میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
آپ کہہ سکتے ہیں ارے میاں تم بھی عقل کے پیچھے لٹھ لیے دوڑ رہے ہو۔
حوثی صدیوں سے یمنی ہیں۔ حوثیوں کے اتحادی علی عبداللہ صالح اور علی عبداللہ صالح کے حامی ری پبلکن گارڈز بھی یمنی ہیں اور علی عبداللہ صالح کے ریاض میں پناہ گزیں سابق نائب صدر اور موجودہ معزول صدر منصور ہادی اور ان کے وفادار فوجی دستے بھی یمنی ہیں۔ گویا یمن کی چار دیواری میں یمنی یمنی سے مصروفِ پیکار ہے۔
کسی حکومت مخالف یمنی گروہ نے نہ تو اب تک سعودی بارڈر عبور کیا ہے یا اپنی سمندری حدود میں کسی بیرونی یا مقامی جہاز کے خلاف دہشت گردی یا قزاقی کی ہے یا سعودی عرب میں القاعدہ کی طرز پر کوئی خودکش حملہ کیا یا بم پھوڑا ہے یا یہ دھمکی دی ہے کہ اگر بمباری بند نہ ہوئی تو پھر ہم سالانہ بیس ہزار سے زائد تیل بردار جہازوں کی گزرگاہ باب المندب کی ناکہ بندی کر دیں گے۔ نہ ہی ایران نے اب تک کہا ہے کہ یمن کے حوثیوں پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
تو پھر یہ بتائیے کہ یمن علاقائی اور عالمی امن کے لیے اچانک ایک بھیانک خواب کیسے ہو گیا اور کیوں کہا جا رہا ہے کہ مقاماتِ مقدسہ کو کوئی خطرہ ہرگز ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ویسے اس وقت حوثی اور ان کے اتحادی مکہ اور مدینہ سے کتنی دور رہ گئے ہیں؟ کیا وہ حرمین کی تقدیس کے بھی قائل نہیں رہے یا عمرے اور حج کے لیے کہیں اور جانا چاہتے ہیں؟ اور ان عجمیوں کو کیوں تکلیف ہے اگر مسجدِ اقصی یہودیوں کے کنٹرول میں ہے۔ کیا ان تک یہ محاورہ نہیں پہنچا کہ ''ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے''۔۔۔۔۔
آپ کہہ سکتے ہیں ارے میاں تم بھی عقل کے پیچھے لٹھ لیے دوڑ رہے ہو۔ ایران اتنا بے وقوف تھوڑا ہی ہے کہ خم ٹھونک کے ایسے وقت عربوں کو للکارے گا جب اس کی معیشت عالمی اقتصادی پابندیوں کے بوجھ سے کراہ رہی ہے۔ بھلے ایران مغربی ممالک کو اپنے ایٹمی عزائم کے بارے میں کتنا بھی شیشے میں اتار لے مگر اسرائیل سمیت مشرقِ وسطیٰ کی بیشتر حکومتیں ایران کے ایٹمی خوابوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں۔ برخوردار کیا تمہیں یہ اندازہ بھی نہیں کہ ایران چور دروازے سے حوثیوں کو رقم، اسلحہ اور تربیت دے رہا ہے۔ فوجی کارروائی کرنے والے مسلمان ملک باؤلے ہیں کیا؟
مانا کہ سو فیصد یونہی ہے جیسا بتایا جا رہا ہے۔ لیکن پوشیدہ امداد اور درپردہ اکساہٹ کے سبب کسی قانونی حکومت کی برطرفی ہی کسی ملک میں مداخلت کی کسوٹی ہے تو پھر روس نے یوکرین کے قانونی صدر کی برطرفی کے بعد یوکرین کے خلاف جو کارروائی کی وہ بھی جائز ہوئی۔ جانے سلامتی کونسل اور یورپی یونین روس کو کیوں دھمکائے چلی جا رہی ہے۔ پھر تو تیونس میں اندرونی شورش کے سبب صدر زین العابدین، مصر میں حسنی مبارک اور لبیا کی قذافی حکومت کا خاتمہ بھی ناجائز ہوا۔
