اپریل فُول عرف پچھتاوا

ابّا جی کو اپنی موت کی جھوٹی خبر بھیج کر اپریل فول منانے والے احمر کے اپنے ساتھ ہی فُول ہو گیا تھا۔

ہاں! ہماری مائیں تو سوتیلی ہیں ناں، نہ میرے ایکسیڈنٹ سے اُنہیں کوئی صدمہ پہنچا ہوگا اور نہ عامر کے بھائی کے مرنے سے۔ فوٹو فائل

KARACHI:
''اوئے یار! کل تو یکم اپریل ہے!'' عاشر نے کتاب میز پر پٹختے ہوئے کہا۔

''توپھر؟'' احمر کا انداز سوالیہ تھا، اور عامر کے چہرے کے تاثرات بھی یہ بتارہے تھے کہ عاشر کی بات کا مطلب اُسے بھی سمجھ نہیں آ یا۔

''کل اپریل فول ہے بیوقوفو! بھول گئے جو تم نے پچھلے سال میرے گھر والوں کے ساتھ کیا تھا۔''

''اب اتنا معصوم نہ بن، وہ گھٹیا آئیڈیا بھی تیرا اپنا تھا۔ تو نے ہی ہمیں کہا تھا کہ میرے گھر فون کرکے بتاؤ کہ عاشر کا ہاسٹل سے کالج جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔'' عاشر نے جیسے احمر کے پُرانے زخم تازہ کردیے تھے۔





''اور آنٹی اور انکل نے حقیقت پتہ چلنے پر جوہماری عزت افزائی کی تھی وہ بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔'' زخم تو عامر کے بھی ابھی ہرے ہی تھے۔

''اوئے ہوئے ہوئے! بیٹا تیرا نہیں بنتا یہ بولنا، اُس سے پچھلے اپریل فول پر جو تیرے گھر والوں نے میرے اور احمرکے ساتھ کیا تھا وہ تو سوچ کر بھی روح کانپ اُٹھتی ہے، تیرے وہ میجر بھائی نے جو تھپڑ جَڑا تھا میرے منہ پر، آج تک جبڑا درد کرتا ہے میرا۔'' عاشر سے عامر کا شکوہ بالکل بھی برداشت نہیں ہوا تھا۔

''تو تم نے بھی تواُن کے وزیرستان میں شہید ہوجانے کی اطلاع دے دی تھی ہمارے گھر پر، اتنا تو غصّہ بنتا تھا اُن کا۔''

''اور ہم نے تو جیسے تجھ سے مشورہ کیا ہی نہیں تھا؟'' تھپڑ تو احمر کے بھی پڑا تھا لہذا وہ بھی بول پڑا۔

''ویسے یار آپس کی بات ہے، مزہ بڑا آیا تھا۔'' عاشر نے احمر کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

''تو کل کا کیا پلان ہے؟'' عامر نے تجسس سے پوچھا۔

''پلان کیا ہونا ہے، کل احمر بیچارے کی Death ہورہی ہے بم دھماکے میں۔'' عاشر نے ایک فقرے میں کل کا پلان بتا دیا تھا۔

''میری؟'' احمر چونک اُٹھا۔

''اب تیری باری ہی بنتی ہے بیٹا۔'' عامر عاشر کے پلان سے متفق تھا۔

''دماغ خراب ہوگیا ہے تمھارا، تم میری امّی کو نہیں جانتے، سنتے ہی پاگل ہوجائیں گی غم سے۔''

''ہاں! ہماری مائیں تو سوتیلی ہیں ناں، نہ میرے ایکسیڈنٹ سے اُنہیں کوئی صدمہ پہنچا ہوگا اور نہ عامر کے بھائی کے مرنے سے۔'' عاشر کے لہجے میں بلا کا طنز تھا۔

''یاراحمر! آخری سمسٹر ہے، پلان خراب نہ کر۔'' عامر ناراضگی سے بولا۔







''اوئے یار! تم میرے ابّا جی کا غصّہ نہیں جانتے۔''

