ذوالفقارعلی بھٹو تصاویر کی زباں میں۔۔۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی
ISLAMABAD:
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (1928ء تا 1979ء) کو پاکستانی سیاست میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
1973ء کے متفقہ آئین کی تشکیل اُ ن کے نمایاں ترین کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وزیر تجارت اور وزیر خارجہ سے ہوتے ہوئے وہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔۔۔ 5 جولائی 1977ء کو قائم ہونے والی فوجی حکومت نے ان کا اقتدار ختم کرنے کے ساتھ ان کی جان بھی نگل لی اور 1979ء میں کل ہی کی تاریخ میں انہیں ایک مقدمے میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اُن کی زندگی کے چند یادگار گوشے قارئین کی نذر ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو (1888ء تا 1957ء) اپنی شریک حیات خورشید بیگم اور بچوں کے ساتھ۔ خورشید بیگم (لکھی بائی) نے شادی کے بعد ہندو مت ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا، تاہم ان کے بھائی بدستور اپنے مذہب پر قائم رہے اور ہندوستان کوچ کیا۔ تصویر میں کم سن ذوالفقار بھٹو (درمیان میں) اپنے کنبے کے ساتھ موجود ہیں، اُ ن کے دیگر بہن بھائیوں میں ایک بہن ممتاز بھی تھیں۔
بڑے بھائی سکندر 1914ء میں سات برس کی عمر میں نمونیے سے جاں بر نہ ہو سکے، جب کہ دوسرے بھائی امداد علی جگر سکڑنے کی بیماری کے باعث 1953ء میں 29 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ دوسری تصویر میں ننھے مرتضیٰ بھٹو (بائیں) اور بے نظیر بھٹو اپنے بابا کی گود میں موجود ہیں۔
وزارت خارجہ کو خیر باد کہہ کر ذوالفقار علی بھٹو نے جب آزادانہ سیاست کا آغاز کیا اور 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، یہ منظر بھی اسی برس کا ہے۔ جب وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کراچی میں منعقدہ اجتماع میں شریک ہیں، ان کے ساتھ معراج محمد خان (بائیں) اور راشد احمد (دائیں) بھی نمایاں ہیں۔ دوسری تصویر میں وہ گرفتاری کے بعد جیل جانے سے قبل اپنے صاحب زادے میر مرتضی بھٹو سے گفتگو کر رہے ہیں۔
فروری 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر عالم اسلام کے راہ نما بادشاہی مسجد لاہور میں موجود ہیں۔ بھٹو کے بائیں طرف لیبیا کے کرنل معمرقذافی اور سعودی فرماں روا شاہ فیصل نمایاں ہیں، جب کہ بائیں سمت یاسر عرفات ودیگر موجود ہیں۔
دوسری تصویر میں کانفرنس کے اختتامی لمحات میں ذوالفقار بھٹو، کرنل قذافی سے اظہار عقیدت کر رہے ہیں، بنگلا دیشی صدر شیخ مجیب الرحمن اور فلسطینی راہ نما یاسرعرفات بھی کھڑے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد 90 ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے تھے، جب کہ بہت سے پاکستانی علاقے بھی بھارتی عمل داری میں چلے گئے تھے۔
ایسے میں بھٹو نے شملہ سمجھوتے کے ذریعے نہ صرف قید فوجی رہا کرائے، بلکہ پاکستانی علاقے بھی واپس لیے۔ یہ معاہدہ 2 جولائی 1972ء میں طے پایا۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش کی راج دہانی شملہ میں طے ہونے کی مناسبت سے اسے ''شملہ معاہدہ'' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
ذوالفقار بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز1957ء میں ہوتا ہے، جب وہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستانی وفد میں رکن چنے جاتے ہیں، اسی برس وہ اسکندر مزا کی کابینہ میں وزارت تجارت کی باگیں سنبھالتے ہیں، 1960ء میں پانی و بجلی اور صنعت کے قلم دان بھی تفویض ہوجاتے ہیں، لیکن 1963ء میں وزارت خارجہ میں شمولیت کے بعد ان کی حیثیت نمایاں ہو جاتی ہے، زیر نظر تصویر میں وہ جنرل ایوب خان سے بطور وزیر خارجہ محوکلام ہیں۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (1928ء تا 1979ء) کو پاکستانی سیاست میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