اور اس سے بھی پہلے اندرونی گروہوں کے ہاتھوں رضا شاہ پہلوی کی قانونی بادشاہت کی برطرفی اور افغانستان میں نجیب اللہ حکومت کا خاتمہ بھی حرام ٹھہرا۔ اور اب سے پچانوے برس پہلے غیر اعلانیہ برطانوی سامراجی امداد سے مکہ اور مدینہ پر قائم شریف حسین کے اقتدار کا بدوی قبائل کے ہاتھوں خاتمہ بھی ناجائز ہوا۔ تو پھر صدام حسین کی برطرفی کیوں حلال کہی جاتی ہے اور بشار الاسد حکومت کے مخالف ہر طرح کے گروہوں کی ہر طرح سے پوشیدہ و اعلانیہ امداد کیسے جائز بتائی جا رہی ہے۔ اور لبنانی خانہ جنگی میں فلانجسٹوں کی حمایت میں اسرائیلی فوج کشی پر ہر مسلمان ملک چیں بہ جبیں کیوں؟
تو پھر یہ بتائیے کہ مصر میں عوام کی منتخب کردہ محمد مرسی حکومت کی ایک ایسے جنرل کے ہاتھوں برطرفی کیسے جائز ہوئی جسے خلیجی ممالک کی دامے درمے سخنے اعلانیہ مدد حاصل رہی۔ تب عرب لیگ کہاں تھی؟ تب اسلامی سربراہ کانفرنس کی دہائی کیوں نہیں دی گئی۔ تب عرب و غیر عرب ممالک نے محض سائکلو اسٹائل تشویش پر ہی کیوں گزارہ کیا۔ قاہرہ کی باغی فوجی بیرکوں پر پان اسلامک بمباری کیوں نہیں ہوئی؟
میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ یمن میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ یمنی کی یمنی سے لڑائی ہے۔ اگر کچھ ممالک کو ان میں سے ایک یمنی گروہ پسند نہیں اور وہ اس گروہ کے خلاف اپنے پسندیدہ گروہ کی حمایت میں لنگوٹ کس کے میدان میں آ گئے ہیں اور مغرب تا مشرق اس قدم کو جائز بھی سمجھا جا رہا ہے تو پھر یوں سمجھئے کہ نیشن اسٹیٹ کے چار سو برس پرانے تصور کا ہی باجا بج گیا کہ جس کے محور پہ آج کی دنیا قائم ہے۔
گویا اگلے ہفتے اسلام آباد میں نواز شریف حکومت کا تختہ غیر قانونی طریقے سے الٹتا ہے اور کوئی ملک اس حرکت کو جائز نہیں سمجھتا تو اس ملک سے نواز شریف صاحب اپنی قانونی حکومت کی بحالی تک پاکستان پر حملے جاری رکھنے کی درخواست کرنے میں حق بجانب اور ان کی درخواست پر پاکستان پر ہونے والے حملے جائز ہوں گے۔
فرض کیجیے کل کلاں بلوچ علیحدگی پسندوں کا اتحاد کوئٹہ پر قبضہ کر لیتا ہے تو ایران کو حق ہو گا کہ وہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی مدد کے لیے کوئٹہ کے مقبوضہ چیف منسٹر ہاؤس نیز پنجگور اور تربت میں علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر دے کیونکہ اسے ایرانی بلوچستان کو اس وائرس سے بچانا تو ہو گا؟ ایران کو چھوڑئیے کیا اسلام آباد کو ریاض، دوحہ، ابو ظہبی، مانامہ اور کویت سے پیغام آئے گا کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔
اپنے ہی کسی مقامی گروہ، تنظیم یا قبیلے کے خلاف بیرونی فوجوں کو اپنے ملک میں کاروائی کی دعوت دینا جائز، قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر ببرک کارمل نے افغان شورش کو دبانے کے لیے سوویت دستوں کو بلوا کے کون سا ایسا گناہ کر دیا تھا کہ افغانستان کی سات پشتیں برباد کر دی گئیں۔ اور کرنل قذافی نے جب چاڈ میں حسین ہبرے حکومت کو باغیوں سے بچانے کے لیے اپنے دستے بھیجے تو آسمان کیوں سر پہ اٹھا لیا گیا۔
