کچھ نہ کچھ نمونہ اور نشانی

ہم نے اتنا ہی تو کہا تھا کہ کرپشن یا جو کچھ بھی ہے بزرگوں کی نشانی اور ہمارے لیڈران کرام اور وزیران ....

barq@email.com

پتہ نہیں کیوں ہمارے ساتھ اکثر ایسا کیوں ہو جاتا ہے کہ کرنا تو ''اچھا'' چاہتے ہیں لیکن ہو برا جاتا ہے حالانکہ نظر ''نیت'' پر ہونی چاہیے ''نتیجے'' پر نہیں مثلاً وہ جس نے اپنے آقا یا ماں یا باپ کے چہرے سے مکھی کو دور کرنے کے لیے ایک پتھر یا بندوق یا توپ استعمال کی تھی اسے اس ''چہرے'' کی بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ مکھی تو اڑ گئی۔

چنانچہ بے چارے کو خواہ مخواہ قصوروار ٹھہرا دیا گیا تھا، ایسا ہی سلسلہ ہمارا بھی ہے۔ ہم ''دل سے'' تو کسی کی تعریف کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ ناپسندیدہ عناصر کی وجہ سے وہ تعریف تنقید بن جاتی ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ہم نے اپنے صوبے کے انسداد کرپشن اسکواڈ کی تعریف کرنا چاہی لیکن سخن فہمی سے ناآشنا لوگوں نے اس کے الٹ معنی نکالے۔

ہم ''دعا'' لکھتے رہے وہ ''دغا'' پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں ''محرم'' سے ''مجرم'' کر دیا

ہمارے ساتھ معاملہ ہی کچھ ایسا ہو جاتا جیسا کہ دو بھائیوں کے ساتھ ہوا۔ دو بھائیوں نے لوہار سے تلوار بنوائی تو آزمانا چاہا کہ تلوار کتنی تیز ہے گھر میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جس پر تلوار کی دھار آزمائی جا سکے۔ دونوں کی ماں عرصہ سے صاحب فراش اور چارپائی میں پڑی تھی، صلاح ٹھہری کہ کیوں نہ والدہ محترمہ پر تلوار کی آزمائش کی جائے۔

بڑے بھائی نے تلوار گھما کر والدہ محترمہ پر آزمائی نتیجہ ظاہر تھا، بڑھیا دو نیم ہو کر جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ لوگوں نے ماجرا پوچھا تو دونوں بھائی بتاتے کہ اس میں دوش کسی کا بھی نہیں ،کچھ تلوار تیز تھی اورکچھ ماں بھی خستہ ہو گئی تھی مطلب یہ کہ کچھ تو ہمیں بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا، اور کچھ لوگ بھی ''نازک مزاج شاہاں'' ہوتے ہیں.

اس لیے بات بگڑ جاتی ہے اور بجائے ثواب کے گناہ لازم ہو جاتا ہے ورنہ اگر ہم نے کہا ہے کہ ''کرپشن'' ہمارے صوبے میں اب نام کو بھی نہیں رہی ۔۔۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے ۔۔۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم بغیر کسی ''واقعے'' یا حکایت یا لطیفے یا کثیفے کے کوئی بات نہیں کر سکتے ہیں چنانچہ اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ایک عزیز جو کرپشن میں پلے بڑھے تھے جب وہ کرپشن کے ختم ہونے پر بیمار پڑ گئے۔

کہیں علاج نہ ہو سکا ڈبگری گارڈن میں علاج کا امکان تھا لیکن ہمارے عزیز انکاری ہو گئے بولے سولی چڑھا دو لیکن ڈبگری گارڈن مت لے جاؤ کیوں کہ ماہرین کے علاج سے مریض کو نہیں بلکہ اس کے ''وارثوں'' کو افاقہ ہوتا ہے آخر ایک بڑے شہرت یافتہ معالج کو بلوایا گیا اس نے مریض کی حالت دیکھی تو مرض پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور کہا کہ جیسے بھی کر کے کہیں سے تھوڑی سی کرپشن چٹکی بھر سہی لے کر آو تو اس کا علاج ممکن ہو سکے گا کیونکہ:

نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے

لواحقین نکل گئے تلاش میں لیکن ہر جگہ سے جواب ملا کہ صرف کرپشن ہی تو نہیں باقی۔ ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ


سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ

بے چارا اپنے لواحقین کو بہت ساری املاک کے ساتھ داغ مفارفت دے کر دنیا سے گزر گیا لواحقین اس کی قبر پر وہ شعر لکھوانا بالکل نہیں بھولے، جس میں بن کھلے غنچوں پر حسرت کا اظہار کیا گیا تھا۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہریئے ایک کہانی دم ہلا رہی ہے مگر یہ کہانی تو نہیں ہے فلمی واقعہ ہے ۔۔۔ راج کپور کی ایک پرانی فلم شری چار سو بیس میں جب راج کپور گاؤں سے شہر میں وارد ہوتا ہے تو اس کے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا فٹ پاتھ یا کسی بھی جگہ پڑنے کی کوشش کرتا تو کوئی اور آ کر اٹھا دیتا کہ یہ جگہ تو میری ہے۔

