تجھ کو پرائی کیا پڑی

مغربی ممالک کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت بیرونی عوامل کے ذریعے مسلط نہیں کی جا سکتی۔

muqtidakhan@hotmail.com

WASHINGTON:
دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ تیز رفتار اور کثیرالجہتی تبدیلی کا وہ عمل جو دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا تھا، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے۔ تبدیلی کے ان مظاہر کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو بہت سے ناقابل تردید حقائق سامنے آتے ہیں، جو آج کی دنیا کے طرز عمل کا تعین کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ سیاسی و سماجی تشکیلات پیداواری ذرایع میں جنم لینے والی تبدیلیوں سے مشروط ہوتی ہیں۔ لہٰذا سیاسی اور سماجی رجحانات کا مطالعہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی اور اس کے سماج پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ نہ لیا جائے۔

اگر صرف بیس برسوں میں ہونے والی سائنسی ترقی اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائی جائے، تو کون سا ایسا شعبہ ہے جو تیزی کے ساتھ آگے نہ بڑھا ہو۔ مواصلاتی رابطہ سے طب و جراحی تک سائنس و ٹیکنالوجی کے ہر شعبہ میں ایسی فقیدالمثال ترقی ہوئی ہے، جس کا چند دہائی قبل تک کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ اگر مواصلاتی شعبہ کا ذکر کریں تو انٹرنیٹ، موبائل، ٹیلی فون اور سیٹلائٹ ٹیلی ویژن آج ہر گھرکی زینت بن چکے ہیں۔ دنیا بھر کی اطلاعات و معلومات تک رسائی ہو یا سات سمندر پار احباب و اعزا کے ساتھ رابطہ، اب چند سیکنڈوں کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ان سہولیات کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کوزے میں بند ہو گئی ہے۔

اسی طرح حیاتیات، طب اور جراحی کے شعبے میں اس درجہ ترقی ہوچکی ہے کہ زوداثر ادویات کی ایجاد اور پیچیدہ آلات جراحی کی تخلیق کے بعد انسان کے لیے مختلف خطرناک امراض سے نبرد آزما ہونا آسان ہو گیا ہے۔ جنیات (Genetics) کی ترقی کے سبب انسان کو ان بیماریوں کے بارے میں آگہی کو سہل بنا دیا ہے، جو اس کے وجود میں پل رہی ہیں اور آنے والے کسی دور میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یوں امراض پر قابو پانا اور نسل انسانی کے لیے اپنی عمر میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق و تجربہ کی وجہ سے انسان کی کلوننگ بھی ممکن ہو گئی ہے۔ غرض سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی وجہ سے انسانی جانکاری اور سہولیات میں اضافہ نہ ہوا ہو۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی اور نت نئی ایجادات کے اثرات سماجی، سیاسی اور فکری رویوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کے طرز فکر اور طرز حیات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ صدیوں سے جاری نظریات و افکار غیر متعلق (Irrelevant) ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی دنیا میں نئے تضادات اور رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں۔ خاص طور پر دو متضاد رویے خصوصی مطالعہ کے متقاضی ہیں۔ ایک طرف وہ باشعور افراد ہیں، جو فکری کثرتیت اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کے ذریعے مسائل کے حل کو انسانی معاشروں کی ترقی کی کلید سمجھتے ہیں۔

یہ مکتبہ فکر دنیا میں اختلاف رائے کو کم کرنے اور اتفاق رائے کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے، تا کہ اس کرہ ارض کو درپیش مسائل کے حل کی جانب بڑھا جا سکے۔ خاص طور پر ماحولیاتی آلودگی کا کم کیا جانا، آبادی پر کنٹرول کے ذریعے غذائی اور دیگر انسانی مسائل پر قابو پانا۔ جوہری اسلحہ کے پھیلاؤ کا روکا جانا اور روایتی اسلحہ میں تخفیف کی حکمت عملی کا طے کیا جانا۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی۔

جب کہ دوسری طرف وہ سوچ ہے، جو فکری نرگسیت کو پروان چڑھانے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ مکتبہ فکر کہیں عقیدے اور کہیں نسلی و لسانی تفاخر کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کا باعث ہے۔ یہ رجحانات ان معاشروں میں زیادہ تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں، جو کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ہیں اور علم کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ معاشرے جہاں جمہوری ادارے عدم استحکام کا شکار ہیں اور سول سوسائٹی کا کمزور ہونے کے باعث Assert کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے، وہاں بھی فکری ہیجان میں شدت آ رہی ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ اس رجحان کی نمایاں مثال ہے۔


