نیند کی سائنس تندرستی کے لیے لازم وملزوم

کروڑوں حد درجہ مصروف مردو زن چوبیس گھنٹے میں صرف چار تا چھ گھنٹے کی نیند لے پاتے ہیں۔

دور ِجدید کی تیزرفتار زندگی اور نت نئی ایجادات ہماری نیند پہ کس قسم کے بُرے بھلے اثرات مرتب کر رہی ہیں… چونکا دینے والی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
پندرہ برس قبل کی بات ہے،کچھ دوست راقم کے دادا مرحوم سے ملنے آئے۔میں بھی ان کے قریب بیٹھا تھا۔باتوں باتوں میں قدیم طرزِزندگی کا ذکر چھڑ گیا۔

دادا کہنے لگے ،جب اسّی سال پہلے ان کا بچپن تھا، تو عام لوگ شام چھ سات بجے سو جاتے ۔ وہ پھر صبح صادق کے وقت جاگتے۔چالیس سال قبل راقم کا بچپن آیا، تو تب تک بلب اور ٹیلی ویژن ایجاد ہوچکے تھے۔ لہٰذا سہ پہر چار بجے پاکستان ٹیلی ویژن اپنی نشریات کا آغاز کردیتا۔ اُدھر شام ہوتے ہی بلبوں کی روشنی سے گھر جگمگانے لگتے۔چناں چہ لوگ رات کو دیر تک جاگنے اور مختلف کاموں میں مصروف رہنے لگے۔ گویا بلب اور ٹی وی کی ایجاد نے انسان کا طرز زندگی ہی بدل ڈالا۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں کمپیوٹر اور موبائل فون ایجاد ہوئے، تو ان الیکٹرونکس نے رت جگے کی مدت بڑھادی۔ اب کئی لوگ رات گئے تک کمپیوٹر، موبائل یا ٹی وی دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ شادی سمیت تمام گھریلو و کاروباری تقریبات بھی عموماً رات کو منعقد ہونے لگیں۔

اس بدلتے طرز زندگی کے شاید فوائد بھی ہوں لیکن اس نے انسان کی صحت پر ایک بڑا برا اثر ڈالا... وہ یوں کہ انسانوں میں نیند کا فطری نظام متاثر کرڈالا۔ ایک تحقیق کے مطابق آج کا انسان ماضی کے انسانوں کی نسبت ''ایک گھنٹا'' کم سورہا ہے۔کروڑوں حد درجہ مصروف مردو زن تو چوبیس گھنٹے میں صرف چار تا چھ گھنٹے کی نیند لے پاتے ہیں۔



نیند کی اہمیت

جس طرح کھانا پینا اور سانس لینا ہماری بقا کے لیے اہم ہے، اسی طرح سونا اور آرام کرنا بھی ہمیں تندرست رکھتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ جب ہم سوتے ہوئے دنیا مافیہا سے بے خبر ہوجائیں، تو دماغ کا ایک کارخانہ پوری رفتار سے اس کی مرمت کا اہم کام انجام دینے لگتا ہے۔

اس کارخانے سے منسلک لاکھوں دماغی خلیے (نیورون) اب بھاگم دوڑ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ان راستوں کی صفائی کرتے ہیں جہاں الیکٹرک سگنل بھاگتے دوڑتے ہم سے روزمرہ کام کراتے ہیں۔ کارخانہ پڑتال کرتا ہے کہ کیا جسم میں ہارمونوں، خامروں (انزائمز) اور پروٹین کی وافر تعداد موجود ہے؟ نیز کارخانے کے کارکن وہ زہریلا فضلہ بھی دماغ سے نکال باہر کرتے ہیں جو جمع ہونے پر انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

گویا نیند وہ قدرتی ٹانک ہے جس کے ذریعے انسانی بدن کا اہم ترین عضو اپنی مرمت کرتا اور ازسرنو خود کو مضبوط و کارآمد بناتا ہے۔ دن بھر کام کاج میں مصروف رہنے سے دماغ تھک جاتا ہے۔ تب نیند ہی اسے مطلوبہ آرام اور نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق دماغ کے لیے نیند ہی سب سے بہترین اور مقوی ٹانک کی حیثیت رکھتی ہے۔