اگر بین الاقوامی تعلقات و سیاست یمنی ماڈل کی نہج پر چل نکلی تو پھر اقوامِ متحدہ سمیت کسی کی بھی کیا ضرورت۔ پرانے دور کی طرح چار حکومتیں ایک ساتھ مل جائیں اور پانچویں کو پیٹ ڈالیں اور جب پانچویں کا بس چلے تو وہ اپنے دوستوں کو بلا کے چاروں کو ٹھوک دے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ جو چاہے کہہ لیں مگر ضیا الحق نے سعودی شرعی قوانین سے متاثر ہونے اور افغان جنگ کے دوران ایک امریکی ڈالر کے بدلے ایک سعودی ڈالر وصول پانے اور قرضِ حسنہ پر تیل لینے اور شاہ فہد کو مرشد ماننے کے باوجود آٹھ سالہ ایران عراق، عجمی عربی جنگ کے دوران جس طرح خود کو مصالحت کاری کا مکھوٹا پہن کر اس کت خانے میں براہ راست کودنے سے بچائے رکھا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ وہ الگ اسباب ہیں کہ جن کے تحت یہ احتیاط پسندی بھی پاکستان کو فرقہ واریت کے امپورٹڈ زہر سے نہ بچا سکی۔
عراق اور شام میں علاقائی و غیر علاقائی طاقتوں کی جانب سے پوشیدہ و غیر پوشیدہ مداخلت کا رسیلا پھل تو داعش کی شکل میں مل گیا۔ اب افغانستان کے بعد یمن کا چھینکا ٹوٹنے سے القاعدہ کی بلی کو بھی تازہ دودھ پہلے سے وافر دستیاب ہے۔ یمن کے خلاف فوجی کاروائی پر توجہ کی دھن میں کسی نے دھیان نہیں دیا کہ پچھلے ہی منگل کو القاعدہ کے النصرہ فرنٹ نے شام کے ایک اہم اور تاریخی شہر اضلب پر قبضہ کر لیا۔ رقاہ شہر پر ڈیڑھ برس پہلے داعش کے قبضے کے بعد اضلب پر القاعدہ کے قبضے کا مطلب یہ ہے کہ اب دمشق اور لطاکیہ کو چھوڑ کے لگ بھگ پورا شمالی شام ان قوتوں کے قبضے میں آ چکا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی تمام حکومتوں کی بظاہر بلا امتیاز دشمن کہی جا رہی ہیں۔
اس دوران یمن پر بمباری کی ہڑا ہڑی میں یمنی القاعدہ نے دور روز قبل صوبہ حضرموت کے دارلحکومت المقلہ کی جیل توڑ کے اپنے اہم ترین کمانڈر خالد بطارفی سمیت تین سو سے زائد قیدی ایسے وقت رہا کرا لیے جب یہ صوبہ سعودی حمایت یافتہ معزول صدر منصور ہادی کے حامیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اور عین اسی دن کینیا کی گریسا یونیورسٹی پر القاعدہ کے بیعت الشباب ملیشیا نے حملہ کر کے لگ بھگ ڈیڑھ سو طلبا و طالبات ہلاک کر دیے۔
اگر میں القاعدہ یا داعش میں ہوتا تو یمن کے بحران پر بغلیں بجا رہا ہوتا اور گڑگڑا کے دعا کرتا کہ یہ بحران جلد ختم نہ ہو۔ بمباری سے پہلے بھی ایک تہائی یمن پر القاعدہ کا اثرو نفوذ بتایا جاتا ہے۔ تازہ مداخلت کے نتیجے میں القاعدہ کے ایک دشمن کے ہاتھوں اگر القاعدہ کا دوسرا دشمن ختم ہو جائے تو سو بسم اللہ؟ پھر یمن میں کون کون ہوں گے جو اس ملک کو اعلی حضرت ایمن الظواہری یا ابوبکر البغدادی کی خلافت کا حصہ بننے سے روک لیں (ویسے بھی دونوں احباب سرحدی لکیروں پر یقین نہیں رکھتے)۔
