اسلامی تحریک مزاحمت
جس میں مصری عدالت نےپہل کردی ہےاورحماس کودہشت گرد تنظیم قرار دیا ہےجو کہ واضح طورپر فلسطین دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے
گزشتہ دنوں مصر کی ایک عدالت کی جانب سے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر صہیونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خلاف برسر پیکار اور قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور اس فیصلے کی بھرپور انداز میں تشہیر بھی کی گئی اور اسلامی مزاحمت کو دنیا کی ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ملانے کی ناپاک کوشش کی گئی کہ جن دہشت گرد گروہوں نے ہمیشہ مسلمانوں اور مسلم عرب و غیر عرب ممالک پر دہشت گردانہ حملے کیے جب کہ مسلمان ممالک کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے۔
ان خطرناک دہشت گرد گروہوں میں القاعدہ سے لے کر دور جدید کی تازہ ترین مثالوں میں داعش اور النصرہ وغیرہ شامل ہیں۔بہرحال مصر میں چونکہ اخوان المسلمون کی حکومت کو ختم کرکے جنرل سیسی اس وقت وہاں کے حکمران ہیں اور یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے کہ جنرل سیسی کے استعماری قوتوں بالخصوص امریکا اور فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بہت اچھی نوعیت کے بلکہ دوستانہ تعلقات بھی کہا جاسکتا ہے۔
گزشتہ برس غزہ پر مسلط کی جانے والی صہیونی اسرائیلی جنگ میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد سے اب تک غزہ کی صورتحال جوں کی توں ہی ہے اور آئے روز غزہ میں بسنے والے اٹھارہ لاکھ انسانوں کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے شدید ترین مشکلات و دشواریوں کا سامنا ہے۔
جب کہ دوسری جانب انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی ریاستیں اور ان کے حکمران غزہ کے عوام کی مدد کرنے کے بجائے سازشوں کے جال بننے میں مصروف عمل ہیں۔ عالمی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ مغربی ممالک اور ان کی سرکاریں یہ چاہتی ہیں کہ غزہ کے عوام اسلامی مزاحمت کو ترک کردیں اور فلسطینیوں کا دفاع کرنے والے ہر گروہ سے بیزاری کا اظہار کریں اور اس کے بدلے میں غزہ کی از سر نو تعمیر کا کام شروع کردیا جائے۔
اسی کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں کو روزگار کے مواقع اور اسی طرح ان کو سہولیات دی جائیں گی۔ لیکن یہ غزہ کے بہادر، شجاع اور غیرت مند لوگ ہیں کہ جنھوں نے اس نام نہاد عالمی برادری کی پیش کش کو اپنی ٹھوکروں کی نذر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات اور غزہ کے عوام کی پائیدار استقامت کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریکوںکے خلاف سازشوں کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
جس میں مصری عدالت نے پہل کردی ہے اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے جو کہ واضح طور پر فلسطین دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اے مصرکے حکمرانو! اے محترم پراسیکیوٹرز حضرات! چاہے عوام ہو یا حکومت، ادارے و انجمنیں! میں سر زمین پاکستان سے آپ سے مخاطب ہوں، آپ کے سامنے حاضر ہوں، میں مصر اور اس کے عوام کا حقیقی محب ہوں، یقیناً فلسطینیوں کی بھی مصری عوام کے ساتھ امیدیں وابستہ ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ تحریک مقاومت اسلامی حماس کا دائرہ کار اس وقت عموماً پوری دنیا میں اور خاص طور سے فلسطین میں اپنی وسعت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے، جو عرصہ دراز سے اب تک پوری دنیا میں مشغولِ کار ہے، جس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، جس نے اپنے وجود کو مقاومت کے ذریعے ثابت کیا ہے۔تحریک مقاومت اسلامی حماس کا مرکز فلسطین ہے، اس کی وطن میں موجودگی اور اس کی تمام کوششیں وطن کے لیے ہی ہیں۔