جدید تحقیق روزانہ رات کو سات آٹھ گھنٹے نیند لینے کے کئی فوائد دریافت کرچکی۔ مثال کے طور پر اچھی طرح سونے سے ہماری قوت ارتکاز بڑھتی ہے۔ ذہانت میں اضافہ ہوتا اور یادداشت تیز ہوتی ہے۔ہم اپنے منصوبے بہتر انداز میں تشکیل دیتے ہیں۔مزید برآں جسم میں چکنائی جلانے والے نظام تقویت پاتے ہیں۔ یوں ہمارا وزن قابو میں رہتا ہے۔ صبح سویرے اٹھیں، تو ہمیں تھکن نہیں تروتازگی کا احساس ہوتا ہے۔ نیند ہی ہمیں ذیابیطس، امراض قلب اور ہائپرٹینشن جیسے موذی امراض سے بچاتی ہے۔ حتی کہ کینسر، ہڈیوں کی بوسیدگی اور الزائمر چمٹنے کا خطرہ بھی جاتا رہتا ہے۔

لیکن انسان درج بالا تمام تحائف اسی وقت پاتا ہے جب فطری طور پر پوری نیند لے۔ گولیاں کھا کر سونے سے عموماً درج بالا فوائد حاصل نہیں ہوتے کیونکہ یہ بہرحال غیر فطری طریقہ ہے۔ اسی لیے اب مغربی ممالک میں ماہرین طب یہ تحریک چلارہے ہیں کہ اگر کسی نے جسمانی و ذہنی طور پر تندرست اور چاق و چوبند رہنا ہے، تو وہ فطری طریقے سے سات آٹھ گھنٹے کی نیند ضرور لے۔

دنیا بھر میں کروڑوں انسان سمجھتے ہیں کہ وہ تین چار گھنٹے بھی سولیں تو صحت مند رہیں گے۔ وہ نیند کی کمی سے دن میں جنم لینے والی تھکن اور غنودگی کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ نیند نہ لینا اب امراض قلب اور ذیابیطس جیسی ا ہم بیماری بن چکی۔

نیند کی کمی سے کئی نفسیاتی و جسمانی عوارض جنم لیتے ہیں۔ مثلاً انسان بے صبرا ہوجاتا اور ناگوار خاطر معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ اس میں قوت برداشت کم ہوجاتی ہے اور وہ کام پر صحیح طرح توجہ نہیں دے پاتا۔

امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں خصوصاً لاکھوں طالب علم نیند کی کمی میں مبتلا ہوچکے۔ چناں چہ وہ اکثر جماعتوں میں اونگھتے پائے جاتے ہیں۔ راتیں وہ کمپیوٹر یا موبائل فون کے سامنے گزارتے ہیں جبکہ دن میں پڑھائی نہیں کرپاتے۔ اسی لیے درج بالا ممالک کی حکومتیں صبح کے وقت تعلیمی اداروں کا ٹائم بڑھانے پر غور کررہی ہیں تاکہ بچے و نوجوان مزید عرصہ نیند لے سکیں۔



پچھلے ایک عشرے سے ماہرین طب متوحش تھے کہ نیند کی کمی بنی نوح انسان کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔ اب اس نئی تحقیق نے ان کی تشویش بڑھادی کہ نیند وہ واحد وقت ہے جب ہمارا دماغ سکون کا سانس لیتا اور آرام کرتا ہے۔ اگر اسے آرام و سکون کا یہ وقت بھی نہ ملے، تو دماغ کی حیاتیاتی شکست و ریخت سے ہمارا نفسیاتی و جسمانی نظام بھی رفتہ رفتہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ فاسد اور زہریلے مادے ہمیں بیماریوں میں مبتلا کر موت کے منہ میں پہنچا دیتے ہیں۔

امریکا میں کئی سائنس داں دماغی خلیوں پر تحقیق کررہے ہیں۔ انہوں نے جانا کہ جب ان خلیوں کو آرام کے لمحات نہ ملیں تو مسلسل کام کرنے سے وہ شدید تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں... جیسے ڈبل شفٹ کرنے والا انسان نڈھال رہتا ہے۔

