تاریخ اسلام کے اوراق سے ایک نواب مدرسے میں

استاد ایسا کمپاس ہے جو طالب علم میں تجسّس، علم اور دانش کے مقناطیس متحرک کردیتا ہے

شیعہ سنّی اتحاد ویگانگت آشکارکرنے والا یادگار واقعہ ۔ فوٹو : فائل

یہ 19 جنوری 1926ء کی بات ہے کہ مولانا عبدالباری فرنگی محلؒ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کا شمار ہندوستان کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔ حتیٰ کہ مغربی تعلیم کا مقابلہ کرنے کی خاطر لکھنو میں ایک مدرسے، مدرسہ نظامیہ کی بنیاد رکھی۔

شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک انگریز تاجر لکھنو آکر نیل کی تجارت کرنے لگا۔ اسے کاروبار میں بہت منافع ہوا۔ چناں چہ اس نے لکھنو میں اپنا عالیشان گھر تعمیر کرایا جو ''فرنگی محل'' کے نام سے مشہور ہوا۔ جب وہ انگلستان آ گیا، تو اس کا محل حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

سترہویں صدی میں شہنشاہ اورنگ زیب نے ایک عالم دین، ملاسعید کو فرنگی محل سونپ دیا۔ ملا سعید نے اس کوٹھی میں ایک مدرسہ قائم کیا جسے ان کے باکمال فرزند، نظام الدین سہالوی نے بین الاقوامی شہرت بخشی۔ اسی مدرسے میں ''درس نظامی'' مدون ہوا جو آج بھی پاکستان و بھارت کے کئی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس مدرسے میں تعلیم پانے والے علمائے فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوئے۔ مدرسے کے نصاب میں اصول، قانون و منطق حاوی ہے۔

(جب کہ مدرسہ دیوبند کے نصاب میں قرآن و حدیث پہ زیادہ زور دیا جاتا ہے)۔ اٹھارویں صدی میں مدرسہ فرنگی محل کو بہت شہرت ملی اور وہاں سے پڑھ کر نکلے علمائے کرام نے کئی ریاستوں کے شہزادوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ انہی شہزادوں میں ریاست رام پور کے شہزادے بھی شامل تھے۔ جب مولانا عبدالباری فرنگی محل فوت ہوئے، تو چند ہفتوں بعد نواب رام پور، حمید علی خان لواحقین سے تعزیت کرنے لکھنو تشریف لائے۔ اہل خانہ سے ملاقات کرنے کے علاوہ انہوں نے مدرسے کا بھی دورہ کیا۔ دورے کے دوران نواب رام پور نے ناظم مدرسہ سے کہا ''یہ ہمارے اساتذہ کا مدرسہ ہے۔



اسی لیے میں کچھ اس کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔'' انہوں نے پھر مدرسے کو بھاری چندہ دیا اور رخصت ہوگئے۔ نواب حمید علی خان نے کبھی مدرسہ فرنگی محل میں تعلیم نہیں پائی تھی اور بظاہر یہ انوکھی بات لگتی ہے کیونکہ نواب شیعہ تھے، جبکہ مدرسے میں اساتذہ و طلبہ سبھی سنّی ! لہٰذا نواب پور نے پھر یہ کیوں کہا کہ یہ ہمارے اساتذہ کا مدرسہ ہے؟ دراصل دو سو سال قبل جب رام پور کے نوابین سنّی تھے، تو دو علمائے فرنگی نے وہاں جاکر شہزادوں کو تعلیم و تربیت دی تھی۔

یہ علم پھر سینہ بہ سینہ شاہی خاندان میں منتقل ہوتا رہا اور اس کا کچھ حصّہ نواب حمید علی خان کو بھی ملا۔ اسی لیے شیعہ ہونے اور درمیان میں دو سو برس کا وقفہ آنے کے باوجود انہوں نے خود کو علمائے فرنگی کا شاگرد رشید قرار دیا اور مدرسے کی امداد کو اپنا فرض جانا۔

یہ واقعہ دو چشم کشا حقائق سامنے لاتا ہے۔ اول یہ کہ آج بھی شیعہ و سنّی کے طبقہ بالا اور علمائے کرام میں باہمی عزت و احترام اور رواداری کا جذبہ موجود ہے۔ البتہ نچلے طبقوں میں کم علمی اور جہالت کے باعث کچھ مخاصمت پائی جاتی ہے۔ دوم یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں استاد اور شاگرد کے رشتے کی اہمیت و توقیر پر بڑی خوبصورتی و نفاست سے روشنی ڈالتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ تاریخی طور پر اسلامی معاشروں میں استاد اور شاگرد کے درمیان جو انتہائی قریبی اور احترام کا تعلق ملتا ہے، وہ کسی اور انسانی معاشرے، تہذیب اور تمدن میں نظر نہیں آتا۔ یہ رشتہ جنم لینے کی مختلف وجوہ ہیں۔پہلی وجہ یہ کہ دین اسلام میں سیکھنے سکھانے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام فرمایا، تو کہا گیا:

''اپنے رب کا نام لے کر پڑھو... جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اسے علم نہ تھا ۔(سورہ علق:1 تا 5)


قرآن کی دیگر کئی آیات میں بھی مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ (دینی و دنیاوی) علم حاصل کرو۔ اس موضوع پر نبی کریمؐ کی سیکڑوں احادیث بھی ملتی ہیں۔ غرض ایمان لے آنے کے بعد مسلمان کی سب سے اہم ذمے داری خود کو باعلم بنانا ہے۔اسلامی معاشرے میں علم کی بے پناہ قدر و قیمت کے باعث ہی تعلیم دینے والے مسلمانوں سے احترام و تکریم پانے لگے۔ مسلمان ان سے محبت کرتے، تو حقیقی طور پر ان کا رعب و دبدبہ بھی قبول کرتے۔

ایک بار مشہور عالم دین و فقیہہ، امام عبداللہؒ بن مبارک بغداد شریف لائے، تو ان کا استقبال کرنے کی خاطر لوگوں کا جم غفیر جمع ہوگیا۔ شورو غل کی آوازیں محل تک پہنچیں، تو خلیفہ ہارون الرشید معتجب ہوا۔ دریافت کرنے پر حقیقت حال بتائی گئی۔ یہ سن کر خلیفہ کی زوجہ، ملکہ زبیدہ خاوند سے گویا ہوئی:

''آپ یقیناً عظیم بادشاہ ہیں۔ آدھی دنیا پر آپ کی حکمرانی کا سکّہ چلتا ہے۔ لیکن دنیا کے اصل حکمران علما ہی ہیں۔ وہ ہی لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ خوف و دہشت نہیں امام بارک سے محبت و احترام ہی ہزارہا مسلمانوں کو ان کا استقبال کرنے لے آیا۔''

رفتہ رفتہ اسلامی معاشرے میں علم ہو یا ہنر، اسے سکھانے والا لائق تعظیم بن گیا۔ حتیٰ کہ استاد کی عزت کرنے کے اصول و ضوابط نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر مدرسہ فرنگی محل میں نئے طلبہ کو ہدایات دی جاتی ہیں:

''طالب علم ہمیشہ استاد کے پیچھلے چلے... بڑھ چڑھ کر استاد محترم کی خدمات بجا لائے... اختلاف کی کوئی بات ہو تو استاد کا کہا حرف آخر سمجھ جائے گا۔''

خاص طور پر ماضی کے علمائے کرام اور اساتذہ کو اس لیے بھی قابل رشک عزت و احترام ملا کہ انہوں نے نہایت باتقویٰ، نیک اور سادہ زندگیاں گزاریں۔ وہ ہوا و ہوس سے کوسوں دور رہے۔ مولانا عبدالباری فرنگی محل کا قول ہے:'' استاد کو ایسا آئینہ ہونا چاہیے جس میں دیکھ کر طالب علم اپنا کردار و اخلاق ڈھال سکے۔''



علمائے اکرام اور اساتذہ نے مسلمانوں میں یوں بھی عزت و تکریم پائی کہ وہ حکمرانوں کی ناحق بات پر آواز حق بلند کرتے تھے۔ تاریخ اسلام علما کی حق گوئی کے بے مثال واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پھر جب یورپی استعمار عالم اسلام پر حملہ آور ہوا، تو یہ علمائے کرام ہی تھے جنہوں نے مدارس سے نکل کر غاصبوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ انڈونیشیا سے لے کر ہندوستان اور مراکش تک یورپی استعمار نے بہت کوششیں کیں کہ علمائے کرام کو ہمنوا بنالیا جائے، مگر وہ ناکام رہا۔ مولانا عبدالرزاق فرنگی محل انگریزی غاصبوں کے اتنے شدید دشمن تھے کہ ان کی شکل دیکھنا گوارا نہ کرتے۔

دور جدید کے مدارس میں آج بھی نہایت تکریم و احترام پہ مبنی استاد و شاگرد کا مقدس رشتہ موجود ہے۔ تاہم مغربی طرز کے تعلیمی اداروں میں استاد کو وہ عزت و احترام حاصل نہیں جو روایتاً علمائے کرام کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ شاید وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں حصول تعلیم کا ناتا زر سے بھی جڑ چکا اور سیکھنے سکھانے کے عمل نے کاروبار کی حیثیت اختیار کرلی۔

پروفیسر احمد الدین مارہروی مرحوم کراچی کے مشہور استاد گزرے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں اردو تعلیم کی اشاعت میں ان کا بہت بڑا حصّہ ہے۔راقم کو ان کی خدمت میں حاضری دینے کا شرف حاصل ہے۔ وہ اکثر فرماتے تھے: ''استاد ایسا کمپاس ہے جو طالب علم میں تجسّس، علم اور دانش کے مقناطیس متحرک کردیتا ہے۔''
Load Next Story