اس کے جوان یہیں کی جامعات اور اداروں میں زیرتعلیم ہیں، اور تمام یونینوں اور انجمنوں میں شامل ہوتے ہیں، وہ ہر غم وخوشی ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں، وہ کسی بھی آزمائش کے موقع پر کبھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں، وہ فتح وکامرانی کے موقع پر کبھی غرور کا شکار نہیں ہوتے اور نہ دنیا کے فریب میں آجاتے ہیں، انھیں دنیا کے مال و دولت سے ہرگز دھوکا نہیں دے سکتے۔
تحریک حماس، تمام فلسطین کے علاقوں میں موجود ہے۔ تو کیا ہے کوئی عربی نظام یا محب حکومت جو مقاومت اسلامی حماس کو اس وقت اپنی آغوش میں لے؟ جو اس کی چھوٹی جماعتوں کی دیکھ بھال کریں، جو فلسطین اور اس میں بسنے والوں سے پیار کریں، جو اس کے لیے قربانی دیں، جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
اس کے اوپر لگائے گئے الزامات کو منسوخ کریں، ان الزامات کی جڑوں کو کاٹ دیں، جو ان ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کردیں جو اس معاملے میں مداخلت کریں۔ اب تک کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو اپنی سرزمین سے حماس کی جڑوں کو کاٹ سکے، یا جو حماس کو اپنے ملک سے نکال سکے، جو حماس کے جوانوں کو مجرم ٹھہرائے، جو ان پرکوئی محاسبہ کریں، یا ان پر پابندی عائد کریں، اس لیے نہیں کہ حماس طاقتور ہے یا حماس ان کے لیے فساد کا باعث بن جائے، جو اپنے دشمن کو چھوڑ کر ان کے ساتھ لڑنا شروع کرے، بلکہ وہ تو ہر گھر میں موجود ہے۔
جس پر تمام امت اسلامی اعتماد کرتی ہے،میرا یقین ہے کہ مصری عدالت نے صرف فلسطینیوں کو تکلیف دی ہے، بلکہ اس نے تو خود مصریوں، تمام عرب بلکہ دنیا کے تمام آزاد منش افراد کو دکھ پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ یہ دکھ اور درد ہم نے پاکستان میں بھی محسوس کیا ہے۔ پاکستان کے عوام جو فلسطین اور اس کے باسیوں سے پیار کرتے ہیں، جو ان کے ساتھ، ان کے لیے کام کرتے ہیں، سو تحریک حماس تمام عرب و غیر عرب قوم اور حکومتوں سے تعاون کی طلبگار ہے۔
اسے ان پر یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ اس پر غیرقانونی الزامات عائد کریں، اور دہشت اور شدت پسند تنظیم قرار دیں، جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی اور خوف کا شکار ہوجائے۔اے مصرکے صاحبان قضاوت! لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، سو غلطی کر بیٹھو۔ لہٰذا تم انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے، تم مقاومت اور اس کے جوانوں کی مدد کرو، تم فلسطین اور اس کی قوم کے ساتھ ہوجاؤ، جیساکہ تم نے ہمیشہ کیا ہے، لہٰذا ہم تمہارے منتظر ہیں۔
ان خطرناک دہشت گرد گروہوں میں القاعدہ سے لے کر دور جدید کی تازہ ترین مثالوں میں داعش اور النصرہ وغیرہ شامل ہیں۔بہرحال مصر میں چونکہ اخوان المسلمون کی حکومت کو ختم کرکے جنرل سیسی اس وقت وہاں کے حکمران ہیں اور یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے کہ جنرل سیسی کے استعماری قوتوں بالخصوص امریکا اور فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بہت اچھی نوعیت کے بلکہ دوستانہ تعلقات بھی کہا جاسکتا ہے۔
گزشتہ برس غزہ پر مسلط کی جانے والی صہیونی اسرائیلی جنگ میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد سے اب تک غزہ کی صورتحال جوں کی توں ہی ہے اور آئے روز غزہ میں بسنے والے اٹھارہ لاکھ انسانوں کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے شدید ترین مشکلات و دشواریوں کا سامنا ہے۔
جب کہ دوسری جانب انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی ریاستیں اور ان کے حکمران غزہ کے عوام کی مدد کرنے کے بجائے سازشوں کے جال بننے میں مصروف عمل ہیں۔ عالمی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ مغربی ممالک اور ان کی سرکاریں یہ چاہتی ہیں کہ غزہ کے عوام اسلامی مزاحمت کو ترک کردیں اور فلسطینیوں کا دفاع کرنے والے ہر گروہ سے بیزاری کا اظہار کریں اور اس کے بدلے میں غزہ کی از سر نو تعمیر کا کام شروع کردیا جائے۔