خطرناک بات یہ کہ دماغی خلیے مسلسل کام کرتے رہیں اور انہیں آرام کا وقفہ نہ ملے، تو آخر کار وہ آزاد اصیلے (Free radicals) خارج کرنے لگتے ہیں۔ آزاد اصیلے ''تکسید'' (Oxidation) کی وجہ سے خراب ہونے والے خلیے ہیں جو جسم انسانی میں تندرست خلیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اگر بدن میں آزاد اصیلوں کی تعداد بڑھ جائے، تو انسان کسی نہ کسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔دوسری طرف دماغی خلیوں کو نیند کے ذریعے آرام ملے، تو وہ ضد تکسیدی (Antioxidant) کیمیکل بناتے ہیں۔ یہ انسان دوست کیمیائی مادے ہمارے جسم کو آزاد اصیلوں اور دیگر زہریلے کیمیکلز سے پاک کرتے ہیں۔

نیند کی کمی عام رجحان بن جائے، تو اس کا ایک بڑا نقصان بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی دماغی خلیہ یا نیورون کام کا بوجھ برداشت نہ کرسکے، تو وہ چل بستا ہے۔ یہ نہایت خطرناک امر ہے کیونکہ دیگر جسمانی خلیوں کے برعکس دماغ میں نئے خلیے جنم نہیں لیتے۔ ایک بالغ دماغ میں جتنے خلیے ہوں، ساری عمر اتنے ہی رہتے ہیں۔ مگر نیند کی کمی ایسا خطرناک عمل ہے کہ وہ دماغ کے خلیے بھی مار کر انسان کو دماغی طور پر کمزور بنا ڈالتا ہے۔ مثلاً اس کی یادداشت متاثر ہوتی ہے اور وہ کسی بات پر باآسانی توجہ نہیں دے پاتا۔

سائنس دانوں نے بوڑھوں کے دماغ پر تحقیق کرنے سے دریافت کیا ہے کہ ان کے دماغی خلیے فاسد فضلہ پہلے کی طرح عمدگی سے صاف نہیں کرپاتے۔ اسی لیے بوڑھے کا دماغ کمزور ہوجاتا ہے اور وہ پہلے کی طرح ذہنی طور پر چاق و چوبند نہیں رہتا۔

لیکن جب 20 سالہ لڑکا یا لڑکی بھی مناسب نیند نہ لے، راتیں کمپیوٹر، ٹی وی یا موبائل کے سامنے گزارے، تو ان کے دماغی خلیے بھی بوڑھوں کے دماغی خلیوں سے ملتا جلتا طرز عمل دکھاتے ہیں... یعنی دماغ سے زہریلے کیمیائی مادے صاف نہیں کرپاتے۔ چناں چہ نیند کی کمی کے شکار لڑکے لڑکیوں کا دماغ بھی بوڑھوں کی مانند ہوجاتا ہے۔

لاہور کے ممتاز معالج، ڈاکٹر کامران شمس کہتے ہیں :''نیند کی کمی کا مسئلہ آج کے انسان کا پیدا کردہ ہے۔ اب وہ گھڑی گھڑی موبائل فون دیکھتا ہے۔جسمانی وذہنی طور پہ خود کو آرام نہیں دیتا اور کام سر پر سوار رکھتا ہے۔ اس صورت حال میں جسم میں دباؤ (Stress) پیدا کرنے والے ہارمون مثلاً کورٹیسول (Cortisol)وافر مقدار میں جنم لیتے ہیں۔ پھر مصنوعی روشنیوں کی چکاچوند ہماری فطری اندرونی گھڑیوں کا توازن بگاڑ چکی۔ سچ یہ ہے، اب ہمارا جسم یہ جان ہی نہیں پاتا کہ اسے قدرتی طور پر کب نیند لینی چاہیے۔''

ایک سال قبل تک امریکا کی مشہور ماہر عصبیات (نیورو سائنس)ڈاکٹر میکسن نیدرگارڈ بھی نیند کو کار فضول سمجھتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سونا وقت کھونے کے مترادف ہے۔ ایک دن بطور ماہر عصبیات اس نے سوچا ''آخر ہمارے دماغ کو نیند کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے؟''

