ناموں کی تختیاں بستیاں سڑکیں
جب کسی بڑے منصوبے یا بڑے پراجیکٹ کا کوئی حکمران افتتاح کرتا ہے تو وہاں اس کے نام کی ایک تختی لگائی جاتی ہے
جب کسی بڑے منصوبے یا بڑے پراجیکٹ کا کوئی حکمران افتتاح کرتا ہے تو وہاں اس کے نام کی ایک تختی لگائی جاتی ہے جس میں افتتاح کی تاریخ وغیرہ کے ساتھ ''بدست مبارک'' بھی لکھا جاتا ہے۔ چونکہ ہماری وڈیرہ شاہی سیاست میں کوئی اصول، ضابطے کا کوئی دخل نہیں ہے، لہٰذا ہر کام یہ سوچے سمجھے بغیر کیا جاتا ہے کہ آیا یہ کام درست بھی ہے یا نہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تختیوں کا رواج ہے نہ تختیوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کے برخلاف پسماندہ ملکوں میں اس قسم کے بے جا نام و نمود کا رواج ایک لازمی ضرورت کی طرح موجود ہے، جس کا مقصد اپنے نام کے کتبوں کو دوام بخشنا ہوتا ہے۔
تاریخ میں بہت سارے حکمران ایسے گزرے ہیں جن کو آج تک احترام کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے مثلاً مصطفیٰ کمال پاشا، انھیں جدید ترکی کے بانی کی حیثیت سے صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ مسلم ملکوں میں بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ ہوچی منہ اور چی گویرا کو دنیا بھر کے عوام نہیں بھولے اس لیے کہ انھوں نے ایک بڑی سامراجی طاقت کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، مارکس کو دنیا کے کروڑوں انسان محترم سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس نے دنیا کے بدترین استحصالی نظام کے خلاف ایک منصفانہ اور استحصال سے پاک نظام پیش کیا۔
ماؤ کو بھی تاریخی لانگ مارچ اور چین کی جنگ آزادی کی قیادت کے حوالے سے آج بھی احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے مغل دور میں اکبر کو اس لیے یاد رکھا جاتا ہے کہ ایک ناخواندہ حکمران ہونے کے باوجود خواندہ حکمرانوں کے مقابلے میں اس کا ویژن بڑا آفاقی تھا۔ حال کی تاریخ میں نیلسن منڈیلا وہ رہنما ہے جسے ساری دنیا احترام کے ساتھ یاد رکھتی ہے کیونکہ اس نے نہ صرف اپنی قوم کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی بلکہ 27 سال جیل بھی کاٹی۔ ان رہنماؤں کو تختیوں کی وجہ سے یاد نہیں رکھا گیا بلکہ انھیں انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور اپنی قوم کے لیے آزادی کی جنگیں لڑنے کی وجہ سے یاد رکھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل کہ میں اس تختیوں کے وی آئی پی رواج کے حوالے سے کچھ باتیں کروں اپنے ایک قریبی اور مخلص دوست کرامت شیر کی دلچسپ کاوشوں کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ کرامت شیر متحدہ ہندوستان کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو زمینداری کا شوق بھی ساتھ لائے لیکن وہ روایتی زمیندار نہیں تھے بلکہ انھیں شوقیہ زمیندار کہا جا سکتا ہے۔
کراچی میں گڈاپ میں انھوں نے کوئی 17 ایکڑ زمین خریدی اور اس میں ایک خوبصورت فارم ہاؤس بنایا۔ فارم ہاؤس میں آم، چیکو، کیلے، ناریل، کھجور وغیرہ کے پیڑ لگائے اور دو سوئمنگ پول بھی بنائے لیکن یہ ان کا کمرشل فارم ہاؤس نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دوستوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دانشوروں وغیرہ کو اپنے فارم ہاؤس آنے کی دعوت دیتے، اسکول کے بچوں کو بھی مفت فارم ہاؤس کی تفریح کے مواقعے فراہم کرتے، پاکستان ہی کے نہیں بلکہ ہندوستان کے بھی ادیب، شاعر، فنکار، دانشور ان کے فارم ہاؤس آتے رہے ہیں۔