''کیا یار! کبھی امّی تو کبھی ابّا جی۔'' عاشر جھنجھلا کر بولا۔

''اور تیرے ابّا جی کا غصّہ میرے بھائی سے بھی زیادہ ہے کیا؟''

''ابھی Demo دکھا تا ہوں تمہیں، پھر جو تم کہو مجھے منظور۔'' احمر نے جیب سے موبائل نکالا، اپنے والد کا نمبر ڈائل کیا اور اسپیکر آن کردیا تاکہ عاشر اور عامر بھی ساری گفتگو سُن سکیں۔

''ہیلو؟؟؟''

''اسلامُ علیکم! ابّا جی میں احمر بول رہا ہوں۔''

''نمبر تو کوئی اور ہی آرہا ہے، تّو ہر روز نمبر ہی بدلتا رہتا ہے۔'' پہلی بات پر ہی ڈانٹ پڑ گئی تھی اور احمر نے عاشر اور عامر کی طرف ایسے اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ ''خودسُن لو! میری بات پر یقین نہیں آرہا تھا ناں تمھیں۔''

''بس ابّا جی، وہ نمبر بند ہوگیا تھا اس لیے۔۔۔''


''میرا تو کبھی نمبر بند نہیں ہوا۔'' ابّا جی نے احمر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی جواب دے دیا۔

'' وہ ابّا جی۔۔۔''

''فون جس بات کے لیے کیا ہے وہ بتا، میں نے ابھی ڈیرے پر بھی جانا ہے، بھینسوں کے چارے کا بھی بندوبست کرنا ہے ابھی۔''

''ابّا جی! وہ کچھ پیسے چاہیے تھے مجھے۔''

''پیسے؟ ابھی کل تو فیس بھیجی ہے تجھے، ہاسٹل کا خرچہ بھی ساتھ میں ہی بھیج دیا تھا، اب کس چیز کے پیسے؟''

''ابّا جی! ہم سب دوست مل کر پکنک پر جارہے ہیں، آپ بس پندرہ ہزار بھیج دیں میں گزارہ کرلوں گا ۔'' احمر نے عاشر اور عامر کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔

''پندرہ ہزار؟ احمر تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا، ابھی کل توتجھے پیسے بھیجے ہیں بڑی مشکل سے اور آج تو پندرہ ہزاراور مانگ رہا ہے، وہ بھی سیر سپاٹے کے لیے۔'' اندازے کے عین مطابق ابّا جی کا پارہ چڑھنا شروع ہوچکا تھا۔

''ابّا جی! صرف پندرہ ہزار کی تو بات ہے۔''

''صرف پندرہ ہزار؟ تیرے لیے پندرہ ہزار کوئی رقم ہی نہیں ہے؟ جاگیردار صاحب! کسان کے گھر پیسے صرف فصل کی کٹائی پر آتے ہیں اور ابھی فصل کٹنے میں دو مہینے اور لگ جانے ہیں۔''

''ابّا جی! پھرآپ پیسے بھیج رہے ہیں ناں؟''

''اوئے کھوتے !تجھے ہم نے وہاں پڑھنے بھیجا ہے اور تو نے ہمیں یہاں پڑھنے ڈالا ہوا ہے۔ کوئی پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس تیری عیاشیوں کے لیے، بندے کے پُتَّروں کی طرح پڑھ سکتا ہے تو پڑھ لے ورنہ آجا واپس، ڈگری لے کر بھی تو تُونے یہی چاند چڑھانے ہیں۔ ''

''چلیں ابّا جی! کل میں اور میرے دوست گاؤں آرہے ہیں، پھر بات ہوگی۔'' ابّا جی نے کوئی جواب دیے بغیرغصّے سے فون بند کردیا۔ احمر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، عاشر اور عامر کا بھی ہنس ہنس کر بُراحال تھا۔

''بس Done ہوگیا، کل بڑامزہ آنے والا ہے۔'' عاشر نے ہنستے ہوئے کہا، ویسے بھی عاشر، عامر اور احمر کے لیے ہر چیز مذاق ہی تھی۔

''ویسے مجھے یقین ہے کہ جب احمر کے ابّا جی کو اس کے مرنے کا پتہ چلے گا تو وہ بہت خوش ہوں گے۔'' عامر کی بات پر ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔

اگلے روزیعنی یکم اپریل کو پلان کے مطابق PCO سے عاشر نے احمر کے والد کو کال کردی کہ احمر بم دھماکے میں مرگیا ہے۔ احمر کا موبائل بند کردیا گیا تاکہ کوئی رابطہ نہ ہوسکے، اور پھر تینوں دوست گاؤں جانے کے لیے بس میں سوار ہوگئے۔ اُنہوں نے اپریل فُول منا لیا تھا، اب اُس کا نتیجہ دیکھنے گاؤں جارہے تھے۔

''یار! جب تک ہم نے تیرے گاؤں پہنچنا ہے، اُس وقت تک تو تیری میت لینے کے لیے دو چار بندے شہر کو بھی روانہ ہوگئے ہوں گے۔'' عامر نے اپنی بغل میں بیٹھے احمر سے کہا۔

ــ''بس یار دُعا کرو، اُنہیں پتہ نہ چل جائے کہ یہ ساری شرارت ہماری اپنی ہے ورنہ آج تینوں کی خیر نہیں ہے ابّا جی کے ہاتھوں۔'' احمر تھوڑا ڈرا ہوا تھا، ویسے بھی ابّا جی کتنی سخت طبیعت کے مالک ہیں وہ یہ اچھی طرح جانتا تھا۔

''یار احمر! تُو بس یہ سوچ کہ جب وہ تجھے اس طرح زندہ سلامت دیکھیں گے تو اُنہیں کتنا افسوس ہوگا۔'' عاشر نے احمر کو چھیڑتے ہوئے کہا اور تینوں بے اختیار ہنس پڑے۔

توقع کے عین مطابق ابھی وہ گاؤں میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ہر طرف ایک شور مچ گیا، ''احمر آگیا۔۔۔احمر آگیا۔۔۔احمر آ گیا ۔''

ــ''بیٹا تیرا موبائل کیوں بند جارہا تھا؟'' ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر احمر سے پوچھا۔

''کیوں چاچا جی؟ سب خریت ہے ناں؟'' احمر نے جانتے بوجھتے انجان بنتے ہوئے پوچھا، دل ہی دل میں تینوں خوب ہنس رہے تھے۔

''کچھ نہ پوچھ بیٹا'' چاچا جی باقاعدہ رونے لگ پڑے تھے۔

احمر اب اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا، جو بھی احمر کو دیکھتا اُس کے ساتھ ہو لیتا، گاؤں کی عورتیں احمر کے گلے لگ لگ کر رو رہی تھیں۔

''میں نے کہا تھا ناں کہ بڑا مزہ آنے والا ہے۔'' عاشر نے احمر کے کان میں سرگوشی کی۔

احمر کے گھر کے باہر گاؤں کے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع تھی، گھر کے اندرسے عورتوں کے بین کی آوازیں آرہی تھیں۔ احمر کی ماں شدتِ غم سے نڈھال بیٹھی تھی، کچھ عورتیں اُنہیں دلاسہ دے رہی تھیں، احمر کی بہنوں کا رونا سُن کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔

ابّا جی کو اپنی موت کی جھوٹی خبر بھیج کر اپریل فول منانے والے احمر کے اپنے ساتھ ہی فُول ہوگیا تھا، ابّا جی کی میّت سامنے پڑی تھی اور وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔



''کسی کا فون آیا تھا شہر سے، اللہ جانے اُس نے ایسا کیا کہا کہ دل پر ہاتھ رکھ کر گرگیا اور میرے ان ہاتھوں میں جان دے دی۔'' چاچا جی رو رو کر بتارہے تھے۔ ''ابھی رات کو مجھے کہہ رہا تھا کہ صبح ہوتے ہی احمر کو پندرہ ہزارروپے بھیجنے ہیں، جب اُس کے دوست پکنک منانے جارہے ہیں تو میرا احمر کیوں پیچھے رہے کسی سے۔'' چاچا جی کی آواز تینوں کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اُنہیں اپنے آپ سے گھِن آرہی تھی۔

[poll id="326"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story