اورنگ زیب کا فیصلہ اور اسکے نتائج
دیکھ لیجیے وہ ایک دروازہ کھولا تھا اور اُس کے بعد نفرتوں، لاشوں اور سسکیوں کی آوازیں کس کس دیوار کے پیچھے
کیا ایک دروازہ کم تھا جو ہر روز جہنم کا ایک نیا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ ان بادشاہوں اور ان کے پیروں تلے رہنے والوں نے عرب لیگ میں یہ اعلان کیا کہ ایک مشترکہ فوج بنائی جائے گی۔
میری آرزو تھی کہ کاش اس اجلاس میں بھی کوئی''عمرو موسی'' ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں کے سپر اسٹار امریکا نے جب 2003 میں عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا تو اُس وقت کی عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عمرو موسی نے کہا تھا کہ امریکا جہنم کا دروازہ کھول رہا ہے۔
دیکھ لیجیے وہ ایک دروازہ کھولا تھا اور اُس کے بعد نفرتوں، لاشوں اور سسکیوں کی آوازیں کس کس دیوار کے پیچھے سے آئی ہے۔ تھوڑا سا غور کیجیے کہ اُس کے بعد کتنے جہنم کے دروازے کھولے گئے اور اب یمن کی باری ہے۔ سب کو لگتا یہ ہے کہ ایک بار پھر ایسے شعلوں کو ہوا دی جا رہی ہے جس کی لپیٹ میں کسی نہ کسی ناطے سے سب آئینگے۔ کوئی تو اٹھ کر کہہ دو کہ بس ۔۔ بس کر دو۔۔ اب اور دروازے مت کھولو۔
ایسی چنگاریوں کو ہوا دینے سے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہوا کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے زمینی حقائق کو موڑ توڑ کر بتایا جاتا ہے۔ اور ایسے میں چھوٹی سی غلطی سارے کھیل کو بگاڑ دیتی ہے۔ یہاں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ شاید کچھ سمجھ آ جائے۔
ہندوستان میں اورنگ زیب کے متعلق سب نے اپنے اپنے قصے بنائے ہوئے ہیں لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اُس کے دور میں ہندوستان کے اندر بہت سی بغاوتیں ہوئی اور اُن بغاوتوں میں کس طرح سے لوگ حکمرانوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے باعث بغاوت پر اترتے رہے۔ اور کیسے بڑی بڑی فوجوں کو شکست ہوئی۔ عوام کبھی بھی اُس طرح سے ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوتے جس طرح سے ایک مضبوط آرمی ہوتی ہے لیکن انھوں نے بڑی سے بڑی فوجوں کو شرمناک شکست دی۔ اور اُس کی سب سے بڑٰی وجہ وہ سیاسی غلطیاں ہوتی ہیں جو معاشی، مذہبی یا پھر کسی بھی طرح کے استحصال کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
اورنگ زیب کے زمانے میں مرہٹوں کی جانب سے بہت ساری بغاوتیں ہوئیں۔ اس میں بہت حد تک کسانوں کا ہاتھ تھا۔ ستیش چندر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جہاں ہندوستان میں اورنگ زیب کی مرہٹوں کے خلاف ناکامی کی کئی وجوہات تھیں وہاں اُس میں سب سے اہم وجہ کسانوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی بھی تھی۔ اُن کی فوج میں اکثریت ان کسانوں کی تھی جنھوں نے مغلوں کی پالیسی کی وجہ سے اپنے گاؤں چھوڑ دیے تھے۔
ایک بار ہوا یہ کہ اورنگ زیب کو بتایا گیا کہ مرہٹوں نے اُن علاقے کے کسانوں کا تعاون حاصل کر لیا ہے جہاں پر بادشاہ کا کنٹرول ہے۔ اس اطلاع میں سچائی سے زیادہ افواہ شامل تھی۔ چنانچہ فوراً بادشاہ کی طرف سے یہ حکم صادر کیا گیا کہ ہر گاؤں میں سے ملنے والے تمام گھوڑے اور اسلحہ ضبط کر لیا جائے۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کے لیے جب سپاہی نکلے اور یہ اطلاع ہر جگہ پھیلنا شروع ہوئی تو کسانوں نے کہا اب اپنے مال کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرہٹوں کے ساتھ مل لیا جائے۔ اور اس کے بعد مرہٹوں کی فوج میں اضافہ ہوتا گیا۔