تب جا کے واقعی چیلنج درپیش ہوگا مقاماتِ مقدسہ کو بھی اور اس سے بھی پہلے بقیہ سعودی عرب کو۔ شمال ( عراق ) سے بھی، جنوب ( یمن ) سے بھی اور جنوب مغرب (الشباب ان ایسٹ افریقہ) سے بھی۔ بھلے مشرق ( ایران ) سے فوری طور پر ہو نہ ہو۔
جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخرو ظلِ الہی ہوں گے
کسی حکومت مخالف یمنی گروہ نے نہ تو اب تک سعودی بارڈر عبور کیا ہے یا اپنی سمندری حدود میں کسی بیرونی یا مقامی جہاز کے خلاف دہشت گردی یا قزاقی کی ہے یا سعودی عرب میں القاعدہ کی طرز پر کوئی خودکش حملہ کیا یا بم پھوڑا ہے یا یہ دھمکی دی ہے کہ اگر بمباری بند نہ ہوئی تو پھر ہم سالانہ بیس ہزار سے زائد تیل بردار جہازوں کی گزرگاہ باب المندب کی ناکہ بندی کر دیں گے۔ نہ ہی ایران نے اب تک کہا ہے کہ یمن کے حوثیوں پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
تو پھر یہ بتائیے کہ یمن علاقائی اور عالمی امن کے لیے اچانک ایک بھیانک خواب کیسے ہو گیا اور کیوں کہا جا رہا ہے کہ مقاماتِ مقدسہ کو کوئی خطرہ ہرگز ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ویسے اس وقت حوثی اور ان کے اتحادی مکہ اور مدینہ سے کتنی دور رہ گئے ہیں؟ کیا وہ حرمین کی تقدیس کے بھی قائل نہیں رہے یا عمرے اور حج کے لیے کہیں اور جانا چاہتے ہیں؟ اور ان عجمیوں کو کیوں تکلیف ہے اگر مسجدِ اقصی یہودیوں کے کنٹرول میں ہے۔ کیا ان تک یہ محاورہ نہیں پہنچا کہ ''ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے''۔۔۔۔۔
آپ کہہ سکتے ہیں ارے میاں تم بھی عقل کے پیچھے لٹھ لیے دوڑ رہے ہو۔ ایران اتنا بے وقوف تھوڑا ہی ہے کہ خم ٹھونک کے ایسے وقت عربوں کو للکارے گا جب اس کی معیشت عالمی اقتصادی پابندیوں کے بوجھ سے کراہ رہی ہے۔ بھلے ایران مغربی ممالک کو اپنے ایٹمی عزائم کے بارے میں کتنا بھی شیشے میں اتار لے مگر اسرائیل سمیت مشرقِ وسطیٰ کی بیشتر حکومتیں ایران کے ایٹمی خوابوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں۔ برخوردار کیا تمہیں یہ اندازہ بھی نہیں کہ ایران چور دروازے سے حوثیوں کو رقم، اسلحہ اور تربیت دے رہا ہے۔ فوجی کارروائی کرنے والے مسلمان ملک باؤلے ہیں کیا؟
مانا کہ سو فیصد یونہی ہے جیسا بتایا جا رہا ہے۔ لیکن پوشیدہ امداد اور درپردہ اکساہٹ کے سبب کسی قانونی حکومت کی برطرفی ہی کسی ملک میں مداخلت کی کسوٹی ہے تو پھر روس نے یوکرین کے قانونی صدر کی برطرفی کے بعد یوکرین کے خلاف جو کارروائی کی وہ بھی جائز ہوئی۔ جانے سلامتی کونسل اور یورپی یونین روس کو کیوں دھمکائے چلی جا رہی ہے۔ پھر تو تیونس میں اندرونی شورش کے سبب صدر زین العابدین، مصر میں حسنی مبارک اور لبیا کی قذافی حکومت کا خاتمہ بھی ناجائز ہوا۔
