موبائل کمپنیاں اور اُن کا گورکھ دھندا
ایک جانب بہت طویل قطار تھی، استفسارکرنے پر معلوم ہوا کہ لوگ اپنی موبائل سم اپنے نام یا اس کی تصدیق کروانے آئے ہیں۔ نشست گاہ کی عقبی جانب کچھ موٹر سائیکلز بھی نمائشی انداز میں کھڑی تھیں جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بلانے کے لیے دانے کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔
میں نے داخلی دروازے کے ساتھ لگی مشین سے ٹوکن لیا اورباری کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد اندازہ ہوا کہ ٹوکن کے مطابق باری کا خودکار سسٹم بند ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں بھی اپنی نشست سے اُٹھا اور ایک کاؤنٹر پر اپنے مسئلے کے حل کے لیے چلا گیا۔ جہاں مجھ سے پہلے کچھ اور افراد موجود تھے۔ انہی میں ایک بزرگ ایسے بھی تھے جو دیکھنے میں تقریباً 70 سے اوپر کے لگ رہے تھے۔ وہ اپنی سم بائیو میٹرک کروانے کے لیے انگوٹھا لگا رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں کی پوروں پر موجود نشانات مدہم ہوگئے تھے۔ جس کے باعث دوافراد ان کا انگوٹھا پورے زور کے ساتھ دبانے میں ان کی مدد کررہے تھے تاکہ انگوٹھے کے نشانات کو نادرا کے نشانات سے ملا کر ان کی سم کی تصدیق کی جاسکے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ سروس سینٹر والوں نے ان سے معذرت کرلی۔ انہوں نے بڑی منت سماجت کی۔ کیوںکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر دوسری ڈیڈ لائن 13 اپریل کے اختتام تک ان کی سِم بائیو میٹرک نہ ہوئی تو وہ کام کرنا چھوڑ دے گی۔
لیکن ان کی منت سماجت اور شدید گرمی میں آنا کچھ کام نہ آیا۔ یہاں اسی قسم کے مسائل دیکھنے کو جابجا نظر آرہے تھے۔ کسی نے سم خریدتے وقت اپنا شناختی کارڈ دیا تھا مگر اس کی سم کسی اور کے نام کر دی گئی تھی۔ تو کچھ ایسے تھے جنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کی سم کس کے نام ہے۔ بعض اس بات پر لڑ رہے تھے کہ انہوں نے صرف ایک سم خریدی ہے جبکہ ان کے شناختی کارڈ پر نو مزید سمیں رجسٹرڈ ہیں۔ وہ کس کے پاس ہیں؟
یہ صورتحال دیکھ کر مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب موبائل کمپنیوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں اپنی سمیں چوکوں چوراہوں میں مفت تقسیم کی تھیں۔ ہر چھوٹی بڑی دکان پر موبائل سمز کے ڈھیر لگا دیئے گئے اور اس کے خریدنے کے لیے جو شرائط اور طریقہ کار رکھا گیا تھا۔ اس پر نہ موبائل کمپنیوں نے عمل کیا اور نہ ہی اس بات کا ریٹیلرز کو پابند کیا۔نتیجتاً جس کو سم دی جارہی ہے نہ اس کے نام کا اندراج کیا اور نہ ہی اس کے کوائف معلوم کیے بلک خانہ پوری کے لیے جس کا دل چاہا نام و شناختی کارڈ استعمال کرلیا۔
اس انداز میں دھڑا دھڑ سمیں فروخت ہونے سے موبائل کمپنیوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ لیکن اگر نقصان ہوا تو صارفین کو یا پھر ریاست کو۔ صارفین کو نقصان اِس لیے ہوا کہ ''کرے کوئی بھرے کوئی'' کے مصداق کسی دوسرے کے نام سم جاری کردی گئیں۔ جس کا نقصان ریاست کو یہ ہوا کہ وہ نامعلوم سموں کی دھمکی آمیز فون کالز، رقم کی منتقلی اور نصب شدہ بموں کو اڑانے کے علاوہ دہشت گردی اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں استعمال ہونے کے باوجود اصل مجرموں تک نہ پہنچ سکی۔