اگر مشرق وسطیٰ میں جاری ہیجانی کیفیت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا اور یورپ کے استعماری ڈیزائن اپنی جگہ، لیکن خود ان ممالک میں جمہوری قوتیں اس قدر کمزور اور ناتواں ہیں کہ وہ عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ جس کی وجہ سے ان ممالک میں یا تو پشتینی بادشاہتیں قائم ہیں یا شخصی آمریتیں۔ جمہوری قوتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ انھیں ہٹا یا Replace کر سکیں۔ جمہوری قوتوں کے کمزور ہونے کے باعث مذہبی شدت پسند عناصر متبادل قوت کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مشرق وسطیٰ میں متوقع کوئی بھی تبدیلی عوامی خواہشات اور مفادات کی آئینہ دار نظر نہیں آ رہی۔

اس تناظر میں یمن کے بحران اور 6 بڑی جوہری قوتوں اور ایران کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر معاہدے کے لیے متفق ہونے کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو دو واضح رجحانات نظر آتے ہیں۔ ایک طرف امریکا اور ایران کے درمیان 36 برس سے جاری سرد مہری اور خراب تعلقات کی برف پگھلتی نظر آ رہی ہے۔ جس کے خطے کی سیاست پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ جب کہ دوسری طرف یمن کے بحران کے نتیجے میں خلیجی ممالک کے درمیان معاملات میں مزید ابتری نظر آرہی ہے۔ لیکن موجودہ پریشان کن صورتحال میں ایک نمایاں اور خوش کن تبدیلی یہ آئی ہے کہ عراقی فوجوں نے تکریت شہر پر دوبارہ اپنی بالادستی قائم کر لی ہے اور قابض داعش باغیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر امریکا کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ یہ وقت خلیجی ممالک میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ اور مداخلت کا نہیں ہے تو معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ مغربی ممالک کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت بیرونی عوامل کے ذریعے مسلط نہیں کی جا سکتی۔ یہ کسی معاشرے میں اس وقت جنم لیتی ہے، جب معاشرہ سیاسی کلچر میں تبدیلی پر ذہنی طور پر آمادہ ہو جائے۔ یورپ کو خود اپنے تجربات کا بھی مشاہدہ کرنا چاہیے کہ اسے اس منزل تک پہنچنے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہر معاشرے کی اپنی تبدیلی کی حرکیات (Dynamics of Change) ہوتی ہے، جو پیداواری ذرایع میں تبدیلی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت کے لیے بیتابی نے اگر ایک طرف مصر میں اخوان کو انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا تو دوسری طرف شام میں بشارالاسد مخالف قوتوں کی سرپرستی کے نتیجے میں داعش جیسی تنظیموں کے پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہوئی۔ اب یمن کی صورتحال ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بنتی نظر آ رہی ہے۔

اس پوری فکری بحث کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وطن عزیز دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق فیصلہ سازی کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ پاکستان میں ماضی کی غلطیوںسے سبق سیکھنے کا بھی کوئی تصور نہیں ہے، جس کی وجہ سے 68 برسوں کے دوران ان گنت سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تزویراتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں 1948ء میں کشمیر میں مجاہدین بھیجنے اور سری نگر سے ان کی پسپائی کا منظر بھی یاد رکھنا چاہیے، جس کی وجہ سے کشمیر تقسیم ہوا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1980ء کے عشرے میں جنرل ضیا الحق نے جس طرح افغان قضیہ میں ٹانگ اڑائی، اس کے نتیجے میں پورا ملک بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔ مگر ہمارے حکمران اور منصوبہ ساز سب کچھ فراموش کر کے ایک بار پھر پرائی آگ میں کودنے جا رہے ہیں، جو ہمیں نئے بحرانوں کا شکار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ مگر اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔

اس لیے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ خدارا محض چند سکوں کے عوض دنیا بھر میں ہونے والے پھٹوں میں ٹانگ اڑانے کے بجائے تبدیل ہوتی دنیا کے رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یمن ہو یا شام یا کوئی اور ملک، ان کے معاملات میں الجھنے سے گریز کیا جائے اور اپنی توجہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کی طرف مرکوز کی جائے۔ جہاں توانائی کے بحران، امن و امان کی مخدوش صورتحال، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی تعلیم اور صحت کے معاملات بھی انتہائی مخدوش ہو چکے ہیں، جو ترجیحی بنیادوں پر توجہ کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے اپنے مسائل پر توجہ دیں اور بقول شاعر: ''تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو'' کے کلیے پر عمل کریں۔
Load Next Story