کرامت شیر کا شوق یہ تھا کہ وہ ہر مہمان کے نام کی ایک تختی مہمان کے بارے میں مختصر تعارف کے ساتھ ناریل کے پیڑ پر لگا دیتے تھے، ناریل اور کھجور کے درخت ان تختیوں سے بھرے تھے، یہ کسی حکمران کے نام کی تختی تھی نہ کسی منصوبے کے افتتاح کی تختی تھی بلکہ یہ ان عظیم لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تختی تھی جو کرامت باغ کی سیر کے لیے آتے تھے، یہ معاشرے کے ان قدآور لوگوں کے نام کی تختی تھی جو ایک آفاقی ویژن رکھتے تھے اور اپنے قلم، من اور بصارت و بصیرت کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں میں محبت، بھائی چارہ اور ظلم و استحصال کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے کا بڑا کام انجام دیتے تھے۔
میں نے یہاں کرامت شیر کی طرف سے کرامت باغ کے درختوں پر نام کی تختیاں لگانے کا ذکر اس لیے کیا کہ مختلف تختیوں میں امتیاز اور فرق آپ کی سمجھ میں آ سکے۔ ہمارے ملک میں 80 فیصد افتتاحی تختیاں ایسے حکمرانوں یا ان کی اولاد کی ہیں جن کی اس کے علاوہ کوئی قومی خدمات نہیں ہیں کہ وہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹتے رہے، جب کہ ہمارے ملک میں عوام کے حقوق کے لیے لڑنے اس سڑے گلے استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن کسی جگہ نہ ان کے نام کی کوئی تختی ہے نہ ان کے نام کی کوئی بستی ہے، نہ کوئی شاہراہ، نہ روڈ، نہ گلی۔ ان میں وہ عظیم انسان بھی ہیں جنھوں نے نیلسن منڈیلا کی طرح عوام کے حقوق کی جنگ میں اپنی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ جیلوں میں گزار دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے عظیم انسان گمنام زندہ رہے اور گمنامی کی موت مر گئے، جن لوگوں کے لیے ان لوگوں نے اپنی زندگیاں لگا دیں عوام ان کے نام تک سے واقف نہیں، ان ہی میں سے ایک نام حسن ناصر کا ہے۔ حیدرآباد دکن کے ایک جاگیردار خاندان کا بیٹا ساری دولت اور جاگیر کو لات مار کر کراچی میں مزدوروں کے ساتھ ان کی جھگیوں میں رہتا تھا اور ان ہی کے لیے جان دے دی لیکن آج کے مزدور کی نئی نسلیں حسن ناصر کے نام سے واقف ہیں نہ ان کی جدوجہد سے نہ ان کی قربانیوں سے۔
1947ء سے اس ملک کے بدترین نظام کو بدلنے کی جدوجہد ہو رہی ہے، اس جدوجہد میں ہزاروں لوگوں نے گھر بار، بال بچوں کو بھلا دیا، ان کے مستقبل سے بے اعتناعی کی، آج بھی ان کی اولاد انتہائی مشکل زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے انقلابی باپ، بھائیوں سے سوال کر رہی ہیں کہ آپ کی ناقابل یقین جدوجہد کا ثمر اور ہمارا حشر کیا ہے، یہی سوال مجھ سے میرے بچے بھی کرتے ہیں۔
میں نے اپنے پچھلے ایک کالم میں راؤ سلیمان کی سرگزشت ''میرا جنون'' کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ سرگزشت بائیں بازو کے کارکنوں اور رہنماؤں کی جدوجہد کی مختصر تاریخ بھی ہے، اس کتاب میں راؤ سلیمان نے مختلف فوجی اور سول آمروں کے دور میں لمبی لمبی سزائیں کاٹنے والوں کی ایک مختصر فہرست بھی دی ہے جس کے مطابق 25-25، 50-50 سال کی ان کارکنوں کو سزائیں دی گئیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہے جس کی کالم میں گنجائش نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نام کی کوئی تختی ہے، ان کے نام کی کوئی بستی ہے، ان کے نام کی کوئی شاہراہ، کوئی سڑک، کوئی گلی ہے؟
یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کا تعلق پنجاب سے ہے جب کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لمبی لمبی سزائیں کاٹنے، بڑی بڑی قربانیاں دینے والوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ 50 کالموں میں بھی نہیں سما سکتی۔ کیا یہ کارکن یہ رہنما چوری، ڈاکے، بھتے، اغوا کے مجرم تھے یا قاتل تھے؟ آج جو ڈاکو اور لٹیروں کے نام کی ہم تختیاں دیکھتے ہیں ان کے ناموں کی ہم بستیاں، شاہراہیں، سڑکیں اور گلیاں دیکھتے ہیں، کیا وہ اس اعزاز کے مستحق ہیں؟
تاریخ میں بہت سارے حکمران ایسے گزرے ہیں جن کو آج تک احترام کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے مثلاً مصطفیٰ کمال پاشا، انھیں جدید ترکی کے بانی کی حیثیت سے صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ مسلم ملکوں میں بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ ہوچی منہ اور چی گویرا کو دنیا بھر کے عوام نہیں بھولے اس لیے کہ انھوں نے ایک بڑی سامراجی طاقت کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، مارکس کو دنیا کے کروڑوں انسان محترم سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس نے دنیا کے بدترین استحصالی نظام کے خلاف ایک منصفانہ اور استحصال سے پاک نظام پیش کیا۔
ماؤ کو بھی تاریخی لانگ مارچ اور چین کی جنگ آزادی کی قیادت کے حوالے سے آج بھی احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے مغل دور میں اکبر کو اس لیے یاد رکھا جاتا ہے کہ ایک ناخواندہ حکمران ہونے کے باوجود خواندہ حکمرانوں کے مقابلے میں اس کا ویژن بڑا آفاقی تھا۔ حال کی تاریخ میں نیلسن منڈیلا وہ رہنما ہے جسے ساری دنیا احترام کے ساتھ یاد رکھتی ہے کیونکہ اس نے نہ صرف اپنی قوم کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی بلکہ 27 سال جیل بھی کاٹی۔ ان رہنماؤں کو تختیوں کی وجہ سے یاد نہیں رکھا گیا بلکہ انھیں انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور اپنی قوم کے لیے آزادی کی جنگیں لڑنے کی وجہ سے یاد رکھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل کہ میں اس تختیوں کے وی آئی پی رواج کے حوالے سے کچھ باتیں کروں اپنے ایک قریبی اور مخلص دوست کرامت شیر کی دلچسپ کاوشوں کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ کرامت شیر متحدہ ہندوستان کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو زمینداری کا شوق بھی ساتھ لائے لیکن وہ روایتی زمیندار نہیں تھے بلکہ انھیں شوقیہ زمیندار کہا جا سکتا ہے۔
کراچی میں گڈاپ میں انھوں نے کوئی 17 ایکڑ زمین خریدی اور اس میں ایک خوبصورت فارم ہاؤس بنایا۔ فارم ہاؤس میں آم، چیکو، کیلے، ناریل، کھجور وغیرہ کے پیڑ لگائے اور دو سوئمنگ پول بھی بنائے لیکن یہ ان کا کمرشل فارم ہاؤس نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دوستوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دانشوروں وغیرہ کو اپنے فارم ہاؤس آنے کی دعوت دیتے، اسکول کے بچوں کو بھی مفت فارم ہاؤس کی تفریح کے مواقعے فراہم کرتے، پاکستان ہی کے نہیں بلکہ ہندوستان کے بھی ادیب، شاعر، فنکار، دانشور ان کے فارم ہاؤس آتے رہے ہیں۔
کرامت شیر کا شوق یہ تھا کہ وہ ہر مہمان کے نام کی ایک تختی مہمان کے بارے میں مختصر تعارف کے ساتھ ناریل کے پیڑ پر لگا دیتے تھے، ناریل اور کھجور کے درخت ان تختیوں سے بھرے تھے، یہ کسی حکمران کے نام کی تختی تھی نہ کسی منصوبے کے افتتاح کی تختی تھی بلکہ یہ ان عظیم لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تختی تھی جو کرامت باغ کی سیر کے لیے آتے تھے، یہ معاشرے کے ان قدآور لوگوں کے نام کی تختی تھی جو ایک آفاقی ویژن رکھتے تھے اور اپنے قلم، من اور بصارت و بصیرت کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں میں محبت، بھائی چارہ اور ظلم و استحصال کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے کا بڑا کام انجام دیتے تھے۔
