نعرے اور حقیقتیں
اگر پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا تو سندھ دوسرا ٹارگٹ بن سکتا ہے
ٹائم ٹیبل کے لحاظ سے الیکشن قریب آ گیا ہے، اس لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے نئے صوبے اور لوڈشیڈنگ وغیرہ کے ایشوز اپنے اپنے منشور میں شامل کر لیے ہیں۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ اسے مختصر مدت میں حل نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ برسراقتدار آئے تو اسے چھ ماہ میں حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ صرف عمران خان معجزے برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ90دن میں حل کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ مخالف سیاستدان ان کا یہ دعویٰ ماننے سے اسی طرح انکار کرتے ہیں جس طرح وہ ٹانک میں جلسے کے باوجود یہ نہیں مانتے کہ وزیرستان ریلی کا مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ یہ مسئلہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کا حل ناممکن نہیں۔ موجودہ حکومت نہیں تو اگلی حکومت اسے حل کر دے گی۔
اصل مسئلہ، جسے میں ناممکنات میں سے سمجھتا ہوں، نئے صوبوں کا ہے۔ خبروں کے مطابق اکثر سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے منشوروں میں شامل کر لیا ہے جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی فارمولا اور حل موجود ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں نئے صوبوں کا مسئلہ بالکل اسی طرح لکھ دیا ہے جیسے انھوں نے یہ خوشخبری شامل کر رکھی ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر مسئلہ کشمیر حل کر لیں گی یا کرا لیں گی حالانکہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت خود بھی اچھی طرح جانتی ہے اور ان کے ووٹر بھی کہ مسئلہ کشمیر کا حل ان کی طاقت اور استطاعت سے بہت اونچا ہے لیکن لکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ نئے صوبوں کا مسئلہ بظاہر بڑا آسان نظر آتا ہے۔ قومی یا صوبائی اسمبلی ایک قرارداد پاس کر کے نئے صوبے کا اعلان کر سکتی ہیں لیکن یہی وہ دریا ہے جسے پارکرنا بہت ہی مشکل ہے۔
پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ جس صوبے میں نیا صوبہ بننا ہے، اس کی اسمبلی کی قرارداد کے بغیر قومی اسمبلی کی کوئی قرارداد بالکل بے معنی ہو گی اور جس صوبے کی اسمبلی کی قرارداد سے نئے صوبے کی بنیاد بنے گی، اس کی بالادست سیاسی قوت یہ قرارداد منظور نہیں ہونے دے گی۔ میرا اشارہ صرف پنجاب کی طرف نہیں، سارے صوبوں کی طرف ہے۔ کیا خیبر پختونخوا کی اسمبلی کوئی ایسی قرارداد پاس کرے گی جس کے نتیجے میں ہزارہ یا ہندکو بیلٹ الگ ہو جائے یا سندھ اسمبلی شہری سندھ کو الگ صوبہ بنانے کی ناممکن قرارداد لانے پر غور کر سکتی ہے؟
مسلم لیگ ن بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ نئے صوبے بنانے کی حامی ہے لیکن اس نے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ نئے صوبے لسانی نہیں۔ انتظامی بنیاد پر بننے چاہئیں۔ اس کی یہ شرط بھی ہے کہ نیا صوبہ صرف پنجاب میں نہیں جہاں جہاں ضرورت ہے، صوبہ بنایا جائے اور اس کے لیے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس شرط کے مطابق پنجاب میں وہ نیا صوبہ تو بننے سے رہا جسے سرائیکی زبان کی بنیاد پر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے پہلے تین برسوں میں کسی نئے صوبے کا نعرہ نہیں لگایا۔ دوسری بات یہ کہ اگر پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا تو سندھ دوسرا ٹارگٹ بن سکتا ہے۔ واضح رہے پس پردہ اس سلسلے میں ٹھیک ٹھاک کام ہو چکا ہے اور اندرون سندھ کے لوگوں کو اس حوالے سے سخت بے چینی اور اندیشے ہیں۔
