سیالکوٹ میں2بھائیوں کے وحشیانہ قتل میں ملوث 7مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری
علی رضا،شفیق، سرفراز، راشد،امین، اقبال اور جمیل کی اپیلیں ہائیکورٹ سے خارج ہو چکیں،
گوجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج چوہدری امتیاز احمد نے سیالکوٹ کے مشہور مقدمے میں2 بھائیوں حافظ منیب اور مغیث کو سر عام لٹکا کر وحشیانہ طریقے قتل کرنے والے 7مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرتے ہوئے انھیں 8اپریل کو تختہ دار پر لٹکانے کا حکم دیدیا۔
مجرموں علی رضا، شفیق، سرفراز احمد، راشد مہر، محمد امین، اقبال عرف بابو اور جمیل عرف جیلا کی اپیلیں لاہور ہائیکورٹ سے خارج ہو چکی ہیں جبکہ 6ملزم وارث، حسن رضا، قیصر عرف مودا، طیب، اصغر علی اور جمشید عرف شیدا عمرقید کاٹ رہے ہیں جبکہ ڈی پی او وقار چوہان، انسپکٹر رانا الیاس، اے ایس آئی وارث، کانسٹیبلز طارق محمود، مبارک علی، محمد یاسین، بشیر احمد، نصیر احمد اور محمد اکرم بری ہو چکے ہیں۔ مقتولین کے والد انور سجاد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے انصاف ملنے پر دلی خوشی ہوئی ہے، جن لوگوں نے خود جج بن کر فیصلے دیے انکو سزا مل گئی ہے۔
اس سے عدالتی وقار میں اضافہ ہوا ہے تاہم ہماری دلی خواہش ہے کہ ان مجرمان کو سرعام پھانسی دی جائے، مقدمہ کے مدعی اور مقتولین کے چچا خواجہ ضرار نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ سے ملک کا امیج پوری دنیا میں خراب کیا گیا، آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوگی۔ قانونی ماہرین کے مطابق مجرموں کے پاس سپریم کورٹ اور صدر کے پاس اپیل کرنے کا حق ابھی باقی ہے۔
اگست2010 میں سیالکوٹ کے بٹر گاؤں میں مشتعل ہجوم نے18 سالہ مغیث اور 15 سالہ مینب کو ڈاکو قرار دے کر ڈنڈے مار کر ہلاک کیا اور ان کی لاشیں چوک میں لٹکا دی تھی۔اس موقع پر پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔دریں اثنا سیشن جج لیہ نے ڈیرہ غازیخان سنٹرل جیل کے قیدی اصغر علی کے دوبارہ ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے، اسے7 اپریل کو پھانسی دی جائے گی، اصغر نے15سال قبل اپنے بھتیجے کو قتل کیا تھا۔
مجرموں علی رضا، شفیق، سرفراز احمد، راشد مہر، محمد امین، اقبال عرف بابو اور جمیل عرف جیلا کی اپیلیں لاہور ہائیکورٹ سے خارج ہو چکی ہیں جبکہ 6ملزم وارث، حسن رضا، قیصر عرف مودا، طیب، اصغر علی اور جمشید عرف شیدا عمرقید کاٹ رہے ہیں جبکہ ڈی پی او وقار چوہان، انسپکٹر رانا الیاس، اے ایس آئی وارث، کانسٹیبلز طارق محمود، مبارک علی، محمد یاسین، بشیر احمد، نصیر احمد اور محمد اکرم بری ہو چکے ہیں۔ مقتولین کے والد انور سجاد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے انصاف ملنے پر دلی خوشی ہوئی ہے، جن لوگوں نے خود جج بن کر فیصلے دیے انکو سزا مل گئی ہے۔
اس سے عدالتی وقار میں اضافہ ہوا ہے تاہم ہماری دلی خواہش ہے کہ ان مجرمان کو سرعام پھانسی دی جائے، مقدمہ کے مدعی اور مقتولین کے چچا خواجہ ضرار نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ سے ملک کا امیج پوری دنیا میں خراب کیا گیا، آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوگی۔ قانونی ماہرین کے مطابق مجرموں کے پاس سپریم کورٹ اور صدر کے پاس اپیل کرنے کا حق ابھی باقی ہے۔
اگست2010 میں سیالکوٹ کے بٹر گاؤں میں مشتعل ہجوم نے18 سالہ مغیث اور 15 سالہ مینب کو ڈاکو قرار دے کر ڈنڈے مار کر ہلاک کیا اور ان کی لاشیں چوک میں لٹکا دی تھی۔اس موقع پر پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔دریں اثنا سیشن جج لیہ نے ڈیرہ غازیخان سنٹرل جیل کے قیدی اصغر علی کے دوبارہ ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے، اسے7 اپریل کو پھانسی دی جائے گی، اصغر نے15سال قبل اپنے بھتیجے کو قتل کیا تھا۔