ایسی ہی صورتحال غالباً آج کل ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ طاقت کے نشے میں امریکا نے عراق میں ایسی ہی سیاسی غلطی کی جس کی وجہ سے وہاں قتل عام کا بازار گرم ہوا۔ اور ایک جہنم کا دروازہ کھل گیا۔ اور اب اس کے بعد ایسی ہی غلطی یمن میں ہو رہی ہے۔ وہاں لڑنے والوں کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ اُن میں سے اکثریت ابتدائی طور پر اپنے حقوق کے لیے نکلی تھی لیکن اب اُس میں بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے شدت آ چکی ہے۔
جب کہ وہاں سے حاصل ہونے والی معلومات اور ویڈیوز پر غور کریں ت آپ کو اپنے مقامی لباس میں قبائلی نظر آئینگے جو بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ معاملہ اب قبائل اور حقوق سے نکل کر بقا اور عقیدہ کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ چند غلط فیصلوں نے علاقے کی ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اول یہ کہ اس طرح کے احمقانہ فیصلے عوامی حمایت کو مخالف سمت میں پھینک دیتے ہیں دوسری طرف کیا طاقت کا استعمال بھی ٹھیک طرح سے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہتا ہے؟ سعودیہ کا یہ دعویٰ کہ وہ صدر ہادی کی آئینی حکومت کو بحال کرنا چاہتا ہے اس نعرے میں کوئی نیا پن ہے؟ ہم تاریخ کے اوراق کو زیادہ نہیں پلٹتے بلکہ ماضی قریب میں جا کر چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکا ایک اسامہ بن لادن کے لیے افغانستان میں آیا تھا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اور اس کی کتنی بڑی قیمت پاکستان سمیت اس پورے خطے کوادا کرنی پڑی۔ کیا امریکا کا مقصد یہ تھا کہ صدام کو بس حکومت سے ہٹا دے۔؟ اور پھر عراق کس حال میں ہے۔؟ کیا کرنل قذاقی کو راستے سے ہٹانے کے بعد اب لیبیا میں بالکل امن ہے۔؟ جب اس دنیا کے بڑے چوہدری نے صرف چند لوگوں کو ہٹانے یا لانے کے بہانے سے نقشے تبدیل کر دیے تو پھر روس نے یوکرائن میں کیا تو کیوں سب کو برا لگا۔ اور اس کے بعد شام میں بشار الاسد کے لیے ایران نے بھی وہ ہی کیا جو امریکا کرتا آ رہا ہے۔ اور اب سعودیہ یمن میں کر رہا ہے۔
اس نعرے میں جان نہیں۔ پس پردہ معاملات اس سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سارے سانحہ کے بعد صدر ہادی دوبارہ اپنے اقتدار پر بیٹھ جائینگے تو اس کے امکانا ت بہت کم ہیں۔ جو بھی ہو گا اس معاملہ کا حل مذاکرات سے ہی نکلے گا۔ لیکن مذاکرات میں کون اپنی ٹانگ ڈالے گا۔؟ امریکا نے ایک طرف سعودیہ کی حمایت کی ہے۔
مگر دوسری طرف ایران سے مذاکرات بھی کسی نتیجہ پر پہنچنے والے ہیں۔ ایسے میں اس خبر کا آنا کہ صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت میں ایک امریکی ڈرون حملہ کیا گیا ہے اور اس میں ایران کے دو فوجی ہلاک ہوئے ہیں معاملہ کو اور الجھا رہا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس وجہ کی وضاحت کیے بغیر اس طرح کی کارروائیاں یمن میں جہاں عوامی طور پر شدت اختیار کریگی وہی اس تفریق میں اضافہ ہو گا جو جلد یا بدیر اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔
کوئی بھی واقعہ آسان نہیں ہے۔ خطرناک حد تک اس میں ہر کھلاڑی کودا ہوا ہے۔ پاکستان کے صرف اس بیان نے کہ ہم سعودیہ کی خود مختاری کا تحفظ کرینگے یمن میں موجود پاکستانیوں کو جہاں مشکل میں ڈال دیا وہی واضح طور پر کچھ گروہ اپنی دکان چلانے کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ وہی سوشل میڈیا پر ایران اور سعودیہ کے حمایتیوں کا پروپیگینڈا شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان کے اندر سے ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جو اس تفریق کو ہوا دیگی۔ حکومت کو سوشل میڈیا پر نظر رکھنی ہو گی۔ جو غلط سیاسی فیصلے ہمارے ملک سے باہر کیے جا رہے ہیں ہمارے حکمرانوں کو اپنی دانش سے ان کے اثرات ہمارے سماج میں منتقل ہونے سے روکنے ہونگے۔ میں نے اسی لیے اورنگ زیب کا ایک چھوٹا سے فیصلہ بتایا تھا جس کی وجہ سے مرہٹوں کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ ان ہی چھوٹے چھوٹے احکامات کے اثرات نسلوں کو بھگتنا ہوتے ہیں۔
تاریخ کا قانون ہے کہ تبدیلی کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا۔ کہتے ہیں کہ اس تبدیلی کے دوران نئی اور پرانی سوچ کا ٹکراؤ ضرور ہوتا ہے۔ نئے اور پرانے نظام ایک دوسرے سے الجھتے ہیں۔ مگر کئی اقوام نے ہمیشہ اپنے اندر نئے خیالات کو آنے دیا ہے اور وہ ہی قومیں ہمیشہ خوشحال، پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن رہی ہیں۔ انھیں سوچوں پر حکومتوں کا بھی تصادم ہوتا ہے۔
مغرب نے طاقت اور سوچ کے اس خیال میں فرقوں کی بنیاد پر کئی جنگیں لڑیں۔ اور شاید ہم نے بھی بہت لڑیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہم نئی سوچ کو آنے نہیں دیتے اور آج بھی اورنگ زیب کے اُس حکم کی طرح اٹل فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ فیصلہ اچھا یا برا نہیں ہوتا اُس کے نتائج اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سڑکوں پر نکل کر یا سوشل میڈیا کے ذریعہ دباؤ بڑھائے جا رہے ہیں مگر آپ کو وہ وہ فیصلہ کرنا ہے جس سے ہماری نسلوں کو بہتر نتائج ملیں۔ جہنم کے دروازے مت کھولیں۔
میری آرزو تھی کہ کاش اس اجلاس میں بھی کوئی''عمرو موسی'' ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں کے سپر اسٹار امریکا نے جب 2003 میں عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا تو اُس وقت کی عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عمرو موسی نے کہا تھا کہ امریکا جہنم کا دروازہ کھول رہا ہے۔
دیکھ لیجیے وہ ایک دروازہ کھولا تھا اور اُس کے بعد نفرتوں، لاشوں اور سسکیوں کی آوازیں کس کس دیوار کے پیچھے سے آئی ہے۔ تھوڑا سا غور کیجیے کہ اُس کے بعد کتنے جہنم کے دروازے کھولے گئے اور اب یمن کی باری ہے۔ سب کو لگتا یہ ہے کہ ایک بار پھر ایسے شعلوں کو ہوا دی جا رہی ہے جس کی لپیٹ میں کسی نہ کسی ناطے سے سب آئینگے۔ کوئی تو اٹھ کر کہہ دو کہ بس ۔۔ بس کر دو۔۔ اب اور دروازے مت کھولو۔
ایسی چنگاریوں کو ہوا دینے سے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہوا کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے زمینی حقائق کو موڑ توڑ کر بتایا جاتا ہے۔ اور ایسے میں چھوٹی سی غلطی سارے کھیل کو بگاڑ دیتی ہے۔ یہاں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ شاید کچھ سمجھ آ جائے۔