وہ جانتی تھی کہ ہمارے تمام جسمانی اعضا غذا کے ذریعے توانائی پاتے ہیں۔ اس عمل سے قدرتاً فضلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ تقریباً ہر عضو میں ایسے مخصوص خلیے موجود ہیں جو یہ فضلہ سمیٹ کر ان نالیوں تک لے جاتے ہیں جو ہمارے جسم میں سیوریج پائپ لائنوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ فضلہ پھر پاخانے یا پیشاب کی صورت باہر نکل جاتا ہے۔ہمارے بدن میں دماغ ایک بادشاہ عضو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے وہی سب سے زیادہ توانائی بھی استعمال کرتا ہے۔ اور اس عمل سے بھی فضلہ جنم لیتا ہے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ کہ دماغ ہمارے جسم میں پائی جانے والی کسی لمفی (Lymph) یا سیوریج پائپ لائن سے منسلک نہیں۔ تو پھر ہمارا دماغ اپنا کوڑا کرکٹ کیسے ٹھکانے لگاتا ہے؟ اسی سوال نے ڈاکٹر میکسن کو متحیّر کردیا۔یاد رہے، کیمیائی کوڑا کرکٹ بھرنے سے ہمارا دماغ کام کے قابل نہیں رہتا، لہٰذا ڈاکٹر میکسن کو یقین ہوگیا کہ وہ ضرور کسی نہ کسی طریقے سے اپنا فضلہ ٹھکانے لگاتاہے۔ یہ جاننے کی خاطر امریکی ڈاکٹر نے چوہوں اور خرگوشوں پر تجربے کیے۔ ان جانوروں کے دماغ ساخت و ہئیت میں انسانی دماغوں کے ننھے منے نمونے ہیں۔



ڈاکٹر میکسن کی تحقیق و تجربات سے ایک حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا۔انکشاف ہوا کہ جب ذی حس نیند میں ڈوب جائیں، تو دماغ میں پائے جانے والے مخصوص گلیال (Glial) نامی خلیے ایک بڑے سیوریج پائپ یا کارخانے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

امریکی ڈاکٹر نے پھران گلیال خلیوں پر بھرپور تحقیق کی۔ اسے معلوم ہوا کہ جب ہم جاگ رہے ہوں، تو یہ خلیے مختلف کام انجام دینے میں دماغ کی بطور سیکرٹری معاونت کرتے ہیں۔ وہ دیگر دماغی خلیوں کی طرح الیکٹرک سگنل اِدھر سے اُدھر بجھوانے میں حصہ نہیں لیتے، مگر خوشبو یا کسی جذبے کی شناخت میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔چونکہ گلیال خلیے الیکٹرک سگنل پکڑنے یا بھجوانے میں کوئی حصّہ نہیں لیتے، اسی لیے ماہرین عصبیات نے انہیں غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کیے رکھا۔

لیکن ڈاکٹر میکسن کی تحقیق گلیال کی خصوصیت سامنے لے آئی۔ تجربات سے اس نے جانا کہ جیسے ہی حیوان یا انسان خراٹے لینے لگیں، یہ خلیے بیدار ہوکے اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔تحقیق سے درحقیقت جاگتے اور سوتے دماغ میں زمین آسمان جیسا فرق سامنے آگیا۔

جب ہم بیدار ہوں تو ہمارا دماغ کسی مصروف ہوائی اڈے کی مانند نظر آتاہے۔ تب کام کاج کرنے کے باعث ہم میں ہرطرف... آنکھ، زبان، ہاتھ، پیر، جلد، ٹانگ وغیرہ سے الیکٹرک سگنل دماغ تک پہنچتے ہیں۔ جوں جوں دماغی سرگرمی بڑھے، دماغ کے اتنے ہی زیادہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں۔حتیٰ کہ دماغ کا ''86 فیصد'' حصّہ وہی گھیرلیتے ہیں۔

لیکن جب رفتہ رفتہ تاریکی پھیل جائے اور ہم نیند کی میٹھی آغوش میں جاپہنچیں، تو دماغی خلیوں کی سرگرمی بھی ماند پڑجاتی ہے۔ اب گلیال خلیے سپرمین کا روپ دھارے حرکت میں آتے ہیں۔ ابتدائی گھنٹوں کی نیند کا پہلا دور طبی اصطلاح میں ''عدم آر ای ایم'' (non-REM) یا نان ریپڈ آئی موومنٹ کہلاتا ہے۔