میں نے یہاں کرامت شیر کی طرف سے کرامت باغ کے درختوں پر نام کی تختیاں لگانے کا ذکر اس لیے کیا کہ مختلف تختیوں میں امتیاز اور فرق آپ کی سمجھ میں آ سکے۔ ہمارے ملک میں 80 فیصد افتتاحی تختیاں ایسے حکمرانوں یا ان کی اولاد کی ہیں جن کی اس کے علاوہ کوئی قومی خدمات نہیں ہیں کہ وہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹتے رہے، جب کہ ہمارے ملک میں عوام کے حقوق کے لیے لڑنے اس سڑے گلے استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن کسی جگہ نہ ان کے نام کی کوئی تختی ہے نہ ان کے نام کی کوئی بستی ہے، نہ کوئی شاہراہ، نہ روڈ، نہ گلی۔ ان میں وہ عظیم انسان بھی ہیں جنھوں نے نیلسن منڈیلا کی طرح عوام کے حقوق کی جنگ میں اپنی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ جیلوں میں گزار دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے عظیم انسان گمنام زندہ رہے اور گمنامی کی موت مر گئے، جن لوگوں کے لیے ان لوگوں نے اپنی زندگیاں لگا دیں عوام ان کے نام تک سے واقف نہیں، ان ہی میں سے ایک نام حسن ناصر کا ہے۔ حیدرآباد دکن کے ایک جاگیردار خاندان کا بیٹا ساری دولت اور جاگیر کو لات مار کر کراچی میں مزدوروں کے ساتھ ان کی جھگیوں میں رہتا تھا اور ان ہی کے لیے جان دے دی لیکن آج کے مزدور کی نئی نسلیں حسن ناصر کے نام سے واقف ہیں نہ ان کی جدوجہد سے نہ ان کی قربانیوں سے۔
1947ء سے اس ملک کے بدترین نظام کو بدلنے کی جدوجہد ہو رہی ہے، اس جدوجہد میں ہزاروں لوگوں نے گھر بار، بال بچوں کو بھلا دیا، ان کے مستقبل سے بے اعتناعی کی، آج بھی ان کی اولاد انتہائی مشکل زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے انقلابی باپ، بھائیوں سے سوال کر رہی ہیں کہ آپ کی ناقابل یقین جدوجہد کا ثمر اور ہمارا حشر کیا ہے، یہی سوال مجھ سے میرے بچے بھی کرتے ہیں۔
میں نے اپنے پچھلے ایک کالم میں راؤ سلیمان کی سرگزشت ''میرا جنون'' کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ سرگزشت بائیں بازو کے کارکنوں اور رہنماؤں کی جدوجہد کی مختصر تاریخ بھی ہے، اس کتاب میں راؤ سلیمان نے مختلف فوجی اور سول آمروں کے دور میں لمبی لمبی سزائیں کاٹنے والوں کی ایک مختصر فہرست بھی دی ہے جس کے مطابق 25-25، 50-50 سال کی ان کارکنوں کو سزائیں دی گئیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہے جس کی کالم میں گنجائش نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نام کی کوئی تختی ہے، ان کے نام کی کوئی بستی ہے، ان کے نام کی کوئی شاہراہ، کوئی سڑک، کوئی گلی ہے؟
یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کا تعلق پنجاب سے ہے جب کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لمبی لمبی سزائیں کاٹنے، بڑی بڑی قربانیاں دینے والوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ 50 کالموں میں بھی نہیں سما سکتی۔ کیا یہ کارکن یہ رہنما چوری، ڈاکے، بھتے، اغوا کے مجرم تھے یا قاتل تھے؟ آج جو ڈاکو اور لٹیروں کے نام کی ہم تختیاں دیکھتے ہیں ان کے ناموں کی ہم بستیاں، شاہراہیں، سڑکیں اور گلیاں دیکھتے ہیں، کیا وہ اس اعزاز کے مستحق ہیں؟