اب لاگ آن ہونے کے لیے پاس ورڈ کی ضرورت نہیں
آنکھوں کے اشاروں سے لاگ اِن ہونے والے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ فی الحال دست یاب نہیں۔
کمپیوٹر ہو یا کوئی ویب سائٹ، لاگ اِن ہونے کے لیے آپ کو پاس ورڈ ٹائپ کرنا پڑتا ہے۔
کچھ کمپیوٹرز میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ آپ اپنی انگلی کے نشانات سے لاگ اِن ہوسکتے ہیں، جب کہ کچھ کمپیوٹرز میں خاص یو ایس بی لگانے سے لاگ اِن کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آنکھوں کے اشاروں سے لاگ اِن ہونے والے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ فی الحال دست یاب نہیں۔ بعض اہم عمارتوں میں رسائی کے لیے پاس ورڈ، فنگر پرنٹس کے ساتھ ساتھ آنکھ کی پتلی بھی اسکین کی جاتی ہے۔
جلد ہی کمپیوٹر یا کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن کرنے کے لیے آپ کو کی بورڈ کو چھونے کی ضرورت نہیں رہے گی اور صرف آنکھ کے اشارے ہی کافی ہوں گے۔ یہ ممکن ہوسکے گا EyeLock نامی ایک کمپنی کی ایک اچھوتی ڈیوائس سے، جسے مائرس (Myris) کا نام دیا گیا ہے۔ مائرس ہتھیلی میں سما جانے والی ایک گول سی ڈیوائس ہے جسے یو ایس بی کیبل کے ذریعے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ سے جوڑا جاسکتا ہے۔
اس کے بالکل درمیان میں ایک آئینہ ہے اور اس کے ساتھ ایک کیمرا۔ مائرس کا استعمال بھی بہت آسان ہے۔ جب اسے پہلی بار کمپیوٹر سے جوڑا جاتا ہے تو اس کے لیے بنائے گئے سافٹ ویئر کی انسٹالیشن شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سافٹ ویئر انٹرنیٹ ایکسپلورر، فائر فاکس، گوگل کروم اور سفاری براؤزر کے لیے پلگ اِن بھی انسٹال کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں صارف کی آنکھوں کی ''رجسٹریشن'' بھی کی جاتی ہے۔ اگر صارف چشمہ پہنتا ہے تو اسے رجسٹریشن کے دوران اسے اْتارنا ہوگا۔ تاہم بعد میں وہ شناخت کا عمل چشمہ پہنے بھی کرسکتا ہے۔
رجسٹریشن کے بعد اگلی بار جب صارف کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن کرتا ہے تو مائرس کا سافٹ ویئر خود چل پڑتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آیا دیے گئے یوزر نیم پاس ورڈ کو مائرس کے پاس محفوظ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ مائرس کے پاس جب یہ معلومات محفوظ ہوجاتی ہیں تو ویب سائٹ پر دوبارہ لاگ اِن کرنے کے لئے صرف مائرس کو چہرے کے قریب لاکر دیکھنا ہی کافی ہوگا۔
ایک مائرس ڈیوائس پانچ مختلف لوگوں کی شناخت یعنی آنکھوں کی پتلیوں کی تفصیل محفوظ کرسکتی ہے اور آئی لاک کے مطابق یہ تفصیل رمز شدہ یعنی اِن کرپٹڈ ہوتی ہے۔
آئی لاک نے مائرس کی جو تفصیلات بتائی ہیں، ان کے مطابق اس ڈیوائس میں نصب LED کے ذریعے انفرا ریڈ (زیریں سرخ ) شعاعیں صارف کے چہرے پر پھینکی جائیں گی۔
یہ وہی شعاعیں ہیں جو ٹی وی وغیرہ کے ریموٹ کنٹرول سے خارج ہوتی ہیں۔ انسانی آنکھ چوںکہ انفرا ریڈ شعاعیں نہیں دیکھ سکتی، اس لیے مائرس سے نکلنے والے شعاعوں کا اثر آنکھوں پر نہیں پڑے گا۔ مائرس میں نصب انفراریڈ شعاعوں کے لیے حساس کیمرا صارف کے چہرے سے منعکس ہونے والی انفرا ریڈ شعاعوں سے آنکھوں کی پتلی کی ساخت بھانپتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مائرس زندہ انسان کی آنکھ اور آنکھ کی تصویر میں بخوبی فرق کرسکتی ہے۔
ابتدائی طور پر اس ڈیوائس کی قیمت 280 امریکی ڈالر تک ہوگی اور اسے اگلے چند ماہ میں ریلیز کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ڈیوائس سے مقبولیت کی امید لگانا درست نہیں۔ صارفین کے لیے یہ کافی پریشانی کی بات ہوگی کہ وہ ہر بار ڈیوائس کو اٹھاکر چہرے کے سامنے لے جائیں اور پھر چند سیکنڈ اس میں گھورتے رہیں، بل کہ یہ ٹیکنالوجی صرف اسی وقت مقبول ہوسکتی ہے جب اسے صارفین کے زیر استعمال ڈیوائسز میں پہلے سے شامل کردیا جائے۔
یعنی ایسے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا اسمارٹ فون بنائے جائیں جن میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو اور کسی دوسری ڈیوائس کی الگ سے ضرورت پیش نہ آئے۔ آئی لاک کے کرتا دھرتا اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اسی لیے انہوں نے تائیوان سے تعلق رکھنے والی ایک معروف کمپنی Wistron NeWeb کارپوریشن سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت مستقبل میں ریلیز کیے جانے والے کچھ لیپ ٹاپ اس ٹیکنالوجی سے مزین ہوں گے۔ WNC ایچ پی، Acer سمیت کئی معروف کمپنیوں کے لیے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ تیار کرتی ہے۔