ہندوستان میں اورنگ زیب کے متعلق سب نے اپنے اپنے قصے بنائے ہوئے ہیں لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اُس کے دور میں ہندوستان کے اندر بہت سی بغاوتیں ہوئی اور اُن بغاوتوں میں کس طرح سے لوگ حکمرانوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے باعث بغاوت پر اترتے رہے۔ اور کیسے بڑی بڑی فوجوں کو شکست ہوئی۔ عوام کبھی بھی اُس طرح سے ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوتے جس طرح سے ایک مضبوط آرمی ہوتی ہے لیکن انھوں نے بڑی سے بڑی فوجوں کو شرمناک شکست دی۔ اور اُس کی سب سے بڑٰی وجہ وہ سیاسی غلطیاں ہوتی ہیں جو معاشی، مذہبی یا پھر کسی بھی طرح کے استحصال کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
اورنگ زیب کے زمانے میں مرہٹوں کی جانب سے بہت ساری بغاوتیں ہوئیں۔ اس میں بہت حد تک کسانوں کا ہاتھ تھا۔ ستیش چندر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جہاں ہندوستان میں اورنگ زیب کی مرہٹوں کے خلاف ناکامی کی کئی وجوہات تھیں وہاں اُس میں سب سے اہم وجہ کسانوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی بھی تھی۔ اُن کی فوج میں اکثریت ان کسانوں کی تھی جنھوں نے مغلوں کی پالیسی کی وجہ سے اپنے گاؤں چھوڑ دیے تھے۔
ایک بار ہوا یہ کہ اورنگ زیب کو بتایا گیا کہ مرہٹوں نے اُن علاقے کے کسانوں کا تعاون حاصل کر لیا ہے جہاں پر بادشاہ کا کنٹرول ہے۔ اس اطلاع میں سچائی سے زیادہ افواہ شامل تھی۔ چنانچہ فوراً بادشاہ کی طرف سے یہ حکم صادر کیا گیا کہ ہر گاؤں میں سے ملنے والے تمام گھوڑے اور اسلحہ ضبط کر لیا جائے۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کے لیے جب سپاہی نکلے اور یہ اطلاع ہر جگہ پھیلنا شروع ہوئی تو کسانوں نے کہا اب اپنے مال کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرہٹوں کے ساتھ مل لیا جائے۔ اور اس کے بعد مرہٹوں کی فوج میں اضافہ ہوتا گیا۔
ایسی ہی صورتحال غالباً آج کل ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ طاقت کے نشے میں امریکا نے عراق میں ایسی ہی سیاسی غلطی کی جس کی وجہ سے وہاں قتل عام کا بازار گرم ہوا۔ اور ایک جہنم کا دروازہ کھل گیا۔ اور اب اس کے بعد ایسی ہی غلطی یمن میں ہو رہی ہے۔ وہاں لڑنے والوں کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ اُن میں سے اکثریت ابتدائی طور پر اپنے حقوق کے لیے نکلی تھی لیکن اب اُس میں بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے شدت آ چکی ہے۔
جب کہ وہاں سے حاصل ہونے والی معلومات اور ویڈیوز پر غور کریں ت آپ کو اپنے مقامی لباس میں قبائلی نظر آئینگے جو بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ معاملہ اب قبائل اور حقوق سے نکل کر بقا اور عقیدہ کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ چند غلط فیصلوں نے علاقے کی ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اول یہ کہ اس طرح کے احمقانہ فیصلے عوامی حمایت کو مخالف سمت میں پھینک دیتے ہیں دوسری طرف کیا طاقت کا استعمال بھی ٹھیک طرح سے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہتا ہے؟ سعودیہ کا یہ دعویٰ کہ وہ صدر ہادی کی آئینی حکومت کو بحال کرنا چاہتا ہے اس نعرے میں کوئی نیا پن ہے؟ ہم تاریخ کے اوراق کو زیادہ نہیں پلٹتے بلکہ ماضی قریب میں جا کر چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکا ایک اسامہ بن لادن کے لیے افغانستان میں آیا تھا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اور اس کی کتنی بڑی قیمت پاکستان سمیت اس پورے خطے کوادا کرنی پڑی۔ کیا امریکا کا مقصد یہ تھا کہ صدام کو بس حکومت سے ہٹا دے۔؟ اور پھر عراق کس حال میں ہے۔؟ کیا کرنل قذاقی کو راستے سے ہٹانے کے بعد اب لیبیا میں بالکل امن ہے۔؟ جب اس دنیا کے بڑے چوہدری نے صرف چند لوگوں کو ہٹانے یا لانے کے بہانے سے نقشے تبدیل کر دیے تو پھر روس نے یوکرائن میں کیا تو کیوں سب کو برا لگا۔ اور اس کے بعد شام میں بشار الاسد کے لیے ایران نے بھی وہ ہی کیا جو امریکا کرتا آ رہا ہے۔ اور اب سعودیہ یمن میں کر رہا ہے۔