اس عدم آر ای ایم دور میں دماغی خلیوں کی سرگرمی تیز و تند نہیں رہتی بلکہ مدہم پڑنے لگتی ہے۔ اس دور کے بعد آر ای ایم دور(REM) آتا ہے۔ اس دور میں دماغی خلیوں کی سرگرمیاں تقریباً تھم جاتی ہیں۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ساری رات ہمارا دماغ ہر ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد عدم آر ای ایم اور آر ای ایم کی ادلا بدلی سے گذرتا ہے۔

دماغی خلیوں کی سرگرمی ماند پڑے، تو وہ سکڑنے لگتے ہیں۔ تب گلیال خلیوں کو صفائی کا کام انجام دینے کے لیے جگہ مل جاتی ہے۔ وہ پھر جھاڑو اور ٹاکیاں سنبھال مددگار کیمیائی مادوں کے ساتھ دماغ کے کونے کونے کی صفائی کرتے ہیں۔ دماغ کی شاہراؤں اور چوراہوں میں جس جگہ کیمیائی کوڑوں کے ڈھیرہوں، گلیال خلیے ان کا صفایا کر دیتے ہیں۔اسی عمل کے باعث ہماری ساری ذہنی اور جسمانی تھکن بھی دور ہوتی ہے۔ لیکن کوئی انسان سات آٹھ گھنٹے کی نیند نہ لے، تو گلیال خلیے بھی مؤثر انداز میں دماغی کوڑے کو ٹھکانے نہیں لگاپاتے۔ یوں دماغ میں فضلے کے ڈھیر جمع ہونے لگتے ہیں۔ یہی کوڑا بڑھاپے میں انسان کو مختلف ذہنی بیماریوں مثلاً الزائمر (یادداشت کے خاتمے) میں مبتلا کر ڈالتا ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر میکسین کہتی ہیں: ''نیند نہ لینے سے ہمارے دماغ میں صفائی کا نظام گڑبڑا جاتا ہے۔ تب وہ روزانہ کے بجائے ہفتہ واری بنیاد پہ کوڑا صاف کرتا ہے۔ نتیجتاً سالماتی (Molecular) فضلہ جمع ہوکر صحت مند دماغی خلیوں کو متاثر کرتا ہے۔ وہ پھر اپنی ذمے داریاں صحیح طرح انجام نہیں دے پاتے اور انسان ذہنی بیماریوں کا شکار رہنے لگتا ہے۔ اس لیے نیند نہ لینے کے نقصانات بڑے خطرناک ہیں۔ انہیں عام لوگوں کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔''



خوش قسمتی سے حسب منشا مطلوبہ نیند لے کر انسان اس کی کمی سے پیدا ہونے والے ذہنی و جسمانی عوارض سے بچ سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اب نیند کو اہمیت نہیں دیتے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کا جدید طرز زندگی اب اسے رات دیر تک جگائے رکھتا ہے۔ اسی باعث کروڑوں انسان سات گھنٹے کی نیند بھی نیں لے پاتے اور اپنی قبر خود کھود لیتے ہیں۔


کئی لوگوں کا وتیرہ ہے، وہ چھٹیوں میں آٹھ دس گھنٹے سو کر نیند کی کمی دور کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اب تندرست رہیں گے۔ اس عمل کے فوائد پر ماہرین طب متفق نہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ عمل نیند کی کمی سے جنم لینے والے مضر اثرات کم کرتا ہے۔ مگر دیگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک دو دن آٹھ دس گھنٹے سونے سے کمیِ نیند کے سبھی نقصانات دور نہیں ہوسکتے۔ البتہ تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہوتا ہے۔

اسی طرح نیند لانے کی ادویہ کے فوائد و نقصان پر بھی ماہرین طب کے مابین مباحثہ جاری ہے۔ اس ضمن میں ایک پاکستانی ڈاکٹر، خالد محمود کہتے ہیں :''نیند کی گولی دماغ کے صرف ایک حصے کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ جبکہ دماغ میں مختلف کیمیائی مادوں کی سرگرمیوں اور ادغام سے نیند جیسا پیچیدہ عمل جنم لیتا ہے۔ اس لیے نیند کی گولی آپ کو سلا بھی دے، تو نیند کے تمام فوائد نہیں دے سکتی۔''

ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سات آٹھ گھنٹے نہ سونے والے مردو زن کمیِ نیند کے نقصانات سے آگاہ نہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ پانچ چھ گھنٹے سو کر بھی ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بہترین رہیں گی۔ حالانکہ نیند کی کمی ان پر بڑے منفی اثرات ڈال رہی ہوتی ہے۔ ان اثرات کے تباہ کن نتائج انہیں بعد میں بھگتنے پڑتے ہیں۔اب ماہرین طب دور جدید کے ہر انسان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی نیند کا باقاعدہ نظام بنائے۔ رات کو مقررہ وقت پر سوئے اور صبح بھی کم و بیش ایک وقت پر بیدار ہو۔ مزید برآں کوشش کرے کہ مصنوعی روشنیوں والے ماحول میں کم عرصہ گذارے اور زیادہ عرصہ باہر قدرتی روشنی میں رہے۔ خاص طور پر سات آٹھ گھنٹے کی نیند ضرور لے...یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے کوئی لگژری چیز نہیں!جب بھی ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جائے، تو وہ ضرور پوچھتا ہے ''آپ کیا کھاتے ہیں، ورزش کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔'' اب امریکا اور یورپ میں ڈاکٹر ہر مریض سے یہ بھی پوچھتے ہیں: ''آپ ہر رات کتنے گھنٹے سوتے ہیں؟'' ترقی یافتہ ممالک میں نیند کی بابت معلومات لینا بھی عام جسمانی چیک اپ میں معمول بن چکا۔

امریکا اور یورپ میں سائنس داں اب نیند کو اس لیے نہایت اہمیت دے رہے ہیں کہ یہ ہماری ذہنی و جسمانی تندرستی کی خاطر ''بہترین قدرتی دوا'' بن چکی۔ لہٰذا جو بچہ، مرد یا عورت اس قدرتی دوا سے فائدہ نہیں اٹھاتا، وہ جلد یا بدیر مختلف عوارض کا شکار ہوکر اپنی عمر گھٹا لیتا ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے نیند اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت تحفہ ہے، اس کی قدر کیجیے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:(مفہوم)

''تمھارا دن رات کا سونا اسی(خدا) کی نشانیوں میں سے ہے۔اور اسی کا فضل تلاش کرنا۔جو لوگ سنتے ہیں،ان کے لیے ایسی باتوں میں(غوروفکر کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔''(سورہ الروم۔23)



نیند...دانش وروں کی نگاہ میں

٭...آپ کا دن کتنا ہی برا اور تباہ حال گزرے، رات کی نیند زندگی کو قابل برداشت بنا دیتی ہے۔ (اردو ادیب نیاز فتح پوری)

٭...نیند... اور پوری نیند لینا نہایت ضروری ہے۔ انسان ورزش کرے، اچھی غذا کھائے، مگر پوری نیند نہ لے، تو پھر وہ تندرست نہیں رہ سکتا۔ نیند کی کمی ورزش اور غذائیت بخش خوراک کے فوائد ختم کر ڈالتی ہے۔ (امریکی پادری، ایڈورڈ ایورٹ)

٭... نیند لینا ایک فن ہے... کیونکہ اسے پانے کی خاطر انسان کو پورا دن جاگنا پڑتا ہے۔ (جرمنی فلسفی، فریڈرچ نطشے)

٭... اچھا قہقہہ اور اچھی نیند... یہ تندرستی کے دو بہترین نسخے ہیں۔ (آئرش ضرب المثل)

٭... نیند وہ رقم ہے جو ہم موت کو خود سے دور کرنے کے لیے ادا کرتے ہیں۔ یہ رقم جتنی زیادہ ہو اور نہایت باقاعدگی سے ادا کی جائے، تو موت بھی ہم سے اتنی ہی دور رہے گی۔ (جرمن فلسفی، آرتھر شوپنہار)

