او سی اے سی نے ایک بار پھر پٹرول بحران سے متنبہ کردیا
ایل این جی درآمد اور ترقیاتی کاموں کے باعث پورٹ قاسم پر آئل ٹینکرز کو جگہ نہیں مل رہی
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز کی نمائندہ آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی (او سی اے سی) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایل این جی کی درآمد کی وجہ سے پورٹ قاسم بندرگاہ پر پٹرولیم مصنوعات لے کر آنے والے جہازوں کی آمدورفت متاثر ہونے سے ایک بار پھر ملک گیر سطح پر پٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
او سی اے سی کی جانب سے حکومت کو ارسال کردہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پورٹ قاسم پر ایل این جی کی درآمد اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے خام تیل اورپٹرولیم مصنوعات لے کر آنے والے آئل ٹینکرز کو جگہ نہیں مل رہی، بندرگاہ پر ایل این جی کو پٹرولیم مصنوعات پر ترجیح دی جارہی ہے، پورٹ پر متبادل انتظامات کیے بغیر ایل این جی کی درآمد شروع کردی گئی جس سے پٹرولیم مصنوعات لے کر آنے و الے بحری جہازوں برتھنگ میں تاخیر کا سامنا ہے، ایل این جی کی درآمد کے لیے موثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ایل این جی کی درآمد سے سب سے زیادہ فوٹکو ٹرمینل متاثر ہوگا جو ایل این جی ٹرمینل سے 3.5کلومیٹر اور جہازوں کے مڑنے کی جگہ سے 1.5 کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے، ایل این جی لے کر آنے والے جہاز کی چینل میں آمد کے وقت کسی دوسرے جہاز کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، اسی طرح پی او ایل پر لنگر انداز جہاز بھی باہر نہیں جاسکیں گے، ماہانہ 2لاکھ 90ہزار ٹن ایل این جی کی درآمد کے لیے 40 سے 45 ہزار ٹن گنجائش کے جہازوں کو استعمال کیا جائے گا، اس طرح صرف ایل این جی کی درآمد کے لیے ماہانہ 7بحری جہاز پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوں گے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل (درآمد) بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر پٹرولیم مصنوعات کے جہازوں کو ترجیح نہ دی گئی تو ہر بحری جہاز سے مصنوعات کی ترسیل میں 8 سے 10روز کی تاخیر کا سامنا ہوگا جس سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کا نیا بحران پیدا ہوگا۔ او سی اے سی نے سفارش کی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ ایل این جی اور دیگر مصنوعات لانے والے بحری جہازوں کا ماہانہ شیڈول تیار کیا جائے اور ہر مہینے کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل جاری کیا جائے۔
او سی اے سی کی جانب سے حکومت کو ارسال کردہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پورٹ قاسم پر ایل این جی کی درآمد اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے خام تیل اورپٹرولیم مصنوعات لے کر آنے والے آئل ٹینکرز کو جگہ نہیں مل رہی، بندرگاہ پر ایل این جی کو پٹرولیم مصنوعات پر ترجیح دی جارہی ہے، پورٹ پر متبادل انتظامات کیے بغیر ایل این جی کی درآمد شروع کردی گئی جس سے پٹرولیم مصنوعات لے کر آنے و الے بحری جہازوں برتھنگ میں تاخیر کا سامنا ہے، ایل این جی کی درآمد کے لیے موثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ایل این جی کی درآمد سے سب سے زیادہ فوٹکو ٹرمینل متاثر ہوگا جو ایل این جی ٹرمینل سے 3.5کلومیٹر اور جہازوں کے مڑنے کی جگہ سے 1.5 کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے، ایل این جی لے کر آنے والے جہاز کی چینل میں آمد کے وقت کسی دوسرے جہاز کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، اسی طرح پی او ایل پر لنگر انداز جہاز بھی باہر نہیں جاسکیں گے، ماہانہ 2لاکھ 90ہزار ٹن ایل این جی کی درآمد کے لیے 40 سے 45 ہزار ٹن گنجائش کے جہازوں کو استعمال کیا جائے گا، اس طرح صرف ایل این جی کی درآمد کے لیے ماہانہ 7بحری جہاز پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوں گے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل (درآمد) بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر پٹرولیم مصنوعات کے جہازوں کو ترجیح نہ دی گئی تو ہر بحری جہاز سے مصنوعات کی ترسیل میں 8 سے 10روز کی تاخیر کا سامنا ہوگا جس سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کا نیا بحران پیدا ہوگا۔ او سی اے سی نے سفارش کی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ ایل این جی اور دیگر مصنوعات لانے والے بحری جہازوں کا ماہانہ شیڈول تیار کیا جائے اور ہر مہینے کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل جاری کیا جائے۔