اس نعرے میں جان نہیں۔ پس پردہ معاملات اس سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سارے سانحہ کے بعد صدر ہادی دوبارہ اپنے اقتدار پر بیٹھ جائینگے تو اس کے امکانا ت بہت کم ہیں۔ جو بھی ہو گا اس معاملہ کا حل مذاکرات سے ہی نکلے گا۔ لیکن مذاکرات میں کون اپنی ٹانگ ڈالے گا۔؟ امریکا نے ایک طرف سعودیہ کی حمایت کی ہے۔
مگر دوسری طرف ایران سے مذاکرات بھی کسی نتیجہ پر پہنچنے والے ہیں۔ ایسے میں اس خبر کا آنا کہ صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت میں ایک امریکی ڈرون حملہ کیا گیا ہے اور اس میں ایران کے دو فوجی ہلاک ہوئے ہیں معاملہ کو اور الجھا رہا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس وجہ کی وضاحت کیے بغیر اس طرح کی کارروائیاں یمن میں جہاں عوامی طور پر شدت اختیار کریگی وہی اس تفریق میں اضافہ ہو گا جو جلد یا بدیر اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔
کوئی بھی واقعہ آسان نہیں ہے۔ خطرناک حد تک اس میں ہر کھلاڑی کودا ہوا ہے۔ پاکستان کے صرف اس بیان نے کہ ہم سعودیہ کی خود مختاری کا تحفظ کرینگے یمن میں موجود پاکستانیوں کو جہاں مشکل میں ڈال دیا وہی واضح طور پر کچھ گروہ اپنی دکان چلانے کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ وہی سوشل میڈیا پر ایران اور سعودیہ کے حمایتیوں کا پروپیگینڈا شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان کے اندر سے ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جو اس تفریق کو ہوا دیگی۔ حکومت کو سوشل میڈیا پر نظر رکھنی ہو گی۔ جو غلط سیاسی فیصلے ہمارے ملک سے باہر کیے جا رہے ہیں ہمارے حکمرانوں کو اپنی دانش سے ان کے اثرات ہمارے سماج میں منتقل ہونے سے روکنے ہونگے۔ میں نے اسی لیے اورنگ زیب کا ایک چھوٹا سے فیصلہ بتایا تھا جس کی وجہ سے مرہٹوں کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ ان ہی چھوٹے چھوٹے احکامات کے اثرات نسلوں کو بھگتنا ہوتے ہیں۔
تاریخ کا قانون ہے کہ تبدیلی کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا۔ کہتے ہیں کہ اس تبدیلی کے دوران نئی اور پرانی سوچ کا ٹکراؤ ضرور ہوتا ہے۔ نئے اور پرانے نظام ایک دوسرے سے الجھتے ہیں۔ مگر کئی اقوام نے ہمیشہ اپنے اندر نئے خیالات کو آنے دیا ہے اور وہ ہی قومیں ہمیشہ خوشحال، پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن رہی ہیں۔ انھیں سوچوں پر حکومتوں کا بھی تصادم ہوتا ہے۔
مغرب نے طاقت اور سوچ کے اس خیال میں فرقوں کی بنیاد پر کئی جنگیں لڑیں۔ اور شاید ہم نے بھی بہت لڑیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہم نئی سوچ کو آنے نہیں دیتے اور آج بھی اورنگ زیب کے اُس حکم کی طرح اٹل فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ فیصلہ اچھا یا برا نہیں ہوتا اُس کے نتائج اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سڑکوں پر نکل کر یا سوشل میڈیا کے ذریعہ دباؤ بڑھائے جا رہے ہیں مگر آپ کو وہ وہ فیصلہ کرنا ہے جس سے ہماری نسلوں کو بہتر نتائج ملیں۔ جہنم کے دروازے مت کھولیں۔