پُرسکون نیند لانے کے ٹوٹکے

ایک سیانے کا قول ہے: ''پریشانی اور اُمید کے درمیان نیند بہترین پل کا درجہ رکھتی ہے۔'' یہ بات سولہ آنے سچ ہے کیونکہ انسان عمدہ نیند لے کر صبح اٹھے، تو کئی پریشانیوں سے چھٹکارا پاچکا ہوتا ہے۔ اب وہ نئے جذبے سے شدائد زندگی کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن کوئی بچارا اچھی نیند نہ لے سکے، تو عموماً اس کی پریشانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ذیل میں مناسب نیند لانے کے گُر پیش خدمت ہیں، ان سے فائدہ اٹھائیے۔



کیفین نہ لیجیے

کیفین کافی، چائے، کولا مشروبات، چاکلیٹ اور بعض ادویہ میں ملنے والاایک کیمیائی مادہ ہے۔ انسانی جسم میں پہنچ کر یہ مادہ تھکن دور کرتا اور انسان کو ہشاش بشاش کردیتا ہے۔ یہ قوتِ ارتکاز بڑھاتا اور استعداد کار میں اضافہ کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیفین کی زیادہ مقدار انسانی جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص روزانہ چائے کی پانچ چھ پیالیاں پینے لگے، تین چار چاکلیٹس کھائے یا بوتلیں پیے، تو وہ جلد مختلف عوارض مثلاً دل کی بیماریوں اور کمیِ نیند میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ سونے سے چھ گھنٹے قبل کیفین نہ لیں۔ وجہ یہی کہ وہ نیند کو مار ڈالتی ہے۔ خصوصاً کیفین استعمال نہ کرنے والا اسے پچاس ساٹھ ملی گرام بھی جسم میں انڈیل لے، تو وہ رات گئے تک بستر پر لیٹا کروٹیں بدلتا بھیڑیںگنتا رہتا ہے اور اسے نیند نہیں آتی۔

یاد رہے ،ایک پیالی سیاہ چائے میں 74 ملی گرام کیفین ہوتی ہے۔ ایک کافی کی پیالی 100 ملی گرام کیفین رکھتی ہے۔ عام بوتل 50 ملی گرام جبکہ انرجی ڈرنک 280 ملی گرام تک کیفین رکھتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو مردوزن روزانہ 300 ملی گرام سے زیادہ کیفین لینے لگے، وہ ایک طرح سے اس کیمیائی مادے کے نشئی ہوجاتے ہیں۔ تب انہیں چائے، کافی، چاکلیٹ یا بوتل نہ ملے، تو وہ نشئیوں کی طرح اظہار بے چینی کرتے ہیں۔ لہٰذا کیفین کے عادی نہ بنیے ورنہ کئی جسمانی و ذہنی مسائل میں گرفتار ہوجائیں گے۔

شام کو ورزش نہ کیجیے

صبح ہمارا جسمانی درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ مگر تاریکی چھاتے ہی گرنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا فطری اشارہ ہے کہ اب انسان کو سوجانا چاہیے۔ لیکن شام کو ورزش کی جائے، تو وہ جسم کا درجہ حرارت 2 ڈگری تک بڑھا دیتی ہے۔ نتیجہً انسان سونے میں دشواری محسوس کرتا ہے کیونکہ بدن کا کم درجہ حرارت نیند لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

درج بالا مسئلے کے باعث اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ورزش کا بہترین وقت صبح ہے۔ تب فضا میں آکسیجن بھی وافر ہوتی ہے۔ جبکہ شام کو سونے سے تین چار گھنٹے قبل کی گئی ورزش بھی آپ کو تادیر جگائے رکھے گی۔



مصنوعی روشنیوں سے دور رہیے

عام بلب ہو، کمپیوٹر، موبائل فون لیپ ٹاپ یا ٹیلی ویژن... ان سب برقی مصنوعات میں سفید روشنی پیدا کرنے کی خاطر مختلف روشینوں کو شارٹ ویولینتھ (short wavelength)پر چھوڑا جاتا ہے۔ یوں سفید روشنی تو جنم لیتی ہے، مگر یہ عمل ہمارے نیند کے نظام کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔

وجہ یہ کہ رات کو جب ہم کمپیوٹر، موبائل یا ٹی وی استعمال کریں، تو ان کی اسکرینوں سے خارج ہونے والی شارٹ ویولینتھ شعاعیں خصوصاً نیلی روشنی ہمارے جسم میں ایک ہارمون ... میلاٹونین(Melatonin) پیدا نہیں ہونے دیتی۔ جبکہ انسانی بدن میں یہی ہارمون نیند اور جاگنے کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون مطلوبہ مقدار میں جنم نہ لے، تو ہم سونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور ہماری نیند اڑ جاتی ہے۔میلاٹونین ایک اہم ہارمون ہے۔ یہ نظامِ نیند کنٹرول کرنے کے علاوہ انسانی بدن میں دیگر افعال بھی انجام دیتا ہے۔ مثلاً آزاد اصلیے دور کرتا اور ہمارا نظام مامون طاقتور بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے، میلاٹونین کی کمی سے انسان کینسر، امراض گردہ، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ رات دیر تک الیکٹرونکس اشیا میں وقت گزارنے کا ہمارا طرز زندگی بھی ہماری تندرستی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

شارٹ ویولینتھ شعاعوں کے مضر اثرات سے بچنے کی خاطر ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ رات کو کمپیوٹر، ٹی وی یا موبائل استعمال کرتے ہوئے نارنجی رنگ کے شیشوں والی عینک پہنیے۔ یہ عینک انسان کو درج بالا الیکٹرونک اشیا کی شعاعوں کے مضر اثرات سے خاصی حد تک محفوظ رکھتی ہے ۔اس عمل کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی جسم میں میلاٹونین ہارمون کی مقدار گھٹنے نہیں پاتی۔

بعض مردوزن عام بلب کی روشنی سے بھی اتنے زیادہ حساس ہوتے ہیں کہ ان میں میلا ٹونین کی افزائش رک جاتی ہے۔ وہ پھر سرتوڑ کوشش کے باوجود سو نہیں پاتے۔ ان کے لیے تجویز ہے کہ وہ شام کو اندھیرا چھاتے ہی نارنجی عینک پہن لیں۔ ممکن ہے ، اس نسخے کی مدد سے انہیں کمیِ نیند کے مرض سے چھٹکارا مل جائے۔ایک اور بات یاد رکھیے کہ دن کے دوران دھوپ میں کچھ وقت ضرور گزاریئے۔ یوں جسم میں میلاٹونین کی افزائش بڑھتی ہے۔ مزید براں بھر پور اور خوشگوار نیند لینے میں آسانی رہتی ہے۔



عمدہ غذاؤں کا انتخاب

راقم کو یاد ہے،بچپن میں ہم بچوں کو رات کے وقت زبردستی گرم دودھ پلایا جاتا۔ امّی کا کہنا تھا کہ یوں اچھی نیند آتی ہے۔ اب جدید سائنس نے بھی اس بات کو درست ثابت کردیا۔

وجہ یہ کہ گرم دودھ میں میلاٹونین پایا جاتا ہے۔ جسم میں اس کی کثرت سے انسان کو خود بخود نیند آجاتی ہے۔ یہ ہارمون انناس، کیلے اور مالٹے میں بھی ملتا ہے۔ لہٰذا رات کو یہ غذائیں استعمال کرنا مفید ہے۔ایک امائنو ایسڈ یا تیزاب، ٹرائپوٹوفان (Tryptophan) بھی نیند آور ہے۔ میلاٹونین یہی تیزاب پیدا کرتا ہے۔ یہ سبزیوں، پنیر اور گوشت میں ملتا ہے۔ لہٰذا رات کو انہیں تناول کرنے سے بھی سونا سہل ہو جاتا ہے۔

کام روک دیجیے

کئی لوگ رات گئے تک کام کرتے اور کم خوابی کا شکار رہتے ہیں۔ وجہ یہ کہ کام کرنے کا عمل انہیں ہوشیار اور چاق و چوبند رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ بھر پور اور اچھی نیند لینا چاہتے ہیں، تو شام کو کام کرنا چھوڑ دیجیے اور جسم و دماغ کو آرام دیں۔

پانی پیجئے

اگر ہمارا جسم پانی کی کمی کا شکار رہے، تو ہم دباؤ و بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بے چینی پھر اچھی نیند میں رکاوٹ بنتی ہے۔ لہٰذا رات کو پیاسے مت سوئیے اور بدن کو نم رکھیے۔ لیکن اتنا پانی نوش نہ کریں کہ رات کو بار بار جائے حاجت جانا پڑے۔
Load Next Story