موت بانٹتے زہریلے دھوئیں کا شکار کراچی کے مایوس شہری بے یار و مددگار

شہر میں یومیہ ہزاروں ٹن کچرا جمع ہوتا ہے، متعلقہ ادارے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے میں ناکام

حکومت کو ماحول دوست اقدمات کرتے ہوئے نئی شجر کاری پر توجہ دینے کے ساتھ جنگلات کو بچانے کے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔آن لائن/فائل

کراچی میں فضائی آلودگی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا اہم سبب ہزاروں فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں، رکشوں کی بھر مار، غیر معیاری پیڑول اور ڈیزل کا استعمال، کچرے کوڑے کو جلانا ہے

کاشف خان ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا شمار ذہین طالب علموں میں ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں انہیں سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تو انہوں نے ایک مطب کا رخ کیا۔ڈاکٹر نے انہیں ایکس رے کرانے کا کہا۔ ایکس رے رپورٹ میں ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کا انکشاف ہوا۔ ڈاکٹر نے کاشف کو طویل عرصے ادویات کے استعمال اور سگریٹ نوشی فوری ترک کرنے کا مشورہ دیا۔ کاشف ڈاکٹر کا مشورہ سن کر حیران ہوئے اس لیے کہ وہ سگریٹ نوش نہیں ہیں۔ دراصل کاشف جس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اس کے گرد و نواح میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کو نذر آتش کیا جانا معمول ہے۔ جس کی وجہ سے کاشف پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا ہوئے۔ اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو پورے شہر میں ہر جگہ کچرے کو آگ لگائی جاتی ہے جس کی وجہ سے سارا شہر دھواں دھواں ہے۔

پاکستان میں صنعتوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے کثیف دھوئیں نے فضا اور نکاسی کی بڑی لائنوں کے ذریعے بہائے جانے والے کیمیائی مادوں نے صاف پانی کو آلودہ کر دیا ہے۔آلودگی اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس سے نجات پانا ضروری ہے۔ پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں ماحولیاتی آلودگی میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال بائیس ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں نہ صرف انسانی صحت بلکہ فصلوں، سبزیوں، پھلوں وغیرہ کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ہے۔ فضائی آلودگی کے علاوہ ندی نالوں میں بہایا جانے والا صنعتی فضلہ آبی آلودگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جس سے نہ صرف آبی حیات بلکہ عوام کی صحت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

دنیا بھر میں آلودگی کی شرح کم کر نے کے لیے شجر کاری کی جارہی ہے تاہم پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کمی کے باوجود نئی بستیوں کی تعمیر کے لیے درختوں کو بے دردی سے کاٹا جارہا ہے۔ کراچی میں قدیم گوٹھ جہاں کھیتی باڑی کی جاتی تھی اب وہاں کئی منزلہ رہائشی عمارتیں بنائی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اس کے لیے درختوں کو کاٹا جارہا ہے نتیجے میں فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔


آلودگی کا سدباب کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کچھ اقدامات کیے گئے ہیں اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ لیکن یہ انتظامات انتہائی ناکافی ہیں۔ سرکاری سطح پر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ جن کے لیے کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان اداروں کارکردگی صفر ہے۔ اگر اس پر توجہ دی جائے تو ماحولیاتی تحفظ کے لیے پاکستان میں نہایت موثر انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

کراچی میں یومیہ ہزاروں ٹن کچرا جمع ہوتا ہے ۔ لیکن متعلقہ ادارے اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ گلیوں میں جمع ہوجانے والے کچرے کو آگ لگادی جاتی ہے جس سے پورا شہر دھویں کی لپیٹ میں ہے۔ صنعتی فضلے کو جلانے یا پانی میں بہانے کے بجائے ری سائیکلنگ کو فروغ دیا جاسکتا ہے لیکن یہ کام حکومتیں کرتی ہیں، لیکن وہ حکومتیں جو فرض شناس ہوں اور جنہیں اپنے شہریوں کی صحت عزیز ہو۔ بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومتیں اور ہم خود بھی اپنے فرائض سے غافل ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک بیمار قوم میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم اور ہمارے ادارے اپنی روش کو بدلیں اور ہنگامی بنیادوں پر آلودگی جیسے گمبھیر مسئلے پر توجہ دیں اور اس کے لیے راست اقدامات کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول دوست پالیسیوں کے نفاذ اور عوام میں شعور اجاگر کیا جائے، تاکہ آلودگی پیدا کرنے والے عوامل پر قابو پا کر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔ حکومت عالمی اداروں کے ساتھ مل کر آلودگی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر سکتی ہے اور ماحولیات سے متعلق ملکی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے اپنے فرائض تن دہی سے ادا کرے۔

آلودگی خصوصاً فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذرّات کینسر، سانس کی بیماریوں کا سبب اور مدافعتی نظام کو متاثر کررہے ہیں۔ سیسے، پارے کے نہ دکھائی دینے والے ذرّات ہوا کے ذریعے جسم میں شامل ہوکر آہستہ آہستہ متاثرہ فرد کو درج بالا بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس بات کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آلودگی کی وجہ سے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے والے افراد کی شرح غریب اور متوسط طبقے میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام کے لیے ایک معمولی بیماری کا علاج کروانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، وہاں چند سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والے عام آدمی کے لیے کینسر یا دیگر موذی امراض کے علاج سے زیادہ سہل موت ہوتی ہے۔

یہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو آلودگی کے خاموش قاتل سے تحفظ فراہم کرے اور موت باٹنے والے دھوئیں سے اپنے شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے سنجیدہ اقدامات کرے۔ حکومت کو ماحول دوست اقدمات کرتے ہوئے نئی شجر کاری پر توجہ دینے کے ساتھ جنگلات کو بچانے کے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
Load Next Story