لیکن افسوس اور المیہ یہ ہے کہ دیگر لوگوں کے ناموں پر سمیں رجسٹر کرنے، بغیر کسی شناختی دستاویز کے سم جاری کرنے اور صارفین کے ریکارڈ نہ رکھنے جیسی غفلت پر حکومت نے کسی بھی موبائل کمپنی کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی۔
دوسری جانب اس وقت پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں موجود پانچوں موبائل کمپنیوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ بائیو میٹرک تصدیق کے عمل سے کروڑوں صارفین کے دعوے عنقریب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیں گے۔ کیوںکہ موبائل کمپنیاں فعال سموں کے بجائے جتنی سمیں جاری کی گئیں ہیں۔ ان سب کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنے صارفین کی تعداد ظاہر کرتی ہیں۔
لیکن اب اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد کتنے کروڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام کمپنیاں بائیومیٹرک سسٹم کے تصدیقی عمل کے لیے لوگوں کوراغب کرنے کے لیے فری ٹاک ٹائم، فری انٹرنیٹ بنڈلز اور ایس ایم ایس کا لالج بھی دے رہی ہیں۔
یہ تو صرف ابتدائی مرحلہ ہے۔ ابھی بہت سے مراحل ایسے ہیں جن کے حوالے سے حکومت کو قانون سازی کرنی پڑے گی اور ٹیلی کام سیکٹرکو شتر بے مہار کی طرح چھوڑنے کے بجائے کچھ قواعد و ضوابط طے کرنے ہوں گے تاکہ بے شمار مخفی اور ظاہر ٹیکسز اورمختلف پیکیجز میں ریٹس کی ہیرا پھیری، بیلنس کی کٹوتی کی آڑ میں عوام سے لوٹ مار کا سلسلہ بھی رک سکے۔
اسی طرح موبائل کمپنیوں کی کال سروس سینٹرز کی کارکردگی بھی غیراطمینان بخش ہے۔ صارف سے سروس سینٹر رابطہ کرنے کی مد میں بھی چارجز وصول کیے جانے کے باوجود مختلف مسائل میں عملی طور پر رہنمائی کا حق ادا نہیں کیا جاتا یا طویل ٹائم تک انتظار کروایا جاتا ہے۔ کہیں دور کیوں جائیں۔ یہاں اپنی ہی ایک چھوٹی سی مثال پیش کیے دیتا ہوں۔ قریباً مارچ کے آغاز میں، میں نے موبائل نیٹ ورک کی تبدیلی کے ارادے کو عملی جامہ پہنچانے کی کوشش شروع کی۔ لیکن تب سے یہ سطور لکھنے تک، سروس سینٹر کے دھکے کھانے کے علاوہ روز کال سینٹر والوں کی بھی منتیں کررہا ہوں۔ مگر ابھی تک موبائل نمبر پورٹیبلٹی یا 'ایم این پی' کی سہولت لینے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہوں۔ اس کے بجائے صرف ''میٹھی گولیاں'' دی جارہی ہیں۔ کبھی سروس سینٹر جانے کا مشورہ اور کبھی شکایت پر عمل کے لیے انتظار۔ ہر دفعہ رابطہ کرنے پر کال سینٹر پر ایک نئے فرد سے بات ہوتی ہے اور اس کو پوری کہانی سننانے کے بعد وہی اس کے رٹے رٹائے جملے ہوتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں جس نیٹ ورک سے جانے کے لیے مجھے اتنے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں اگر 'ایم این پی' کے ذریعے میں کسی دوسرے نیٹ ورک سے اس نیٹ ورک پر آرہا ہوتا تو شاید کال کرنے کی ضرورت نہ پڑتی اور ایک ہی میسج کے ردعمل میں سارے کے سارے مراحل خودکار طریقے سے طے ہوجاتے، مگر یہاں معاملہ دوسرا تھا۔ جہاں کچھ آنے کے بجائے ہاتھ سے جارہا ہو، وہاں اسی طرح ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ شاید یہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ لاکھوں موبائل صارفین کے ساتھ ہورہا ہے جو اس پر کڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے۔
[poll id="323"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