سندھ پیپلزپارٹی کی پاور بیس ہے، یہاں الگ صوبے کی تحریک چلی تو اس کا براہ راست نقصان پیپلز پارٹی ہی کو ہو گا۔ چلئے یہ تو ایک سیاسی رکاوٹ ہے لیکن نئے صوبے بنانے کی راہ میں حائل عملی رکاوٹوں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے پنجاب ہی لے لیں، اس کے بارے میں کئی سوال حل طلب ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی بیلٹ کے علاقہ کو جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بننا چاہیے یا بہاولپور کو الگ صوبے کے طور پر بحال کرنا چاہیے۔ سابق ریاست بہاولپور کی ماضی کی شناخت بحال کرنے کی تحریک کے رہنما محمد علی درانی ہیں۔ بہاولپور کے عوام طویل عرصے تک عباسی خاندان کی حکومت کی رعایا رہے ہیں جبکہ باقی سرائیکی علاقے پر جاگیرداروں اور گدی نشینوںکا غلبہ رہا ہے۔ عباسی خاندان کا طرز حکومت جاگیرداروں کے جور و جبر کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ بہت سے ریاستی شہریوں کو ڈر ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام سے ایک ہی صوبہ بنا تو بہاولپور والے جاگیرداروں اور گدی نشینوںکے تسلط میں چلے جائیں گے۔ اس معاملے پر ضمنی سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب بن گیا تو سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرائیکی علاقوں کا کیا بنے گا؟
اس طرح کے اور بھی کئی سوال ہیں جو اس وقت سر اٹھائیں گے جب کسی ایک یا دوسرے صوبے کے قیام کے احکامات واضح ہوں گے۔ پنجاب میں موجودہ حالات میں جب تک مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کے قیام اور صوبہ بہاولپور کی بحالی کی عملی حمایت نہیں کرتی، اس وقت تک پنجاب میں نیا صوبہ یا صوبے انتخابی نعرے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ رہا یہ سوال کہ سیاسی جماعتوں نے نئے صوبے یا صوبوں کا مسئلہ اپنے اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے تو تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔ بہتر ہو گا کہ وہ اس مسئلے کو اپنے منشوروں کے ان صفحات پر محفوظ کر لیں جن پر مسئلہ کشمیر کا ذکر ہے۔ منقسم مینڈیٹ والے ملکوں میں نعرے لگانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی لیکن عام طور پر ان نعروں سے کچھ بگڑ تو جاتا ہے بنتا کچھ نہیں۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ اسے مختصر مدت میں حل نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ برسراقتدار آئے تو اسے چھ ماہ میں حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ صرف عمران خان معجزے برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ90دن میں حل کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ مخالف سیاستدان ان کا یہ دعویٰ ماننے سے اسی طرح انکار کرتے ہیں جس طرح وہ ٹانک میں جلسے کے باوجود یہ نہیں مانتے کہ وزیرستان ریلی کا مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ یہ مسئلہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کا حل ناممکن نہیں۔ موجودہ حکومت نہیں تو اگلی حکومت اسے حل کر دے گی۔
اصل مسئلہ، جسے میں ناممکنات میں سے سمجھتا ہوں، نئے صوبوں کا ہے۔ خبروں کے مطابق اکثر سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے منشوروں میں شامل کر لیا ہے جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی فارمولا اور حل موجود ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں نئے صوبوں کا مسئلہ بالکل اسی طرح لکھ دیا ہے جیسے انھوں نے یہ خوشخبری شامل کر رکھی ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر مسئلہ کشمیر حل کر لیں گی یا کرا لیں گی حالانکہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت خود بھی اچھی طرح جانتی ہے اور ان کے ووٹر بھی کہ مسئلہ کشمیر کا حل ان کی طاقت اور استطاعت سے بہت اونچا ہے لیکن لکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ نئے صوبوں کا مسئلہ بظاہر بڑا آسان نظر آتا ہے۔ قومی یا صوبائی اسمبلی ایک قرارداد پاس کر کے نئے صوبے کا اعلان کر سکتی ہیں لیکن یہی وہ دریا ہے جسے پارکرنا بہت ہی مشکل ہے۔
پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ جس صوبے میں نیا صوبہ بننا ہے، اس کی اسمبلی کی قرارداد کے بغیر قومی اسمبلی کی کوئی قرارداد بالکل بے معنی ہو گی اور جس صوبے کی اسمبلی کی قرارداد سے نئے صوبے کی بنیاد بنے گی، اس کی بالادست سیاسی قوت یہ قرارداد منظور نہیں ہونے دے گی۔ میرا اشارہ صرف پنجاب کی طرف نہیں، سارے صوبوں کی طرف ہے۔ کیا خیبر پختونخوا کی اسمبلی کوئی ایسی قرارداد پاس کرے گی جس کے نتیجے میں ہزارہ یا ہندکو بیلٹ الگ ہو جائے یا سندھ اسمبلی شہری سندھ کو الگ صوبہ بنانے کی ناممکن قرارداد لانے پر غور کر سکتی ہے؟
مسلم لیگ ن بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ نئے صوبے بنانے کی حامی ہے لیکن اس نے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ نئے صوبے لسانی نہیں۔ انتظامی بنیاد پر بننے چاہئیں۔ اس کی یہ شرط بھی ہے کہ نیا صوبہ صرف پنجاب میں نہیں جہاں جہاں ضرورت ہے، صوبہ بنایا جائے اور اس کے لیے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس شرط کے مطابق پنجاب میں وہ نیا صوبہ تو بننے سے رہا جسے سرائیکی زبان کی بنیاد پر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے پہلے تین برسوں میں کسی نئے صوبے کا نعرہ نہیں لگایا۔ دوسری بات یہ کہ اگر پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا تو سندھ دوسرا ٹارگٹ بن سکتا ہے۔ واضح رہے پس پردہ اس سلسلے میں ٹھیک ٹھاک کام ہو چکا ہے اور اندرون سندھ کے لوگوں کو اس حوالے سے سخت بے چینی اور اندیشے ہیں۔
سندھ پیپلزپارٹی کی پاور بیس ہے، یہاں الگ صوبے کی تحریک چلی تو اس کا براہ راست نقصان پیپلز پارٹی ہی کو ہو گا۔ چلئے یہ تو ایک سیاسی رکاوٹ ہے لیکن نئے صوبے بنانے کی راہ میں حائل عملی رکاوٹوں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے پنجاب ہی لے لیں، اس کے بارے میں کئی سوال حل طلب ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی بیلٹ کے علاقہ کو جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بننا چاہیے یا بہاولپور کو الگ صوبے کے طور پر بحال کرنا چاہیے۔ سابق ریاست بہاولپور کی ماضی کی شناخت بحال کرنے کی تحریک کے رہنما محمد علی درانی ہیں۔ بہاولپور کے عوام طویل عرصے تک عباسی خاندان کی حکومت کی رعایا رہے ہیں جبکہ باقی سرائیکی علاقے پر جاگیرداروں اور گدی نشینوںکا غلبہ رہا ہے۔ عباسی خاندان کا طرز حکومت جاگیرداروں کے جور و جبر کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ بہت سے ریاستی شہریوں کو ڈر ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام سے ایک ہی صوبہ بنا تو بہاولپور والے جاگیرداروں اور گدی نشینوںکے تسلط میں چلے جائیں گے۔ اس معاملے پر ضمنی سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب بن گیا تو سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرائیکی علاقوں کا کیا بنے گا؟
اس طرح کے اور بھی کئی سوال ہیں جو اس وقت سر اٹھائیں گے جب کسی ایک یا دوسرے صوبے کے قیام کے احکامات واضح ہوں گے۔ پنجاب میں موجودہ حالات میں جب تک مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کے قیام اور صوبہ بہاولپور کی بحالی کی عملی حمایت نہیں کرتی، اس وقت تک پنجاب میں نیا صوبہ یا صوبے انتخابی نعرے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ رہا یہ سوال کہ سیاسی جماعتوں نے نئے صوبے یا صوبوں کا مسئلہ اپنے اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے تو تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔ بہتر ہو گا کہ وہ اس مسئلے کو اپنے منشوروں کے ان صفحات پر محفوظ کر لیں جن پر مسئلہ کشمیر کا ذکر ہے۔ منقسم مینڈیٹ والے ملکوں میں نعرے لگانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی لیکن عام طور پر ان نعروں سے کچھ بگڑ تو جاتا ہے بنتا کچھ نہیں۔