اسی کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں کو روزگار کے مواقع اور اسی طرح ان کو سہولیات دی جائیں گی۔ لیکن یہ غزہ کے بہادر، شجاع اور غیرت مند لوگ ہیں کہ جنھوں نے اس نام نہاد عالمی برادری کی پیش کش کو اپنی ٹھوکروں کی نذر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات اور غزہ کے عوام کی پائیدار استقامت کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریکوںکے خلاف سازشوں کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
جس میں مصری عدالت نے پہل کردی ہے اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے جو کہ واضح طور پر فلسطین دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اے مصرکے حکمرانو! اے محترم پراسیکیوٹرز حضرات! چاہے عوام ہو یا حکومت، ادارے و انجمنیں! میں سر زمین پاکستان سے آپ سے مخاطب ہوں، آپ کے سامنے حاضر ہوں، میں مصر اور اس کے عوام کا حقیقی محب ہوں، یقیناً فلسطینیوں کی بھی مصری عوام کے ساتھ امیدیں وابستہ ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ تحریک مقاومت اسلامی حماس کا دائرہ کار اس وقت عموماً پوری دنیا میں اور خاص طور سے فلسطین میں اپنی وسعت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے، جو عرصہ دراز سے اب تک پوری دنیا میں مشغولِ کار ہے، جس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، جس نے اپنے وجود کو مقاومت کے ذریعے ثابت کیا ہے۔تحریک مقاومت اسلامی حماس کا مرکز فلسطین ہے، اس کی وطن میں موجودگی اور اس کی تمام کوششیں وطن کے لیے ہی ہیں۔
اس کے جوان یہیں کی جامعات اور اداروں میں زیرتعلیم ہیں، اور تمام یونینوں اور انجمنوں میں شامل ہوتے ہیں، وہ ہر غم وخوشی ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں، وہ کسی بھی آزمائش کے موقع پر کبھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں، وہ فتح وکامرانی کے موقع پر کبھی غرور کا شکار نہیں ہوتے اور نہ دنیا کے فریب میں آجاتے ہیں، انھیں دنیا کے مال و دولت سے ہرگز دھوکا نہیں دے سکتے۔
تحریک حماس، تمام فلسطین کے علاقوں میں موجود ہے۔ تو کیا ہے کوئی عربی نظام یا محب حکومت جو مقاومت اسلامی حماس کو اس وقت اپنی آغوش میں لے؟ جو اس کی چھوٹی جماعتوں کی دیکھ بھال کریں، جو فلسطین اور اس میں بسنے والوں سے پیار کریں، جو اس کے لیے قربانی دیں، جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
اس کے اوپر لگائے گئے الزامات کو منسوخ کریں، ان الزامات کی جڑوں کو کاٹ دیں، جو ان ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کردیں جو اس معاملے میں مداخلت کریں۔ اب تک کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو اپنی سرزمین سے حماس کی جڑوں کو کاٹ سکے، یا جو حماس کو اپنے ملک سے نکال سکے، جو حماس کے جوانوں کو مجرم ٹھہرائے، جو ان پرکوئی محاسبہ کریں، یا ان پر پابندی عائد کریں، اس لیے نہیں کہ حماس طاقتور ہے یا حماس ان کے لیے فساد کا باعث بن جائے، جو اپنے دشمن کو چھوڑ کر ان کے ساتھ لڑنا شروع کرے، بلکہ وہ تو ہر گھر میں موجود ہے۔
جس پر تمام امت اسلامی اعتماد کرتی ہے،میرا یقین ہے کہ مصری عدالت نے صرف فلسطینیوں کو تکلیف دی ہے، بلکہ اس نے تو خود مصریوں، تمام عرب بلکہ دنیا کے تمام آزاد منش افراد کو دکھ پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ یہ دکھ اور درد ہم نے پاکستان میں بھی محسوس کیا ہے۔ پاکستان کے عوام جو فلسطین اور اس کے باسیوں سے پیار کرتے ہیں، جو ان کے ساتھ، ان کے لیے کام کرتے ہیں، سو تحریک حماس تمام عرب و غیر عرب قوم اور حکومتوں سے تعاون کی طلبگار ہے۔
اسے ان پر یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ اس پر غیرقانونی الزامات عائد کریں، اور دہشت اور شدت پسند تنظیم قرار دیں، جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی اور خوف کا شکار ہوجائے۔اے مصرکے صاحبان قضاوت! لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، سو غلطی کر بیٹھو۔ لہٰذا تم انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے، تم مقاومت اور اس کے جوانوں کی مدد کرو، تم فلسطین اور اس کی قوم کے ساتھ ہوجاؤ، جیساکہ تم نے ہمیشہ کیا ہے، لہٰذا ہم تمہارے منتظر ہیں۔