اور اس سے بھی پہلے اندرونی گروہوں کے ہاتھوں رضا شاہ پہلوی کی قانونی بادشاہت کی برطرفی اور افغانستان میں نجیب اللہ حکومت کا خاتمہ بھی حرام ٹھہرا۔ اور اب سے پچانوے برس پہلے غیر اعلانیہ برطانوی سامراجی امداد سے مکہ اور مدینہ پر قائم شریف حسین کے اقتدار کا بدوی قبائل کے ہاتھوں خاتمہ بھی ناجائز ہوا۔ تو پھر صدام حسین کی برطرفی کیوں حلال کہی جاتی ہے اور بشار الاسد حکومت کے مخالف ہر طرح کے گروہوں کی ہر طرح سے پوشیدہ و اعلانیہ امداد کیسے جائز بتائی جا رہی ہے۔ اور لبنانی خانہ جنگی میں فلانجسٹوں کی حمایت میں اسرائیلی فوج کشی پر ہر مسلمان ملک چیں بہ جبیں کیوں؟
تو پھر یہ بتائیے کہ مصر میں عوام کی منتخب کردہ محمد مرسی حکومت کی ایک ایسے جنرل کے ہاتھوں برطرفی کیسے جائز ہوئی جسے خلیجی ممالک کی دامے درمے سخنے اعلانیہ مدد حاصل رہی۔ تب عرب لیگ کہاں تھی؟ تب اسلامی سربراہ کانفرنس کی دہائی کیوں نہیں دی گئی۔ تب عرب و غیر عرب ممالک نے محض سائکلو اسٹائل تشویش پر ہی کیوں گزارہ کیا۔ قاہرہ کی باغی فوجی بیرکوں پر پان اسلامک بمباری کیوں نہیں ہوئی؟
میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ یمن میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ یمنی کی یمنی سے لڑائی ہے۔ اگر کچھ ممالک کو ان میں سے ایک یمنی گروہ پسند نہیں اور وہ اس گروہ کے خلاف اپنے پسندیدہ گروہ کی حمایت میں لنگوٹ کس کے میدان میں آ گئے ہیں اور مغرب تا مشرق اس قدم کو جائز بھی سمجھا جا رہا ہے تو پھر یوں سمجھئے کہ نیشن اسٹیٹ کے چار سو برس پرانے تصور کا ہی باجا بج گیا کہ جس کے محور پہ آج کی دنیا قائم ہے۔
گویا اگلے ہفتے اسلام آباد میں نواز شریف حکومت کا تختہ غیر قانونی طریقے سے الٹتا ہے اور کوئی ملک اس حرکت کو جائز نہیں سمجھتا تو اس ملک سے نواز شریف صاحب اپنی قانونی حکومت کی بحالی تک پاکستان پر حملے جاری رکھنے کی درخواست کرنے میں حق بجانب اور ان کی درخواست پر پاکستان پر ہونے والے حملے جائز ہوں گے۔
فرض کیجیے کل کلاں بلوچ علیحدگی پسندوں کا اتحاد کوئٹہ پر قبضہ کر لیتا ہے تو ایران کو حق ہو گا کہ وہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی مدد کے لیے کوئٹہ کے مقبوضہ چیف منسٹر ہاؤس نیز پنجگور اور تربت میں علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر دے کیونکہ اسے ایرانی بلوچستان کو اس وائرس سے بچانا تو ہو گا؟ ایران کو چھوڑئیے کیا اسلام آباد کو ریاض، دوحہ، ابو ظہبی، مانامہ اور کویت سے پیغام آئے گا کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔
اپنے ہی کسی مقامی گروہ، تنظیم یا قبیلے کے خلاف بیرونی فوجوں کو اپنے ملک میں کاروائی کی دعوت دینا جائز، قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر ببرک کارمل نے افغان شورش کو دبانے کے لیے سوویت دستوں کو بلوا کے کون سا ایسا گناہ کر دیا تھا کہ افغانستان کی سات پشتیں برباد کر دی گئیں۔ اور کرنل قذافی نے جب چاڈ میں حسین ہبرے حکومت کو باغیوں سے بچانے کے لیے اپنے دستے بھیجے تو آسمان کیوں سر پہ اٹھا لیا گیا۔