1973ء کے متفقہ آئین کی تشکیل اُ ن کے نمایاں ترین کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وزیر تجارت اور وزیر خارجہ سے ہوتے ہوئے وہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔۔۔ 5 جولائی 1977ء کو قائم ہونے والی فوجی حکومت نے ان کا اقتدار ختم کرنے کے ساتھ ان کی جان بھی نگل لی اور 1979ء میں کل ہی کی تاریخ میں انہیں ایک مقدمے میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اُن کی زندگی کے چند یادگار گوشے قارئین کی نذر ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو (1888ء تا 1957ء) اپنی شریک حیات خورشید بیگم اور بچوں کے ساتھ۔ خورشید بیگم (لکھی بائی) نے شادی کے بعد ہندو مت ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا، تاہم ان کے بھائی بدستور اپنے مذہب پر قائم رہے اور ہندوستان کوچ کیا۔ تصویر میں کم سن ذوالفقار بھٹو (درمیان میں) اپنے کنبے کے ساتھ موجود ہیں، اُ ن کے دیگر بہن بھائیوں میں ایک بہن ممتاز بھی تھیں۔
بڑے بھائی سکندر 1914ء میں سات برس کی عمر میں نمونیے سے جاں بر نہ ہو سکے، جب کہ دوسرے بھائی امداد علی جگر سکڑنے کی بیماری کے باعث 1953ء میں 29 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ دوسری تصویر میں ننھے مرتضیٰ بھٹو (بائیں) اور بے نظیر بھٹو اپنے بابا کی گود میں موجود ہیں۔
وزارت خارجہ کو خیر باد کہہ کر ذوالفقار علی بھٹو نے جب آزادانہ سیاست کا آغاز کیا اور 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، یہ منظر بھی اسی برس کا ہے۔ جب وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کراچی میں منعقدہ اجتماع میں شریک ہیں، ان کے ساتھ معراج محمد خان (بائیں) اور راشد احمد (دائیں) بھی نمایاں ہیں۔ دوسری تصویر میں وہ گرفتاری کے بعد جیل جانے سے قبل اپنے صاحب زادے میر مرتضی بھٹو سے گفتگو کر رہے ہیں۔
فروری 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر عالم اسلام کے راہ نما بادشاہی مسجد لاہور میں موجود ہیں۔ بھٹو کے بائیں طرف لیبیا کے کرنل معمرقذافی اور سعودی فرماں روا شاہ فیصل نمایاں ہیں، جب کہ بائیں سمت یاسر عرفات ودیگر موجود ہیں۔
دوسری تصویر میں کانفرنس کے اختتامی لمحات میں ذوالفقار بھٹو، کرنل قذافی سے اظہار عقیدت کر رہے ہیں، بنگلا دیشی صدر شیخ مجیب الرحمن اور فلسطینی راہ نما یاسرعرفات بھی کھڑے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد 90 ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے تھے، جب کہ بہت سے پاکستانی علاقے بھی بھارتی عمل داری میں چلے گئے تھے۔
ایسے میں بھٹو نے شملہ سمجھوتے کے ذریعے نہ صرف قید فوجی رہا کرائے، بلکہ پاکستانی علاقے بھی واپس لیے۔ یہ معاہدہ 2 جولائی 1972ء میں طے پایا۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش کی راج دہانی شملہ میں طے ہونے کی مناسبت سے اسے ''شملہ معاہدہ'' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
ذوالفقار بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز1957ء میں ہوتا ہے، جب وہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستانی وفد میں رکن چنے جاتے ہیں، اسی برس وہ اسکندر مزا کی کابینہ میں وزارت تجارت کی باگیں سنبھالتے ہیں، 1960ء میں پانی و بجلی اور صنعت کے قلم دان بھی تفویض ہوجاتے ہیں، لیکن 1963ء میں وزارت خارجہ میں شمولیت کے بعد ان کی حیثیت نمایاں ہو جاتی ہے، زیر نظر تصویر میں وہ جنرل ایوب خان سے بطور وزیر خارجہ محوکلام ہیں۔