ایک مرد دانا نے اسے بتایا کہ یہ سارے فٹ پاتھ کسی نہ کسی کے زیر قبضہ ہیں اگر تمہیں جگہ چاہیے تو جگہ خریدنا پڑے گی پھر ایک شخص کا پتہ بتایا کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ وہ فٹ پاتھی پراپرٹی کا ڈیلر ہے مذکورہ فٹ پاتھ ڈیلر نے اسے کئی جگہیں دکھانے کے بعد ایک جگہ ایسی بتائی جس کی قیمت سب سے زیادہ تھی وجہ پوچھی تو اس شخص نے بتایا کہ اس جگہ میں خاص بات یہ ہے کہ سامنے ہی سیٹھ امیر چند کا بنگلہ ہے اور وہاں ہر وقت یہ زبردست قسم کے کھانوں کی خوشبوئیں آ کر شام جان کو معطر رکھتی ہیں اس لیے یہ جگہ ایک قسم کی لگژری حیثیت رکھتی ہے۔

کسی آتی جاتی مہ جبین کا دیدار بھی بالکل مفت ۔۔۔ ہم نے بھی اس پڑوسی کی پڑوس میں رہ کر ایسی بہت ساری لگژری ایک عرصے تک پائی تھی اس لیے اس کی بے وقت موت پر ہمارا دکھی ہونا لازمی تھا اور وہ بھی صرف اس لیے کہ اگر تھوڑا سا بھی کرپشن کا تریاق مل جاتا تھا، ظاہر ہے کہ بے شمار عیوب کے ساتھ ہم اپنے سینے میں ایک حساس دل بھی رکھے ہوئے ہیں چنانچہ تہیہ کر لیا کہ کچھ ایسا کیا جانا چاہیے کہ عام بازار میں نہ سہی کسی سرکاری ڈپو پر کم از کم ادویاتی ضرورتوں کے لیے تو تھوڑی سی کرپشن موجود ہونی چاہیے، لیکن ہم نے بیش از بیش دانائی سے جو تجاویز پیش کیں وہ نہ صرف نامقبول ٹھہریں بلکہ کچھ اور ''برے برے شک'' بھی ہم پر ہونے لگے

لو وہ بھی کہتے ہیں یہ تنقید ہے منفی
یہ جانتا اگر تو ''چھپاتا نہ منہ کو میں''

ہم نے اتنا ہی تو کہا تھا کہ کرپشن یا جو کچھ بھی ہے بزرگوں کی نشانی اور ہمارے لیڈران کرام اور وزیران عظام کی اڑسٹھ سالہ محنتوں کا نتیجہ ہے اسے یوں یکسر نیست و نابود کرنے کے بجائے نشانی کے طور پر کچھ نہ کچھ باقی رکھیے، بے شک استعمال نہ کریں لیکن کم از کم ڈیکوریشن پیس یا ''معالجاتی ضرورت'' کے لیے تو اسے بچا کر رکھ لیجیے اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر ایک دیرنہ نشے کو ایک دم یوں ترک کر دیا جائے تو جان کے لالے پڑ سکتے ہیں اور جانیں بھی وہ ۔۔۔۔ جو متاع عزیز کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بغیر ہماری سیاست، تجارت حکومت کوئی بھی چیز چل ہی نہیں سکتی کیونکہ ایک لمبی تاریخ اور طویل جدوجہد سے ہم نے پائے ہیں

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

بلکہ اگر آپ بات کو مزید مستند بنانا چاہتے ہیں تو وہ علامہ اقبال کا شعر بھی یاد کر سکتے ہیں جس میں ''نرگس اور دیدہ ور'' کے پیدا ہونے کی بات کی گئی ہے تجویز ہماری یہ تھی کہ کرپشن کو باقی رکھنے کا مطلب یہ کہ نمونے اور نشانی بلکہ ''دوا'' کے طور پر باقی رکھنے کے لیے کوئی اور بندوبست سردست ممکن نہ ہو تو موجودہ دور میں جو قوم کے منتخب نمایندے دستیاب ہیں اور جن کی امانت دیانت اور محنت کی قسم کھائی جا سکتی ہے.

ان کو ایک پڑیا یا ساشے میں ڈال کر یہ نایاب چیز پکڑائی جائے کہ اسے قوم کی امانت سمجھ کر محفوظ رکھا جائے، جس زمانے میں ماچس کی قلت تھی اس زمانے میں آگ کو محفوظ رکھنے کے لیے انگاروں کو راکھ میں دبا کر رکھ لیا جاتا تھا اور ضرورت کے وقت ان میں سے ڈھونڈ کر کام کا انگارہ نکال لیتے تھے اور نئے کوئلوں کے بیچ رکھ کر پنکھا کرتے تھے، بہرحال کرپشن کا قلع قمع تو بالکل درست جو ہماری منتخب صوبائی حکومت نے اپنے پہلے مہینے بلکہ ہفتے بلکہ دن بلکہ گھنٹے میں کر دیا تھا لیکن کسی چیز کو بطور نمونہ اور نشانی محفوظ رکھنے میں تو کوئی قباحت نہیں ہے

بلا سے گرمژہ یار تشنہ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خون فشار کے لیے
Load Next Story