اگر بین الاقوامی تعلقات و سیاست یمنی ماڈل کی نہج پر چل نکلی تو پھر اقوامِ متحدہ سمیت کسی کی بھی کیا ضرورت۔ پرانے دور کی طرح چار حکومتیں ایک ساتھ مل جائیں اور پانچویں کو پیٹ ڈالیں اور جب پانچویں کا بس چلے تو وہ اپنے دوستوں کو بلا کے چاروں کو ٹھوک دے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ جو چاہے کہہ لیں مگر ضیا الحق نے سعودی شرعی قوانین سے متاثر ہونے اور افغان جنگ کے دوران ایک امریکی ڈالر کے بدلے ایک سعودی ڈالر وصول پانے اور قرضِ حسنہ پر تیل لینے اور شاہ فہد کو مرشد ماننے کے باوجود آٹھ سالہ ایران عراق، عجمی عربی جنگ کے دوران جس طرح خود کو مصالحت کاری کا مکھوٹا پہن کر اس کت خانے میں براہ راست کودنے سے بچائے رکھا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ وہ الگ اسباب ہیں کہ جن کے تحت یہ احتیاط پسندی بھی پاکستان کو فرقہ واریت کے امپورٹڈ زہر سے نہ بچا سکی۔
عراق اور شام میں علاقائی و غیر علاقائی طاقتوں کی جانب سے پوشیدہ و غیر پوشیدہ مداخلت کا رسیلا پھل تو داعش کی شکل میں مل گیا۔ اب افغانستان کے بعد یمن کا چھینکا ٹوٹنے سے القاعدہ کی بلی کو بھی تازہ دودھ پہلے سے وافر دستیاب ہے۔ یمن کے خلاف فوجی کاروائی پر توجہ کی دھن میں کسی نے دھیان نہیں دیا کہ پچھلے ہی منگل کو القاعدہ کے النصرہ فرنٹ نے شام کے ایک اہم اور تاریخی شہر اضلب پر قبضہ کر لیا۔ رقاہ شہر پر ڈیڑھ برس پہلے داعش کے قبضے کے بعد اضلب پر القاعدہ کے قبضے کا مطلب یہ ہے کہ اب دمشق اور لطاکیہ کو چھوڑ کے لگ بھگ پورا شمالی شام ان قوتوں کے قبضے میں آ چکا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی تمام حکومتوں کی بظاہر بلا امتیاز دشمن کہی جا رہی ہیں۔
اس دوران یمن پر بمباری کی ہڑا ہڑی میں یمنی القاعدہ نے دور روز قبل صوبہ حضرموت کے دارلحکومت المقلہ کی جیل توڑ کے اپنے اہم ترین کمانڈر خالد بطارفی سمیت تین سو سے زائد قیدی ایسے وقت رہا کرا لیے جب یہ صوبہ سعودی حمایت یافتہ معزول صدر منصور ہادی کے حامیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اور عین اسی دن کینیا کی گریسا یونیورسٹی پر القاعدہ کے بیعت الشباب ملیشیا نے حملہ کر کے لگ بھگ ڈیڑھ سو طلبا و طالبات ہلاک کر دیے۔
اگر میں القاعدہ یا داعش میں ہوتا تو یمن کے بحران پر بغلیں بجا رہا ہوتا اور گڑگڑا کے دعا کرتا کہ یہ بحران جلد ختم نہ ہو۔ بمباری سے پہلے بھی ایک تہائی یمن پر القاعدہ کا اثرو نفوذ بتایا جاتا ہے۔ تازہ مداخلت کے نتیجے میں القاعدہ کے ایک دشمن کے ہاتھوں اگر القاعدہ کا دوسرا دشمن ختم ہو جائے تو سو بسم اللہ؟ پھر یمن میں کون کون ہوں گے جو اس ملک کو اعلی حضرت ایمن الظواہری یا ابوبکر البغدادی کی خلافت کا حصہ بننے سے روک لیں (ویسے بھی دونوں احباب سرحدی لکیروں پر یقین نہیں رکھتے)۔
تب جا کے واقعی چیلنج درپیش ہوگا مقاماتِ مقدسہ کو بھی اور اس سے بھی پہلے بقیہ سعودی عرب کو۔ شمال ( عراق ) سے بھی، جنوب ( یمن ) سے بھی اور جنوب مغرب (الشباب ان ایسٹ افریقہ) سے بھی۔ بھلے مشرق ( ایران ) سے فوری طور پر ہو نہ ہو۔
جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخرو ظلِ الہی ہوں گے