کچھ کمپیوٹرز میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ آپ اپنی انگلی کے نشانات سے لاگ اِن ہوسکتے ہیں، جب کہ کچھ کمپیوٹرز میں خاص یو ایس بی لگانے سے لاگ اِن کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آنکھوں کے اشاروں سے لاگ اِن ہونے والے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ فی الحال دست یاب نہیں۔ بعض اہم عمارتوں میں رسائی کے لیے پاس ورڈ، فنگر پرنٹس کے ساتھ ساتھ آنکھ کی پتلی بھی اسکین کی جاتی ہے۔
جلد ہی کمپیوٹر یا کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن کرنے کے لیے آپ کو کی بورڈ کو چھونے کی ضرورت نہیں رہے گی اور صرف آنکھ کے اشارے ہی کافی ہوں گے۔ یہ ممکن ہوسکے گا EyeLock نامی ایک کمپنی کی ایک اچھوتی ڈیوائس سے، جسے مائرس (Myris) کا نام دیا گیا ہے۔ مائرس ہتھیلی میں سما جانے والی ایک گول سی ڈیوائس ہے جسے یو ایس بی کیبل کے ذریعے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ سے جوڑا جاسکتا ہے۔
اس کے بالکل درمیان میں ایک آئینہ ہے اور اس کے ساتھ ایک کیمرا۔ مائرس کا استعمال بھی بہت آسان ہے۔ جب اسے پہلی بار کمپیوٹر سے جوڑا جاتا ہے تو اس کے لیے بنائے گئے سافٹ ویئر کی انسٹالیشن شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سافٹ ویئر انٹرنیٹ ایکسپلورر، فائر فاکس، گوگل کروم اور سفاری براؤزر کے لیے پلگ اِن بھی انسٹال کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں صارف کی آنکھوں کی ''رجسٹریشن'' بھی کی جاتی ہے۔ اگر صارف چشمہ پہنتا ہے تو اسے رجسٹریشن کے دوران اسے اْتارنا ہوگا۔ تاہم بعد میں وہ شناخت کا عمل چشمہ پہنے بھی کرسکتا ہے۔
رجسٹریشن کے بعد اگلی بار جب صارف کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن کرتا ہے تو مائرس کا سافٹ ویئر خود چل پڑتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آیا دیے گئے یوزر نیم پاس ورڈ کو مائرس کے پاس محفوظ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ مائرس کے پاس جب یہ معلومات محفوظ ہوجاتی ہیں تو ویب سائٹ پر دوبارہ لاگ اِن کرنے کے لئے صرف مائرس کو چہرے کے قریب لاکر دیکھنا ہی کافی ہوگا۔
ایک مائرس ڈیوائس پانچ مختلف لوگوں کی شناخت یعنی آنکھوں کی پتلیوں کی تفصیل محفوظ کرسکتی ہے اور آئی لاک کے مطابق یہ تفصیل رمز شدہ یعنی اِن کرپٹڈ ہوتی ہے۔
آئی لاک نے مائرس کی جو تفصیلات بتائی ہیں، ان کے مطابق اس ڈیوائس میں نصب LED کے ذریعے انفرا ریڈ (زیریں سرخ ) شعاعیں صارف کے چہرے پر پھینکی جائیں گی۔
یہ وہی شعاعیں ہیں جو ٹی وی وغیرہ کے ریموٹ کنٹرول سے خارج ہوتی ہیں۔ انسانی آنکھ چوںکہ انفرا ریڈ شعاعیں نہیں دیکھ سکتی، اس لیے مائرس سے نکلنے والے شعاعوں کا اثر آنکھوں پر نہیں پڑے گا۔ مائرس میں نصب انفراریڈ شعاعوں کے لیے حساس کیمرا صارف کے چہرے سے منعکس ہونے والی انفرا ریڈ شعاعوں سے آنکھوں کی پتلی کی ساخت بھانپتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مائرس زندہ انسان کی آنکھ اور آنکھ کی تصویر میں بخوبی فرق کرسکتی ہے۔
ابتدائی طور پر اس ڈیوائس کی قیمت 280 امریکی ڈالر تک ہوگی اور اسے اگلے چند ماہ میں ریلیز کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ڈیوائس سے مقبولیت کی امید لگانا درست نہیں۔ صارفین کے لیے یہ کافی پریشانی کی بات ہوگی کہ وہ ہر بار ڈیوائس کو اٹھاکر چہرے کے سامنے لے جائیں اور پھر چند سیکنڈ اس میں گھورتے رہیں، بل کہ یہ ٹیکنالوجی صرف اسی وقت مقبول ہوسکتی ہے جب اسے صارفین کے زیر استعمال ڈیوائسز میں پہلے سے شامل کردیا جائے۔
یعنی ایسے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا اسمارٹ فون بنائے جائیں جن میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو اور کسی دوسری ڈیوائس کی الگ سے ضرورت پیش نہ آئے۔ آئی لاک کے کرتا دھرتا اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اسی لیے انہوں نے تائیوان سے تعلق رکھنے والی ایک معروف کمپنی Wistron NeWeb کارپوریشن سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت مستقبل میں ریلیز کیے جانے والے کچھ لیپ ٹاپ اس ٹیکنالوجی سے مزین ہوں گے۔ WNC ایچ پی، Acer سمیت کئی معروف کمپنیوں کے لیے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ تیار کرتی ہے۔