سوسائٹی کے پرانے ممبران کی میٹنگ تھی۔ وہ بھی گیا تھا۔ اس نے وہاں بہت سے نوجوان چہرے بھی دیکھے۔ وہ ایک ایک سے پوچھتا رہا ''آپ کس کے بیٹے ہیں؟'' جواب ملتا ''میں انوار حسین صاحب کا بیٹا ہوں'' اسے یاد آجاتا انوار حسین مرحوم بھی اس کی طرح کلرک تھے۔ شبیر ہاشمی صاحب کا بیٹا، مبارک علی صاحب کا بیٹا۔ ہائے یہ سب دنیا سے چلے گئے دل کی حسرتیں دل ہی میں لیے۔

وہ سوسائٹی جو 45 سال پہلے قائم ہوئی تھی۔ اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ لینڈ مافیا کے کلاشنکوف بردار قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ مگر خوف و دہشت کے اس ماحول میں چند سر پھرے ایسے بھی ہیں جو اپنے حق سے زیادہ غریب الاٹیز کے حق کے لیے آواز اٹھائے میدان میں موجود ہیں۔ ان ہی کی طرف سے میٹنگ بلائی گئی تھی۔ جہاں یہ انتہائی حوصلہ افزا خبر سنائی گئی کہ ''سندھ ہائی کورٹ نے قبضہ مافیا کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے ساٹھ دن کے اندر سوسائٹی کے الیکشن کروا کے تمام اختیارات منتخب نمایندوں کے حوالے کردینے کا حکم سنایا ہے۔''

تیس دن گزر چکے ہیں۔ اب تیس دن رہ گئے ہیں اس نے دیکھا میٹنگ میں موجود ساتھیوں کے حوصلے بلند تھے۔ اب ''خوف کے سائے'' بھاگ رہے ہیں۔ امیدوں کے مدھم چراغ تیز لو دے رہے ہیں۔ وہ میٹنگ کے بعد گھر لوٹ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ چند روزہ زندگی کے لیے اپنا آپ بیچ کر ''لوگوں'' کو کیا ملا۔ ہمارے اپنے چند ساتھی بھی میرجعفر، میر صادق بن گئے تھے اور وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کو کیا ملا ؟ اپنی عاقبت خراب کرلی۔ ''وہ'' تو دشمن تھے مگر ''تم'' تو دوست تھے۔ 23 مارچ 2015، آج سے 75 سال پہلے قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ سوچا تھا کیا۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا۔
Load Next Story