صحت لفظی

شاید اس شخصیت سے مقصود کچھ ’’کام‘‘ ہوتے ہوں گے یہ کسی ناکام رہ جانے والے کا شکوہ نہیں بلکہ ادب کی ’’حالت زار‘‘ ہے

ایک ہوائی پیغام بگڑتا، بگڑتا میرے پاس پہنچا جس کا حال یوں تھا۔

عمر لگ جاتی ہے احساسوں کو الفاظ دینے میں
فقط دل ٹوٹنے سے کوئی شاعر نہیں بنتا

شعر کہنے کی عادت نے اسے دوبارہ شعر میں ڈھالنے پر اکسایا اور وہ صورت بنی جو آپ نے ابتدا کے شعر میں ملاحظہ فرمائی ہے۔ یہ حال ہے ہمارے شعر و ادب کا۔ اور یہ مزاج ہے اسے استعمال کرنے والوں کا۔ اب کوئی اس پر غور نہیں کرتا کہ میں کیا چیز لوگوں کو بھیج رہا ہوں اور کیا یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے۔

ایک زمانہ تھا کہ ''صحت لفظی'' کے لیے استاد مقرر تھے۔ بہت دور کی بات نہیں کوئی دو تین عشرے پہلے تک نشریاتی اداروں میں ''اسکرپٹ سیکشن'' اور ''مسودہ کی صحت'' کو چیک کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جن کا تعلق زبان و ادب سے ہوا کرتا تھا اور اس زمانے کے ''نالائقوں'' کو بھی ہم نے ''لغت'' میں سرکھپاتے دیکھا تھا۔

ریڈیو اور شاید ٹی وی میں بھی گانے کے لیے آنے والوں سے وہ کلام پہلے سنا جاتا تھا پڑھوا کر کہ وہ لفظوں کو سمجھ گئے ہیں اور گلوکاری کے دوران وہ اس لفظ کو استعمال کرکے اس کی ''لذت'' سے خود بھی آشنا ہوں گے اور سننے والوں کو بھی بہرہ ور کریں گے۔اب تو ''بے پر کی'' ہے۔

یہ بھی ایک اردو کے محاورے کا آدھا حصہ ہے پورا محاورہ ہے ''بے پر کی اڑانا'' یعنی ایسی بات کہنا جو حقیقتاً موجود نہ ہو، جیسے کہ بغیر ''پر'' کے کوئی پرندہ نہیں اڑسکتا۔یار لوگوں نے ''غبار'' میں اڑتے ''خس و خاشاک'' کو اب سب کچھ جان لیا ہے اور اسے سمجھ لیا ہے کہ ''اڑایا جاسکتا ہے بغیر پر کے'' یہ پتہ نہیں کہ ''غبار'' میں اڑنے والے ''خس و خاشاک'' کی کوئی منزل نہیں ہوتی جب کہ اڑنے والے کی ایک متعین منزل ہوتی ہے۔

اب آج کل زیادہ تر جو چھپ رہا ہے اور جو نشر ہو رہا ہے وہ اس محاورے کے مطابق ہے کہ ''کاتا اور لے دوڑے'' دوڑ بھاگ کے 50 یا ساٹھ غزلیں جمع کیں ''دیوان کیا'' اور اب ہوگئے شاعر یا شاعرہ۔ حالانکہ اس میدان میں مرتے مرگئے ''غالب و ذوق کی نہ بنی'' پر اب کیا مسئلہ ہے نہ تو غالب نہ ذوق۔ بس کوئی بھی ''حلقہ ذوق''۔یہ بات ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو واقعی شاعر ہیں اور جنھیں معاشرہ شاعر تسلیم کرتا ہے۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر طرف نئے نئے نام اور ''کام''۔

دوسرا مصرعہ ہی اس کا جواب ہے کہ ''کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک''۔ اب اگر لوگوں سے پوچھ لیا جائے کہ زلف تو ہوتی ہے سر سے ہی پیدا اس سے ملحق تو بھلا ''سر'' ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو بڑا حصہ ان ''نام نہاد شاعر و دانشوران'' کا اسے ''بال بڑھنے'' سے تعبیر کرے گا۔ کیونکہ ان کے پیش نظر ''زخم کے بڑھنے تک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا؟'' ہوگا اور وہ ''میتھالوجی'' کے بجائے ''بائیولوجی'' سے اس کا فیصلہ کر رہے ہوں گے۔ہے تو قابل افسوس یہ بات مگر تذکرہ ضروری ہے کہ بڑے بڑے جریدے اور اخبارات بھی کلام کسی خاص ''وجہ'' سے شایع کرتے ہیں۔


شاید اس شخصیت سے مقصود کچھ ''کام'' ہوتے ہوں گے یہ کسی ناکام رہ جانے والے کا شکوہ نہیں بلکہ ادب کی ''حالت زار'' ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لفظوں کے غلط استعمال کو درست لفظ اور ادائیگی جاننے کے باوجود صاحب علم ''ڈبلیو گیارہ'' کر دیتے ہیں یعنی ''جانے دو استاد ڈبل ہے'' یہاں ''ڈبل'' کچھ اور ہے W-11 کے کنڈکٹر کا ''بامعنی ذو معنی'' جملہ ہوتا ہے، تشریح کا تعلق علم الابدان سے ہے لہٰذا چھوڑ دیتے ہیں کہ آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔

لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ''ضرورت اس امرکی ہے '' اور مقررین بھی آخر میں یہی فرماتے ہیں کہ ''ان حقائق کی روشنی میں اس بات کی ضرورت ہے'' یہ بے چارگی ہے۔ ہر ایک اپنے جیسے کا نوحہ پڑھ کر چلا جاتا ہے یا لکھ دیتا ہے۔ تسلسل نہیں ہے کہ اس عمل کو ناپسند قرار دے کر روکا جائے ہمیشہ ''ضرورت'' باقی رہ جاتی ہے۔ کیا کمال کی بات ہے۔

ہم تو کہتے ہیں کہ بجائے کہنے کے ''کرنے'' پر زور دینا چاہیے۔ صدر اور وزیر اعظم پاکستان کے تو اپنی تقریریں خود نہیں لکھتے وہاں بھی کچھ "Speech Writer"مقرر ہیں۔ مشاہرہ بندھا ہوا ہے۔ ہمارے ادب کو ''مشاہرے'' پر انگریز نے ایسا ڈالا کہ بے چارہ اب تک حالانکہ صدی کے دوسرے نصف میں سفر کر رہے ہیں اب تک ''مشاہرے'' پر ہے۔

دراصل غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جن قوموں کا ''علم و ادب'' مر جائے اس قوم کا سب کچھ مر جاتا ہے۔ اس کے حال کی موت اس کے ماضی کو بھی ''دفن'' کردیتی ہے اور وہ صرف موئن جو دڑو میں محفوظ رہ جاتا ہے۔ جتنا بھی محفوظ رہ جائے یا ٹیکسلا کے میوزیم میں اور "Open Museum"میں ہڑپہ۔ لوگ آج اس قوم کو دیکھنے آتا ہیں۔

اس کا رہن سہن، اس کا طرزتعمیر اور اس کا طرز تعمیر۔''زبان بگڑی تو بگڑی تھی۔ خبر لیجے دہن بگڑا۔''کو اب کتنے لوگ سمجھتے ہیں۔ اور کیا تشریح کریں گے بس گفتگو میں ہے جب تک ہے۔ زبان و دہن کے تعلق کو سمجھے بغیر۔ یہ میں پھر عرض کردوں کہ جو حقیقتاً زبان کے رکھ رکھاؤ کا خیال رکھتے ہیں یہ گلہ ان سے نہیں ہے۔چمن میں اگر چند پودے خوبصورت ہوں تو ان سے چمن نہیں بنتا۔ چمن نام ہے ایک ایک کیاری میں ان گنت پھولوں کا۔ جن کی مہک سے ''مشام جاں'' ، ''بامشک'' ہوجائے۔

کوئی بھی زبان ہے کوئی بھی لوگ ہیں، سب کا یہی درد ہے اور ''درد مشترک'' ہے۔ زبانیں پیار کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ انسانی گفتگو کا چمن ہیں۔ انھیں بادسموم سے بچائیں ہر زبان کو پیار کا لہجہ دیں، عزت دیں، ہر زبان انسان کی ہے اور انسان سب ایک ہیں۔ انسانوں کو نفرت کے خاتمے اور پیار و محبت کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف زبانیں کرسکتی ہیں اگر ان کی ''روح'' کو ''مجروح'' نہ کیا جائے۔ غور کیجیے گا اور عمل بھی۔ ایک دوست ضرور بنائیے گا۔ دو زبانیں ترقی کریں گی۔

کیونکہ گفتگو اگر بامقصد اور صاف ستھرے ذہن کے ساتھ ہو تو دوستی کا پیغام ہے اور اگر برعکس تو جھگڑے بھی زبان ہی سے پیدا ہوتے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چند لوگوں کا کردار اس قوم کا کردار نہیں ہوتا۔ کوئی قوم مکمل طور پر ایک ایسی قوم نہیں جو نقائص سے پاک ہو مگر علم و ادب کے سُوتے جس قوم کے جاری ہوں چاہے اس قوم کے لوگ کتنی ہی زبانیں بولتے ہوں بحیثیت مجموعی وہ قوم مر نہیں سکتی اور اس کا زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا عمل Dialogue میں ہے۔

ہر جگہ ایک سے زیادہ قومیں ہیں، نسلیں ہیں مگر ان کا باہمی ارتباط ایک سمت کا تعین کرتا ہے۔ ہم صرف اردو پر گفتگو یوں کرتے رہے کہ یہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی رابطے کی زبان ہے، ہر زبان سے کچھ لفظ اس میں آجاتے ہیں جس طرح ہر دریا، چشمہ سمندر میں جاتا ہے تو سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ سمندر کس کا ہے، جس کا دریا ہے، جس کا چشمہ ہے۔

یوں اس زبان پر بھی کسی کی اجارہ داری نہیں ہے یہ سب کی ہے۔ سب کے لیے ہے۔ اور اس کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے سوتے یعنی دوسری زبانوں کو بھی زندہ رکھنا اور بڑھانا ہوگا۔ بات سوچنے کی ہے۔ سمجھنے کی ہے۔ ہم بھلا سوچنے سمجھنے میں کیا کم ہیں جو مایوس ہوجائیں یا بہک جائیں۔ شاید نہیں! وقت بہت ضایع ہوگیا اب مزید وقت ضایع کرنے کی گنجائش نہیں ہے، تین چوتھائی صدی بہت ہوتی ہے ضایع کرنے کو۔
Load Next Story